آخر کار مملکت سعودی عرب میں خواتین کو ایک بڑی کامیابی
حاصل ہوہی گئی، کم و بیش 25سال کی جدوجہد کے بعد سعودی خواتین کوڈرائیونگ
کی اجازت مل چکی ہے۔ماضی میں خادم الحرمین الشریفین شاہ فہدبن عبدالعزیز
اور خادم الحرمین الشریفین شاہ عبداﷲ بن عبدالعزیز کے دور حکمرانی میں
خواتین نے کافی جدوجہد کی لیکن انہیں ڈرائیونگ کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔
موجودہ فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت دے
کر دنیا کو حیران کردیاہے۔ سعودی خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت دینے کے بعد
اب مملکت میں خواتین کیلئے روزگار کے سلسلہ میں کئی راہیں کھلیں گی۔ سمجھا
جارہا ہے کہ شاہی حکومت ملک کی معیشت کو مدّنظر رکھکر یہ فیصلہ کیا ہو۔
کیونکہ گذشتہ دو برس سے مملکت کا بجٹ خسارہ میں بتایا جارہا ہے اور اربوں
ڈالرس سعودی عرب اپنے دفاعی اخراجات کے لئے خرچ کررہا ہے۔ مشرقِ وسطیٰ میں
دہشت گردی میں اضافہ کے علاوہ خود سعودی عرب کا یمن کی جنگ میں صدر عبدربہ
منصور ہادی کی حکومت کوبچانے کا فیصلہ کتنا فائدہ مند یا نقصاندہ ہے اس کا
اندازہ شاہی حکومت کو ہوچکا ہے۔ مملکت میں روزگار کے سلسلہ میں مقیم ہندو
پاک و دیگر ممالک کے تارکین وطنوں کو گذشتہ چند برسوں کے دوران ملازمتوں سے
محروم کرکے انکے ملکوں کو واپس بھیجنے کی کوششیں جاری ہیں۔ہزاروں ہند وپاک
کے تارکین وطنوں کو کئی کئی ماہ کے تنخواہوں سے محروم کردیا گیا۔ کئی اعلیٰ
تعلیم یافتہ ، قابل ، تجربہ کار افراد کو ملازمتوں سے بے دخل کیا گیا جو
مجبوراً اپنے وطن واپس ہوگئے یا پھر کم تنخواہوں پر دوسری جگہ ملازمت کو
ترجیح دینے پر مجبور ہونا پڑا۔سعودی شاہی حکومت اپنے شہریوں ملازمت کے
سلسلہ میں مختلف سہولیات فراہم کرتی ہے جبکہ دوسرے ممالک کے ملازمین کے
ساتھ اس کا رویہ کچھ ہوتا ہے۔ گذشتہ چند برسوں کے دوران تارکین وطنوں کو
مختلف قسم سے تنگ کیا جاتا رہا ہے جسکی وجہ سے لاکھوں کی تعداد میں ہندو
پاک کے شہری اپنے اپنے ملکوں کو لوٹ چکے ہیں۔سعودی بچوں کو مفت تعلیمی
مواقع فراہم کئے جاتے ہیں جبکہ دیگر ممالک کے بچوں کیلئے تعلیمی اخراجات بے
تحاشہ ہیں۔ہر شعبہ ہائے حیات سے تعلق رکھنے والے تارکین وطنوں کو شاہی
حکومت روزگار سے سبکدوش کرنا چاہتی ہے تاکہ انکی جگہ سعودی شہریوں کو مواقع
فراہم ہوسکیں۔
اب خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت دینے کے بعد سمجھا جارہا ہے کہ اس کی وجہ
سے 20لاکھ سے زائد ہاؤز ڈرائیورس کی نوکری خطرہ میں پڑگئی ہے اور ہوسکتا ہے
کہ عنقریب ان میں سے بڑی تعداد کو نوکریوں سے فارغ کردیا جائے گا۔ موجودہ
فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز کا دور تارکین وطنوں کے لئے سب سے بُرا
دور سمجھا جارہا ہے۔ نئے قوانین کی رو سے بے تحاشہ معاشی بوجھ کی وجہ سے
لاکھوں تارکین وطنوں کو انکے افرادِ خاندان کے ساتھ رہنے سے محروم کردیا
جارہا ہے۔ لیبر کارڈ کی فیس میں بے تحاشہ اضافہ، اقامہ کی فیس میں اضافہ کے
علاوہ ماہانہ فیس، اور مملکت میں رہنے والے ہر غیر ملکی شہری کو ٹیکس کی
ادائیگی لازمی قرار دے دی گئی ہے۔جس کا اطلاق 2018سے ہوگا یعنی پہلے سال
100ریال ماہانہ، دوسرے سال یعنی 2019میں 200ریال ماہانہ اور 2020میں
400ریال ہر ماہ دینے ہونگے۔نئے قوانین کے مطابق پانچ ہزار سے کم تنخواہ
لینے والے شخص کو ڈرائیونگ لائسنس نہیں دیا جائے گا۔مشرقِ وسطیٰ کے حالات
اور تیل کی قیمتوں کے عالمی بحران کے بعد سے سعودی شاہی حکومت اپنے معاشی
مسائل کو کم کرنیکے لئے غیر معمولی اقدامات کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے۔اس
ضمن میں جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہیکہ سب سے بڑی حکمت عملی غیر ملکیوں کو
مملکت سے نکال کر سعودی شہریوں کو زیادہ سے زیادہ ملازمتیں فراہم کرنا ہے ۔
سعودی عرب کی تعمیر و ترقی میں غیر ملکیوں نے اہم رول ادا کیا ہے۔ مملکت
میں 2000ء کے بعد سے ہی تارکین وطن کو نکالنے کی کوششوں کا آغاز ہوا ۔لیکن
اس پر عمل اس لئے ممکن نہ ہو سکا کیونکہ اکثر و بیشتر سعودی شہری ملازمت کے
اوقات اپنے فرائض منصبی کو پوری طرح ادا کرنہیں پاتے۔ہندو پاک سے تعلق
رکھنے والوں کی بڑی تعداد ڈرائیونگ کے شعبے سے بھی وابستہ ہے ان کی بھاری
اکثریت سعودی گھروں میں ڈرائیور ہیں جہاں ان کی بنیادی ذمہ داری گھریلو
خواتین اور بچوں کو اسکول و دیگر مقامات پر لانا لیجانا ہے۔ تجزیہ نگاروں
کا ماننا ہے کہ اب خواتین خود ڈرائیونگ کریں گی تو ان کے لئے خانگی شعبہ
میں ملازمتیں اختیار کرنا آسان ہوجائے گاکیونکہ وہ خود ہی گاڑی چلا کر اپنے
دفتر یا ادارہ کو پہنچ سکیں گی اس طرح ان کا ایک بڑا مسئلہ حل ہوجائے گا۔
مملکت میں لڑکیوں اورخواتین کی تعلیم پر خصوصی دلچسپی دی جاتی ہے ہزاروں
تعلیم یافتہ خواتین اب ملازمت کی جانب مائل ہونگی جو پہلے آمد و رفت کی
مشکلات کی وجہ سے اس میں دلچسپی نہیں رکھتی تھیں۔خواتین کو ڈرائیونگ کی
اجازت سے سعودی معیشت کو استحکام حاصل ہوگا اور سالانہ کئی ارب درہم کی بچت
ہوسکتی ہے، اب خواتین خود اپنے بچوں کو اسکول چھوڑ سکتی ہیں ، اور دیگر
ضروریات زندگی کے لئے ڈرائیونگ کرتے ہوئے اپنے باہر کے کام نمٹا سکتی
ہیں۔اس طرح تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ سعودی خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت
دینا سیاسی ، معاشرتی یا انسانی حقوق سے زیادہ معاشی معاملہ ہے، جس کے
نتائج سعودی معیشت کے لئے تو بہتر ثابت ہونگے لیکن اس سے لاکھوں غیر ملکی
باشندے جو ڈرائیوس کی حیثیت سے ملازمتوں پر فائز تھے محروم ہوجائیں گے۔خیر
اﷲ رب العزت سعودی عرب سے بہتر ذرائع فراہم کرسکتا ہے اسکی رحمت و فضل کرم
سے کسی کو مایوس ہونے کی ضرورت نہیں۔
نئے قوانین کے مطابق اب خواتین کے کالج اور یونیورسٹیوں میں مرد اجنبیوں کا
داخلہ بند ہوجائے گا۔ ٭شاہی فرمان کے مطابق خواتین کیلئے برقع تو لازمی ہے
لیکن انہیں اختیار ہوگاکہ وہ نقاب کریں یا نہ کریں۔ جسطرح ان دنوں مملکت
میں سوپر مارکیٹس پر دیگر ممالک کے افراد خدمات انجام دے رہے ہیں اب سوپر
مارکیٹس پر کوئی غیر ملکی شہری نہیں ہوگا بلکہ صرف سعودی شہری ہی کام
کرسکیں گے۔٭2018ء سے سعودی عرب اسلامی کیلینڈر سے انگریزی کیلنڈر پر مشتمل
ہوجائے گا۔ ٭2018سے سے چھٹی جانے والے افراد کے لئے خروج و عودہ ایئر پورٹ
پر ہی لگاکرے گی ۔ سب سے اہم فیصلہ جو کیا گیا ہے وہ یہ کہ اب کفیل اپنے
مکفول کا پاسپورٹ اپنے پاس نہیں رکھے سکیں گے۔ ٭نئے قانون کے مطابق گردن
زدنی کی سزا معطل اور تاحکم ثانی رہے گی۔اب دیکھنا ہے کہ شاہی حکومت کی
جانب سے جو نئے قوانین وضع کئے گئے ہیں اس کی تائید اور مخالفت میں کس قسم
کے خیالات منظرعام پر آتے ہیں۔ سعودی عرب میں اسلامی قوانین کا لزوم ہے اور
ان دنوں مشرقِ وسطی کے حالات نے سعودی عرب کی معیشت کو بُری طرح متاثر کیا
ہوا ہے۔ شاہی حکومت جس طرح خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت دیکر لاکھوں خواتین
کو خوش کرنے کی کوشش کی ہیں وہیں کئی سعودی شہری ایسے ہیں جو نہیں چاہتے کہ
خواتین ڈرائیونگ کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئیں۔شاہی حکومت کے اس فرمان کے
بعد ہوسکتا ہے کہ کئی گھروں میں خاندانی جھگڑوں میں اضافہ ہو۔ کیونکہ بیوی
ڈرائیونگ کرنا چاہئیں گی اور شوہر اس کی اجازت نہیں دے گا۔خواتین کی
ڈرائیونگ کی وجہ سے حادثات میں بھی اضافہ ہوسکتا ہے اور اس سے نمٹنے کے لئے
خواتین پولیس کا انتظام بھی ضروری ہوجائے گا۔
مملکت میں انجینئرنگ کا شعبہ اور غیر ملکیوں کیلئے روزگار۰۰۰
آج کل ہندوپاک میں انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کرنے والے نوجوانوں میں مسلسل
اضافہ ہوتا جارہاہے ۔ اکثر و بیشتر مسلم نوجوان اپنے ملک میں نوکری کرنے کے
بجائے مشرقِ وسطیٰ خصوصاً سعودی عرب میں نوکری کرنے کو ترجیح دیتے ہوئے
سعودی عرب کا ویزا حاصل کرنے کی جستجو میں نظر آتے ہیں لیکن انہیں کیا پتہ
کہ سعودی عرب کی شاہی حکومت ان کے لئے اپنی زمین تنگ کررہی ہے۔سعودی عرب سے
شائع ہونے وائے انگریزی اخبار سعودی گزٹ کے مطابق سعودی کونسل آف انجینئرز
نے اعلان کیا ہیکہ یکم؍ جنوری 2018سے صرف وہی انجینئر سعودی عرب میں ملازمت
حاصل کرسکیں جنکے پاس کم از کم پانچ سال کا تجربہ ہوگا۔ ذرائع ابلاغ کے
مطابق سعودی عرب میں کام کرنے والی کمپنیوں کو بھی حکم جاری کردیا گیا ہے
کہ غیر ملکی انجینئروں کی قابلیت جانچنے کیلئے ایک پروفیشنل ٹیسٹ لیا جائے
گا جبکہ انٹرویو بھی ہوگا۔ اس سے قبل سعودی کونسل آف انجینئرز کی جانب سے
تجربے کی شرط تین قال کی تھی جس کی بنیاد پر پروفیشنل ٹیسٹ اور انٹرویو لیا
جاسکتا تھا۔ حکام کا کہنا ہیکہ اس فیصلے کا مقصد سعودی انجینئروں کو
ملازمتوں کے بہتر مواقع فراہم کرنا ہے تاکہ سعودی یونیورسٹیوں سے فارغ
التحصیل ہونے والے نوجوان انجینئرز اپنے مطلوبہ شعبے میں تجربہ حاصل کرنے
کے مواقع حاصل کرسکیں۔ اب ایسے افراد کیلئے خطرے میں مزید اضافہ ہوگیا ہے
جو جعلی اسنادات کے ذریعہ نوکری کے متلاشی ہوتے ہیں انہیں خبردار کیا گیا
ہے کہ نتائج کے وہ خود ذمہ دار ہونگے۔
عراق میں اجتماعی پھانسیوں کی نئی لہر۰۰۰
عراقی حکومت کی جانب سے گذشتہ دنوں وزارت انصاف و قانون کے حکم پر 42
قیدیوں کو اجتماعی طور پر بھانسی دیئے جانے کے بعد اقوام متحدہ نے شدید
تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق عراقی حکومت جیلوں میں قید
مزید افراد کو اجتماعی طور پر تختہ دار پر لٹکانے کی مصنوبہ بندی کرسکتی
ہے۔عرب ٹی وی کے مطابق اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق شہزادہ
زید بن رعد الحسین نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ عراق میں حکام نے 42 قیدیوں
کو بے دردی کے ساتھ اجتماعی انداز میں پھانسی کے گھاٹ اتار دیا۔ انہوں نے
کہا کہ قیدیوں کو مشکوک انداز میں پھانسی دینے، ان کے شفاف ٹرائل نہ ہونے
اور قانونی کارروائی کی تکمیل کے بغیر قیدیوں کو قتل کرنے سے عالمی ادارے
کی تشویش میں اضافہ ہوگیا ہے۔انہوں نے کہا کہ عراقی حکام کی طرف سے ایک ہی
دن میں 42 قیدیوں کو پھانسی دینے کے واقعے نے انہیں ہلا کر رکھ دیا۔ رعد
الحسین کا کہنا ہے کہ انہیں یہ اطلاعات ملی ہیں کہ عراقی حکومت سزائے موت
کے قیدیوں کوعاجلانہ انداز میں موت کے گھاٹ اتارنے کی تیاری کررہی ہے۔ آنے
والے ہفتوں میں مزید دسیوں قیدیوں کو موت کے گھاٹ اتارا جاسکتا ہے۔گذشہ ماہ
کے اوئل میں عراقی وزارت انصاف کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا تھا
کہ دہشت گردی کی کارروائیوں میں سزائے موت پانے والے 7 غیرملکی دہشت گردوں
کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ہے۔اس طرح عراقی حکومت اجتماعی پھانسیوں کے
ذریعہ جلد از جلد جیلوں میں قید افراد کو ختم کرنا چاہتی ہے تاکہ حکومت کے
خلاف مستقبل میں کوئی احتجاج نہ ہو جو عراقی حکومت کی خام خیالی ہوسکتی ہے
اگر عراقی حکومت اس طرح اجتماعی پھانسیاں دیں گی تو اس کے خلاف سخت احتجاج
ہوسکتا ہے اور ملک میں پھر ایک مرتبہ حالات خراب ہوسکتے ہیں۔
***
|