یہاں سب بکتا ہے

صبح ناشتے کی میز پر بیٹھ کر اخبار کی شہ سرخیوں پر نظر ڈالو،فراغت کے اوقات میں OLX کی ویب سائٹ چیک کریں یا پھر ٹی۔وی کے اشتہارات کودیکھو تو یہی پتا چلتا ہے کہ یہاں سب بکتا ہے۔ چاہے وہ کسی کمپنی کا نیا موبائل ہو یا پھر 70'' انچ کی ایل۔سی۔ڈی، کہیں موٹر سایئکل بک رہا ہے تو کہیں پر جنریٹر، کسی ویب سائٹ پر کار بک رہی ہے اور کوئی اپنے گھر کا پرانا فرنیچر بھی یہاں بیچ رہا ہے اور مختلف کاسمیٹکس کمپنیوں کے اشتہارات میں عورت کی خوبصورتی ،رمضان کے مہینے میں لائیو ٹرانسمیشن میں مرد وزن کی عزت نفس بھی بکتی ہے ،تھانے کچہری میں جائیں تو کہیں تھانیدار بھی بک جاتا ہے اور انصاف بھی یہاں پر بکتا ہے خالی اسامیوں کے اشتہار ڈھونڈ ڈھونڈ کر انٹرویو کے لیے جائیں تو پتا چلتا ہے کہ یہاں پر نوکری بھی بکتی ہے، عوام کے ووٹوں سے اسمبلی میں آنے والے ممبر کو من پسند وزارت نہ ملے تو وہ اسمبلی ممبر بھی بکتا ہے اور ریمنڈ ڈیوس جیسا قاتل گرفتار ہو جائے تو سفیر اور وزیر بھی بکتا ہے اپنی قوم کو اسمبلی میں مکے دکھانے والا بہادر جرنیل عافیہ صدیقی کو امریکہ کو بیچ کر خود بھی بکتا ہے ، امریکہ بہادر سے اربوں ڈالر لے کر پاکستانوں کی عزت اور غیرت بھی بیچ دی جاتی ہے۔ غرض یہ کہ چیزوں کو بیچنے کی منڈیاں لگی ہوئی ہیں جہاں ہر قسم کا تاجر بھی موجود اور بکاؤ مال بھی موجود ۔لیکن کوئی چیزیں ایسی بھی ہیں جو ہماری ہیں لیکن انہیں کوئی اور بیچ رہا ہوتا ہے اور ہم بے بسی سے دیکھتے رہتے ہیں ہم ان کو بکنے سے نہیں روک سکتے کیونکہ بیچنے اور خریدنے والا دونوں طاقتور ہوتے ہیں اور جو روکنے والے ہوتے ہیں وہ بھی بک جاتے ہیں ۔ آئیے پہلے آپ کو ایک واقعہ سناتا ہوں بشیر خان شہر کے پر رونق چوک پر سبزیوں کی ریڑھی لگاتا ہے ، اور اس کے گزر بسر کا واحد ذریعہ یہی ریڑھی ہے اس کی سبزیا ں بھی اکثر شام تک بک جاتی ہیں اور کبھی کبھار وہ بچی کچھی سبزیاں سستے داموں بیچ کر گھر پہنچ جاتا ہے ایک دن اس کی ریڑھی کے پاس ایک صاحب کی گاڑی آکر رکی کیونکہ بشیر خان کی ریڑھی پر رکھی تازہ سبزیوں کی خوشبو ان صاحب کو اپنی طرف کھینچ لائی تھی۔ گاڑی سے کاٹن کے کلف لگے کپڑوں میں ملبوس ڈرائیور شاہانہ انداز میں باہر نکلا اور اپنی امارت کا رعب دکھانے کے لیے بشیر خان سے ساری سبزیاں خرید لیں اور چلتا بنا ۔ بشر خان کی تو گویا عید ہو گئی دن کو دو بجے وہ کام سے فارغ ہو گیا ۔ اگلے دن بشیر خان اپنی ریڑھی پر ترتیب سے سبزیاں رکھ رہا تھا کہ اس کو پھر صاحب بہادر کی گاڑی اپنی طرف آتی دکھائی دی بشیر خان دل ہی دل میں خوش ہو رہا تھا کہ آ ج تو 11 بجے ہی سبزی بک جائے گی، اس بیچارے کو کیا خبر تھی کہ یہاں پر اب سبزی نہیں بلکہ انسان بکنے والے ہیں۔ وہی ڈرائیور نئے سوٹ میں ملبوس باہر نکلا اور سیدھا بشیر خان کی طرف بڑھا اور اس کو مارنا شروع کر دیا کسی اجنبی نے بشیر خان کی خراب حالت دیکھ کر پولیس کو فون کر دیا پولیس پہنچی اور معاملہ کی اہم نوعیت دیکھ کر ادھر ہی بشیر خان کو انصاف فراہم کرنے کی سوچا لیکین تفتیش میں بشیر خان ملزم ثابت ہو گیا کیونکہ صاحب کے ڈرایؤر کا کہنا تھا کہ بشیر خان کے بیچے ہوئے دس کلو ٹماٹر میں سے کچھ ٹماٹر خراب نکلے ہیں ۔ بہرحال پولیس نے بشیر خان کو آئندہ کے لیے وارننگ دی اور صاحب کو مشورہ دیا کہ قانون ہاتھ میں نہ لیں اس سے بہتر ہے آپ ایف۔ آئی۔آر درج کروا دیں ۔ اس کے بعد مجھے وہاں بشیر خان نہیں نظر آیا ،بعد میں پتا چلا کہ بشیر خان دھوکہ دہی اور ناجائز تجاوزات کے جرم میں 6 ماہ حوالات میں بند رہا۔ اتنی جلدی انصاف ہوتا دیکھ کر میں نے دل ہی دل میں اپنے ملک کی عدالتوں اور انتظامیہ کا اکثر محفلوں میں ،،اچھے،، الفاظ میں تذکرہ کیا، کچھ ہی دن بعد ایم کیو ایم کے رہنماؤں پر غداری کے مقدمات بننا شروع ہوئے جناب الطاف حسین ،فاروق ستار ، وسیم اختر اور دیگر ملزمان کو اشتہاری قرار دیا گیا عدالت نے انتظامیہ کو اپنی عادت کے مطابق ان کو گرفتار کر کے پیش کرنے کا حکم دیا۔ اب روز عدالت لگتی ہے اور پولیس روز خالی ہاتھ آتی ہے اور جج صاحبان روز تاکید کرتے ہیں کہ ملزمان کو لایا جائے لیکن ملزمان پولیس کی سیکیورٹی میں روزانہ پریس کانفرنس کر کہ الزامات کا دفاع کرتے ہیں اسی طرح پرویز مشرف، آصف زرداری، یوسف گیلانی ، راجہ پرویز اشرف ، اور پنجاب کابینہ کے چند وزراء کے مقدمات میں جو انصاف ہماری عدالتیں اور انتظامیہ کر رہی ہے وہ بھی ہمارے سامنے ہے ۔ علامہ طاہر القادری اور جناب عمران خان صاحب پر بھی دھرنے کے دنوں میں غداری اور کار سرکار میں مداخلت کے مقدمے بنے تھے ان میں عدالتوں نے کب اور کیسے احکامات جاری کیے اور انتظامیہ نے کب ان کو گرفتار کرنے کی کوشش کی؟ بشیر خان تو دو خراب ٹماٹر بیچتے ہوئے اب ڈرتا ہے لیکن سانحہ ماڈل ٹاؤن، سانحہ بلدیہ فیکٹری، اور پی۔ٹی۔وی حملہ کیس کے معزز ملزمان پولیس کی سیکیورٹی میں عدالتوں کے سامنے سے گزرتے ہیں۔ کیونکہ یہاں سب بکتا ہے عقلمند سمجھ گے ہوں گئے کہ یہاں کیا کیا بکتا ہے؟

Shahid Mehmood
About the Author: Shahid Mehmood Read More Articles by Shahid Mehmood: 23 Articles with 18443 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.