معاشرے کی اصلاح اور مسائل کا حل ادبیوں سرگرمیو ں کے
بغیر ممکن نہیں ہے حکومت پاکستان کو اس سلسلے میں تعلیمی اداروں اور
یونیورسٹیوں کی بہتری کے لیے زیادہ سے زیادہ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ،ہر
ملک میں تیزی سے بڑھتی ہوئی ترقی کے پیچھے تعلیمی اداروں کاکردار سب سے اہم
رہاہے ،مہذب اور خوشحال معاشرے کا خواب ان ہی ممالک میں پورا ہوتا ہے جو
تعلیم کے معیار کو بہترکرنے پر یقین رکھتے ہیں،کیونکہ یہ ممالک جانتے ہیں
کہ معاشرے کی اصلاح اور اور مسائل کا حل تلاش کرنا صرف اور صرف یونیورسٹیوں
کا ہی کام ہوتا ہے یہ ہی وجہ ہے کہ ماسوائے پاکستان کے دنیا بھر میں سالانہ
بجٹ میں جس قدر رقم تعلیم اور صحت کے لیے وقف کی جاتی ہے ایسا شاید ہمارے
ملک پاکستان میں ضروری نہیں سمجھا جاتا ،یہ سب کچھ جانتے ہوئے کہ پاکستان
میں موجود یونیورسٹیوں کے شاندار کارناموں کا یہ حا ل ہے کہ یہاں سے نکلنے
والے طالب علموں نے پوری دنیا میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے ،سر سید
احمد خان نے بھی اس بات کو باربار دھرایا تھا کہ آگے بڑھنے اور الگ ملک کے
لیے مسلمانوں کا اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونا بہت ضروری ہے ،یہ ہی وجہ تھی کہ اس
زمانے میں تعلیم کے میدان میں نمایاں کارنامے تاریخ کا حصہ بنے ،لہذا حکومت
پاکستان کی تمام تر توانیاں اوروسائل تعلیمی اداروں اور یونیورسٹیوں کی
بہتر ی کے لیے ہونی چاہیے ،اس کے علاوہ آج کل ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ
یونیورسٹیوں کے لیے ایک منفی سوچ نے جنم لے رکھا ہے جس کے باعث بہت سی قیاس
آرائیوں نے نہ صرف یونیورسٹیوں کا مستقبل داؤ پر لگارکھاہے بلکہ اس منفی
سوچ نے طالب علموں کے ساتھ ان کے والدین کو بھی خاصہ پریشان کیا ہوا ہے ،کہایہ
جارہاہے کہ کچھ یونیورسٹیوں میں دہشت گردی کا ناسور پنپ رہاہے حالانکہ ایسا
نہیں ہے ،ہمیں یہ بھی سمجھنا چاہیے یہ انتہا پسند لوگ ان تعلیمی اداروں کا
صرف ایک فیصد حصہ ہوتے ہیں سبھی طالب علم ان کے ساتھ نہیں جڑے ہوتے اور یہ
بھی سمجھنا ضروری ہے کہ یہ یونیورسٹیاں معاشرے سے الگ تھلگ نہیں رہ سکتی ور
نہ ہی ان تعلیمی اداروں کو آبادیوں سے دور رکھا جاسکتاہے یعنی اگرمعاشرے
میں مذہبی انتہا پسندی اور تشدد کے رحجانات پھیلے ہوئے ہو تو اس کے اثرات
جب عوام کے گھروں پر پڑ سکتے ہیں تو کیا یونیورسٹیاں اس معاشرے کا حصہ نہیں
ہوتی ؟اگر کوئی دہشت گرد کسی گھر سے پکڑا جائے تو کیا اس کا باپ یا رشتے
دار بھی دہشت گرد ہی ہونگے ،،بلکل اسی طرح یہ یونیورسٹیاں بھی اسی معاشرے
کا حصہ ہے اور اس میں کوئی اس قدر حیرانگی کی بات نہیں ہونی چاہیے دہشت
گردی کچھ یونیورسٹیوں یا مدارس میں پنپ رہی ہیں ہمیں یہ تاثر زائل کرکے
حقائق تک پہنچنا ہوگا ،ہمیں ایسا بلکل بھی نہیں سوچنا چاہیئے کیونکہ جب ہم
یہ کہتے ہیں کہ دہشت گرد ہمارے کھلے دشمن ہیں تو پھر اس بات کو بھی مان
لینا ہوگا کہ ان کا ٹھکانہ کہیں بھی ہوسکتاہے جس طرح گھروں میں بسنے والے
نوجوان دہشت گردوں کے شکنجے میں آتے رہے اور ان گھروں کو ختم کرنے کی بجائے
صرف دہشت گردی کو ختم کیا گیا بلکل اسی طرح سیکورٹی اداروں اورقانون سازی
کرنے والے اداروں کو بھی اس ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ کرنا ہے ناکہ مدارس
یا یونیورسٹیوں کوتنقید کا نشانہ بنایا جائے درست رویہ یہ ہے کہ ان تعلیمی
اداروں میں چھپے ہوئے دہشت گردوں کو قوم کے سامنے لایا جایا اور ایک ایسا
میکنزم تیار کیا جائے جس کی مدد سے آئندہ دوبارہ ان اداروں میں مشکوک
سرگرمیاں نہ پنپ سکیں ۔یہ ضروری نہیں ہے کہ تشدد کے رحجانات یونیورسٹیوں
میں ہی پیدا ہو کسی طالب علم یا سابق طالب علم کی یونیورسٹی کے باہر کی بھی
کوئی زندگی ہوتی ہوگی ؟۔ہوسکتاہے کہ دہشت گردی کی سوچ اس طالب علم کی زندگی
میں اس وقت سے جڑی ہو جب وہ اس ادارے کا طالب علم نہ ہو؟ ایسے لوگ صرف
یونیورسٹیوں اور مدارس کے مقدس ہونے کا فائدہ اٹھاسکتے ہیں یعنی وہ صرف ان
مقامات پر پناہ لینے کی غرض سے کسی کورس وغیرہ کی تکمیل میں داخلہ لیتے ہو
؟یا پھر نادان دوستوں کی دوستیوں کی بنیاد پر پناہ لیتے ہو؟۔جہاں ایسے
لوگوں کا خرچہ بھی برائے نام ہوتاہے اور وہ خود کو محفوظ بھی سمجھتے ہو،
جہاں تک ایسے انتہا پسند طالب علموں کا معاملہ ہے تو جو دہشت گرد کلعدم
تنظیمیں جب ان لوگوں کو استعمال کرتی ہیں وہ ان کو خفیہ انداز سے فنڈز بھی
فراہم کرتی ہونگی،ان کو لیپ ٹاپ ، موبائل فونز اور کمپیوٹرز بھی ملتے ہونگے
۔جبکہ آجکل سوشل میڈیا بھی دہشت گردوں کا ایک بڑا ہتھیار سمجھا جارہاہے جو
کچھ جزباتی اور سخت مزاج طالب علموں کو فالو کرتے ہیں،گزشتہ دنوں میری
نظروں سے ایک رپورٹ گزری جس کے مطابق کلعد م تنظیموں سے تعلق رکھنے والے
کچھ پڑھے لکھے انتہا پسند لوگ یونیورسٹیوں کے طالب علم کو انٹرنیٹ سے منسلک
کرکے انہیں فالوکرتے ہیں اور ان کی مالی مدد بھی کرتے ہیں اور انہیں اپنے
گروپس میں شامل کرکے پھران کی برین واشنگ کا عمل شروع کیا جاتاہے ۔ ،یقیناً
یہ لوگ پاکستان کے تمام شعبہ جات میں گھسے بیٹھے ہیں جس کا ثبوت یہ ہے کہ
اس ملک میں دہشت گردی کی وارداتوں میں اب ایک طویل عرصہ ہوچلاہے دہشت گردی
کے بہیمانہ واقعات میں اضافہ ہی دیکھا گیا ،کیا مدارس کیا مساجد کیا
یونیورسٹیاں اور اسکول اور کیامساجد امام بارگاہیں ان دہشت گردوں نے گزشتہ
دودہائیوں سے ہر طبقہ فکر کو متاثر کیا،کبھی پولیس پر حملہ کبھی فوج کبھی
رینجرزتو کبھی تفریحی گاہوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا، جس معاشرے
میں اس قدر مختلف اندازمیں واقعات جنم لے چکے ہوتو ہمیں یہ نہیں بھولنا
چاہیے کہ یونیورسٹیاں بھی اسی معاشرے کا ہی حصہ ہیں لہذا ہمیں ان تعلیمی
اداروں سے ان ناسوروں کو ڈھونڈ نکالنا ہے ان کاخاتمہ کرناہے اور ایک ایسا
نظام لانا ہے کہ ان اداروں میں صرف طالب علموں کو وطن سے محبت کا ہی درس
ملے ان کی ذہنی نشونما انسانیت سے محبت ہو ان کی تعلیم وتربیت ایسی ہو کہ
وہ زندگی کے ہر شعبے میں اپنا لوہا منواسکے اور اپنے والدین سمیت اس تعلیمی
ادارے کانام بھی روشن کرسکیں،جبکہ پرامن معاشرے کا قیام بھی تعلیمی نظام کو
درست کرنے سے حاصل ہوگاکیونکہ ایک پڑھا لکھا معاشرہ ہی ایک مہذب معاشرے کی
پرورش کرسکتاہے غور طلب بات یہ ہے کہ جب قیام پاکستان کی ترقی اور خوشحالی
میں پڑھے لکھے لوگوں کا کردار تسلیم کیا جاتاہے تو یہ بھی مان لینا چاہیے
کہ مہذب معاشرے کی تکمیل میں ہر شخص کا تعلیم یافتہ ہونا بہت ضرور ی ہے جس
کے لیے ضروری ہے کہ یونیورسٹیوں اور تعلیمی اداروں کی قدر کی جائے نہ کہ ان
اداروں کو شک کی نگاہ سے دیکھا جائے ۔ |