قاسم حمدان
پچھلے دنوں سعودی عرب نے اپنے یہاں خواتین کو گاڑی ڈرائیو کرنے کی اجازت
دینے کا اعلان کیا تو ہر طرف ہاہا کار مچ گئی ۔ سیکولر طبقہ خوشی سے اچھلنے
لگا ، مغربی ممالک اور حقوق نسواں کی تنظیموں نے اسے سعودی خواتین کے آزاد
ہونے کی علامت اور لبرلز نے اسے اپنی فتح قرار دیا ۔ مذہبی اذہان کو شاک
لگا ، انھوں نے اسے سعودیہ امریکا تعلقات کا شاخسانہ سمجھا اور اس پر غم
وغصے کا اظہار کیا ۔سپریم علماء کونسل کے ارکان نے اسے قرآن وسنت کی روشنی
میں درست قرار دیا ۔
اس فیصلہ کی وجہ مذہبی کی بجائے اقتصادی ہے ، چند سالوں سے تیل کی گرتی
ہوئی قیمتوں نے سعودی عرب کی مالی حالت پر غیر معمولی برے اثرات مرتب کئے
ہیں ۔ حکومت نے اپنی گرتی ہوئی اقتصادیات کو بحال کرنے کے لیے ایک میگا
پلان تیار کیا ، کہ سعودی عرب کا سرکاری اور پرائیویٹ سٹریکچر تقریباً 95%
غیر ملکی لوگوں پر مشتمل ہے ، سعودی حکومت کو ماہانہ اربوں ڈالر زر مبادلہ
کے طور پر دینا پڑتا ہے ۔ اب انھوں نے طے کیا ہے کہ چند سالوں کے اندر غیر
ملکیوں کو فارغ کرکے سارے کام سعودی باشندوں کو سنبھالنے پر مجبور کیا
جائے، تاکہ ہر مہینہ زرمبادلہ میں دیئے جانے والے اربوں ڈالر بچائے جائیں ۔
اسی پالیسی کے تحت انھوں نے سوچا کہ ملک میں تقریبا 20 لاکھ افراد ڈرائیور
کی جاب کررہے ہیں ، اگر ان کی اوسط تنخواہ اور دوسری مراعات 1500ریال بھی
لگائیں تو یہ ماہانہ تین ارب ریال بنتا ہے جو سعودی عرب سے باہر جاتا ہے ۔
انھیں نکالنے کے لیے ضروری ہے کہ خواتین کو ڈرائیو کرنے کی اجازت دی جائے ۔
اسی وجہ اس فیصلہ پر انڈیا میں نہایت افسوس کا اظہار کیا گیا ، کیونکہ اس
شعبے میں سب سے زیادہ انڈین لوگ ہیں ۔
سعودی عرب کی سپریم علماء کونسل کی طرف سے اس مسئلہ پر جو پریس ریلیز جاری
ہوئی ہے اس میں کہا گیا ہے کہ علمائے کرام نے خواتین کو ڈرائیونگ کرنے کی
جو اجازت دی ہے ، وہ اس لیے ہے کہ یہ بذات خود شرعا ًحرام نہیں ہے ، جن
کبار علمائے کرام نے پہلے خواتین کو گاڑی ڈرائیو کرنے سے منع کا فتویٰ دیا
تھا انھوں نے بھی اسے بذات خود شرعاً حرام قرار نہیں دیا تھا ، بلکہ بعض
ثانوی مفاسد کی بنیاد پر اسے غیر مناسب اور منفی نتائج کا حامل قرار دے کر
اس پر پابندی کی سفارش کی تھی ، لیکن آج حکومت دیکھ رہی ہے کہ اس پابندی کے
باعث متعدد خرابیاں جنم لے رہی ہیں ۔ اور سپریم علماء کونسل کی اکثریت کی
رائے ہے کہ شرعی اور قانونی ضمانتوں کے ہوتے ہوئے خواتین کو ڈرائیونگ کی
اجازت دینے میں کوئی مانع نہیں ہے ۔ سپریم علماء کونسل کے سینئر رکن شیخ
عبداﷲ بن عبدالمحسن الترکی نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ یہ فیصلہ شرعی ضوابط
کے عین مطابق ہے ، قرآن وسنت کے منافی نہیں ہے ، سماجی مطالعات سے ثابت
ہوچکا ہے کہ( شرعی ضوابط کے اندر رہتے ہوئے ) خواتین کی ڈرائیونگ کا کوئی
نقصان نہیں ہے ، اگر اس کے کچھ منفی پہلو بھی ہیں تو وہ بھی جلد ختم
ہوجائیں گے ۔ اس فیصلہ سے بہت ساری خرابیاں دور ہوں گی ، فوائد بھی حاصل
ہوں گے ۔
مذکورہ بالا بیان میں جن خرابیوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ، ان میں سے چند
ایک یہ ہیں جن کا ہم نے سعودی عرب میں رہ کر مشاہدہ کیا ہے :
شریعت اسلامیہ نے خواتین کے احترام اور جسمانی کمزوری کے سبب ا ن کی خدمت
اور تحفظ کے لیے حکم دیا ہے کہ عورت تنہا باہر نہ جائے ،بلکہ اس کے ساتھ
کوئی محرم رشتہ دار مرد ہونا چاہئے ‘اس پر عمل ہوتا تو یقینا عورت کی
ڈرائیونگ پر پابندی لگانے کا فائدہ تھا ، لیکن عملاً ہوا یہ کہ لوگوں نے
بچوں اور خواتین کی خدمت کے لیے ایک اجنبی مرد کو گھر ڈرائیور رکھ لیا ،
اور حکومت نے لوگوں کی ضرورت اور مطالبے پر ہاؤس ڈرائیور کے ویزے نکالے ،
بلکہ انھیں بعض ایسی سہولیات فراہم کیں جو عام کام کرنے والوں کو میسر نہ
تھیں ، نتیجتاً ہر گھر میں ایک اجنبی مرد ڈرائیور کے نام سے داخل ہوگیا۔ جو
بچوں (جن میں جوان لڑکیاں بھی ہوتی ہیں ) کو اسکولز ،کالجز اور
یونیورسٹیزکے علاوہ گھر کی خواتین کو مارکیٹس لے جانا عام گھروں کے ساتھ
ساتھ تنہا رہنے والی یعنی مطلقہ اور بیوہ خواتین نے بھی گھروں میں ڈرائیور
رکھے ہوئے ہیں ۔ ان کے ساتھ وہ تنہا جاتی ہیں ۔
اس کے نتیجے میں بہت سی غلط کاریوں نے راستہ بنالیا ہے ۔ کئی دفعہ گھر میں
ایسی ایمر جنسی پیدا ہوجاتی ہے تو اگر گھر میں مرد نہ ہو ، اور عورت گاڑی
چلاسکتی ہے تو وہ مریض کو امداد کے لیے ہسپتال وغیرہ لے جاسکتی ہے ، لیکن
اگر اس پر پابندی ہو تو مریض کو نقصان پہنچنے کا قوی اندیشہ ہے ۔
سعودیہ میں مقیم ہمارے دوست نے بتایا کہ ان کے شہر میں ایک شخص کو رات کے
وقت ہارٹ اٹیک ہوا ، اس کے بعد چند منٹ ہوتے ہیں ، اگر ایمبولینس کو کال
کرتے ہیں تو تھوڑی سی تاخیر بھی مریض کے لیے جان لیوا ہوسکتی ہے ۔ لہٰذا اس
کی بیوی کو گاڑی چلانا آتی تھی ، اس نے ایمبولینس کا انتظار کئے بغیر خاوند
کو گاڑی میں ڈالا اور فوراً ہسپتال پہنچ گئی ۔ ایسا ہی ایک واقعہ دوران سفر
پیش آیا ، مرد کو دل کا دورہ پڑا ، بیوی نے فوراً اسے اٹھاکر پچھلی سیٹ پر
لٹا دیا ،اسٹیرنگ سنبھالا اور قریب ترین امدادی سینٹر پہنچ گئیں ۔
اسی طرح کے ایک اور واقعہ میں ایک بزرگ شہری گاؤں سے اپنی انڈونیشی خادمہ
کے ساتھ شہر میں آیا ، گاڑی خادمہ ڈرائیو کررہی تھی ، ٹریفک پولیس والے نے
اسے روک لیا ۔ وجہ پوچھی تو اس نے کہا : بیٹے اپنے اپنے گھروں اور اپنے
اپنے معاملات میں مشغول ہیں ، جب تک نظر درست تھی خود گاڑی چلاتا تھا ،اب
میری نظر کمزور ہوگئی ہے ،اس خادمہ کے ساتھ سودا سلف لینے بازار آجاتا ہوں
۔ یہ گاڑی نہ چلائے تو میں اپنی ضروریات کیونکر پوری کروں؟اسی طرح کا ایک
واقعہ ساٹھ سال قبل مجمعہ شہر میں بھی پیش آیا تھا تو قاضی شیخ علی بن
لیمان الروی نے نابینا شخصکی بیٹی کو گاڑی چلانے کی اجازت دی تھی
سعودی عرب میں ہم نے دیکھا ہے کہ جن غریب گھروں میں ڈرائیور نہیں ہوتے ،
اور بعض اوقات مرد بھی میسر نہیں ہوتا ، تو خواتین چھوٹے بچوں کو گاڑی دے
کر بھیج دیتی ہیں ، جو حادثے اور نقصان کا باعث بنتے ہیں ۔ کئی دفعہ ہم نے
اتنی چھوٹے بچوں کو گاڑی چلاتے دیکھا ہے جنھیں سامنے دیکھنے کے لیے کھڑا
ہونا پڑتا ہے ۔ بعض اوقات ایسا بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ عورت ڈرائیور سیٹ
پر چھوٹے بچے کو بٹھاتی ہے ، اور خود ساتھ والی سیٹ پر بیٹھ کر گاڑی کو
کنٹرول کر رہی ہوتی ہے ۔ کیونکہ ڈرائیور سیٹ پر عورت کابیٹھنا منع تھا ۔
ڈرائیونگ ایک خوبی ہے ، اس کے بہت سارے فوائد ہیں ، بلکہ آج ضرورت بن گئی
ہے ۔ عورت کے لیے بھی ڈرائیونگ کے وہی فوائد ہیں جو مرد کے لیے ہیں ۔
سعودی عرب کے اس فیصلہ پر کسی کی فتح یا شکست کا شور مچانا درست نہیں بلکہ
ہمیں وقت کے تقاضوں کے ساتھ چلتے ہوئے ہر اچھے کام کی حمایت اور غلط کی
حوصلہ شکنی کرنی چاہئے۔ |