بیوہ اس خاتون کو کہتے ہیں جس کا شوہر وفات پاجائے ۔ ایسی
خاتون کے لئے شوہر کی وفات بڑا صبر آزما مرحلہ ہوتا ہے ۔ ایک طرف والدین کا
گھر چھوٹ چکا ہوتا ہے یعنی ان کی معاشی کفالت سے آزاد ہوکر شوہر کی کفالت
میں آچکی ہوتی ہے تو دوسری طرف زندگی کی تنہائی، بچوں کی پرورش وپرداخت اور
گھر کے اخراجات جیسے اہم مسائل اس کے سامنے ہوتے ہیں ۔ ایسے صبر آزما مرحلہ
میں اولین وقت پر صبر کرنے والی عورتوں کو اﷲ کی طرف سے اجر وثواب ملتا ہے
۔ بخاری شریف میں ایک عورت کا کسی قریبی کی وفات پر رونے کا ذکر ملتا ہے،
مسلم شریف میں بچے کی وفات پر رونے کا ذکر ہے۔ حضرت انس بن مالک رضی اﷲ عنہ
بیان کرتے ہیں:
مرَّ النبیُّ صلَّی اﷲُ علیہِ وسلَّمَ بامرأۃٍ تبکی عند قبرٍ ، فقال :
اتَّقی اﷲَ واصبری قالت : إلیکَ عَنِّی ، فإنکَ لم تُصَبْ بمصیبتی ، ولم
تعرفْہُ ، فقیل لہا : إنَّہُ النبیُّ صلَّی اﷲُ علیہِ وسلَّمَ ، فأتت باب
النبیِّ صلَّی اﷲُ علیہِ وسلَّمَ ، فلم تجد عندَہْ بوَّابِینَ ، فقالت : لم
أعرفْکَ ، فقال : إنما الصبرُ عند الصدمۃِ الأولی .(صحیح البخاری:1283)
ترجمہ: نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا گزر ایک عورت پر ہوا جو قبر پر بیٹھی
ہوئی رو رہی تھی۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اﷲ سے ڈر اور صبر کر۔
وہ بولی جاؤ جی پرے ہٹو۔ یہ مصیبت تم پر پڑی ہوتی تو پتہ چلتا۔ وہ آپ صلی
اﷲ علیہ وسلم کو پہچان نہ سکی تھی۔ پھر جب لوگوں نے اسے بتایا کہ یہ نبی
کریم صلی اﷲ علیہ وسلم تھے، تو اب وہ ( گھبرا کر ) آنحضور صلی اﷲ علیہ وسلم
کے دروازہ پر پہنچی۔ وہاں اسے کوئی دربان نہ ملا۔ پھر اس نے کہا کہ میں آپ
کو پہچان نہ سکی تھی۔ ( معاف فرمائیے ) تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا
کہ صبر تو جب صدمہ شروع ہو اس وقت کرنا چاہیے۔
جو اﷲ کی طرف سے فیصلہ ہوجاتاہے وہ ہوکر رہتاہے ،اسے کوئی ٹالنے والا نہیں
، ایک مومن کو اچھی بری تقدیر پر ایمان لانا ہے اور آنیوالی مصائب ومشکلات
پر صبر کرنا ہے اور مذکورہ حدیث سے ہم نے جان لیا کہ صبر بعد میں نہیں مصیب
کے نزول کے وقت ہی کرنا ہے ۔وفات پر یا نزول بلا پر آنکھوں سے آنسو بہ جائے
، بے اختیار رونا آجائے اس میں کوئی حرج نہیں ہے مگر قصدا پھوٹ پھوٹ کر دیر
تک روتے رہنے ،آہ وبکا کرتے رہنے، جزع فزع کرنے ، زبان سے برے کلمے نکالنے
اور نامناسب کام کرنے سے صبر کا اجر ضائع ہوجائے گا۔میت کی بیوہ یا ا س کے
کسی رشتہ دار کو میت کے پاس جزع فزع کرنے کی ممانعت ہے ، وہاں چیخنے چلانے
کی بجائے میت کے حق میں دعائے خیر کرنا چاہئے ۔ ابوسلمہ رضی اﷲ عنہ کی وفات
کے وقت ان کے گھر والے چیخنے چلانے لگے تو آپ ?نے فرمایا:
لا تَدعوا علَی أنفسِکُم إلَّا بِخیرٍ ، فإنَّ الملائِکَۃَ یؤمِّنونَ علی
ما تَقولون ثمَّ قالَ : اللَّہمَّ اغفِر لأبی سلَمۃَ وارفع درجتَہُ فی
المَہْدیِّینَ ، واخلُفہُ فی عقبِہِ فی الغابِرینَ ، واغفِر لَنا ولَہُ ربَّ
العالمینَ ، اللَّہمَّ افسِح لَہُ فی قبرِہِ ، ونوِّر لَہُ فیہِ(صحیح أبی
داود:3118)
ترجمہ: اپنے لیے بد دعائیں مت کرو بلکہ اچھے بول بولو کیونکہ جو تم کہتے ہو
اس پر فرشتے آمین کہتے ہیں ۔ پھر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ( بطور دعا )
فرمایا: اے اﷲ ! ابوسلمہ کی بخشش فرما، ہدایت یافتہ لوگوں کے ساتھ اس کے
درجات بلند کر اور اس کے پیچھے رہ جانے والوں میں تو ہی اس کا خلیفہ بن ۔
اور اے رب العلمین ! ہماری اور اس کی مغفرت فرما، اے اﷲ ! اس کی قبر کو
فراخ اور روشن کر دے ۔
اسی طرح مصیبت لاحق ہونے کے وقت یہ دعا پڑھنی چاہئے ۔ ابوسلمہ رضی اﷲ عنہ
سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺنے فرمایا:
إذا أصابَ أحدَکم مصیبۃٌ فلیقل إنَّا للَّہِ وإنَّا إلیہِ راجعونَ
اللَّہمَّ عندَک أحتسبتُ مصیبتی فأجرنی فیہا وأبدلنی منہا خیرًا. (صحیح
الترمذی:3511)
ترجمہ: جب تم میں سے کسی کوکوئی مصیبت لاحق ہو تو اسے : "إِنَّا لِلَّہِ
وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُونَ ، اللَّہُمَّ عِنْدَکَ احْتَسَبْتُ
مُصِیبَتِی فَأْجُرْنِی فِیہَا وَأَبْدِلْنِی مِنْہَا خَیْرًا"پڑھنا چاہئے۔
ایسے وقت میں سماج کے دوسرے افراد کو چاہئے کہ بیوہ کو دلاسہ دے اور اس کی
تعزیت کرے اور اگر سماج میں مجبور ولاچار قسم کی بیوائیں ہیں تو سماج کے
ذمہ دار طبقوں کی ذمہ داری ہے کہ ان کی خبر گیری کرے اور ان کے ماتحتوں کی
تعلیم وتربیت کا انتظام کرے ۔
سطور ذیل میں ہم بیوہ خاتون کے احکام ومسائل بیان کرنے جارہے ہیں تاکہ ہمیں
اس سلسلے میں اسلام کی رہنمائی سے آگاہی رہے ۔اسے ہم چند مسائل کے تحت ذکر
کریں گے۔
پہلا مسئلہ :
بیوہ کا پہلا مسئلہ عدت سے متعلق ہے اور اس میں چند امور قابل ذکر ہیں ۔
(1شوہر کے انتقال پہ بیوہ کو عدت کے طور پر چار مہینے اور دس دن گزارنے ہیں
۔ اﷲ کا فرمان ہے :
وَالَّذِینَ یُتَوَفَّوْنَ مِنکُمْ وَیَذَرُونَ أَزْوَاجًا یَتَرَبَّصْنَ
بِأَنفُسِہِنَّ أَرْبَعَۃَ أَشْہُرٍ وَعَشْرًا(البقرۃ: 234)
ترجمہ: اور تم میں سے جو لوگ فوت ہوجائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں وہ عورتیں
اپنے آپ کو چار مہینے اور دس دن عدت میں رکھیں ۔
یہ عدت چار مہینے دس دن (ایک سو تیس دن تقریبا)ان تمام بیوہ عورت کی ہے جو
بڑی عمر کی ہو یا چھوٹی عمر کی خواہ حیض والی ہو یا غیر حیض والی اور
مدخولہ ہو یا غیرمدخولہ البتہ اگر حاملہ ہے تو پھر عدت وضع حمل ہوگی یعنی
عورت حمل وضع کرتے ہی عدت پوری ہوجائے گی جیساکہ اﷲ تعالی کا فرمان ہے :
وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُہُنَّ أَن یَضَعْنَ حَمْلَہُنَّ (الطلاق:4)
ترجمہ: اورحمل والیوں کی عدت ان کا وضع حمل ہے۔
(2 عدت کی شروعا ت اس دن سے ہوگی جب شوہر کی وفات ہوئی ہے ۔ اگر کسی بیوہ
کو کچھ دن تاخیر سے شوہر کی وفات کی خبر ملتی ہے توبھی عدت کی شروعات اسی
دن سے مانی جائے گی جب وفات ہوئی ہو یعنی انجانے میں گزرے ایام بھی عدت میں
شمار کئے جائیں گیاوراس درمیان عورت سے لاعلمی میں زینت کی چیزیں استعمال
کرنے یا باہر نکلنے کی وجہ سے وہ معذور ہے ۔
(3اس میں ایک اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ بیوہ اپنی عدت کہاں گزارے ؟ تو اس کا
جواب یہ ہے کہ بیوہ عورت اس جگہ عدت گزارے گی جہاں شوہر کا انتقال ہواہے ۔
بیوہ کے لئے نبی ﷺ کا فرمان ہے :
امْکُثی فی بیتِکِ الَّذی جاء َ فیہِ نعیُ زوجِکِ حتَّی یبلغَ الْکتابُ
أجلَہُ(صحیح ابن ماجہ:1664)
ترجمہ: تم اپنے اس گھر میں عدت بسر کرو جہاں تمہیں اپنے خاوند کی موت کی
خبر ملی تھی حتی کہ کتاب اﷲ کی بیان کی ہوئی مدت پوری ہوجائے۔
(4اگر شوہر نے طلاق رجعی دی تھی یعنی ایسی طلاق جس میں شوہر کورجوع کا
اختیار ہوتا ہے، وہ پہلی اور دوسری طلاق ہے۔ اور دوران عدت شوہر کی وفات
ہوگئی تو ایسی مطلقہ رجعیہ کو چار مہینے دس دن بطور عدت گزارنے ہیں ۔ ہاں
اگرشوہر نے تیسری طلاق دیدی یا طلاق رجعی کی عدت ختم ہوگئی پھر شوہر کا
انتقال ہوا تو اسے وفات کی عدت نہیں گزارنی ہے کیونکہ شوہر سے جدا ہوچکی ہے
۔
(5عدت کے دوران سفر کرنا منع ہے اس لئے حج وعمرہ کا سفر ہویا تفریح کا سفر
یا بلاضرورت سفر(گھر سیباہر نکلنا) ہو یہ سب بیوہ کے لئے دوران عدت ممنوع
ہیں لیکن وہ ضرورت کے تحت سفر کرسکتی ہے مثلا شوہر کے گھر عدت گزارنا مامون
نہ ہویا دوسرے کا گھر ہوتو مامون ومناسب جگہ منتقل ہوکر عدت گزارسکتی ہے ،
اسی طرح کوئی ضرورت کی چیز لادینے والا نہ ہو تو خود سے باہر نکل کر اشیاء
ضروریہ خرید سکتی ہے اور اگر بیمار پڑجائے تو علاج کی غرض سے بھی گھر سے
نکل سکتی ہے یعنی بیوہ کے لئے دوران عدت ضرروت کے تحت باہر جانا جائز ہے
۔ایک اور بات اہم ہے کہ اگر عورت سفر پہ ہو اور ابھی دور نہیں گئی ہووہاں
شوہر کی وفات کی خبر ملے تو سفر سے لوٹ جائے اور شوہر کے گھر عدت گزارے
لیکن سفر ضروری ہواور منزل کے قریب پہنچ گئی ہومثلا حج یا عمرہ کا سفر تو
اپنا حج وعمرہ مکمل کرلے ۔
دوسرا مسئلہ :
بیوہ کے لئے جہاں چار ماہ دس دن عدت گزارنا ہے وہیں اس کے لئے ان دنوں سوگ
منانے کا بھی حکم ہوا ہے ۔ نبی ﷺکا فرمان ہے : لا یحلُّ لامرأۃٍ تؤمنُ باﷲِ
والیومِ الآخرِ أنْ تحدَّ علی میِّتٍ فوقَ ثلاثِ لیالٍ ، إلَّا علی زوجٍ
أربعۃَ أشہُرٍ وعشرًا (صحیح البخاری:5334)
ترجمہ: کسی عورت کے لیے جو اﷲ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہو یہ جائز
نہیں کہ کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ منائے ، صرف شوہر کے لیے چار مہینے
دس دن کا سوگ ہے ۔
اب ہمیں جاننا یہ ہے کہ سوگ منانے کا اسلامی طریقہ کیا ہے ؟ سوگ میں زینت
اور بناؤسنگار کی چیزیں استعمال کرنا منع ہیں۔ خوشبو اور سرمہ سے بھی
پرہیزکرنا ہیجیساکہ ام عطیہ رضی اﷲ عنہا نبی ﷺ سے روایت کرتی ہیں ۔
کنا نُنْہَی أن نُحِدَّ علی مَیِّتٍ فوق ثلاثٍ، إلا علی زوجٍ أربعۃَ أشہرٍ
وعَشْرًا، ولا نَکْتَحِلَ، ولا نتطیبَ، ولا نلبَسَ ثوبًا مَصْبوغًا إلا
ثَوْبَ عَصْبٍ، وقد رُخِّصَ لنا عند الطُّہْرِ، إذا اغتسلَتْ إحدانا من
مَحِیضِہا، فی نُبْذَۃٍ مِن کُسْتِ أظفارٍ، وکنا نُنْہَی عن اتباعِ
الجنائزِ .(صحیح البخاری:313)
ترجمہ: ہمیں کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ کرنے سے منع کیا جاتا تھا لیکن
شوہر کی موت پر چار مہینے دس دن کے سوگ کا حکم تھا۔ ان دنوں میں ہم نہ سرمہ
لگاتیں نہ خوشبو اور عصب ( یمن کی بنی ہوئی ایک چادر جو رنگین بھی ہوتی تھی
) کے علاوہ کوئی رنگین کپڑا ہم استعمال نہیں کرتی تھیں اور ہمیں ( عدت کے
دنوں میں ) حیض کے غسل کے بعد کست اظفار استعمال کرنے کی اجازت تھی اور
ہمیں جنازہ کے پیچھے چلنے سے منع کیا جاتا تھا۔
اس حدیث کی روشنی میں بیوہ عدت کے دوران رنگین وچمکدار کپڑے،ریشمی اور
زعفرانی لباس،زینت کی چیزیں مثلا کان کی بالی، نان کا نگ، ،پازیب، کنگن،
ہار،انگوٹھی، چوڑیاں، کریم ، پاؤڈر، خوشبودارتیل ، عطر، سرمہ ، مہندی وغیرہ
استعمال نہیں کرے گی ۔حیض سے پاکی پر معمولی مقدار میں بخور وغیرہ استعمال
کرسکتی ہیاور دوا کے طور پرسرمہ بھی استعمال کرسکتی ہے مگر صرف رات میں ۔
خلاصہ یہ ہے کہ سوگ میں عورت پر غم کے آثار ظاہر ہوں اس وجہ سے زینت کی
چیزیں استعمال کرنا منع ہے۔ سفید کپڑا ہی بیوہ کی علامت نہیں ہے کوئی بھی
عام سادہ کپڑا جو خوبصورت نہ ہو پہن سکتی ہے اور ضرورت کی چیزیں انجام دینے
مثلا کھانا پکانا، پانی بھرنے، جھاڑو دینے، غسل کرنے، کپڑا صاف کرنے ، بات
چیت کرنے اور گھریلو امور انجام دینے میں کوئی حرج نہیں ہے یہاں تک کہ اگر
کوئی ملازمت ہواور چھٹی کی کوئی گنجائش نہ ہو توبناؤسنگار سے بچتے ہوئے
ملازمت بھی کرسکتی ہیکیونکہ یہ ضرورت میں داخل ہے۔ بلاضرورت بات چیت، ہنسی
مذاق، گھر سے نکل کر کام کرنا (الایہ کہ اشد ضرورت ہو)، ٹیلی ویزن ،ریڈیو ،
اخبار اور موبائل کا بلاضرورت استعمال کرنا یعنی وقت گزاری کے لئے منع ہے ۔
خالی وقت میں قرآن کی تلاوت، ذکرواذکار، دعاواستغفاراورکتب احادیث وسیر کا
مطالعہ بہتر ہے ۔
تیسرہ مسئلہ:
جب بیوہ کی عدت مکمل ہوجائے یعنی وہ بطور عدت ایک سو تیس دن پورے کرلے تو
جہاں چاہے دوسرے دیندار مرد سے شادی کرسکتی ہے ۔ اس سے تنہائی کی حفاظت اور
پاکدانی نصیب ہوگی نیزمعاش کا مسئلہ بھی حل ہوجائے گا۔ سماج میں اولاد والی
خاتون کا شادی کرنا معیوب مانا جاتا ہے جو کہ سراسر غلط ہے ۔ یہاں میں ان
مردوں کو بھی مخاطب کرنا چاہتا ہوں جن کی بیوی کی وفات ہوگئی وہ کسی بیوہ
خاتون سے شادی کرکے اپنی اور اس کی زندگی بہتر بنالیں ۔ بیوہ سے کوئی ضروری
نہیں ہے کہ شادی شدہ مرد ہی شادی کرے ، غیرشادی شدہ مرد بھی شادی کرسکتا ہے
۔ نبی ﷺ کا پہلا نکاح حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا سے ہوا تھا آپ? غیر شادی شدہ
اور خدیجہ رضی اﷲ عنہا بیوہ تھیں۔ ان کے علاوہ کئی بیوہ خاتون سے آپ ? نے
نکاح کیا۔
یہاں یہ خیال رہے کہ دوسری شادی عدت کے بعد ہی ہوگی ، عدت کے دوران نکاح
اور پیغام نکاح دونوں غلط ہے اور یہ بھی یاد رہے کہ لڑکی باکرہ ہو یا ثیبہ
دونوں کو ولی کی اجازت لینی ہوگی۔
شیخ البانی ؒ نے صحیح ابن ماجہ 1537کے تحت ذکر کیاہے : "لا نِکاحَ إلَّا
بولیٍّ" نبی ﷺکا فرمان ہے کہ بغیر ولی کے نکاح نہیں ہے ۔ اسی طرح صحیح
ابوداؤد للالبانی (رقم : 2083)میں ہے :أیُّما امرأۃٍ نَکَحَت بغیرِ إذنِ
مَوالیہا ، فنِکاحُہا باطلٌ ، ثلاثَ مرَّاتٍ۔ یعنی جس عورت نے اپنے ولی کی
اجازت کے بغیر نکاح کیا اس کا نکاح باطل ہے۔یہ بات آپ ﷺنے تین بار کہی ۔
چوتھا مسئلہ :
شوہر کی وفات کے بعداس کا چھوڑا ہوا مال اس کے وارثین میں تقسیم کیا جائے
گا۔ وارثین میں بیوہ بھی داخل ہے۔ اگر بیوہ کو اولاد ہو تو کل مال کا
آٹھواں حصہ ملے گا لیکن اگر کوئی اولاد نہ ہو تو چوتھائی مال کا مستحق ہے۔
میت کی ایک سے زائد بیویاں ہوں تو آٹھواں یا چوتھائی حصہ میں سے سب برابر
برابرمال لے گی۔ میراث اس بیوہ کو بھی ملے گا جس سے صرف عقد ہوا ہو اور
شوہر نے دخول نہیں کیاہو، اسی طرح مطلقہ رجعیہ بھی میراث کا مستحق ہے۔
پانچواں مسئلہ :
بیوہ سے متعلق لوگوں میں کئی قسم کی غلط فہمیاں بھی پائی جاتی ہیں اس میں
ان کا ازالہ کیاجاتا ہے۔
(1عورتوں میں ایک خیال عام ہے کہ بیوہ کو لازما سفید کپڑا ہی پہننا ہوگا ،
اسی عقیدہ کے تحت بہت سی بیوہ خواتین جو دوسری شادی نہیں کرتیں مرتے دم تک
سفید لباس ہی لگاتی ہیں جبکہ یہ خیال غلط ہے ۔ کالا، ہرا، نیلا کوئی بھی
سادہ لباس بیوہ عدت میں لگاسکتی ہے۔
(2بیوہ کا مردوں سے بات کرنا یا موبائل وٹیلی فون سے رابطہ کرنا بھی برا
سمجھا جاتا ہے ۔ یہ خیال بھی درست نہیں ہے ،ہاں بس ضرورت کی حد تک بات کرے۔
(3 گھر میں بغیر چپل کے چلنا، چاندنی رات میں نکلنا یا ہفتہ میں ایک سے
زائد بار نہانا غلط تصور کیا جاتا ہے جبکہ صحیح بات یہ ہے کہ بیوہ چیل
وبغیر چل سکتی ہے، چاندنی رات میں گھر کے آنگن یا چھت پہ ٹہل سکتی ہیاور
جتنی بار نہانے کی ضرورت ہو نہا سکتی ہے۔ نہانے میں بغیر خوشبو کے صابن
استعما ل کرے۔
(4 عدت مکمل کرنے پر مخصوص طریقہ بھی کہیں کہیں رائج ہے مثلا ضرروی طور پر
نہانا، ضروری طور پر خوشبو استعمال کرنایا لازما خواتین میں زینت کا اظہار
کرنا ، یہ سب دین اسلام میں سے نہیں ہے یعنی عدت مکمل کرنے کا کوئی مخصوص
طریقہ نہیں ہے اور نہ ہی یہ ضروری ہے کہ دوسروں کی جانکاری کے لئے لازما
زینت استعمال کرے۔
(5 بیوہ کو حقارت کی نظر سے دیکھنا یا اس کے شوہر کی وفات سے کسی قسم کی
نحوست لینا بھی بے دینی وجہالت ہے ۔
(6 بیوہ سے شادی یا بیوہ کی شادی بھی نادانوں کی نظر میں غلط معلوم ہوتی ہے
حالانکہ شادی سکون ، عفت، برکت، روزی اور بے حیائی سے حفاظت کا ذریعہ ہے۔
(7ایک بھیانک غلط خیال یہ بھی عوام الناس میں منتشر ہے کہ شوہر کی وفات سے
نکاح ٹوٹ جاتا ہے اس لئے میاں بیوی ایک دوسرے کے لئے اجنبی ہوجاتے ہیں لہذا
بیوی شوہر کو چھو نہیں سکتی، دیکھ نہیں سکتی، غسل نہیں دے سکتی ۔ یہ ساری
باتیں غلط ہیں ۔ شوہر سے نکاح ٹوٹ جانے کی کوئی دلیل نہیں اور نہ ہی زوجین
ایک دوسرے کے لئے اجنبی ہیں ۔ وفات کے بعد بیوی شوہر کو دیکھ سکتی ہے ، چھو
بھی سکتی ہے اور نہلا بھی سکتی ہے۔
بیوہ سے متعلق یہ مختصر احکام تھے ، ان کی جانکاری دوسروں کوبھی دیں تاکہ
لوگوں میں بیوہ کے دینی احکام عام ہوں اور لوگ جہالت سے بچ سکیں ۔
|