خالق کائنات اللہ رب العزت نے ہر جاندار کے لیے موت کا
وقت اور جگہ متعین کردی ہے اور موت ایسی شے ہے کہ دنیا کا کوئی بھی شخص،
خواہ وہ کافر یا فاجر حتی کہ دہریہ ہی کیوں نہ ہو، موت کو یقینی مانتا ہے۔
اور اگر کوئی موت پر شک وشبہ بھی کرے تو اسے بے وقوفوں کی فہرست میں شمار
کیا جاتا ہے کیوں کہ بڑی بڑی مادی طاقتیں اور مشرق سے مغرب تک قائم ساری
حکومتیں موت کے سامنے عاجز وبے بس ہوجاتی ہیں۔
موت بندوں کو ہلاک کرنے والی، بچوں کو یتیم کرنے والی، عورتوں کو بیوہ
بنانے والی، دنیاوی ظاہری سہاروں کو ختم کرنے والی، دلوں کو تھرانے والی،
آنکھوں کو رلانے والی، بستیوں کو اجاڑنے والی، جماعتوں کو منتشر کرنے والی،
لذتوں کو ختم کرنے والی، امیدوں پر پانی پھیرنے والی، ظالموں کو جہنم کی
وادیوں میں جھلسانے والی اور متقیوں کو جنت کے بالاخانوں تک پہنچانے والی
شے ہے۔
موت نہ چھوٹوں پر شفقت کرتی ہے، نہ بڑوں کی تعظیم کرتی ہے، نہ دنیاوی
چودھریوں سے ڈرتی ہے، نہ بادشاہوں سے ان کے دربار میں حاضری کی اجازت لیتی
ہے۔ جب بھی حکم خداوندی ہوتا ہے تو تمام دنیاوی رکاوٹوں کو چیرتی اورپھاڑتی
ہوئی مطلوب کو حاصل کرلیتی ہے۔
موت نہ نیک صالح لوگوں پر رحم کھاتی ہے، نہ ظالموں کو بخشتی ہے۔ اللہ کے
راستے میں جہاد کرنے والوں کو بھی موت اپنے گلے لگا لیتی ہے اور گھر بیٹھنے
والوں کو بھی موت نہیں چھوڑتی۔ اخروی ابدی زندگی کو دنیاوی فانی زندگی پر
ترجیح دینے والے بھی موت کی آغوش میں سوجاتے ہیں اور دنیا کے دیوانوں کو
بھی موت اپنا لقمہ بنالیتی ہے۔
موت آنے کے بعد آنکھ دیکھ نہیں سکتی، زبان بول نہیں سکتی، کان سن نہیں
سکتے، ہاتھ پیر کام نہیں کرسکتے۔ موت نام ہے روح کا بدن سے تعلق ختم ہونے
کا اور انسان کا دار فانی سے دار بقا کی طرف کوچ کرنے کا۔ ترقی یافتہ سائنس
بھی روح کو سمجھنے سے قاصر ہے، حالاں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں واضح
طور پر اعلان فردیا ہے: ’’روح صرف اللہ کا حکم ہے۔‘‘ موت پر انسان کے اعمال
کا رجسٹر بند کردیا جاتا ہے اور موت پر توبہ کا دروازہ بند اور جزا وسزا کا
وقت شروع ہوجاتا ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ
تعالیٰ بندے کی توبہ قبول کرتا ہے، یہاں تک کہ اْس کا آخری وقت آجائے۔ ہم
ہر روز، ہر گھنٹے، بلکہ ہر لمحے اپنی موت کے قریب ہوتے جارہے ہیں۔ سال،
مہینے اور دن گزرنے پر ہم کہتے ہیں کہ ہماری عمر اتنی ہوگئی، لیکن حقیقت یہ
ہے کہ یہ ایام ہماری زندگی سے کم ہوگئے۔
موت ایک مصیبت بھی ہے جیسا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے: ’’اور وہیں
تمہیں موت کی مصیبت پیش آجائے۔‘‘ (سورہ المائدۃ :106)
موت کو یاد کرنے کے چند اسباب یعنی وہ اعمال جن سے موت یاد آتی ہے، یہ ہیں:
وقتاً فوقتاً قبرستان جانا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
کہ قبروں کی زیارت کیا کرو، اس سے تمہیں آخرت یاد رہے گی۔ (مسند احمد
وابوداود)
مْردوں کو غسل دینا یا اْن کے غسل کے وقت حاضر رہنا۔ اگر موقع میسر ہو تو
انتقال کرنے والے شخص کے آخری لمحات دیکھنا اور اْن کو کلمہ شہادت کی تلقین
کرنا۔ جنازہ میں شرکت کرنا۔
بیماروں اور بوڑھوں سے ملاقات کرنا۔ آندھی، طوفان اور زلزلے کے وقت انسانوں
کی کمزوری اور اللہ کی طاقت وقوت کا اعتراف کرنا۔ پہلی امتوں کے واقعات
پڑھنا۔
موت کو کثرت سے یاد کرنے والوں کو اللہ کی جانب سے مذکورہ اعمال کی توفیق
ہوتی ہے:
گناہوں سے توبہ نصیب ہوتی ہے۔ گناہوں سے حفاظت ہوتی ہے۔ سخت دل نرم ہوجاتا
ہے اور کبھی کبھار آنکھوں سے آنسو بہہ جاتے ہیں۔ دل قناعت پسند بن جاتا ہے۔
عبادت میں نشاط پیدا ہوتی ہے۔ بہت ساری دشواریاں آسان ہوجاتی ہیں۔ لمبی
لمبی امیدیں اور امنگیں کم ہوجاتی ہے۔ تواضع اور انکساری پیدا ہوتی ہے، جس
سے انسان دوسروں پر ظلم کرنے اور کبر کرنے سے محفوظ رہتا ہے۔
اخروی زندگی یاد رہتی ہے، جس سے اللہ تعالیٰ کا خوف پیدا ہوتا ہے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو مرنے سے قبل مرنے کی تیاری کرنے کی توفیق عطا
فرمائے اور ہمیں دونوں جہاں کی کامیابی وکامرانی سے نوازے۔ آمین۔
|