معجزات خداداد طاقت

یہ صحیح ہے کہ انبیاء علیہم السلام لوگوں کی درخواست کے بغیر خود اپنے طور پر بھی معجزہ پیش کرتے تھے (جیسے پیغمبر اکرم (ص) نے قرآن کریم پیش کیا، جناب موسیٰ علیہ السلام نے عصا کو اژدہا بنا دیا، اور آپ کا معجزہ ”ید بیضا“ اسی طرح جناب عیسیٰ علیہ السلام کا مردوں کا زندہ کرنا) لیکن جس وقت ان کی امت ایک نئے معجزہ کی فرمائش کرتی تھی جیسے ”شق القمر“ یا فرعونیوں سے بلاؤں کا دور ہونا، یا حواریوں کے لئے آسمان سے غذائیں نازل ہونا وغیرہ، تو انبیاء علیہم السلام ہرگز اس سے ممانعت نہیں کرتے تھے (البتہ اس شرط کے ساتھ کہ ان کی فرمائش حقیقت کی تلاش کے لئے ہو ،نہ صرف بہانہ بازی کے لئے)

لہٰذا جناب موسیٰ علیہ السلام کے واقعہ میں ملتا ہے کہ فرعونیوں نے ایک طولانی مدت کی مہلت مانگی تاکہ تمام جادوگروں کو جمع کرسکیں، اور پروگرام کے تمام مقدمات فراہم کرلیں، جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:

<فَاٴَجْمِعُوا کَیْدَکُمْ ثُمَّ ائْتُوا صَفًّا>(1)

”لہٰذا تم لوگ اپنی تدبیروں کو جمع کرو اور صف باندھ کر اس کے مقابلہ میں آجاؤ“۔

اپنی تمام طاقت و توانائی کو جمع کرلیں اور اس سے استفادہ کریں، جبکہ جناب موسیٰ علیہ السلام کو ان مقدمات کی کوئی ضرورت نہیں تھی، اور ان تمام جادوگروں سے مقابلہ کرنے کے لئے کسی طرح کی کوئی مہلت نہ مانگی، چونکہ وہ قدرت خدا پر بھروسہ کئے ہوئے تھے، اور جادوگر انسانی محدود طاقت کے بل پر یہ کام انجام دینا چاہتے تھے۔

اسی وجہ سے انسان کے غیر معمولی کام کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے یعنی اس کی طرح کوئی دوسرا شخص بھی اس کام کو انجام دے سکتا ہے، اسی وجہ سے کوئی بھی جادوگر یہ چیلنج نہیں کرسکتا کہ کوئی دوسرا مجھ جیسا کام انجام نہیں دے سکتا، جبکہ (معصوم کے علاوہ) کوئی دوسرا شخص (انسانی طاقت سے)معجزہ نہیں دکھاسکتا، لہٰذا اس میں ہمیشہ چیلنج ہوتا ہے ، جیسا کہ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: اگر تمام جن و انس مل کر قرآن کے مثل لانا چاہیں تو نہیں لاسکتے!

یہی وجہ ہے کہ جب انسان کے غیر معمولی کارنامے، معجزہ کے مقابل آتے ہیں تو بہت ہی

(1) سورہٴ طہ ، آیت۶۴․

جلد مغلوب ہوجاتے ہیں اور جادو کبھی بھی معجزہ کے مقابل نہیں آسکتا، جس طرح کوئی بھی انسان خداوند عالم سے مقابلہ کی طاقت نہیں رکھتا۔

چنانچہ نمونہ کے طور پر قرآن مجید میں جناب موسیٰ علیہ السلام اور فرعون کے واقعہ کو ملاحظہ کیا جاسکتا ہے کہ فرعون نے مصر کے تمام شہروں سے جادوگروں کو جمع کیا اور مدتوں اس کے مقدمات فراہم کرتا رہا تاکہ اپنے پروگرام کو صحیح طور پر چلا سکے لیکن جناب موسیٰ علیہ السلام کے معجزہ کے سامنے چشم زدن میں مغلوب ہو گیا۔

۲۔ معجزات چونکہ خداوند عالم کی طرف سے ہوتے ہیں لہٰذا خاص تعلیم و تربیت کی ضرورت نہیں ہوتی
جبکہ جادوگر مدتوں سیکھتے ہیں اور بہت زیادہ تمرین کرتے ہیں،اس طرح سے کہ اگر شاگرد نے استاد کی تعلیمات کو خوب اچھے طریقہ سے حاصل نہ کیا ہو تو ممکن ہے کہ لوگوں کے سامنے صحیح طور پر کارنامہ نہ دکھا سکے، جس کے نتیجہ میں وہ ذلیل ہوجائے، لیکن معجزہ کسی بھی وقت بغیر کسی مقدمہ کے دکھایا جا سکتا ہے جبکہ غیر معمولی کارنامے آہستہ آہستہ مختلف مہارتوں کے ذریعہ انجام دئے جاتے ہیں یعنی کبھی بھی اچانک انجام نہیں پاتے۔

جناب موسیٰ علیہ السلام اور فرعون کے واقعہ میں اس بات کی طرف اشارہ ہوا کہ فرعون نے جادوگروں پر الزام لگایا کہ موسیٰ تمہارا سردار ہے جس نے تمہیں سحر اور جادو سکھایا ہے:

< إِنَّہُ لَکَبِیرُکُمْ الَّذِی عَلَّمَکُمْ السِّحْر> (1)

اسی وجہ سے جادوگر اپنے شاگردوں کو مہینوں یا برسوں سکھاتے ہیں اور ان کے ساتھ تمرین کرتے ہیں۔

(1) سورہٴ طہ ، آیت۷۱․

۳۔ معجز نما کے اوصاف خود ان کی صداقت کی دلیل ہوتی ہے۔

سحر و جادو اور معجزہ کی پہچان کا ایک دوسرا طریقہ یہ ہے کہ صاحب معجزہ اور جادوگروں کے صفات کو دیکھا جاتا ہے، کیونکہ معجزہ دکھانے والا خدا کی طرف سے لوگوں کی ہدایت پر مامور ہوتا ہے لہٰذا اسی لحاظ سے اس میں صفات پائے جاتے ہیں، جبکہ ساحراور جادوگر اور ریاضت کرنے والے نہ تو لوگوں کی ہدایت پر مامور ہوتے ہیں اور نہ ہی ان کا یہ مقصد ہوتا ہے ، درج ذیل چیزیں ان کا مقصد ہوا کرتی ہیں:

۱۔ سادہ لوح لوگوں کو غافل کرنا۔
۲۔ عوام الناس کے درمیان شہرت حاصل کرنا۔
۳۔ لوگوں کو تماشا دکھا کر کسب معاش کرنا۔

جب انبیاء علیہم السلام اور جادوگر میدان عمل میں آتے ہیں تو طولانی مدت تک اپنے مقاصد کو مخفی نہیں رکھ سکتے، جیسا کہ فرعون نے جن جادوگروں کو جمع کیا تھا انھوں نے اپنا کارنامہ دکھانے سے پہلے فرعون سے انعام حا صل کرنے کی درخواست کی اور فرعون نے بھی ان سے اہم انعام کا وعدہ دیا:

<قَالُوا إِنَّ لَنَا لَاٴَجْرًا إِنْ کُنَّا نَحْنُ الْغَالِبِینَ # قَالَ نَعَمْ وَإِنَّکُمْ لَمِنْ الْمُقَرَّبِینَ>(1)

(جادوگر فرعون کے پاس حاضر ہوگئے اور) انھوں نے کہا کہ اگر ہم غالب آگئے تو کیا ہمیں اس کی اجرت ملے گی؟ فرعون نے کہا بے شک تم میرے دربار میں مقرب ہوجاؤ گے“۔

جبکہ انبیاء علیہم السلام نے اس بات کا بارہا اعلان کیا ہے:

<وَمَا اٴَسْاٴَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ اٴَجْرٍ> (۲)

(1) سورہٴ اعراف ، آیت۱۱۳۔ ۱۱۴․ (۲)سورہٴ شعراء ، آیت۱۰۹․

”ہم تم سے کوئی اجر طلب نہیں کرتے“۔

(قارئین کرام!) مذکورہ آیت قرآن مجید میں متعدد انبیاء کے حوالہ سے بیان کی گئی ہے۔)

اصولی طور پر اگر جادوگروں کو فرعون جیسے ظالم و جابر کی خدمت میں دیکھا جائے تو ”جادو“ اور ”معجزہ“ کی پہچان کے لئے کافی ہے۔

یہ بات کہے بغیر ہی واضح ہے کہ انسان اپنے افکار کو مخفی رکھنے میں خواہ کتنا ہی ماہر ہو پھر بھی اس کے اعمال و کردار سے اس کا حقیقی چہرہ سامنے آجاتا ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ ان جیسے لوگوں کی سوانح عمری اور ان کے غیر معمولی کارناموں کو انجام دینے کے طریقہ کار ، اسی طرح مختلف اجتماعی امور میں ان کی یکسوئی اور ان کی رفتار و گفتار اور ان کا اخلاق ”سحر و جادو“ اور ”معجزہ“ میں تمیز کرنے کے لئے بہترین رہنما ہے، اور گزشتہ بحث میں بیان کئے ہوئے فرق کے علاوہ یہ راستہ بہت آسان ہے جس سے انسان سحرو جادو اور معجزہ کے درمیان فرق کرسکتا ہے۔

قرآن مجید نے بہت دقیق و عمیق الفاظ کے ساتھ اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے، ایک جگہ ارشاد ہوتا ہے:

< قَالَ مُوسَیٰ مَا جِئْتُمْ بِہِ السِّحْرُ إِنَّ اللهَ سَیُبْطِلُہُ إِنَّ اللهَ لایُصْلِحُ عَمَلَ الْمُفْسِدِینَ >(1)

”پھر جب ان لوگوں نے رسیوں کو ڈال دیا تو موسیٰ نے کہا کہ جو کچھ تم لے آئے ہو یہ جادو ہے اور اللہ اس کو بے کار کردے گا کہ وہ مفسدین کے عمل کو درست نہیں ہونے دیتا“۔

(1) سورہٴ یونس ، آیت۸۱․

جی ہاں جادو گر،مفسد ہوتے ہیں اور ان کے اعمال باطل ہوتے ہیں، اور ان کے اس کام کے ذریعہ معاشرہ کی اصلاح نہیں کی جاسکتی۔

ایک دوسرے مقام پر خداوند عالم نے جناب موسیٰ علیہ السلام سے خطاب فرمایا: <لاَتَخَفْ إِنَّکَ اٴَنْتَ الْاٴَعْلیٰ > (1)”(ہم نے کہا کہ) موسیٰ ڈرو نہیں تم بہر حال غالب رہنے والے ہو“۔

اس کے بعد ارشاد ہوتا ہے:

< وَاٴَلْقِ مَا فِی یَمِینِکَ تَلْقَفْ مَا صَنَعُوا إِنَّمَا صَنَعُوا کَیْدُ سَاحِرٍ وَلاَیُفْلِحُ السَّاحِرُ حَیْثُ اٴَتَیٰ > (۲)

” اور جو کچھ تمہارے ہاتھ میں ہے اُسے ڈال دو یہ ان کے سارے کئے دھرے کو چن لے گا، ان لوگوں نے جو کچھ کیا ہے وہ صرف جادوگر کی چال ہے اور بس،اور جادوگر جہاں بھی جائے کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا “۔

جی ہاں جادوگر چا ل بازی اور دھوکہ دھڑی سے کام لیتے ہیں اور طبیعی طور پر یہی مزاج رکھتے ہیں، یہ لوگ دھوکہ دھڑی کرتے رہتے ہیں ان کے صفات اور کارناموں کو دیکھ کر بہت ہی جلد ان کو پہچانا جاسکتا ہے، جبکہ انبیاء علیہم السلام کا اخلاص، صداقت اور پاکیزگی ان کے لئے ایک سند ہے جو معجزہ کے ساتھ مزید ہدایت گر ثابت ہوتی ہے۔(۳)

(1) سورہٴ طہ ، آیت۶۸․

(۲)سورہٴ طہ ، آیت۶۹․

(۳) تفسیر پیام قرآن ، جلد ۷، صفحہ ۲۸۸․

۳۴۔ جناب آدم کا ترک اولیٰ کیا تھا؟
جیسا کہ ہم سورہ طہ آیت نمبر ۱۲۱ میں پڑھتے ہیں: <وَ عصیٰ آدمُ ربَّہ فغویٰ>

” اور جناب آدم نے اپنے پروردگار کی نصیحت پر عمل نہ کیا، تو ثواب کے راستہ سے بے راہ ہوگئے“۔

تو یہاں پر یہ سوال اٹھتا ہے کہ جناب آدم علیہ السلام کس ترک اولیٰ کے مرتکب ہوئے؟

اسلامی منابع اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ کوئی بھی پیغمبر گناہ کا مرتکب نہیں ہوا، اور اللہ کے بندوں کی ہدایت کی ذمہ داری کسی گناہگار شخص کو نہیں دی جاسکتی، اور ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ جناب آدم علیہ السلام خدا کے بھیجے ہوئے نبیوں میں سے تھے، مذکورہ آیت اور اس سے مشابہ آیتوں میں دوسرے انبیاء کی طرف عصیان کی نسبت دی گئی ہے لیکن سب جگہ یہ نسبت ” نسبیعصیان“ اور ”ترک اولیٰ“ کے معنی میں ہے، یعنی مطلق گناہ کے معنی میں نہیں ہے۔

وضاحت:
گناہ کی دو قسم ہوتی ہیں ”مطلقِ گناہ “ اور ”نسبی گناہ“ مطلق گناہ یعنی نہی تحریمی کی مخالفت اور خداوند عالم کے قطعی حکم کی نافرمانی کا نام ہے اور ہر طرح کے واجب کو ترک کرنا اور حرام کا مرتکب ہونا مطلقِ گناہ کہلاتا ہے۔

لیکن نسبی گناہ،وہ گناہ ہوتا ہے جو کسی بزرگ انسان کی شان کے خلاف ہے ممکن ہے کہ کوئی مباح کام بلکہ مستحب کام عظیم انسان کی شان کے مطابق نہ ہو، تو اس صورت میں یہ عمل اس کی شان میں ”نسبیگناہ “ شمار کیا جائے گا، مثلاً اگر کوئی مالدار مومن کسی غریب کی بہت کم مدد کرے ، تو اگرچہ یہ امداد کم ہے اور کوئی حرام کام نہیں ہے بلکہ مستحب ہے، لیکن جو شخص بھی اس کو سنے گا وہ اس طرح مذمت کرے گا جیسے اس نے کوئی برا کام کیا ہو، کیونکہ ایسے مالدار اور باایمان شخص سے اس سے کہیں زیادہ امید تھی۔

(دوسرے لفظوں میں جناب آدم علیہ السلام کا گناہ ان کی حیثیت سے گناہ تھا لیکن مطلق گناہ نہ تھا،مطلق گناہ وہ گناہ ہوتا ہے جس کے لئے سزا معین ہو (جیسے شرک،کفر ،ظلم اور ستم وغیر ہ)اور نسبت کے اعتبار سے گناہ کا مفہوم یہ ہے کہ بعض اوقات کچھ مباح اعمال بلکہ مستحب اعمال بھی بڑے لوگوں کی عظمت کے لحاظ سے مناسب نہیں ہوتے ،انہیں چا ہئے کہ ان اعمال سے پر ہیز کریں اور اہم کام بجا لائیں ورنہ کہا جائے گا کہ انہوں نے ترک اولی کیا ہے ۔)

اسی وجہ سے انبیاء علیہم السلام کے اعمال ایک ممتاز ترازو میں تولے جاتے ہیں اور کبھی ان پر ”عصیان“ اور ”ذنب“ کا اطلاق ہوتا ہے، مثال کے طور پر ایک نماز عام انسان کے لئے بہترین نماز شمار کی جائے لیکن وہی نماز اولیاء الٰہی کے لئے ترک اولیٰ شمار کی جائے، کیونکہ ان کے لئے نماز میں پَل بھر کی غفلت ان کی شان کے خلاف ہے، بلکہ ان کے علم، تقویٰ اور عظمت کے لحاظ سے ان کو عبادت میں خدا کے صفات جلال و جمال میں غرق ہونا چاہئے۔

عبادت کے علاوہ ان کے دوسرے اعمال بھی اسی طرح ہیں، ان کی عظمت اور مقام کے لحاظ سے تولے جاتے ہیں اسی وجہ سے اگر ان سے ایک ”ترک اولیٰ“ بھی انجام پاتا ہے تو خداوند عالم کی طرف سے مورد سرزنش ہوتے ہیں ( ترک اولیٰ سے مراد یہ ہے کہ انسان بہتر کام کو چھوڑ کر کم درجہ کا کام انجام دے)

اسلامی احادیث میں بیان ہوا ہے کہ جناب یعقوب علیہ السلام نے فراق فرزند میں جس قدر پریشانیاں اٹھائیں ہیں اس کی وجہ یہ تھی کہ مغرب کے وقت ایک روزہ دار ان کے در پر آیا، اور اس نے مدد کی درخواست کی لیکن انھوں نے اس سے غفلت کی، وہ فقیر بھوکا اور دل شکستہ ان کے در سے واپس چلا گیا۔

یہ کام اگرچہ ایک عام انسان انجام دیتا تو شاید اتنا اہم نہ تھا، لیکن اس عظیم الشان پیغمبر کی طرف سے اس کام کو بہت اہمیت دی گئی کہ خداوندعالم کی طرف سے سخت سزا معین کی گئی۔(1)(۲)

(1) نور الثقلین ، جلد ۲، صفحہ ۴۱۱، نقل کتاب علل الشرایع․

(۲) مذکورہ روایت کی تفصیل یہ ہے کہ ابو حمزہ ثمالیۺ نے ایک روایت امام سجاد علیہ السلام سے نقل کی ہے ابو حمزہ کہتے ہیں :

جمعہ کے دن میں مدینہ منورہ میں تھا نماز صبح میں نے امام سجاد علیہ السلام کے ساتھ پڑھی جس وقت امام نماز اور تسبیح سے فارغ ہوئے تو گھر کی طرف چل پڑے میں آپ کے سا تھ تھا ،آپ نے خادمہ کو آواز دی اور کہا : خیال رکھنا ، جو سائل اور ضرورت مند گھر کے دروازے سے گزرے اسے کھانا دینا کیونکہ آج جمعہ کا دن ہے ۔

ابو حمزہ کہتے ہیں : میں نے کہا : ہر وہ شخص جو مدد کا تقاضا کرتا ہے مستحق نہیں ہو تا ، تو امام نے فرمایا :

ٹھیک ہے ، لیکن میں اس سے ڈر تا ہوں کہ ان میں مستحق افراد ہوں اور انہیں غذا نہ دیں اور اپنے گھر کے در واز ے سے دھتکار دیں تو کہیں ہمارے گھر والوں پر وہی مصیبت نہ آن پڑے جو یعقوب اور آل یعقوب پر آن پڑی تھی اس کے بعد آپ نے فرمایا :

ان سب کو کھا نا دو کہ ( کیا تم نے نہیں سنا ہے کہ ) یعقوب کے لئے ہر روز ایک گو سفند ذبح کیا جاتا تھا اس کا ایک حصہ مستحقین کو دیا جاتا تھا ایک حصہ وہ خود اور ان کی اولاد کھا تے تھے ایک دن ایک سائل آیا وہ مو من اور روزہ دار تھا خدا کے نزدیک اس کی بڑی قدر ومنزلت تھی وہ شہر ( کنعا ن ) سے گزر ا شب جمعہ تھی افطار کے وقت وہ دروازہٴ یعقوب پر آیا اور کہنے لگا بچی کچی غذا سے مدد کے طالب غریب ومسافر بھوکے مہمان کی مدد کرو ،اس نے یہ بات کئی مر تبہ دہرائی انہوں نے سنا تو سہی لیکن اس کی بات کو باور نہ کیا جب وہ مایوس ہوگیا اور رات کی تاریکی ہر طرف چھا گئی تو وہ لوٹ گیا، جاتے ہو ئے اس کی آنکھوں میں آنسو تھے اس نے بارگاہ الٰہی میں بھوک کی شکا یت کی رات اس نے بھوک ہی میں گزاری اور صبح اسی طرح روزہ رکھا جب کہ وہ صبر کئے ہو ئے تھا اور خدا کی حمدو ثنا کر تا تھا لیکن حضرت یعقوب اور ان کے گھر والے مکمل طور پر سیر تھے اور صبح کے وقت ان کا کچھ کھا نا بچ بھی گیا تھا ۔

امام نے اس کے بعد مزید فرمایا :خدا نے اسی صبح یعقوب کی طرف وحی بھیجی : اے یعقوب ! تو نے میرے بند ے کو ذلیل و خوار کیا ہے اور میرے غضب کو بھڑکا یا ہے اور تو اور تیری اولاد نزول سزا کی مستحق ہو گئی ہے

جناب آدم علیہ السلام کو ”شجرہ ممنوعہ“ کے نزدیک جانے سے منع کیا گیا تھا جو کہ تحریمی نہی نہیں تھی بلکہ ایک ترک اولیٰ تھا، لیکن جناب آدم علیہ السلام کی عظمت اور شان کے لحاظ سے اہمیت دی گئی، اور اس مخالفت (نہی کراہتی) پر اس قدر تنبیہ کی گئی۔(1)
پیرآف اوگالی شریف
About the Author: پیرآف اوگالی شریف Read More Articles by پیرآف اوگالی شریف: 832 Articles with 1382661 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.