لوریاں سناتی نانی اماں ہسپتال کے بستر پہ ایڑیاں رگڑتی
حق رحمت سے جا ملی تو ڈاکٹر بننے کی خواہش ننھی نسیمہ کے دل میں نہ صرف
کنڈلی مارکی بیٹھ رہی بلکہ اس کی ہمراز سہیلی بن کر اس کے ساتھ جوان ہوتی
گئی۔ غرض روزگار نے شفقت پدری کے سایہ عطوفت کو دور ضرور رکھا لیکن مہینوں
بعد بابا کی آمد پر پنجوں پہ اچھل اچھل کے دادو ، پھپھو، اور چچیرے گھر تک
خبریں پہنچاتی کو لگتا جہانوں کی مسرتیں سمٹ کے اس کی چولی کے دامن میں آ
سمائی ہوں۔چھ بہن بھائیوں میں سے تیسرے نمبر کی مالکہ کی تربیت میں کوئی
الگ رنگ کی قرینہ داریاں اور سلیقہ شعاریاں رچ بس چلی تھیں کہ گھر میں آتی
میٹھی چیزوں پہ جہاں باقی بہن بھائی لڑ لڑ کر حصہ چھین لیا کرتے تھے وہاں
اس کم سن گڑیا میں صبر و تحمل کی مثال بنتی مامتا کا روپ اتر آتا اور آنچل
کی کناری سے منہ صاف کرتی ایسے کمرے سے نکل جاتی گویا اس نے تو جی بھر کے
شیرینیوں کی مٹھاس اپنے تن بدن میں اتار لی ہو۔ جذبہ مسیحائی تو اس کے انگ
انگ سے ٹپکتا تھا۔بابا کی ملازمت نے درجہ ارتقا کوچھوا تو معصوم جذبوں کے
خلوص سے معطر آرزو کی فضا کے جھونکے چشم تصور میں بسے خوابوں کے گلشن میں
جھمریں ڈالنے لگے کہ بڑے تعلیمی اداروں میں علم کی پیاس سے اپنے خوابوں کو
پانی دینے کا خواب شرمندہ تعبیر ہوتا نظر آیا۔ باوجودیکہ داخلے کی خواہش بس
خواہش ہی رہی لیکن عام درسگاہ میں بھی اسباق کو یادداشتوں میں محفوظ کرنے
کی مہارتوں میں اپنی ہم جماعتوں سے ایک قدم آگے چلنے کے فن کو خوب نبھاتی
رہی، بابا کی تنخواہ میں اضافہ رشتہ داریوں کے تقاضے پورے کرتا نظر آیا تو
چپ چاپ سرشت میں سرایت کر چکی کم گوئی کی عادت کو پختہ کرتی منزل مقصود کی
طرف گامزن رہی، جسمانی ساخت میں بھی باقی بہن بھائیوں سے منفرد نظرتی، گویا
کہ حسن کی دیوی اس گھر میں تو کوئی خاص اسی پہ مہربان ہوئی ہو، صرف یہی
نہیں بلکہ مکتب میں بھی ہم جولیوں کے بیچ حسن و جمال کی جلوہ پیرائیاں اسے
سلطنت جمالیات پہ تخت نشین دکھاتیں، بیٹیوں کی تعلیم کی دشمن خاندانی
روایتوں کی سماعتوں سے چوریمیٹرک، ایف ایس سی کے تعلیمی درجات کے زینے سہم
سہم کے طے کرچکی تو بابا کی مدت ملازمت بھی اختتام پذیر ہوئی۔ پنشن کی رقم
پہ دیرینہ خواب کی آنکھیں آ مرکوز ہوئیں لیکنوسعت اختیار کرتے کنبے کے لئے
گھر کی ضرورت اور پہلوٹھی کی آنکھ کے ماتھے پہ سہرا سجانے کے سامنے اس کی
آرزو ناموافق حالات کی چادر تلے چھپ چھپ کے سسکیاں لینے لگی۔ بی ایس سی میں
داخلے کو غنیمت جان کر ٹھٹکتا سفر پھر سے شروع ہو گیا۔ نتیجے کا اعلان ابھی
باقی تھا کہ پھوپھی جائے نے محبت کے وہ تمام ڈورے بُن ڈالے جو کسی رانجھے
نے ہیر، کسی پنوں نے سسی، کسی رومیو نے جیولٹ کو نہ دکھائے ہونگے۔ پھپھو کی
باتیں کہ میرا بیٹا منفرد شیریں گفتار اور بہت محبت کرنے والا، اور تمہیں
تو آسمانوں میں ڈھونڈتا پھرتا ہے وہ دیوانہ ہے دیوانہ تیرا۔ ان باتوں میں
زندگی کا رس محسوس کرتی، رخساروں پہ حیا کی چلمن گراتی،چشم تصور میں کسی
پرستان کی پری بن کر چاہے جانے کے احساس سے سرشار ان دیکھی فضاؤں میں اڑنے
لگی۔ ہونے والے دولہا کے میٹرک فیل تعلیمی معیار کا خیال اس کی راہ میں
حائل ہؤاتوخاندانی روایات بھی جیت کی آخری کاوش کرتے گھڑ سوار کی طرح پلٹ
پلٹ کے حملے کرنے لگیں۔ مفاہمت، مصالحت جو مشرقی لڑکی کا آخری راستہ ہے، پہ
چلتی پیا گھر سدھار گئی۔ حنائی ہاتھوں نے ابھی جی بھر کے ناز برادری بھی نہ
کی تھی کہ بے روزگاری کے روگ نے کنگن، پہنونچیاں چھین لیں تب جا کے شوہر
صاحب کے لئے موٹر سائیکل خریدی گئی کیونکہ میڈیکل کمپنی کی شرائط میں سے
پہلی یہی تھی اور دوسری نے تو تمام روایات کو بھی پس پشت ڈال دیا کہ نسیمہ
اب اپنے ہمسفر کے ساتھ میدان ملازمت میں بھی ہم سفر ہو گی۔ گھر لوٹتے ہی
کاموں کی فوج ظفر موج لیکن پھر بھی آسودگی تھی کہ کہیں بہت پیچھے رہ گئی
تھی۔ کوہلو کے بیل کی طرح جتے رہنا بھی آخر کارگر نہ ہؤا اور سرتاج نے
دیارغیر جانے کا فیصلہ کر لیا۔ اور یوں گلے کا ہار بھی ہار بیٹھی۔ شاید یہ
پہلی صبح تھی کہ چار جماعتوں کی تعلیم کے طعنوں سے اس کی آنکھ نہیں کھلی
تھی لیکن ایک حبس اس کے دل کی دیواوں پہ خود رو جنگلی بیل کی طرح پھیلا ہؤا
تھا۔ خوابوں کے لہو میں شرابور، نو ماہ کی تھکن گزیدہ مسافتوں سے چُور میکے
کی دہلیز پہ کھڑی، جو خود سے بھی دکھوں کو چھپاتی آئی تھی، پھوٹ پھوٹ کررو
رہی تھی۔ سعودیہ گئے شوہر نے ربط کے بندھن توڑ ڈالے تو ضبط کے کنگن بھی ٹوٹ
کر خلع پہ آ منتج ہوئے تھے، آرزوؤں کا پیالہ ٹھوکریں کھاتا ہؤا اب ایک نئے
ڈگر پہ چل پڑا۔
مفارقت کا کالک ماتھے پہ سجاتی، شکست و ریخت کے شکار بوجھل بدن کے بند بند
کو جوڑتی،اپنے گرد چھائے یاسیت کے خول کو توڑتی، تن پہ رقص کناں دراڑوں میں
آس و امید کا گوندلگاتی، آزار زندگی کے غلاف میں راز کے منکشف ہونے کے ڈر
سے کسمساتی، تلاش روزگار میں اپنے کوائف پہ مشتمل کاغذ لئے پھرتی، ایک
پرائویٹ ادارے میں ملازمت کے حصول میں جا کامیاب ہوئی۔
خدو خال ابھی بھی حسن و جمال کی ایسی عظیم عمارت کا پتہ دیتے تھے جوحُسن کے
شیدائیوں کی آنکھوں کو طروات عطا کرنے کے لئے کافی تھی۔ ایک شادی کی تقریب
میں ایک دُور کے رشتے دار اس ذلف برہم کے اسیر ہو گئے اورمیٹھی چکنی باتوں
کے دام میں اس رنجیدہ حسینہ کو پھر سے نئے خوابوں کی جنت نظرنے لگی، خوف
تنہائی اور بابا اور ماما کی جھریوں میں کُھب جانے والی اداسی کا کرب
وجوہات تھیں کہ اس نے اپنے آپ کو ایک بار پھر کچھ جانے انجانے رستوں پر کچھ
دیکھی ان دیکھی محبت کے حوالے کر دیا۔ روایتی مرد کے اندر کا دیرینہ خوف کہ
کہیں عورت باہر آ کر مردمی معاشرے کے رخنوں سے آگاہ نہ ہو جائے، نے اس کی
ملازمت اور رشتہ ازواج کے بیچ دیوار چین کھڑی کر دی۔ چار و ناچار ملازمت سے
بھی ہاتھ دھونے پڑے۔ اب کی بار زیادہ زیور سے آراستہ نہیں تھی اس لئے صرف
جھومر ہی کام آئی ۔ محبت تو ملی لیکن بہت سہمی سہمی۔ یہ سکڑی سہمی صرف
خوابگاہ میں اور جب تک رات بھیگ نہ جاتی یہ یہاں بھی در نہیں آتی۔ اس محبت
کی ترسی کو کمرے سے باہر صرف نفرت ملتی رہتی تو شاید شاکی نہ ہوتی لیکن نشے
میں مست غلیظ القلب دیور جب بھی گھر آتا آنکھوں آنکھوں میں اس کے ساتھ وہ
سب کچھ کر گزرتا کہ جس ڈر سے اسے باہر ملازمت سے روکا گیا تھا۔ یہاں تک بھی
چپ ہی تھی لیکنجب مذکورہ دیور کے ناپاک ارادوں کو لگام نہ ڈالی گئی تو دست
درازی کی جسارت تک جری ہو گیا۔ تو عزت کے محافظ کے حضور دریدہ دل پھٹ پڑا
لیکن بجائے آنسو پونچھے جانے کے الٹا الزام کا تازیانہ مقدر ٹھہرا کہ تم ہم
بھائیوں کے بیچ دیواریں ڈالنا چاہتی ہو۔ ساتھ میں ساسو ماں کی طعنہ زنی بھی
شامل ہو گئی۔ آج وہ اپنے کمرے میں بیٹھی نفسیاتی مریضہ کا لقب پاتی، کبھی
قسمت کو تو کبھی مرد کی محبت کے غلاف میں لپٹی گھناؤنی سوچ کو کوستی، ڈاکٹر
بننے کے بکھرے خواب کی کرچیاں سمیٹتی، تنہائیوں کے لق و دق صحرا کی پیاسی
زمین کو آنسوؤں سے سیراب کرتی، دانتوں کو بھینچ کرچھلنی روح کی جلتی خراشوں
کو کریدتیسراپا سوال ہے -
قارئین کرام! یہاں معاشرے کی کونسی پستی پہ ماتم کیا جائے کیا رائج رسوم و
روایات اس قدر طاقتور ہیں کہ آج کے آگہی کے میناروں پہ کھڑی تہذیب کا مرد
کیوں ایسے گھونگھٹ میں منہ چھپاتا ہے کہ جس سے خود ننگا بھی ہو جاتا ہے
لیکن پھر بھی اس پیروکاری کو ترک نہیں کر پاتا۔ کائنات کے اول الاولین رشتے
کی لاج کی دھجیاں بکھر رہی ہیں، وجود زن سے اپنی کائنات کو رنگین بناتے کو
رشتوں سے برتنا کب آئے گا؟ روایات کے شکنجے میں پھنسے والدین کب تک عالم
اور جاہل کو ایک رسی میں باندھتے رہیں گے؟ ماں کے قدموں میں جنت کی بشارت
دینے والے ہادی برحق ﷺ نے اپنے ایک صحابی کی تجہیز و تکفین اپنے ہاتھوں سے
فرما کر ہی فرمایا تھا کہ اس شخص پہ عذاب ہو رہا ہے کیونکہ ازدواجی حقوق
میں زیادتی کا مرتکب تھا۔ مرد کی بہادری دھوکہ دینے میں نہیں بلکہ ایفائے
عہد میں ہے، اور جو بیٹیاں تعلیم کے زیور سے آراستہ ہیں ان سے درخواست ہے
کہ مستقبل بعید کے محررکی تحریروں میں آہوں اور سسکاریوں کے روپ میں تحریر
ہونے کی بجائے جیون ساتھی کے چناؤ کے فیصلے کے وقت اپنی رائے بلند کریں
کیونکہ ٹھٹھرتی رات میں بچے کی دودھ کی خواہش کوماں تب پورا کرتی ہے جب وہ
بلکتا ہے ۔ نہ جانے کب تک مفلوک الحالی کے چھدے دوپٹے میں چھایا تلاش کرنا
ان بیٹیوں کی قسمت کی لکیروں میں کندہ رہے گا؟ کب تک اس دیس کی قندیلیں دین
کے لبادوں میں چھپے شیطانوں کی ہوس زدہ پھونکوں سے بجھتی رہیں گی؟مکمل
ضابطہ حیات کے حامل دین کے پیروکارکہلانے والے کب تک رواجوں کی بھینٹ چڑھتے
رہیں گے؟ لیکن ہم تو 70 سال سے یہ ہی فیصلہ نہیں کر پا رہے کہ کونسا ادارہ
حق رکھتا ہے حکومت کرنے کا؟؟؟ دیکھیں جنگل میں لگائی گئی چیخ کی باز گشت کب
تک سنائی دیتی رہتی ہے- |