خود نمائی اور کرپشن کا ناسور
Self-represent and destruction of corruption
تمثيل الذات وتدمير الفساد
خود نمائی ایک نفسیاتی و روحانی بیماری ہے یہ افراد کو ریا کاری کی طرف بھی
لے جاتی ہے۔ریا کاری گناہ ہے بلکہ یہ ایک ایسا عمل ہے جو تمام اعمال کو
ضائع کرنے کا باعث بن جاتا ہے۔ خود نمائی اور ریا کاری میں بہت معمولی فرق
ہے۔خود نمائی اپنی کسی خوبی،صلاحیت،دولت، عہدہ، اختیار، عمل و فعل اور مقام
و مرتبت کو نمایاں کرنے کے لیے بڑھا چڑھا کر بیان کرنے کو کہتے ہیں۔تاکہ
دوسرے اس کی تعریف کریں اسے منفرد ،ممتاز، معزز اور اعلی خیال کیا جائے
یااس کے ساتھ ہمدردی کی جائے۔ جبکہ ریا کاری یہ ہے کہ نیک اعمال اس نیت سے
یا یہ سوچ کر کرنا کہ دیکھنے والے سننے والے اسے نیک خیال کریں یعنی نیک
افعال دکھاوے کے لیے کرنے کو ریاکاری کہتے ہیں۔خود نمائی او ر ریاکاری
مذہبی و سماجی طور پر درست طرز عمل نہیں ہے۔خود نمائی اور ریا کاری کا مرض
اب حکمرانوں اور عوام و خواص کو یکساں لاحق ہے۔ خود نمائی سے ہمارے سیاسی و
مذہبی اور نہ ہی سماجی رہنما محفوظ ہیں۔
جس شخص میں خود نمائی یا ریا کاری کا خناس نہ ہو وہ اعلی ظرف ہوتا ہے، وہ
اپنی زندگی اعلی اخلاقی اصولوں کے تحت بسر کرتا ہے۔انسان کی زندگی میں ظرف
کی بہت بڑی اہمیت ہوتی ہے، کیونکہ انسان کو اس کے ظرف سے ہی پرکھا اور
پہچانا جا تا ہے، جس کا ظرف جتنا اونچا اور اعلی ہو گا وہ انسان اتنا ہی
قابل اعتبارو اعتماد، قابل احترام اورباعزت ہوگا در اصل ظرف ہی انسان کی
عزت و آبرو کا بھرم رکھتا ہے اس لئے وہ دوسروں کی نظر وں میں قابل قدر بن
جاتا ہے، انسان کی اعلی ظرفی زندگی کے ہر شعبے اور ہر میدان میں اس کے بہت
کام آتی ہے۔اعلی ظرف انسان کے خیالات بھی ہمیشہ اونچے ہوتے ہیں ، کسی بھی
کام کو وہ انسانی فرض سمجھتا ہوا اسے بخوبی انجام دیتا ہے، وہ کسی کام،
منصب یا عہدہ کو دولت کے سمیٹنے کا ذریعہ کبھی نہیں بناتا، یہی وجہ ہے کہ
وہ دوسروں کی نظروں میں نہ صرف اونچا مقام رکھتا ہے، بلکہ باعزت اور باعث
احترام بن جاتا ہے۔
آج ہمارے معاشرے میں عزت و احترام اور اعزاز و سربلندی کا واحد ذریعہ مال و
دولت، عہدہ، اختیار اور مادی وسائل کی کثرت رہ گیا ہے۔ بلندیِ اخلاق، پختگی
کردار، شرافتِ نفس اور تقویٰ و طہارت کی کوئی قدر و منزلت نہیں رہی۔ حد تو
یہ ہے کہ ایک بدتر سے بدترانسان جو شرابی، زانی، جوئے باز، فاسق و فاجر ،
بدکار، حدودِ اخلاق و شریعہ کو اعلانیہ توڑنے والاہے اگر مال و دولت ، مادی
وسائل اور آسائشاتِ زندگی رکھتا ہے تو وہ معاشرہ میں معززومحترم اور ممتاز
مانا جاتا ہے اور ایک دوسرا شخص خواہ کتنا ہی شریف النفس ، صاحب اخلاق ،
بلند کردار ، متقی و پرہیزگار اور خدا ترس و فیاض کیوں نہ ہواگر اس کے پاس
دولت، مال و زر نہیں تو اس کی معاشرہ میں کوئی وقعت اور قدرو منزلت نہیں۔
محض اس لیے کہ اس کے پاس مال و دولت دوسروں کے مقابلہ میں کم ہے۔ انسانی
اوصاف سے قطع نظر ہو کر بدمعاش ، شرابی ، زانی، جوئے باز ، کرپٹ، فاسق و
فاجر، انسان نما درندے کو محض اس لیے عزت و احترام کا مستحق قرار دیناکہ وہ
ریشم و حریر میں ملبوس ہے، کثیر مقدار میں مال و زر رکھتا ہے تو یہ کام تو
عقل کے اندھوں اور انسان نما جانوروں ہی سے ہو سکتا ہے۔قوموں میں اعلیٰ
ادنیٰ، عزت دار، محترم، کمی، چوہدری، رائے ، سیٹھ، سردار، نواب وغیرہ ہم نے
بنا دئیے مگر اللہ کے نزدیک عزت و ذلت کا ایک ہی پیمانہ ہے اور وہ تقویٰ و
پرہیزگاری ہے۔اللہ کے نزدیک سب انسان برابر ہیں کوئی اعلیٰ ادنیٰ، امیر
غریب نہیں۔ اس کی نظر میں خواہ کوئی گلی کا خاکروب یا ملک کا صدر یا وزیر
اعظم سب ایک ہی لائن میں کھڑے ہیں ، اللہ کریم اسے عزت سے نوازے گا جس سے
تقوی اور اعلیٰ ظرفی کی مہک آئے گی۔
دنیا میں بعض ایسے انسان بھی ہوتے ہیں، جو ہمیشہ کم ظرفی کا مظاہرہ کرتے
ہیں جس کی وجہ سے وہ معاشرہ کی نظروں سے گر جاتے ہیں ، کم ظرف انسان کی نیت
ٹھیک نہیں ہوتی وہ ہمیشہ اس سوچ میں رہتا ہے کہ موقع اس کے ہاتھ لگا ہے پھر
پتہ نہیں ملے نہ ملے، میں کچھ مال سمیٹ لوں، دولت اکٹھی کر لوں۔وہ ہمیشہ اس
فکر میں رہتا ہے کہ دوسروں کامال ہڑپ کرلے ، دوسروں کی دولت کسی بھی طرح
حاصل کرلے، دولت حاصل کرنے کے لئے وہ ہر ناجائز کام بھی کرتا ہے، بے ایمانی
کرتا ہے ، ہر کام میں اپنے مقصد اور مفاد کو شامل کئے بغیر کسی سے سیدھے
منہ بات کرنا بھی گوارا نہیں کرتا، اس طرح اس کی بد نیتی ، کنجوسی اسے
معاشرے میں بدنام کر کے رکھ دیتی ہے، وہ سب کے سامنے ذلیل اور رسوا ہو جاتا
ہے، وہ کبھی عزت حاصل نہیں کر سکتا اور کہیں بھی اپنا کوئی خاص مقام نہیں
بنا سکتا، کم ظرف انسان بہت جلد گرگٹ کی طرح رنگ بدلتا رہتا ہے اگر اسے
تھوڑی بہت دولت مل جاتی ہے تو وہ اکڑنے اور اچھلنے لگتا ہے اور اپنی اوقات
بھول جاتا ہے۔
آج دنیا میں ہمارے حکمرانوں سے بڑھ کر کوئی خود نما، خودغرض اور کم ظرف
نہیں۔ ہمارے حکمران لاکھوں کا کام کر کے کروڑوں اس کی تشہیر پر لگا دیتے
ہیں صرف اپنی خود نمائی کیلئے۔ یہ عوام کے پیسوں سے نہ صرف خود نمائی کرتے
بلکہ احسان بھی جتلاتے کہ ہم نے یہ کیا وہ کیا۔اگر تو منصوبے انہوں نے اپنے
وسائل سے قوم کو دئیے تو مانا جا سکتا کہ احسان کیا ۔ لیکن اگر منصوبے ملکی
اور عوامی وسائل سے بنے تو کیا وہ ان کا فرض اور ذمہ داری نہیں تھی ؟ پھر
ان قومی پروجیکٹس اور پبلک مقامات کو اپنے ناموں سے منصوب کردینا ان کی
خودنمائی کی ادنی سی مثال ہے۔ ایک فرض اور ذمہ داری کے ادا کرنے پر خود
نمائی اور احسان کیسا؟کیا کوئی باشعور اپنی نماز کی ذمہ داری و فرض ادا
کرکے خدا پر احسان رکھتا ہے؟ مگر یہ اپنا قومی فرض اور وہ بھی قوم کے وسائل
سے ادا کرکے قوم پر احسان رکھتے کہ ہم نے یہ کردیا وہ کر دیا۔
آپ کسی بھی قومی پروجیکٹ کو لیں اس پر حقیقت میں اتنا خرچ نہیں ہوتا جتنے
گھپلے ہو جاتے اور پھر ان کی خود نمائی میں بھی گھپلے اگر ان کی تشہیر اور
نودو نمائش کا ایک بورڈ ہزار کا بنا تو عوام کے خون سے دس نکلا جاتا۔کسی
بھی شہر چلے جائیں ہر پول، چوراہے، مصروف گذر گاہ کے دونوں اطراف ان کی
خودنمائی کے بینرز آویزاں نظر آئیں گے، کہیں خراج تحسین کے تو کہیں خوش
آمدید کے، کہیں افتتاح کے اور کہیں سنگ بنیادکے تو کہیں ان کی عظمت و جرات
کو سلام کے۔ماڈل بازار، رمضان بازار اور عوامی فلاحی مراکز پر ان خداؤں کے
مجسموں کا لگا ہونا ضروری ہوتا ہے اس کے بغیر وہ چل ہی نہیں سکتے۔ حد تو یہ
ہے کہ خود کہا جاتا ہے کہ بینرز لگواؤ، فلیکس آویزاں کرو۔ اگر کہیں ان کی
مبارک آمد پے نہ لگے ہوں تو سخت غم و غصے کا اظہار کیا جاتا ہے۔ یہ حکمران
و سیاستدان طبقہ ملک بھر میں عوامی و قومی منصوبوں پر اور عوام ہی کے خون
پسینہ کی کمائی سے جتنی اپنی خود نمائی اور فضولیات کرتے وہ ملک بھر کے
غرباء کی سال بھر کی خوارک کیلئے کافی ہو سکتاہے۔ اور پانچ سال بعدملک بھر
میں الیکشن میں جتناپیسہ اڑاتے اگر وہ ملک کے غرباء کی خوراک و لباس پر خرچ
کریں تو پانچ سال ختم نہ ہو۔
بے عقلی، کم ظرفی، حماقت، نااندیشی، کم فہمی ان جاہلوں میں کوٹ کوٹ کے بھر
ی ہوتی ہے گویا ایسے ہی جیسے گدھوں کے سپرد ملکی نظم و نسق اور قومی سلامتی
کے امور دے دئیے گئے ہوں۔گدھے تو پھر بھی اپنے مالک کی پہچان رکھتے ہیں مگر
یہ گدھے تو اپنے حقیقی مالک ، اپنے رسول ، اپنی کتاب اور اپنے دین کے زریں
اصولوں کو بھی بھول گئے اور بے بہرہ ہیں۔میں ان کی حکومت کو حکومت نہیں
ہکومت سمجھتا ہوں یعنی ایک ہی مت ، ان کے ذہنوں میں ایک ہی مت بھری ہوتی ہے
کہ ملکی وسائل، قومی دولت اور عوام کا پیسہ کس کس طرح سمیٹنا اور فضولیات و
لغویات میں ضائع کرنا ہے۔ان میں اس کے علاوہ نہ کوئی عقل ہے نہ کوئی فہم
اور نہ کوئی شعور۔
کوئی بھی قوم علم کو ترقی دینے ، علم کو پھیلانے اور علم کو ہی اپنے عروج و
کمالات کا زینہ سمجھ کر کامیابی و کامرانی اور حقیقی ترقی کی شاہراہ پر
گامزن ہوتی ہے۔ اور یہ نادان ،کم ظرف بجائے علم کو ترقی دینے کے تعلیم ا ور
صحت کے بجٹ کو بھی میٹرو کے تصرف میں لے آئے کہ قوم کے اندر میٹروز نظر آنے
سے قوم ترقی اور تہذیب یافتہ قوموں میں شمار ہو گی۔یہ قوم کو ترقی ، ترقی
یافتہ اقوام سے ترقی کی بھیک مانگ کر ، خیرات اور غیر اقوام سے سود ی قرض
لے کر دینا چاہتے ہیں۔ علم کو ترقی دینے کی ترکیب ان کو صرف لیپ ٹاپ سکیم
ہی سوجھی کہ جو طلباء کچھ ذہین تھے اور علم میں ترقی کر رہے تھے ان کی
بغلوں میں لیپ ٹاپ تھما دےئے کہ تم بھی بس عیش و عشرت کرو، لیپ ٹاپ ہماوقت
تمہارے پاس ہو، دن رات موویز دیکھو، ناچ گانے سنو،لغو اور واحیات انداز
گفتار کیلئے سٹیج ڈراماز سے درس لو، فحش مواد اکٹھا کر کے اس میں سٹور
کرواور جب دل چاہے اس سے لطف اندوز ہو لیا کرو۔اور مجال ہے کہ جنہیں جنہیں
لیپ ٹاپ ملے انہوں نے ان کے سوا اسے کسی تعلیمی مقصد کیلئے استعمال کیا ہو
اور اس سے تعلیمی مقصد نکل ہی کیا سکتا تھا؟
ڈینگی مچھر کی وباء پھیلی تو بجائے اس کے خلاف کوئی عملی اقدام کرنے کے
تعلیمی اداروں، عوامی مقامات ، دفاتر، شہر شہر کی گلی بازاروں اور چوکوں کو
مچھر مخالف بینرز ، اشتہاروں اور فلیکسوں سے بھر دیا۔ کیا ملک کے چپہ چپہ
پر مچھر مخالف بینرز لگانے اور کوئی عملی اقدام نہ کرنے سے مچھر بھاگ جائے
گا اور اس کی وباء ختم ہو جائے گی؟ نادان ، کم ظرف ، جاہل ، احمق کہیں
کے۔ملک کے طول و عرض پر لگے بینرز وغیرہ تو ہر کسی نے دیکھے ، کیا کبھی کسی
نے سکولوں، عوامی مقامات اور گلی بازاروں میں کوئی عملی اقدام ہوتا بھی
دیکھا؟ میری نظر سے تو ایسا منظر آج تک نہیں گذرا۔ صرف اس لئے کہ مچھر
مخالف عملی اقدام کرنے سے مچھر کی وباء ختم ہو جائے گی اور یہ جو آئے دن اس
کے خاتمہ کے نام پر ملکی دولت سے جو بجٹ لیتے اور اس کی تشہیر کے نام پر جو
کمیشن اور اضافی کمائی کرتے وہ پھر کہاں سے آنی ہے اگر مچھر ہی نہ رہا
تو؟حالانکہ جتنا پیسہ اس کی تشہیر اور بینرز پر لگا دیکھتے ہیں اگر وہی
پیسہ کسی عملی اقدام میں لگا ہوتا تو یہ وباء کب کی ختم ہو چکی ہوتی۔
حکمرانوں، سیاستدانوں کے ہر کام کے پیچھے ملکی دولت لوٹنے کے علاوہ ایک خاص
مقصد اور لالچ مخفی ہوتا ہے اپنا ووٹ بنک بڑھانے کا، یہ فرض کو فرض سمجھ کے
ادا نہیں کرتے بلکہ ہر کام اس لالچ سے کرتے ہیں کہ ہم پر لوگوں کا اعتماد
بڑھے گا اور ہمارے ووٹ بنک میں اضافہ ہو گا اور آئندہ ہماری پوزیشن مزید
بہتر ہو گی۔ اگر مدت حکومت میں کوئی اچھا کام نہ کیا تو لوگوں کا اعتماد
اٹھ جائے گا اور ووٹ بنک متاثر ہوگا، ان کے ہر کام کے پیچھے یہی سوچ اور
لالچ مخفی ہوتا ہے۔ کفایت شعاری اور کم خرچ کا تصور ان کے قریب تک نہیں
پھڑکتا۔قومی خزانے کے راہزن دن رات اس کو لوٹنے میں مصروف عمل ہیں۔ تنخواہ
الگ، مراعات الگ، عیش عشرت الگ، دنیا کے سیر سپاٹے الگ، ترقیاتی کوٹے، زمین
کے پلاٹ، ملک اور ملک سے باہر سفر، علاج کی مفت سہولتیں اور ناجانے کیا کیا
عنایات ہیں۔ سرکاری گاڑیوں کا بے جا اور اپنی ذات کیلئے تصرف ، سرکاری
وسائل سے اپنا ناجائز مفاد نکالنے کے علاوہ کرپشن ، بد عنوانی کے پہاڑ توڑ
رکھے۔ غریب عوام کے ٹیکس چوری کے علاوہ مختلف انواع و اقسام کی کرپشن،فکری
و نظریاتی کرپشن، اخلاقی ، مالی اور معاشی کر پشن، سیاسی اور قانونی کرپشن،
ہر ادارے ، ہر محکمہ میں کرپشن، قدرتی وسائل معدنیات وغیرہ نکالنے میں
کرپشن حتیٰ کہ ان ظالموں نے حج، اوقاف، زکوٰۃ کے فنڈ، عشر کی جمع پونجی،
تعلیم ،صحت، عمر رسیدہ انسانوں کے فنڈز میں، قدرتی آفات میں بیرونی امداد
کے فنڈز میں، غریبوں اور محتاجوں کیلئے انکم سپورٹ فنڈ تک میں بھی کرپشن
کرنے میں شرم محسوس نہیں کی۔ان کے علاوہ اور پتہ نہیں کن کن طریقوں سے
کالادھن جمع کر رکھا ، اوراسمبلی سے کالا دھن سفید کرنے کا قانون پاس
کرواتے ہوئے ان ذرا شرم و حیا نہیں ٹپکی۔
ملکی دولت خود لوٹ رہے اور بیرون ممالک سے سودی قرضے لے کر ملک چلا رہے۔ نا
خدا یاد ، نا موت، نا یوم حساب کا ڈر۔یہ اپنے ملک کو نہ تو کاروبار کیلئے
موزوں سمجھتے اور نہ اپنے اثاثوں اور اکاؤنٹس کیلئے مناسب سمجھتے، اور نہ
اپنے خاندان کیلئے محفوظ، نہ اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت اور علاج معالجہ
کیلئے معیاری، ہاں البتہ ان کی حکمرانی اور لوٹ مار کیلئے اس سے بہتر کوئی
ریاست نہیں اور نہ ہی کوئی اس قوم سے بڑھ کر اور کوئی تابعدار اور مداح و
پیروکار قوم۔یہ ان کی وفا دار قوم ان کے ہر الٹے سیدھے کا م پر تالیاں
بجانے اور بھنگڑا ڈالنے کیلئے ہے ۔ خدا نے عقل سلیم عطا کی ہے اور سوچنے
اور غورو فکر کی قوت بخشی ہے مگر ہر سیاسی جماعت کے جیالے اپنے آقاؤں کی
شان میںیہ سوچنا بھی کمال درجہ کی بے ادبی اور گستاخی سمجھتے اورانہیں ہر
بدی سے پاک معصوم فرشتے گردانتے۔ سیاسی پیر جو مرضی کرتے پھیریں ان کے
کانوں میں جوں تک نہیں رینگتی اور ذرا سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔سیاسی
خاندان ان کے کامل و اکمل پیر خانے اور روحانی پیشوا، جہاں سوال کمال بے
ادبی اور احتساب کی سوچ کمال گستاخی ہے۔
بہ مے سجادہ رنگیں کن گرت پیر مغاں گوید
کہ سالک بے خبر نبود زراہ و رسم منزلہا
(یعنی اگر پیر مغاں کہے تو بے دریغ مصلیٰ شراب سے رنگیں کر دو کیونکہ طریقت
کی راہ بتانے والا منزل تک پہنچانے کی رسم و راہ سے بے خبر نہیں ہو سکتا۔)
یہ حال ہر سیاسی کمان کے متوالوں کا ہے یہی وجہ ہے کہ سیاسی پیر اور معصوم
فرشتے حکمرانی اور لوٹ مارکے مزے لوٹ رہے ہیں، انہیں نہ کسی عوامی رد عمل
کا خوف ہے نہ کسی احتساب کا ڈر ،نہ کسی محاسبے کی فکر۔ اور اگر کوئی کمی
تھی تو وہ فرینڈلی اپوزیشن اور مفاہمتی سیاست نے پوری کر دی کہ نہ تم ہمیں
تنگ کرو اور نہ ہم تمہیں تنگ کریں گے، نہ تم ہماری کرپشن اور بے ضابطگیوں
کا پردہ چاک کرو نہ ہم تمہاری کا کریں گے۔نہ تم ہم سے لوٹ مار کا حساب
مانگو نہ ہم تم سے مانگیں گے بلکہ سب مل کر ایک دوسرے کے مفادات کا تحفظ
کریں گے۔ اور پھر اس مفاہمتی سیاست میں کرپشن کی روک تھام کیلئے حکومتی سطح
پر جو ادارے وجود میںآئے نیب ’’نیشنل اکاونٹی بلٹی بیور و (NAB)‘‘ اور انٹی
کرپشن وغیرہ وہ کرپشن کو ختم کرنے کیلئے معاون ثابت ہونے کی بجائے کرپشن کو
تحفظ اور فروغ دینے اور کالا دھن سفید کرنے کا ذریعہ بن گئے۔ اس کی بد ترین
مثال نیب آرڈیننس 1999ء کی دفعہ کی 25ہے جس کے تحت نیب کے چےئرمین کو
استحقاقی قوت حاصل ہے کہ وہ بہانہ ساز، سودے بازی، پلی بارگین کے نام پر
کرپشن کے سارے ثبوتوں کے باوجود اپنی مرضی سے کالے دھن کا ایک حصہ وصول کر
کے باقی لوٹی ہوئی دولت کرپشن کا ارتکاب کرنے والے فرد ، سیاست دان، تاجر،
صنعت کار، سول اور فوجی افسروں، بیور وکریٹس کو مزے لینے کیلئے ہبہ کر دے
اور اس طرح وہ بہتی گنگا نہا کے معاشرہ کے پاک صاف اور عزت دار فردبن جاتے
ہیں جو دستوری کرپشن کی بد ترین مثال ہے۔ |