حاجیوں کے اعزاز میں’ مزیدار حج‘ کااستقبالیہ

’مزیدار حج ‘ایک پرائیویٹ حج وعمرہ آپریٹر ادارہ ہے۔ حالیہ حج کی سعادت حاصل کرکے واپس آنے والے حاجیوں کے اعزاز میں کراچی کے ’’دربار بینکٹ ھال ‘‘ میں 22 ستمبر2017بروز جمعہ استقبالیہ کا اہتما کیا۔ یہ وہ حاجی مرد و خواتین تھے جنہوں نے مزیدار حج کے زیر اہتمام حج کی سعادت حاصل کی تھی۔اس طرح کی پر رونق اور بہ برکت محفل میں شرکت کی سعادت کم کم ہی ہواکرتی ہے۔ اس استقبالیے کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ ہم اپنی بیگم ، بیٹے، بہو اور پوتے کے ہمراہ تقریب میں مدعو تھے ۔دیگر حجاج اکرام اور ان کے اہل خانہ بھی تقریب کا حصہ تھے۔ ھال میں موجود ان تمام لوگوں کو جو اب حاجی ہیں دیکھ کر دل باغ باغ ہوگیا۔ ایسا محسوس ہورہا تھا کہ ہم اِس وقت عزیزیہ کی اس عمارت میں ہیں جہاں ہم سب نے حج سے قبل چار دن اور حج کی ادائیگی کے بعد دو دن گزارے تھے، منیٰ جانے کا سفر ایک ساتھ کیا تھا، منیٰ کے خیموں میں ہم سب ایک ساتھ ہی رہے وہ وقت پیار و محبت سے گزارا۔ جنہوں نے حج کی سعادت حاصل کی ہوئی ہے انہیں اندازہ ہوگا کہ منیٰ کے خیموں میں لوگ کس طرح ایک دوسرے سے باہم جڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ یعنی اگر آپ سیدھے لیٹے ہیں تو کروٹ لینا مشکل اور اگر کروٹ سے لیٹے ہوئے ہیں تو سیدھا ہونا مشکل امر ہوتا ہے۔ عام دنوں میں شاید ہم ایسا کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے لیکن یہ اللہ کے احکامات ہی ہیں کہ ہم بے چوں و چراں، کسی بھی قسم کی شکایت زبان پر لائے بغیر ، ایک دوسرے کا خیال کرتے ہوئے، پیار اور محبت سے قربت کے لمحات خوش اسلوبی سے گزارتے ہیں۔

مزیدار حلیم کا نام تو اہل کراچی نے سنا ہی ہوگا، کم از کم حلیم کھانے کے شوقین مزیدار حلیم سے اچھی طرح واقف ہوں گے۔ حلیم اور دیگر پکوان کے کاروبار کے ساتھ ساتھ کئی سال سے مزیدار حلیم نے ایک ایسا کام شروع کیا جو جائز ذریعہ آمدنی بھی ہے اور ثوات کا ثواب بھی، گویا ایک ٹکٹ میں دو مزے۔ مزیدار حلیم کے حل و عقد الحاج عبد الحنیف خان صاحب نے 2000 ء میں ’مزیدار حج و عمرہ ٹور ایند ٹریول‘ کے نام سے اس کاروبار کا آغاز کیا اُس وقت سے یہ ہر سال کوئی سو(100) افراد کو حج کی سعادت حاصل کرانے لے جاتے ہیں۔ اس بار یعنی 2017کے حج میں مَیں اور شریک حیات شہناز بھی ان کے ہمراہ حج پر گئے۔ مجھے نہیں معلوم کہ دیگر پرائیویٹ حج و عمرہ ایجنسیاں بھی واپس آکر اپنے حاجیوں کی عزت و توقیر کا اہتمام اسی طرح کرتی ہیں یا نہیں ۔ یہ جان کر خوشی ہوئی کہ مزیدار حج کے زیر اہتمام حج سے واپس آجانے والے حاجیوں کے اعزاز میں ایک استقبالیہ کا اہتمام کیا۔ جس میں حاجیوں کے گلے میں ہار ڈالے جاتے ہیں اور ان کے نام کی ایک شیلڈ بھی تحفہ میں دی جاتی ہے، طعام کی تو بات ہی کیا ہے۔ ہماری واپسی 12اکتوبر کو ہوئی تھی، ہم مختصر وقت والے پیکچ میں تھے یعنی 25اگست کو گئے اور 12 ستمبر کو واپس آگئے کل 19دن میں ہم اس اہم فرض کی ادائیگی کے بعد واپس پہنچ گئے۔ 22ستمبر بروزجمعہ کی سہانی خوشیاں بکھیرتی رات مناسک حج کی خوبصورت یادیں لیے ہوئے تھی۔ جس جانب نظر پڑتی کوئی نہ کوئی صورت ایسی نظروں کے سامنے ہوتی جسے عزیزیہ میں، منیٰ میں، ، مذدلفہ میں، جمرات کے مقام پر یا پھر خانہ کعبہ کے گرد چکر لگاتے ہوئے یا مدینہ منورہ مسجد نبوی میں دیکھا تھا ۔ یہ صورت حال ہمارے لیے جذباتی اور سانسوں کے ذریعہ دل میں اتر جانے والی تھی۔ یہ منظر گویا پاکستان میں سعودی عرب میں دوران حج کے دنوں کا منظر پیش کر رہا تھا۔

عبد الحنیف خان کے بارے میں اور حج کی تفصیلی روداد انشاء اللہ تفصیل سے قلم بند کروں گا ، حنیف صاحب کے ساتھ ہماری قربت زیادہ رہی اس کی وجہ یہ تھی کہ مزیدار حج کی جانب سے دو گروپ تشکیل دیے گئے تھے ایک کا دورانیہ30دن کا تھا وہ گروپ حنیف صاحب کے فرزندِ ارجمند حسیب خان صاحب کی سربراہی میں 5 اگست کو سعودی عرب چلاگیا تھاجب کہ دوسرا گروپ جو مختصر مدت کا تھا یعنی 19دن کا،اس کی قیادت خود حنیف خان صاحب نے کی ، ہم بھی اس گروپ میں شامل تھے ۔یہ گروپ صرف 20خواتین و حضرات پر مشتمل تھا۔ ان افراد میں حنیف خان صاحب کے علاوہ ان کی بیٹی، داماد اور نواسہ، جناب ریحان خان صاحب کی فیملی جن میں ان کی دو بیٹیا، ایک بیٹا اَحسن اور ان کی شریک حیات ، اس مختصر گروپ کی ایک خصوصیت دو مغل شہنشاہوں کی شمولیت تھی ایک جہانگیر خان صاحب تھے ان کے ہمراہ ان کی بیٹی اور شریک حیات تھیں، ایک اور مغل فرمارواں عالمگیر شہباز اپنی بیگم کے ہمرہ ابوظہبی سے تشریف لائے تھے، اس حج گروپ میں شامل ہوئے، ثاقت معین قاضی اپنی بیگم کے ہمراہ تھے اور فہد اسلم ہیں تو پاکستانی لیکن امریکہ سے آئے تھے ان کی بیگم پہلے مرتبہ پاکستان آئیں اور یہاں آمد ان کے لیے کس قدر سعادت کا باعث ہوئی ۔ مَیں اور میرے شریک حیات شہناز شریک سفر تھے۔ یہ گروپ بشمول حنیف خان صاحب کے عزیزیہ کی بلڈنگ کے بائیں بازو والے حصے کے چار کمروں میں رہائش پذیر تھا یعنی ریحان صاحب، جہانگیر صاحب، عالم گیر صاحب ، ثاقت ، فہد اور مَیں ایک کمرے میں تھے، کمرہ کشادہ تھا ساتھ بستروں کے باوجود درمیان میں کھلی جگہ تھی۔ ہم میں سے کوئی بھی اس ماحول کا عادی نہیں تھا لیکن حج سے قبل چار دن اور حج کے بعد کے دو دن اس ماحول میں یہ احساس ہی نہیں ہوا کہ ہم اپنی زندگی کے مختلف ماحول میں ہیں۔ یاکسی بھی قسم کی بڑی پریشانی تو دور کی بات چھوٹی سے چھوٹی بات بھی نہیں ہوئی۔ ایک کمرے میں ریحان صاحب کی فیملی اور میری بیگم تھیں جب کہ ایک کمرہ میں ثاقت، فہد ور جہانگیر صاحب کی بیگم اور بیٹی ، ایک کمرے میں حنیف صاحب اور ان کی فیملی ۔ ابتدائی منزل پر کھانے کا اہتمام تھا وقت ہوا چلے گئے کھانا کھانے، کھانے میں کسی قسم کی شکایت نہیں، کھانے میں کئی ڈشیز کے علاوہ فروٹ وافر مقدار میں، چائے جب اور جس قدر پی جائے۔ آج اس تقریب میں یہ ماحول بہت یاد آرہا تھا۔ ایک دوسرے سے ہنسی مزاق ، ثاقت ، فہد اور احسن جوان تھے ، ریحان صاحب اور عالمگیر بھی جوانوں کی فہرست میں ہی آتے ہیں لیکن میرے اور جہانگیر صاحب سے کم، بڑی عمر کے جہانگیر صاحب اور مَیں ہی تھا۔ سچ بات یہ ہے کہ چاروں جوانوں عالمگیر ،ثاقت، فہد اور احسن نے کم از کم میرا بہت خیال رکھا،احسن نے میرے موبائل کی درستگی اور کارڈ لانے کے ساتھ ساتھ ڈالنے کا کام بھی کیا وہ بھی خوشی سے، ریحان صاحب بھی پیچھے نہیں تھے مجال ہے کہ کسی معاملے میں وہ کسی کو آگے آنے دیں، کھانے کے لیے کچھ لینے گئے تو ہم سب کے لیے کچھ نہ کچھ لے آتے، ان کا بیٹا اَحسن اپنے گھر کے ماحول اور اکلوتے ہونے کے باعث لاڈلا اور اس کی ادائیں پیاری تھیں۔ ہر کام اپنے موڈ سے کیا کرتا، حتیٰ کہ رمی کے بعد جب قربانی کی اطلاع آگئی تو اب پہلی فرست میں حلق یعنی سر منڈوانے کی فکر لاحق ہوتی ہے لیکن اَحسن صاحب تھے کہ چادر میں منہ دئے خواب غفلت کے مزے لے رہے تھے۔ ان کے ابا نے لاکھ اٹھایا اور اَحسن اَحسن پکارتے رہے، سر منڈوانے کی اہمت کا احساس دلاتے رہے لیکن اَحسن صاحب ہمارے چار سال کے پوتے ارسل بنے ہوئے تھے کہ اگر وہ موبائل پر کچھ دیکھ رہے ہوں تو مجال ہے کہ کسی کی آواز پر دیہان دے ڈالیں۔ یہی حال اَحسن صاحب کا ہوا کرتا تھا، باہر کے کھانے کے شوقین تھے، جب کافی دیر ہوگئی تو خود ہی اٹھے اور اخرونٹ ہوکر آگئے۔ان کی آخری وقت تک یہی کوشش رہی کہ کسی طرح کوئی صورت نکل آئے اور وہ سر منڈانے یا استرا پھروانے سے بچ جائیں ۔ اس میں انہیں ناکامی ہوئی ،آخر اخرونٹ ہونا ہی پڑا۔ منیٰ کے خیمے میں پہنچے ، خیمے کا ماحول دیکھ کر اَحسن صاحب حیران و پریشان، حقیقت یہ ہے کہ خیمے کا منظر دیکھ کر ہم بھی کچھ کچھ خوف زدہ ہوگئے تھے مشکل سے اپنے آپ پر قابو پایا۔ کھانے کا الگ مسئلہ، پتا چلا کہ اَحسن صاحب نے نیٹ پر معلوم کر لیا کہ البیک کہاں ہے، معلوم ہوا کہ وہ ہمارے خیمے کے اوپر ہی تھا، اب انہیں جب کھانے کی خواہش ہوتی البیک لے آیا کرتے۔ جیسا کہ میں نے کہا کہ ہر جگہ کہ یادیں طویل اور الگ الگ ہیں ، منیٰ کے خیموں میں قیام، عرفات کے میدان میں دن بھر گزارنا، مغرب ہوتے ہی مذدلفہ کے لیے روانہ ہوجانا، پھر کھلے آسمان کے نیچے رات بسر کرنا، شیطان مردود کو کنکریاں مانے کے لیے کنکریاں چننا، صبح ہوتے ہی رمی کے لیے روانہ ہوجانا، پیدل چل کر رمی کے مقام پر پہنچنا اور بڑے شیطان کو کنکریاں مارنا، واپس آکر قربانی کا انتظار کرنا، پھر حلق کروانا،معمول کا لباس ذیب تن کرنا، شام میں طواف وداعیٰ کے لیے حرم جانا، پھر منیٰ چلے جانا 11ور 12ذالحجہ کو منیٰ سے رمی کے لیے جانا ۔گویا 8 ذالحجہ سے 12 ذالحجہ تک حج کے مناسک اللہ نے اپنے فضل و کرم سے آسان کر دئے، سہل فرمادیئے ، ہمیں کسی بھی قسم کی تکلیف ، پریشانی نہیں ہوئی۔ حج کے بعد تو مکہ اور مدینہ کے پر آسائش ہوٹلوں میں رہنا تھا وہاں کی سہولتوں کا تو کوئی ٹھکانہ ہی نہیں تھا ۔ جن تک مکہ میں رہے خانہ کعبہ کے سامنے جانا، عمرہ کرنے والوں نے عمرے کیے، طواف کرنے والون نے طواف ، اسی طرح جب مدینہ منورہ چلے گئے تو وہاں کی نرمی، ٹھنڈک اور عقیدت کا کیا کہنا۔ہماری واپسی مدینہ منورہ سے ہی ہوئی۔
مناسک حج کی ادئیگی میں سہولتوں ، آسانیوں میں اللہ کی مدد و نصرت تو شامل حال تھی ہی لیکن اس میں کچھ کردار پرائیویٹ حج آپریٹر زکا بھی ہوتا ہے اگر وہ بہتر منصوبہ بندی نہ کریں تو حاجیوں کو مشکلات کا سامنا ہوتاہے۔ اکثر ایسا ہوتا بھی ہے۔ اکثر احباب ذکر کرتے ہیں کہ کہ حج کے دوران ایک مقام سے دوسرے مقام تک پہنچنے میں بہت پیدل چلنا پڑتا ہے ہمارے ساتھ اس قسم کی صورت حال پیش نہیں آئی۔ ائر پورٹ سے عزیزیہ ، عزیزسے حرم، عزیزیہ سے منیٰ ، منیٰ سے عرفات، عرفات سے مذدلفہ، مذدلفہ سے پھر رمی کے مقام سے کچھ دور ، یہ تمام سفر ہمارا بہترین قسم کی بسوں میں ہوا، منیٰ کے خیموں میں قالین، عرفات کے میدان کے خیموں میں قالین، مذلفہ میں قالین، کھانے اور پینے کی سہولتیں ایسی کہ ہم اپنے گھر میں اس باقاعدگی سے کھانا اور پھل نہیں کھاتے جس کھلے ڈھلے انداز سے لوگ سیر ہوکر کھانا ، پھل ، آئس کریم، کولڈ ڈرنک اورچائے پی رہے تھے۔ یہ تما م تر سہولتیں حج آپریٹر کی عمدہ کارکردگی کا پتہ دیتی ہیں، یقیناًاس میں معلم کا بھی مثبت کردار ہوگا،سعودی حکومت کے اعلیٰ انتظامات قابل تعریف تھے۔ مزیدار حج اور اس کے ذمہ داران مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اپنے ہمراہ جانے والے حاجیوں کا اس قدر خیال رکھا۔ مجھ جیسا شخص جو دل ، شوگر، کمر کی تکلیف کا مریض تھا کا خوف زدہ اور پریشان ہونا لازمی امر تھا، کچھ لوگوں نے منفی باتیں زیادہ بتائیں تھیں ۔ اللہ سے یہی دعا مانگتا رہا کہ اللہ تو میری صحت کے مطابق مجھ پر مشکل کا بوجھ ڈالنا۔ مجھے حیرت اور خوشی ہے کہ گھر سے رونگی سے لے کر واپس گھر آنے تک تمام مراحل ، حج کے تمام مناسک شروع سے آخر تک سہولت کے ساتھ، آسانی کے ساتھ، سہل پسندی کے ساتھ، اطمینان اور سکون کے ساتھ اور اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق انجام پائے۔

تقریب کی اہم بات جناب شجاع الدین شیخ صاحب کی موجودگی تھی۔ انہوں نے حج کی سعادت حاصل کرکے واپس آنے والوں کی ہدایت اور رہنمائی کے لیے قرآن و سنت کے حوالے سے تفصیلی خطاب کیا۔ مزیدار حج کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہ ہر سال اپنے ہمراہ جناب شجاع الدین شیخ صاحب کو لے جاتے ہیں۔ اس بار بھی شیخ صاحب ہمارے ساتھ تھے، شیخ صاحب حاجیوں کے درمیان رہتے ہیں، امامت کرتے ہیں ، اکثر نمازوں کے بعد وعظ کا اہتمام ہوا کرتا تھا۔ حج کے مناسک کیسے ادا کرنے ہیں ان پر گفتگو ہوتی ۔ روزمرہ پیش آنے والے دینی مسائل ان سے پوچھے جاتے ہیں اور وہ ان کے جوابات قرآن و سنت کی روشنی میں دیا کرتے۔ جناب شجاع الدین شیخ کو عزیزیہ، منیٰ، عرفات اور مذلفہ میں بار ہا سننے کا اعزاز حاصل ہوا، ان کا علم وسیع ، حافظہ بلا کا ہے، اچھا بولتے ہیں، میری ان سے گفتگو بھی رہی ، ان سے مکالمہ بھی ہوا انشاء اللہ جیسے ہی لکھنے کا بوجھ کم ہوگا جناب شجاع الدین شیخ کی شخصیت پر بھی تحریری کرونگا۔ انٹر ویو کے دوران یہ بات بھی سامنے آئی کہ شجاع صاحب ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کے نظریاتی ساتھیوں اور ان کی تنظیم کے سرگرم رکن ہیں اور میں ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم کے خاندان کا فرد ہوں۔ اس تقریب میں شیخ صاحب کودیکھ اور سن کر گفتگو کی یادیں تازہ ہوگئیں۔

تقریب میں نعتِ رسول مقبول ﷺ اور جناب شجاع الدین شیخ کے وعظ کے بعد حاجیوں کو باری باری اسٹیج پر بلا کر ہار پہنائے گئے اور ہر حاجی کو ان کے اپنے نام کی شیلڈ پیش کی گئی۔ خواتین کے لیے پردے کا انتظام تھا۔حج پر جانے والی خواتین کی شیلڈ بھی تھیں جو ان کے ساتھ جانے والے مرد حضرات نے وصول کیں۔ تقریب کے دولھا عبد الحنیف خان صاحب تھے جو مہندی سے سرخ داڑھی، قمیض شلوار ، واسکٹ سر پر گول چمکدار ٹوپی میں ادھر سے ادھر انتظامی امور کی نگرانی کر رہے تھے۔ ان کے بیٹے حسیب خان صاحب بھی اپنے ابا سے کم روشن نہ تھے۔ ان کی ایک خصوصیت خوبصورت آواز میں نعت رسول مقبول ﷺ پیش کرنا ہے۔ بہت اچھی نعت پڑھتے ہیں۔ حج کے امور میں حسیب خان صاحب ہی اپنے والد کے ممد و معاون ہیں۔ اس طرح یہ تقریب خوبصورت و حسین اور متبرک یادوں کی یاد دلا کر اختتام کو پہنچی۔

 

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 865 Articles with 1437467 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More