اسلامی تقویم کا آغاز محرم الحرام سے ہوتاہے۔ عیسوی شمسی
سال کے برعکس اسلامی قمری سال کا آغاز ولادت نبویﷺ کے بجائے ہجرت نبوی ﷺ سے
کرنے میں زبردست حکمت ومصلحت ہے،وہ یہ کہ ہجرت ہی وہ اہم اور تاریخی واقعہ
ہے،جس سے اسلام کی عظمت ،شان وشوکت،غلبہ وسطوت کاآغاز ہوتاہے، اسلامی اتحاد
کی ابتدا ہوتی ہے اور اسلامی اخوت ومساوات کی شروعات ہوتی ہے،یہی وجہ ہے کہ
جب امیرالمومنین سیدنا عمر فاروق رضی اﷲ عنہ کے سامنے اسلامی تقویم کا
معاملہ آیا اور یہ سوال اٹھا کہ سلامی سال کون سے مہینے سے شروع کیاجائے ،تو
آپ نے ہجرت کو معیار بنایا۔
ماہ محرم الحرام کی تاریخی اہمیت وفضیلت مسلم ہے احادیث وروایات اور آثار
سے اس کے فضائل و برکات ثابت ہیں۔جوبات مستند احادیث سے معلوم ہوتی ہیں،وہ
یہ ہے کہ: اسی مہینے کی دسویں تاریخ کو،جسے عاشوراء کہتے ہیں،حضرت موسیٰ
علیہ السلام اور ان کی قوم نے فرعون سے نجات حاصل کی تھی اور اﷲ نے فرعون
اوراس کے لشکر کو غرق کیاتھا۔(بخاری شریف)
اس کے علاوہ عوام میں بہت سی باتیں مشہور ہیں،جن کے تذکرے کی ضرورت
نہیں،تاہم یہ یقینی بات ہے کہ محرم الحرام کو پہلی امتوں میں بھی تقدس حاصل
تھا۔عاشوراء محرم کے دو اعمال احادیث طیبہ سے ثابت ہیں،ایک تو یہ کہ:
اس دن اپنے اہل وعیال پر کھانے اور خرچے کے اعتبار سے وسعت کی جائے،جس کی
مقدار فقہائے کرام نے یہ بیان کی ہے،کہ:اپنی وسعت کے مطابق گھر میں عام طور
پر جو کھانا پکتا ہے یا جتنا خرچہ ہوتا ہے،اس سے کچھ اچھا کھانا اور اس سے
تھوڑازیادہ خرچ کیا جائے،اس میں مبالغہ کرنے اور لوگوں سے قرضے لینے اور
چندے وغیرہ جمع کرنے کی کوئی ضرورت نہیں،اسی طرح کسی خاص قسم کے
کھانے،مثلاً:کھچڑے اور حلیم وغیرہ کی بھی کوئی تخصیص نہیں۔(فتاویٰ
رشیدیہ،فتاویٰ رضویہ)
ایک واقعہ نظر سے گذراکہ ایک شخص نے کسی واعظ سے سنا ،جوشخص عاشوراء کے دن
ایک روپیہ خرچ کرے گا،اﷲ تعالیٰ اسے ایک کے بدلے ہزار عطا فرمائیں گے۔جب
عاشوراء کا دن آی ا،تواس نے سات روپے خرچ کیے،پھر سال بھر منتظر رہا کہ سات
کے بدلے سات ہزار ملیں،مگرجب کچھ ن ہ م لا،تواس واعظ کی محفل میں جاکرسب کے
سامنے کہا:یہ شخص جھوٹاہے،اس نے یوں یوں کہاتھااور اتنے اتنے فائدے کی بات
کی تھی،مگرمجھے ک چھ نہ ملا۔اسی رات اس نے خواب دیکھا،کوئی کہنے والا کہہ
رہ اتھا:تونے صبرنہ کیا،جافلاں جگہ ایک تھیلی رکھی ہے،اسے اٹھالے۔اس نے
دیکھا،تواس میں سات ہزار کی رقم رکھی تھی۔
دوسرعمل یہ کہ ا:روزہ رکھا جائے۔حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ
رسول اﷲﷺنے فرمایا رمضان کے بعد بہترین روزہ محرم کا روزہ ہے اور فرض نماز
کے بعد بہترین نماز تہجد کی نماز ہے۔(مسلم شریف)
حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺمحرم کی دسویں
تاریخ کو خود بھی روزہ رکھتے تھے اور دوسروں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیتے
تھے(بخاری ومسلم)
اپنے وصال سے ایک سال قبل دس محرم کا روزہ رکھنے کے ساتھ ساتھ نبی کریم ﷺ
نے یہ تمنابھی ظاہر فرمائی تھی،کہ میں زندہ رہا تواگلے سال اس کے ساتھ
نو،یاگیارہ کا روزہ بھی ملاؤں گا۔آپ ﷺ کا تووصال ہوگیا،مگرصحابہ کرامؓ نے
دودن کا روزہ رکھا،مستحب یہی ہے کہ دو دن کاروزہ رکھا جائے،اگرچہ ایک دن کا
روزہ بھی درست ہے ۔
اہلِ سنت کے خلاف ایک عام پروپیگنڈایہ کیاجاتا ہے کہ وہ اہلِ بیت کو نہیں
مانتے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ہماری ایک آنکھ صحابہؓ ہیں اور تو دوسری آنکھ
اہل بیت عظامؓ ہیں۔یہ ہستیاں ہماری پیشوا ، راہنما اور مقتدا ہیں او رہمارا
عقیدہ ہے کہ اہلِ بیت رسولﷺ کی محبت کے بغیر ایمان کی تکمیل ہی نہیں
ہوسکتی،جس طرح دوسرے صحابہ کرامؓ ؓکی محبت کے بغیرایمان کامل نہیں
ہوسکتا۔البتہ محبتِ اہلِ بیت کی آڑ میں دوسرے صحابہ ؓ بالخصوص حضرت عثمانؓ
ومعاویہ ؓ پر سبّ وشتم کرناگم راہی ہے۔ان میں سے اول الذکرحضوراکرمﷺ کے
دوہرے داماد اور ثانی الذکرحضورﷺ کے سالے ہیں،اول الذکرکے خلاف جب باغیوں
نے شورش برپا کی اور مکان کا محاصرہ کیا،توان کی حفاظت کے لیے دروازے
پرپہرادینے والے حضرت حسن ؓ وحسین ؓ تھے اور انھیں اس کام پر مامور کرنے
والے ان کے والدبزرگ وارحضرت علی ؓ تھے ۔حضرت حسن ؓ نے چھے ماہ کے بعد
خلافت کا منصب حضرت معاویہ ؓ کو سونپا تھااور ان کے ہاتھ پر بیعت کرنے
والوں میں اول حضرت حسن ؓ اور دوسرے حضرت حسین ؓ تھے ۔ان کے اس جراء ت
مندانہ اقدام کی وجہ سے مسلمانوں کے دوگروہوں میں صلح ہوئی تھی،جس کی پیشین
گوئی حضوراقدس ﷺ خود فرماچکے تھے۔مسلمانوں نے اس سال کو صلح کے سال کے طور
پر منایا تھا۔یہ اہلِ کوفہ ہی تھے ،جنھوں نے اس ’’جرمِ اتحاد‘‘کی پاداش میں
حضرت حسن مجتبیٰ ؓ کو’’مذلّ المؤمنین‘‘یعنی ایمان والوں کوذلیل کرنے
والاکہا تھا،ان کے نیچے سے مصلیٰ چھینا تھا،ان کو منبر سے اتارا تھا اور
بالآخر سازش کے تحت انھیں زہر دے کر شہید کردیا تھا۔اہلِ کوفہ کی یہ
جفاکاریاں صحابہ کرام ؓ نے اس وقت حضرت حسین ؓ کے سامنے بھی بیان کیں تھیں
،جب انھوں نے اہلِ کوفہ کے بلاوے پرکوفہ جانے کا ارادہ ظاہر
فرمایاتھا۔خلاصہ یہ کہ واقعۂ کربلا کی آڑ میں صحابہ ؓ واہلِ بیت کے درمیان
تفریق ڈالنادشمنوں کی سازش ہے۔قرآن نے ان حضرات کوباہم رحم دل ،ہر قسم کے
بغض وکینے سے پاک،ایک دوسرے کاخیرخواہ قراردیا ہے،قرآن کی اس ابدی سچائی کے
سامنے تاریخ کی حیثیت پرِکاہ اور پارۂ سنگ کی بھی نہیں،وہ محض جھوٹ کا
پلندہ ہے،جب کہ قرآن کی ہربات سچی ہے۔اس لیے اہلِ سنت کایہ عقیدہ ہے کہ یہ
حضرات ایک دوسرے پر جان چھڑکتے تھے۔ان میں اختلاف ِ رائے کی وجہ کوئی ذ اتی
عداوت نہیں تھی،بلکہ یہ تھی کہ یہ من کے سچے لوگ تھے،منافقت اورڈپلومیسی سے
کوسوں دور تھے،جس بات کو غلط سمجھتے تھے ،اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے تھے اور
کسی قسم کی مصلحت کوآڑے آنے نہیں دیتے تھے۔
حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کی شہادت کا دل دوز واقعہ بروز جمعہ دس محرم الحرام
سن 61 ہجری کو پیش آیا۔اپ اہلِ کوفہ کے سیکڑوں خطوط کی وجہ سے ان پر اعتماد
کرکے وہاں اسلام کے نفاذکی غرض سے نکلے تجھے،مگرحکومتی جبر کے سامنے اہلِ
کوفہ نے گھٹنے ٹیک دیے اور امام عالی مقام اور ان کے ساتھیوں کے بجائے
حکومت ِ وقت کا ساتھ دیا،جس کے نتیجے میں یہ خوں چکاں واقعہ رونما ہوا۔س
وقت آپ کی عمر 58 سال کے قریب تھی۔حضرت حسینؓ کے ساتھ 72آدمی شہید ہوئے، ان
میں سے20 خاندانِ بنی ہاشم کے چشم و چراغ تھے۔جن کے نام درج ذیل ہیں:
حسین بن علی،محمدبن علی،ابوبکربن علی،علی بن حسین بن علی(علی اکبر)،عبداﷲ
بن حسین،ابوبکر بن حسین،عبداﷲ بن حسن ،قاسم بن حسن،عون بن عبداﷲ بن
جعفرطیار،محمدبن عبداﷲ بن جعفر،جعفربن عقیل بن ابی طالب،عبدالرحمان بن
عقیل،عبداﷲ بن عقیل ،مسلم بن عقیل،عبداﷲ بن مسلم عقیل،محمدبن ابوسعیدبن
عقیل رحمہم اﷲ تعالی۔اہلبیت نبوی میں زین العابدین ،حسن بن حسین،عمروبن حسن
اورکچھ شیر خوار بچے باقی رِہ گئے تھے،زین العابدین بیماری کی وجہ سے
چھوڑدیے گئے اور بچے شیر خواری کی وجہ سے بچ گئے۔
حضرت انس بن مالک رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ بارش کے فرشتہ نے اﷲ کےﷺ کی
خدمت میں حاضر ی کی اجازت چاہی، آپﷺ نے اسے شرف ِباریابی کا موقع دیا
اورساتھ ہی ام المؤمنین م سلمہ رضی اﷲ عنہا سے فرمایا : دروازے کی طرف
دھیان رکھیں،تاکہ کوئی اندر نہ آنے پائے،لیکن حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کودتے
پھاندتے اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم تک پہنچ گئے اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم
کے کندھے مبارک پر کودنے لگے۔۔ فرشتے نے فرمایا : اے اﷲ کے رسول ﷺ!کیا آپ
اس سے محبت کرتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا : کیوں نہیں۔ فرشتے نے کہا : آپ کی امت
اسے قتل کردے گی اور اگر آپ چاہیں تو وہ مٹی لاکر آپ کو دکھلا دوں جہاں اسے
قتل کیا جائے گا،پھر فرشتے نے اپنا ہاتھ زمین پر مارا اور لال رنگ کی ایک
مٹھی مٹی اﷲ کے رسول ﷺکے سامنے رکھ دی (مسند احمد )
حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں : ٹھیک دوپہر کے
وقت اﷲ کے رسولﷺ کو ہم نے خواب میں دیکھا کہ آپ کے بال اور چہرہ مبارک
مبارک غبار آلود ہیں اور آپ کے ساتھ ایک شیشی ہے جس میں خون ہے۔ہم نے عرض
کیا:اے اﷲ کے رسولﷺ! میرے ماں باپ آپ پر قربان! یہ کیا چیز ہے؟ آپﷺ نے
فرمایا : یہ حسینؓ اور ان کے ساتھیوں کا خون ہے۔(مسند احمد)
اسی معنی میں ایک روایت حضرت ام سلمہ رضی اﷲ عنہا سے سنن الترمذی میں بھی
موجود ہے،جس میں یہ اضافہ بھی ہے کہ : حدیث کے راوی عمارؒ بیان فرماتے ہیں
کہ جب حساب لگایاگیا تو خواب دیکھنے کا دن وہی تھا،جس میں حضرت حسین رضی اﷲ
عنہ کی شہادت کاواقعہ پیش آیا تھا۔ذیل میں حضرت حسین ؓ کے کچھ فضائل ومناقب
بیان کیے جاتے ہیں:
حضرت سیدناحسین رضی اﷲ عنہ ابھی شکم مادر ہی میں تھے، کہ حضرت حارث ؓکی
صاحبزادی نے ایک خواب دیکھا کہ کسی نے رسول اﷲﷺکے جسد اطہر کا ایک ٹکڑا کاٹ
کر ان کی گودمیں رکھ دیا۔ انہوں نے آں حضرت ﷺسے عرض کی: یا رسول اﷲ ﷺ!میں
نے ایک عجیب و غریب خواب دیکھا ہے ،جو ناقابل بیان ہے۔ فرمایا :بیان کرو،خر
کیا خواب ہے؟ رسول اﷲ ﷺکے اصرار پر انہوں نے خواب بیان کیا۔خواب سن کر
آپﷺنے فرمایا :یہ تو نہایت مبارک خواب ہے۔ فاطمہ کے لڑکا پیدا ہوگا اور تم
اسے گود میں لوگی۔(مستدرک حاکم )
کچھ دنوں کے بعد اس خواب کی تعبیرحضرت سیدنا حسین کی ولادت کی شکل میں ملی۔
حضرت سیدنا حسین بروز ہفتہ4شعبان4 ہجری کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔ان کی
ولادت کے موقعے پر رسول اﷲﷺ تشریف لائے اورحضرت علی رضی اﷲ عنہ سے فرمانے
لگے: بچے کو دکھاؤ، کیا نام رکھا ؟ نو مولود بچے کو منگاکر اس کے کانوں میں
اذان دی، پھرحضرت علی و فاطمہ رضی اﷲ عنھما کو عقیقہ کرنے اور بچے کے بالوں
کے وزن کے برابر چاندی خیرات کرنے کا حکم دیا۔ ساتویں دن آپؓ کا عقیقہ کیا
گیا۔ والدین نے ’’حرب‘‘ نام رکھا تھا، آپ صلی اﷲ ﷺ کو یہ نام پسند نہ آیا
توآپ نے بدل کر ’’حسین‘‘ رکھا ۔(سدالغابہ)حضرت سیدنا حسینؓ شکل وصورت میں
آں حضرت ﷺاوراپنے والدبزرگ وارحضرت سیدناعلی کرم اﷲ وجہہ کے مشابہ تھے ۔آپ
کی ذات گرامی قریش کاخلاصہ اوربنی ہاشم کاعطر تھی۔
ذیل میں آپ کے فضائل سے متعلق چنداحادیث درج کی جاتی ہیں؛
(۱)رسول اﷲﷺ نے فرمایا: حسنؓ اور حسینؓ نوجوانان ِجنت کے سردار ہیں۔
(۲)آپﷺ نے فرمایا: اے اﷲ!میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں، تو بھی ان سے محبت
فرما اور جو ان سے محبت کرتے ہیں ان کو بھی اپنا محبوب بنالے۔
(۳) رسول اﷲﷺ نے فرمایا: حسینؓ مجھ سے ہے اور میں حسینؓ سے ہوں، جو حسین سے
محبت رکھے، اﷲ اس سے محبت رکھے۔
(۴)آپﷺنے فرمایا: اے اﷲ!میں حسین ؓسے محبت رکھتا ہوں تو بھی اس سے محبت
فرما۔
(۵)آپ نے فرمایا: میرا یہ بیٹا عراق میں قتل ہوگا، تم میں سے جو موجود ہو
اسے چاہیے کہ اس کی مدد کرے۔
(۶)آپﷺنے فرمایا: جس کو یہ بات اچھی لگے، کہ وہ جنتی شخص کو دیکھے،تو اسے
چاہیے کہ (حضرت )حسینؓ بن علیؓ کو دیکھ لے۔
(۷)آپﷺنے فرمایا :جس نے ان دونوں سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس
نے ان دونوں کو ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا۔(بخاری ،مسلم، ترمذی،ابن
ماجہ، مستدرک حاکم، )
حضرت حسینؓ کے بچپن کے حالات میں صرف ان کے ساتھ آں حضرت ﷺ کے پیارومحبت کے
واقعات ملتے ہیں۔حضور ﷺ روزانہ دونوں نواسوں کودیکھنے کے لیے حضرت فاطمہؓ
کے گھر تشریف لے جاتے، ان سے پیار کرتے،انھیں کاندھے پراٹھاتے،جھولا
جھلاتے،گود میں اٹھاکر باہر تشریف لاتے۔حضرت حسینؓ کی عمرمبارک ابھی صرف
سات برس تھی، کہ ناناکاسایۂ شفقت سر سے اٹھ گیا۔حضرات شیخینؓ کے دور میں
بھی ان کا لڑکپن تھا،انھوں نے بھی خانوادۂ نبوت کے ساتھ ویسا ہپی
برتاؤرکھا،جیسا نبی کریم ﷺ نے رکھا تھا۔تفصیلات موجبِ طوقلت ہوں گی،اس لیے
صرف ایک روایت پر اکتفا کرتاہوں:
عقبہ بن الحارث سے روایت ہے کہ ایک دن حضرت ابوبکرؓ نے عصر کی نماز پڑھی،
پھر مسجد سے نکل کر ٹہلنے لگے،حضرت عمرؓ،عثمانؓ اور علیؓ بھی ان کے ساتھ
تھے۔ آپؓنے دیکھا کہ حضرت حسین ؓبچوں کے ساتھ کھیل رہے ہیں، آپ ؓنے بڑھ کر
ان کو اپنے کاندھے پر اٹھا لیا اور کہا :میرے باپ قربان، یہ رسول اﷲﷺکے
مشابہ ہیں علیؓ کے نہیں،یہ سن کر حضرت ؓ ہنسنے لگے۔حضرت عثمانؓ کے دور میں
حضرت حسینؓ نوجوان تھے اور میدانِ جہاد کا بھی رخ کرلیا تھا۔
حضرت معاویہ ؓ کے ساتھ بھی ان کے مثالی تعلقات تھے،حضرت معاویہؓ نے سب سے
زیادہ وظیفہ ان کا اور ان کے بھائی کا مقرر کررکھا تھا۔اپنے ولی عہد کو بھی
ان کے ساتھ احترام وعقیدت اور نرمی وسہولت کابرتاؤکرنے کی وصیت کی تھی۔یہ
تویزید کی تیرہ بختی تھی،کہ وہ اہلِ کوفہ کے ہاتھوں ہائی جیک اور نشۂ حکم
رانی میں بدمست ہوکراپنا نصیب کھوٹاکربیٹھا۔حضرت معاویہ ؓ اس کے ان جرائم
سے بریّ الذمہ ہیں۔رضی اﷲ تعالیٰ عنہ وعن کلّ الصحابۃ اجمعین!
حضرت سیدناحسینؓ انتہائی عابد وزاہد،مجاہد وغازی،پیکرِسخاوت وفیاضی،نمونۂ
تواضع وانکساری اور مثالی اخلاق وکردار کے مالک تھے۔انھیں تما م لوگ اپنا
مقتداوپیشوا سمجھتے اور ان کی دل سے عزت کرتے تھے۔
حضرت سیدنا حسین ابن علی رضی اﷲ عنھما نے مختلف اوقات میں متعددشادیاں
کیں،آپ کی کافی اولاد ہوئی، جن میں سے تین صاحب زادے (علی بن حسین المعروف
علی اکبر،عبداﷲ بن حسین،ابوبکر بن حسین)واقعۂ کربلامیں شہید ہوئے۔ سیدنا
زین العابدین ؒ سے نسل چلی۔صاحبزادیوں میں سکینہؒ،فاطمہؒ اور زینبؒ کے نام
کتابوں میں ملتے ہیں۔اﷲ تعالیٰ شہدائے کربلاکی قربانیوں کے طفیل ہمیں ان کے
نقش قدم پرچلنے اورجس دین کے تحفظ وبقاکی خاطر انھوں نے اپنی قیمتی جانوں
کا نذرانہ پیش کیا،اس دین پرزندگی کے آخری سانس تک کاربند رہنے کی توفیق
عطافرمائے۔آمین!
٭٭٭٭٭ |