بسم اﷲ الرحمن الرحیم
آفاقی حقیقتوں میں سے ایک بڑی حقیقت زمین کا کانپنا یعنی زلزلہ ہونا
ہے،ابتدائی زمانہ سے آج تک اس کے بارے میں ہر قوم و مذہب کے پیروکاروں کے
مختلف نظریات چلے آرہے ہیں،اس حوالے سے ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق عیسائی
پادریوں کا خیال تھا کہ زلزلے خدا کے باغی اور گنہگار انسانوں کے لئے
اجتماعی سزا اور تنبیہ ہوتے ہیں.........جب کہ بعض قدیم قوموں کانظریہ تھا
کہ زیر زمین رہنے والے مافوق الفطرت قوتوں کے مالک دیوہیکل درندے زلزلے
پیدا کرتے ہیں..........اسی طرح قدیم جاپانیوں کا عقیدہ تھا کہ ایک طویل ِالقامت
چھپکلی زمین کو اپنی پشت پر اُٹھائے ہوئے ہے اور اس کے ہلنے سے زلزلے آتے
ہیں.......... کچھ ایسا ہی نظریہ امریکی ریڈ انڈینز کا بھی تھا کہ زمین ایک
بہت بڑے کچھوے کی پیٹھ پر دھری ہے اور کچھوے کے حرکت کرنے سے زلزلے آتے ہیں...........
دوسری طرف سائیبیریا کے قدیم باشندے زمین پر ہونے والے زلزلوں کی ذمّہ داری
ایک قوی البحثّہ برفانی کتے کے سر تھوپتے ہیں، جو ان کے بقول جب اپنے بالوں
سے برف جھاڑنے کے لئے جسم کو جھٹکے دیتا ہے تو زمین لرزنے لگتی ہے............جب
کہ ہندو مت کے مطابق زمین ایک گائے کے سینگوں پر رکھی ہوئی ہے، جب وہ سینگ
تبدیل کرتی ہے تو زلزلے آتے ہیں۔
اسی طرح قدیم یونانی فلسفی اور ریاضی داں فیثا غورث کا خیال تھا کہ جب زمین
کے اندر مُردے آپس میں لڑتے ہیں تو زلزلے آتے ہیں۔ اس کے برعکس ارسطو ک
تھیوری کسی حد تک سائنسی معلوم ہوتی ہے، وہ کہتا ہے کہ جب زمین کے اندر گرم
ہوا باہر نکلنے کی کوشش کرتی ہے تو زلزلے پیدا ہوتے ہیں،جب کہ افلاطون کا
نظریہ بھی کچھ اسی قسم کا تھا کہ زیرِ زمین تیز و تند ہوائیں زلزلوں کو جنم
دیتی ہیں۔
تاہم سائنسی ترقی کے اس نئے دور میں تقریباً 70 سال پہلے سائنسدانوں کا
خیال تھا کہ زمین ٹھنڈی ہورہی ہے اور اس عمل کے نتیجے میں اس کا غلاف کہیں
کہیں چٹخ جاتا ہے، جس سے زلزلے آتے ہیں۔ اس کے برعکس کچھ دوسرے سائنسدانوں
کا کہنا تھا کہ زمین کے اندرونی حصّے میں آگ کا جہنم دہک رہا ہے اور اس بے
پناہ حرارت کی وجہ سے زمین غبارے کی طرح پھیلتی ہے۔ لیکن آج کا سب سے مقبول
نظریہ ''پلیٹ ٹیکٹونکس'' کا ہے جس کی معقولیت کو دنیا بھر کے جیولوجی اور
سیسمولوجی کے ماہرین نے تسلیم کرلیا ہے۔
اس نظریہ کے مطابق ماہرین ارضیات نے زلزلوں کی دو بنیادی وجوہات بیان کی
ہیں ایک وجہ زیر زمیں پلیٹوں (فالٹس) میں ٹوٹ پھوٹ کا عمل ہے اور دوسری آتش
فشاں کا پھٹنا بتایا گیا ہے. زمین کی بیرونی سطح کے اندر مختلف گہرائیوں
میں زمینی پلیٹیں ہوتی ہیں جنہیں ٹیکٹونک پلیٹس کہتے ہیں۔ ان پلیٹوں کے
نیچے ایک پگھلا ہوامادہ جسے میگما کہتے ہیں موجود ہوتا ہے.میگما کی حرارت
کی زیادتی کے باعث زمین کی اندرونی سطح میں کرنٹ پیدا ہوتا ہے جس سے ان
پلیٹوں میں حرکت پیداہوتی ہے اور وہ شدید ٹوٹ پھوت کا شکار ہوجاتی
ہیں.ٹوٹنے کے بعد پلیٹوں کا کچھ حصہ میگما میں دہنس جاتا ہو اور کچھ اوپر
کو ابھر جاتا ہے جس سے زمیں پر بسنے والی مخلوق سطح پر ارتعاش محسوس کرتی
ہے. زلزلے کی شدت اور دورانیہ کا انحصار میگما کی حرارت اور اسکے نتیجے میں
پلیٹوں میں ٹوٹ پھوٹ کے عمل پر منحصر ہے۔
یاد رہے کہ ہر چیزاپنے وجود کے اعتبار سے روحانی اور مادی ہر دو پہلو رکھتی
ہے،اس لیے جہاں زلزے کے وقوع پذیر ہونے کے ظاہری اسباب کے حوالے سے آگاہی
اہم ہے وہاں اس کا مذہبی اور روحانی پس منظر جاننا بھی ضروری ہے،کیونکہ
اسلام نے مادی اسباب اور زمینی حقائق کو تسلیم کرتے ہوئے طاقت کے اصل منبع
خالق ارض و سما کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیا ہے، چونکہ جہانوں کے مالک اﷲ
کریم کی منشاء کے بغیر ان کا وقوع ہونا ناممکن ہے،اسی لییزلزلہ کے ذریعہ
سابقہ امتوں کو عذاب دیا گیا،ارشاد باری تعالیٰ ہے، اسی طرح حضرت موسیٰ
علیہ السلام کی قوم پر عذاب آیا، حیلے حوالے اور کٹ حجتی کی وجہ سے(
فَلَمَّا أخذتہم الرجفُۃ )پس جب ان کو زلزلے نے آدبوچا اﷲ نے ان کو وہیں
ہلاک کردیا۔الاعراف:(155)
جب کہ وقوع قیامت بھی زلزلہ کی صورت میں ہو گا،ارشاد باری تعالیٰ ہے،جب
زمین اپنی پوری شدت کے ساتھ ہلا ڈالی جائیگی: (سورۃ الزلزال۔ آیۃ ۱) اسی
طرح حضرت ابو ہریرہؓ راویت فرماتے ہیں کہ سرکارِ دو عالم صلی اﷲ علیہ وسلم
نے ارشاد فرمایا: (جب مندرجہ ذیل باتیں دنیا میں پائی جانے لگیں) تو اس
زمانہ میں سرخ آندھیوں اور زلزلوں کا انتظار کرو، زمین میں دھنس جانے اور
صورتیں مسخ ہوجانے اور آسمان سے پتھر برسنے کے بھی منتظر رہو اور ان عذابوں
کے ساتھ دوسری ان نشانیوں کا بھی انتظار کرو جو پے در پے اس طرح ظاہر ہوں
گی، جیسے کسی لڑی کا دھاگہ ٹوٹ جائے اور لگاتار اس کے دانے گرنے لگیں (وہ
باتیں یہ ہیں)
۱- جب مالِ غنیمت کو گھر کی دولت سمجھا جانے لگے۔
۲- امانت دبالی جائے۔
۳- زکوۃ کو تاوان اور بوجھ سمجھا جانے لگے۔
۴- علم دین دنیا کے لیے حاصل کیا جائے۔
۵- انسان اپنی بیوی کی اطاعت کرے اور ماں کی نافرمانی کرے۔
۶- دوست کو قریب کرے اور اپنے باپ کو دور کرے۔
۷- مسجدوں میں شور وغل ہونے لگے۔
۸- قوم کی قیادت، فاسق وفاجر کرنے لگیں۔
۹- انسان کی عزت اِس لیے کی جائے؛ تاکہ وہ شرارت نہ کرے۔
۰۱- گانے بجانے کے سامان کی کثرت ہوجائے۔
۱۱- شباب وشراب کی مستیاں لوٹی جانے لگیں۔
۲۱- بعد میں پیدا ہونے والے،امت کے پچھلے لوگوں پر لعنت کرنے لگیں۔
(سنن الترمذی، رقم: ۱۱۲)
لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم بحیثیت مسلمان زلزلوں کے زمینی اسباب وحقائق
سے بالاتر ہوکر ان کے پے درپے بپا ہونے سے عبرت اور سبق حاصل کرنا
چاہیے،اور اﷲ کریم کی طرف سے دی ہوئی مہلت کو غنیمت جانتے ہوئے رجوع الی اﷲ
کا اہتمام کرتے ہوئے دعا،استغفار، اعمال صالحہ،ترک معاصی،صدقہ اورخیرات کے
ذریعے آخرت کی لامتناہی زندگی کا سامان کرلینا چاہیے۔ |