’’اہل بیت‘‘ لغت میں ’ ’گھر کے افراد ‘‘ کو کہتے ہیں
اور اصطلاحِ شریعت میں اس لفظ کا اطلاق حضورِ اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم کے گھر
کے افراد پر ہوتا ہے۔ ’’اہل بیت ‘‘ کی تعیین میں مختلف روایات مروی ہیں ،
ایک طرف تو وہ روایتیں ہیں کہ جن سے بنو ہاشم اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم
کے اہل و عیال پر ’’اہل بیت‘‘ کا اطلاق ہوتا ہے، اور دوسری طرف وہ روایتیں
ہیں کہ جن سے ’’اہل بیت‘‘ کا مصداق صرف حضرت علیؓ حضرت فاطمہؓ حضرت حسنؓ
اور حضرت حسینؓ معلوم ہوتے ہیں، اس لئے علماء کرام نے ان دونوں قسم کی
روایات میں تطبیق یوں بٹھائی ہے کہ ’’بیت‘‘ کی تین نوعیتیں ہیں: (۱)بیت نسب
(۲)بیت سکنی (۳)بیت ولادت۔ پس بنو ہاشم یعنی جناب عبد المطلب کی اولاد کو
تو نسب اور خاندان کے اعتبار سے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا ’’اہل بیت‘‘
کہا جائے گا۔ اور ازواجِ مطہرات کو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا ’’اہل بیت
سکنی‘‘ (اہل خانہ) کہا جائے گا۔ اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی اولاد کو
’’اہل بیت ولادت‘‘ کہا جائے گا۔ (مظاہر حق جدید شرح مشکوٰۃ شریف: (بحذف و
تغیر) ۴۰۲/۵)
امام فخر الدین رازی ؒ فرماتے ہیں کہ یہ کہنا زیادہ بہتر اور اولیٰ ہے کہ
’’اہل بیت‘‘ کا مصداق آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات اور اولاد
ہیں اور ان میں امام حسنؓ اور امام حسینؓ بھی شامل ہیں، نیز حضرت علی
المرتضیٰ کرم اﷲ وجہہ بھی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے خصوصی نسبت و تعلق
اور خانگی قرب رکھنے کے سبب اہل بیت میں داخل ہیں۔تاہم بعض خاص مواقع پر
اہل بیت‘‘ کا اطلاق حضرت علیؓ حضرت فاطمہؓ حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ پر ہوا
ہے ، جیساکہ ترمذی شریف کی ایک روایت سے مترشح ہوتا ہے ۔ (تفسیر کبیر)
نیز اگرچہ ’’اہل بیت‘‘ کا اطلاق آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے تقریباً تمام ہی
مذکورہ بالا اہل و عیال پر ہوتا ہے، لیکن ان سب میں حضرت علیؓ ؓ حضرت فاطمہؓ
حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ کو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے جو خاص فضل و شرف
اور کمال درجہ کا قرب و تعلق حاصل تھا ، اوران کے فضائل و مناقب جس کثرت سے
ذخیرۂ احادیث میں وارد ہوئے ہیں اُس بناء پر ’’اہل بیت‘‘ کا خصوصی و
امتیازی مصداق صرف یہی مذکورہ چار حضرات ہیں۔ (مظاہر حق جدید شرح مشکوٰۃ
شریف (بحذف و تغیر) ۴۰۳/۵)
اس میں شک نہیں کہ جس طرح ’’اہل بیت اطہار‘‘ سے محبت و عقیدت رکھنا، اُن کی
تعظیم و توقیر بجالانا ایمان کی معراج کہلاتا ہے، تو اسی طرح اُن سے بغض و
نفرت نہ رکھنااور اُن کی توہین و تذلیل نہ کرناضعف ایمان کہلاتا ہے۔
حضورِ اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے ’’ اہل بیت اطہار ‘‘ کے ساتھ نیک اور
عمدہ سلوک کرنے والے کو پسند فرمایا ہے اور ان کے ساتھ برا اور غلط سلوک
کرنے والے کو ناپسند فرمایا ہے۔ چنانچہ حضرت زید بن ارقم رضی اﷲ عنہ سے
روایت ہے کہ رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت علیؓ حضرت فاطمہؓ حضرت
حسنؓ اور حضرت حسینؓ کے حق میں ارشاد فرمایاکہ: ’’جو کوئی ان سے لڑے گا میں
اُس سے لڑوں گا، اور جوکوئی اِن سے مصالحت رکھے گا میں اُس سے مصالحت رکھوں
گا۔‘‘ (جامع ترمذی)
حضرت جُمیع بن عمیر رحمۃ اﷲ علیہ کہتے ہیں کہ (ایک دن)میں اپنی پھوپھی کے
ساتھ اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا تو
میں نے پوچھاکہ: ’’رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو سب سے زیادہ محبت کس سے
تھی؟۔‘‘ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا نے فرمایاکہ: ’’حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا سے
۔‘‘ پھر میں نے پوچھا: ’’اور مردوں میں سب سے زیادہ محبت کس سے تھی؟۔‘‘
حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا نے فرمایاکہ: ’’ فاطمہ ؓکے شوہر (حضرت علی المرتضیٰ
کرم اﷲ وجہہ) سے۔‘‘(جامع ترمذی)
حضرت مسور بن مخرمہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے
ارشاد فرمایا کہ: ’’فاطمہؓ میرے گوشت کا ٹکڑا ہے، جس نے فاطمہؓکو خفا کیا
اُس نے مجھے خفا کیا۔‘‘ (بخاری ومسلم)
حضرت براء بن عازب رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم
کو اس حال میں دیکھا کہ حضرت حسن رضی اﷲ عنہ آپؐ کے کندھے پر سوار تھے اور
آپؐ فرمارہے تھے: ’’اے اﷲ! میں اس سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت
کر!۔‘‘ (بخاری و مسلم)
اسی طرح حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اﷲ صلی اﷲ
علیہ وسلم کے ساتھ دن کے ایک حصہ میں باہر نکلا، جب آپ ؐ حضرت فاطمہ رضی اﷲ
عنہا کے گھر میں پہنچے تو پوچھا: ’’کیا یہاں ’’منا‘‘ ہے؟ کیا یہاں ’’منا‘‘
ہے؟۔‘‘آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی مراد حضرت حسن رضی اﷲ عنہ تھے۔ ابھی آپ ؐنے
چند ہی لمحے گزارے تھے کہ حضرت حسن ؓ آپ ؐ کے گلے سے اور آپ ؐ حضرت حسن ؓ
کے گلے سے لپٹ گئے، اور پھر آپؐ نے ارشاد فرمایاکہ: ’’اے اﷲ! میں اس سے
محبت کرتا ہوں، پس تو بھی اس سے محبت کر، اور جو اس سے محبت کرے تو اُس سے
بھی محبت کر!۔‘‘ (بخاری و مسلم)
حضرت ابوبکرہ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دن میں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ
وسلم کو اس حال میں منبر پر (خطبہ دیتے ہوئے ) دیکھا کہ حضرت حسن رضی اﷲ
عنہ آپؐ کے پہلو میں تھے، کبھی تو آپؐ (وعظ و نصیحت میں تخاطب کے لئے)
لوگوں کی طرف دیکھتے اور کبھی ( محبت اور پیار بھری نظروں سے ) حضرت حسن
رضی اﷲ عنہ کی طرف دیکھتے، اور فرماتے کہ: ’’میرا یہ بیٹا سید ہے، اُمید ہے
کہ اﷲ تعالیٰ اس کے ذریعے مسلمانوں کے دو بڑے گروہوں کے درمیان صلح کرائے
گا۔‘‘(صحیح بخاری)
حضرت عبد الرحمن بن ابی نعم رحمۃ اﷲ علیہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عبد اﷲ
بن عمر رضی اﷲ عنہما سے سنا ، جب کہ (اہل کوفہ میں سے) کسی شخص نے اُن سے
’’مُحرِم‘‘ کے بارے میں پوچھا تھا (اس روایت کو حضرت عبد الرحمن سے روایت
کرنے والے راوی) شعبہ کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ پوچھنے والے نے ’’مکھی‘‘
کو مار ڈالنے کا حکم دریافت کیا تھا۔ اس پر حضرت ابن عمر رضی اﷲ عنہما نے
فرمایا : ’’عراق یعنی کوفہ کے لوگ مجھ سے مکھی مارڈالنے کے بارے شرعی حکم
دریافت کرتے ہیں، حالاں کہ اُنہوں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے نواسے کو
مار ڈالا ہے، جن کے بارے میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ فرما یا
تھاکہ: ’’یہ دونوں (حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ) میری دُنیا کے دو پھول
ہیں۔‘‘(صحیح بخاری)
حضرت ابو سعید خدری رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے
ارشاد فرمایاکہ: ’’حسنؓ اور حسینؓ دونوں جنت کے جوانوں کے سردار ہیں۔‘‘
(جامع ترمذی)
حضرت اُسامہ بن زید رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں کہ میں ایک دن رات میں اپنی کسی
ضرورت سے نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی اﷲ
علیہ وسلم (اپنے گھر کے اندر سے ) اس حال میں باہر تشریف لائے کہ کسی چیز
کو اپنے ساتھ لپیٹے ہوئے تھے اور میں نہیں جانتا تھا کہ وہ کیا چیز تھی،
پھر جب میں اپنی ضرورت کو عرض کرچکا تو پوچھا کہ یہ کیا چیز آپ نے لپیٹ
رکھی ہے؟۔‘‘ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اُس چیز کو کھولا تو کیا دیکھتا ہوں کہ
وہ حسنؓ و حسینؓ ہیں جو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی دونوں کوکھوں پر تھے(یعنی
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان دونوں کو گود میں لے کر چادر سے لپیٹ رکھا
تھا)اور پھر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایاکہ: ’’یہ دونوں (حکماً) میرے
بیٹے ہیں (کہ نواسے بھی بیٹے ہی ہوتے ہیں)اور (حقیقتاً) میری بیٹی (حضرت
فاطمہ رضی اﷲ عنہا) کے بیٹے ہیں۔ اے اﷲ! میں ان دونوں سے محبت رکھتا ہوں تو
بھی ان سے محبت رکھ اور جو ان دونوں سے محبت رکھے تو اُس سے بھی محبت
رکھ!۔‘‘(جامع ترمذی)
حضرت انس بن مالک رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ (ایک مرتبہ) رسول اﷲ صلی اﷲ
علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ: ’’ آپ کے ’’ اہل بیت‘‘ میں سے کون شخص آپ کو سب
سے زیادہ عزیز و محبوب ہے؟ ۔‘‘تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایاکہ: ’’حسنؓ
اور حسینؓ۔‘‘ اور (حضرت انس رضی اﷲ عنہ نے یہ بھی بیان کیا کہ (آنحضرت صلی
اﷲ علیہ وسلم (جب کسی وقت حضرت حسنؓ و حسینؓ کو گھر میں نہ دیکھتے تو)حضرت
فاطمہ رضی اﷲ عنہا سے فرماتے کہ: ’’میرے دونوں بیٹوں کو بلا لاؤ!۔‘‘پھر جب
(حضرت حسنؓ و حسینؓ آجاتے تو) آپ ان دونوں کے جسموں کو سونگھتے (کیوں کہ وہ
آپ کے دو پھول تھے) اور ان دونوں کو اپنے گلے سے لگا لیتے۔ (جامع ترمذی)
حضرت یعلی ٰ بن مرۃ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے
ارشاد فرمایاکہ: ’’حسینؓ مجھ سے ہے اور میں حسینؓ سے ہوں، اﷲ تعالیٰ اُس
شخص سے محبت رکھتے ہیں جو حسینؓ سے محبت رکھتا ہو،حسین ’’ اسباط‘‘ میں سے
ایک ’’سبط‘‘ (یعنی میرا بیٹا )ہے۔‘‘(جامع ترمذی)
حضرت حذیفہ بن یمان رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ (ایک دن) میں نے اپنی والدہ
سے کہا کہ آپ مجھے اجازت دیجئے کہ میں آج مغرب کی نماز جاکر رسول اﷲ صلی اﷲ
علیہ وسلم کے ساتھ پڑھوں اور پھر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے درخواست کروں
کہ وہ میرے اور آپ کے لئے بخشش و مغفرت کی دُعاء فرمائیں۔‘‘ چنانچہ (میری
الدہ نے مجھے اجازت دے دی اور)میں نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں
حاضر ہوا اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ مغرب کی نماز پڑھی ، آپؐ (مغرب
کی نماز پڑھنے کے بعد ) نوافل پڑھتے رہے ، یہاں تک کہ پھر عشاء کی نماز
پڑھی، اور جب آپ ؐ نے میری آواز سنی تو پوچھا کہ:’’کون ہے؟۔‘‘اﷲ تعالیٰ
تمہیں اور تمہارے والدہ کو بخشش و مغفرت سے نوازے! (دیکھو!) یہ ایک فرشتہ
ہے جو اس رات سے پہلے کبھی زمین پر نہیں اُترا ، اِس فرشتہ نے اپنے
پروردگار سے اس بات کی اجازت لی ہے کہ (زمین پر) آکر مجھے سلام کرے اور
مجھے اس بات کی خوش خبری سنائے کہ: ’’ فاطمہؓ جنت کی عورتوں کی سردار ہے
اور حسنؓ و حسینؓ جنت کے جوانوں کے سردار ہیں ۔‘‘(جامع ترمذی)
اﷲ تعالیٰ سے دُعاء ہے کہ وہ ہمیں حضرات اہل بیت اطہار کے ساتھ سچی عقیدت و
محبت عطاء فرمائے اور ہمیں اُن کے نقش قدم پر چلاتے ہوئے اُن کا سچا اور
حقیقی پیروکار اور اُن کی کامل اتباع کرنے والا بنائے اور کل قیامت کے دن
ہمارا حشر بھی انہیں کے ساتھ فرمائے۔آمین بجاہ النبی الامی الکریم۔ |