محرم الحرام اور سیکیورٹی

انسانی جان کی قیمت کا اندازہ لگانا یا ا س کے بدلے میں کوئی اور شے کو متوازی سمجھنا ناممکن ہے ۔ آپ دنیا کی ہر شے کے عوض کچھ بھی معاوضہ کے طور پر متاثرہ فرد کو دے سکتے ہیں ، اپنی حیثیت یا اس کی خواہش کے مطابق البتہ انسانی جان کابدلہ دنیا کی غالباً کوئی نہیں ہوسکتی۔یہ ایک انمول اور بے مثل ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ مہذب معاشروں میں انسانی جان کی حفاظت کیلئے ہر ممکن جتن کئے جاتے ہیں تاکہ لوگ امن اور سکون کی زندگی گزاز سکیں ۔جاہلانہ دور میں غریب کی زندگی کی حفاظت کا کوئی تصور نہیں ملتا ،ہر آسائش اور راحت صرف صاحبان ِ ثروت افراد کیلئے مخصوص تھی،تاہم جوں جوں انسانی معاشرے میں شعور بڑھا سب سے زیادہ قیمتی شے انسانی جان سمجھی جانے لگی۔ اسلام نے انسان کی بھلائی اس کی بہبود ، احترام سب سے مقدم کرکے ایک مثال قائم کردی جو رہتی دنیا تک رہے گی ۔ دنیا کو اس وقت سب سے زیادہ خطرہ انسان ہی کی وجہ سے انسان کو ہے جس کی وجہ سے لوگ سیکیورٹی کو بہتر بنانے کے اقدامات کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ موجودہ دور میں انسانوں کیلئے سب بڑا چیلنج ان کی حفاظت کا ہے ۔ پوری دنیا اسی میں مصروف او مضطرب ہے کہ کس طرح سے اس کو قائم کیاجاسکے۔دہشت گردی کی لہر نے اس میں گراں قدر اضافہ کرکے اس میں اور سنگینی پیدا کردی ہے ، زمانہ ہوا افراد کو اپنے روز مرہ کے معاملات کی انجام دہی میں سب سے زیادہ اس بابت فکر لاحق رہتی ہے کہ وہ باحفاظت کس طرح رہ سکتے ہیں ۔ پاکستان اس حوالے سے زیادہ متاثر نظر آتا ہے جہاں افغان جہاد سے سیکیورٹی کے مسائل بڑھے اور پھر 9/11کے بعد سے اس میں مزید تیزی آئی ۔دہشت اور انتہاپسندی کی عفریت نے مسائل میں اس قدر اضافہ کردیا کہ عمومی معاملات سے کر مذہبی معاملات کی انجام دہی میں دشواریا ں پیش آنے لگی ہیں ۔ محرم الحرام کے آتے ہیں ہمارے یہاں سیکیورٹی سے متعلق اقدامات کرنے کیلئے انتظامیہ کو فکر لاحق ہوجاتی ہے کہ وہ کون سے اقدامات کئے جائیں جس سے اس ماہ کا ابتدائی عشرہ بخیر و عافیت گرد جائے۔ 2009میں عاشورہ کے جلوس پر حملے نے انظامیہ کو سخت ترین انتظامات کی جانب پیش قدمی اشارہ دے دیا ہے چاہے اس دروان عزاداروں کو کتنی ہی صعوبتیں کیوں نہ برداشت کرنی پڑ جائیں ، یہ انتہائی نامناسب عمل ہے لیکن عاشورہ کے جلوس پر حملے کے بعد سے اس پر سالانہ کی بنیاد پر سختی سے عمل ہورہا ہے ۔گزشتہ چند برس سے سیکیورٹی کے مسائل ہمارے یہاں بہت زیادہ محسوس کئے جارہے ہیں ، کوئی بھی سیاسی یا مذہبی اجتماع ہو ، انتظامیہ کی جانب سے سیکیورٹی کے نام پر سکتی دیکھی جاسکتی ہے ، لوگوں کا ان تقریبات میں شرکت کرنا انتہائی مشکل امر بن جاتا ہے ، اجتماعات کے منتظمین کے واویلے کے باوجود حفاظت پر معمور افراد نرمی کرنے سے عاجز نظر آتے ہیں ۔ اس برس بھی محرم الحرام کی آمد سے قبل پاک آرمی ، رینجرز اور پولیس نے باہمی اشتراک سے ملک بھی بالخصوص کراچی میں سیکیورٹی پلان مرتب کیا تاکہ عشرہ اول خیریت سے گزر جائے ، اﷲ کے فضل و کرم اور سیکیورٹی اداروں کی کاوشوں سے عاشورہ کے جلوس اور عزادرمکمل طور پر محفوظ رہے تاہم یہ شکایت بہت زیادہ کی گئی کہ پورے عشرہ عزردار اور دیگر عام شہری کرب اذیت میں مبتلا رہے۔کراچی شہر میں کئی علاقے جو شہر کے مصروف ترین علاقے تصور کئے جاتے ہیں متاثرہوئے۔ مزار قئد کے قریب نشر پارک کے اطراف میں سولجر بازار ، خراسان روڈ، سپر ہائی وے سے متصل انچولی کا علاقہ ، نیشنل ہائی وے سے قریب ملیر ، جعفر طیار سوسائٹی ، ایم اے جناح روڈ کے عقب میں کھارادر ، اور یونیورسٹی کے پاس واقع گلستان ِ جوہر کا علاقہ، نیو رضویہ اور پرانی گولیما ر میں واقع پرانی رضویہ سوسائٹی جہاں عزارساری سے متعلق مجالس کا اہتمام ہوتا ہے اور ان مقامات پر شہر بھر سے لوگ شرکت کیلئے آتے ہیں ، عزاداروں کے تحفظ کے باعث عزاداروں سمیت عام افراد کو مسلسل دس روز مسائل کا سامنا رہا ، گو ٹریفک کا انتظام کرنے والوں نے بھر پور منصوبہ بندی کی اور پلان بھی متعارف کرایا تاہم سڑکوں کی حالت زار اور ناقص پلاننگ کی وجہ سے اسکا خاطر خواہ عوام کا نہ ہوسکا۔ پانچ محرم کی تاریخ سے حفاظتی حصار نے ان مشکلات میں اس قدر اضافہ کردیا کہ شہر بھر میں ایک جانب ٹریفک جام رہنے لگی تو دوسری جانب مجالس میں شرکت کرنے والے عزاداروں کو کئی کئی کلومیٹر پیدل کا سفر کرکے مجالس میں آنا پڑا ۔ نشتر پارک جہاں شہر کی سب بڑی اور دن کی سب سے ابتدائی مجلس کا اہتمام کیا جاتا ہے ، لوگوں کو یہاں پہنچنے میں انتہائی تکلیف کا سامنا کرنا پڑا ۔ نشتر پارک میں آٹھویں مجلس سے خطاب میں علامہ شہنشاہ حسین رضوی نے انتظامیہ سے بھی اس کا گلہ کیا کہ یہ اقدام عزاداروں کی مشکلات میں اضافے کا سبب بن رہے ہیں جونقص امن کا باعث بھی بن سکتے ہیں ، انھوں نے انتظامیہ کو نظر ِ ثانی کرنے کا کہا لیکن اس پر کوئی پیش رفت نہ کی گئی بلکہ روز عاشور نشتر پارک ہی سے نکلنے والے مرکزی جلوس کے اطراف میں بہت زیادہ سیکیورٹی کے نام پر سخت گیری کا مظاہر کیا گیا۔ عزاداروں کے جلوس میں داخلے کیلئے گزشتہ برسوں مختلف راستے دئے جاتے تھے اس بار وہ بھی سہولت فراہم نہیں کی گئی ، کیونکہ سیکیورٹی کا مسئلہ درپیش تھا۔
موبائل فون کی سروس کی بندش گو درست نہیں لیکن چونکہ 2009سے اب تک اس کا کوئی متبادل نہیں بنایا جاسکالوگ اس خفا ضرور ہیں البتہ کم شکوہ کرتے ہیں تاہم سیکیورٹی کے نام پر پورا شہر نبد کردینا ناانصافی کے ضمرے میں آتا ہے جس عزاداروں سمیت پورے شہر میں غصہ پایا جاتا ہے ۔

کراچی میں پولیس انتظام چلارہی ہے ، کئی برسوں سے رینجرز بھی شہر میں امن وامان کیلئے کوشاں ہے اور بوقت ِ ضرورت فوج بھی ان کے شانہ بشانہ کھڑی ہوجاتی ہے تاکہ حالات میں خرابی واقع نہ ہوجائے ، اور اب تو شہری انتظامیہ بھی کراچی کے معاملات سدھارنے کیلئے دوسال سے میدان کارزار میں ہے اس کے باوجود شہریوں کی تکالیف میں کمی آنے کی بجائے اضافہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہاں کچھ نہیں ہورہا۔ عیدالاضحی سے قبل طوفانی بارشیں کراچی کو ڈبوں گئیں ، محکمہ ء موسمیات نے پہلے سے خبردار کردیا تھا، سندھ حکومت اور شہری انتظامیہ نے غفلت کا مظاہرہ کیا ، کہہ سکتے ہیں کہ وقت کم ہوگا، انتظامات نہ ہوسکیں ہوں ، بات درست نہیں پھر بھی سمجھوتہ کر لیتے ہیں لیکن محرم الحرام کے پہلے عشرہ میں شہر بھر میں ہونے ولی سرگرمیاں قیام ِپاکستان سے تاحال جاری ہیں اور ان میں کمی آنے کی بجائے سال با سال تیزی آرتی جارہی ہے ، اس کا اداراک ہر اس شخص کو ہے جو کراچی کی فضا میں سانس لے رہا ہے اور زندگی بسر کررہا ہے ۔

سیکیورٹی کا مسئلہ پوری دنیا میں محسوس کیا جارہا ہے لیکن اس کا یہ مطلب بھی ہر گز نہیں کہ وہ سیکیورٹی سیکیورٹی ہی کھیلتے رہیں اور پورا پورا نظام سمیٹ کر بیٹھ جائیں۔ امریکا سمیت یورپ میں سیکیورٹی خدشات پائے جاتے ہیں ، دہشت گردی کے واقعات بھی رونما ہورہے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کی روز مرہ کے دیگر امور رک کردئے جائیں ، ان ممالک میں بھی عزاداری ہورہی ہے ،سڑک کے ایک جانب ماتمی جلوس بھی نکلتے ہیں ،دوسری جانب ٹریفک بھی رواں دواں ہوتی ہے ، ہمارے یہاں ایسا ہونا ناممکن اس لئے ہے کہ ہم میں عدم برداشت کا پہلو غیر واضح ہے ، ٹھیک ہے ہم سڑک کے ایک طرف ماتمی جلوس اوردوسری طرف ٹریفک کا نظام چلانے سے قاصر ہیں لیکن یہ بھی درست نہیں کہ جہاں تک ٹریفک کی روانی ممکن ہے وہاں تک تو شعوری اقدامات کرلیں ۔

ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم میں برداشت کی قوت کا فقدان ہے ، جس طرح کے حالات ہم پیدا کررہے ہیں اس سے اس کیفیت میں مزید اضافہ ہوگا۔ لوگ کب تک تکلیف برداشت کرسکتے ہیں ، سیاسی افراتفری کے باعث قوم مہنگائی سمیت کئی محاذوں پر مصروف ہے ، ہیجانی کیفیت کے باعث زندگی مسلسل متزلزل ہے ، ایسے میں آمدورفت کے مسائل بھی آڑے آگئے تو لوگ گتھم گتھا ہوجائیں گے ، معاشرے کی اکائی ویسے ہی ناپید ہوتی جارہی ہے ، مزید خرابی اس میں شدت اور سنگینی کا باعث ہوگی ۔ اتحاد بین المسلمین اور معاشرے میں قیام ِ امن کیلئے بہت ضروری ہے کہ اگلے برس کیلئے آج ہی سے منصوبہ بندی کرلی جائے تاکہ ہر فرد اپنے معالات میں سہل پسندی محسوس کرے ، انتظامیہ کا کام عوام کیلئے سہولیات کی فراہمی ہے ،ذمہ داری کو ذمہ داری سمجھا جائے ، اقتدار کا مطلب خدمت ہے ، عیاشی یا پہلو تہی نہیں ، شعور سے کام لیا جائے ، بے شعوری سے معاشرہ خراب ہونے کا خدشہ ہے ۔

Mujahid Shah
About the Author: Mujahid Shah Read More Articles by Mujahid Shah: 60 Articles with 43266 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.