شہید ناموس رسالت غازی علم الدین شہیدؒ

’’لوہاراں دا پتر بازی لے گیا اسی ساتے سوچدے ای رے ‘‘یہ تاریخی فقرہ علامہ محمد اقبالؒ نے شہید ختم نبوت غازی علم الدین شہید کی تدفین کے موقع پر ادا کیے تھے۔ غازی علم الدین شہید 4دسمبر 1908ء کو لاہور میں ایک متوسط طبقے کے طالع مند کے گھرپیدا ہوئے۔ طالع منداعلیٰ پائے کے بڑھی تھے اور ان کی ہنر مندی اور کاریگری کے چرچے دور دراز علاقوں میں ہوتے تھے۔ طالع مند کے چھوٹے بیٹے علم الدین نے اپنے والد اور بڑے بھائی میاں محمد امین کی شاگردی اختیار کی اور کاریگر بن کر کوہاٹ کے بنوں بازار میں اپنے کاروبارمیں مصروف ہوگیا۔ وہ لاہور آیا تو ان دنوں لاہور میں مسلمان ایک ہندو ناشر کے خلاف سرپا احتجاج تھے۔یہ ناشر ہندو آریہ سماج تنظیم کا سرگرم رکن تھا اور یہ تنظیم مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پنچانے کے لیے دل آزار کتابیں شائع کرواتی رہتی تھی۔

1923ء میں شیطان صفت ’’راجپال‘‘ نے امام الانبیاء ﷺ کی شان اقدس میں گستاخی پر مبنی کتاب شائع کی۔ جس سے کروڑوں مسلمانوں کے مذہبی جذبات مجروح ہوئے اور مسلمان راجپال کے خلاف سراپا احتجاج ہوئے اور انگریز حکومت سے مطالبہ کیا کہ اس کتاب کو ضبط کیا جائے اور اس گستاخ رسول کو گرفتار کرکے اس کے خلاف کاروائی کی جائے۔مسلمانوں کے اس احتجاج کے بعد اسلام دشمن انگریز حکومت نے راجپال کو صرف چھ ماہ کی سزا پر ہی اکتفا کیا۔ جسے بعد ازاں ہائی کورٹ کے جسٹس نے رہا کردیا۔ اس کی رہائی کے بعد مسلمانوں کی جانب سے جلسے اور جلوس منعقد ہونے شروع ہوگئے بالآخر انگریز حکومت نے دفعہ 144لگا کر مسلمان راہنماؤں کو گرفتار کرنا شروع کردیا۔

یکم اپریل 1929ء کی رات بیرون دہلی دروازہ درگاہ شاہ محمد غوثؒ کے احاطہ میں ایک عظیم الشان کانفرنس کا اہتمام کیا گیا جس میں مفتی کفایت اﷲ، مولانا احمد سعید دہلوی اور سید عطا اﷲ شاہ بخاری سمیت جید علماء شریک تھے۔ سید عطا اﷲ شاہ بخاری نے ناموس رسالت پر ایک دل گداز تقریر کی آپ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ:
’’آج آپ لوگ جناب فخر رسل محمد عربیﷺ کی عزت وناموس کو برقرار رکھنے کے لیے یہاں جمع ہوئے ہیں۔ آج جنس انسان کو عزت بخشنے والے کی عزت خطرہ میں ہے آج اس جلیل المرتبت کی ناموس معرض خطر میں ہے جس کی دی ہوئی عزت پر تمام موجودات کو ناز ہے‘‘

طالع مند کے دونوں بیٹے میاں محمد امین اور علم الدین اس تقریر کو سننے وہاں موجود تھے۔ شاہ صاحب نے دوران کہا کہ جب تک ایک مسلمان بھی زندہ ہے ناموس رسالت پر حملہ کرنے والے چین سے نہیں رہ سکتے۔ پولیس جھوٹی، حکومت کوڑھی اور ڈپٹی کمشنر نااہل ہے۔ ہندو اخبارات کی ہرزہ سرائی تو روک نہیں سکتا لیکن علمائے کرام کی تقریریں روکنا چاہتا ہے۔ میں دفعہ 144کو اپنے جوت کی نوک تلے مسل کر بتادوں گا‘‘

شاہ صاحب کے خطاب نے جلتی پر تیل کا کام کیا مسلمانوں کے دل جو پہلے ہی راج پال کے خلاف بھرے پڑے تھے اس خطاب کے بعد وہ آگ بگولہ ہوگئے اور گلی گلی، کوچہ کوچہ راج پال اور اس کی کتاب کے خلاف جابجا جلسے ہونے لگے۔ مسلمان یہ جان چکے تھے کہ انگریز ہندودوستی اور مسلم دشمنی میں راج پال کو کچھ نہیں کہنے والے ہمیں ہی کچھ کرنا پڑے گا۔ لاہور کا ایک مرد درویش غازی خدابخش 24ستمبر 1928ء کو راج پال کو وصل جہنم کرنے کے لیے اس پر حملہ آور ہوا لیکن وہ ملعون بھاگ نکلا اور اس نے اپنی جان بچا لی۔ غازی خدا بخش گرفتار ہوگئے اور عدالت نے انہیں 7سال کی سزا سنا دی۔

شاتم رسول راج پال کو ختم کرنے کے لیے کئی نوجوانوں نے اس پر حملہ کیا لیکن ہر وار سے وہ بچتا رہا بالآخر 6اپریل 1929ء کو غازی علم الدین راج پال کی دوکان پر پہنچے اور پوچھا کہ راج پال کہاں ہے؟ راجپال نے خود ہی کہا میں ہوں کیا کام ہےَ۔ عاشق صادق نے چھری نکال کر اس پر بھرپور حملہ کیا اور اسے واصل جہنم کرکے ہی دم لیا۔

غازی صاحب کو گرفتار کیا گیا۔ مقدمہ عدالت میں چلا ۔ آپ نے عدالت کے روبرو قتل کا اقرار کیاتو جج نے آپ کو 22مئی 1929کو سزائے موت کا حکم سنا دیا۔ اس فیصلہ کو ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا اور بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے آپ کی وکالت کی ۔ آپ کی سزائے موت کے خلاف فیصلہ کو چیلنج کیا گیا لیکن 15جولائی 1929کو ہائی کے دو ججوں نے سیشن کورٹ کی سزا کو بحال رکھا۔

غازی علم الدین کو معلوم ہوا تو آپ نے مسکرا کرفرمایا ’’الحمد ﷲ میں یہی چاہتا تھا۔ بزدلوں کی طرح قیدی بن کر جیل میں سڑنے کی بجائے تختہ دار پر چڑھ کر ناموس رسالت پر اپنی جان فدا کرنا میرے لیے ہزار ابدی سکون وراحت ہے۔‘‘

مسلمان عمائدین کی جانب سے آپ کی سزائے موت کو رکوانے کی بھرپور کوشش کی گئی جو کہ کارآمد ثابت نہ ہوسکی بالآخر آپ کو 31اکتوبر 1929ء کو بروز جمعرات 20سال 10ماہ اور 28دن کی عمر میں غازی علم الدین کو شہید کردیا گیا۔آپ کے جسد خاکی کو میانوالی جیل میں ہی دفنا دیا گیا۔ انگریزوں کے ساتھ طویل مذاکرات کے بعد مسلمانوں کو غازی علم الدین شہید کا جسد خاکی اس شرط پر دینے کی آمادگی ظاہر کی کہ وہ تدفین کے موقع پر امن وامان کی مکمل ذمہ داری لیتے ہیں۔ گورنر پنجاب سے مذاکرات میں علامہ محمد ڈاکٹر اقبال، سر محمد شفیع، سر فضل حسین، خلیفہ شجاع ، میاں امیرالدین، مولانا عبدالعزیز، مولانا ظفر علی خان اور مولانا غلام محی الدین قصوری نے کہا کہ حرمت رسول ہمارے ایمان کا جز لازم ہے۔ غازی علم الدین شہید نے جو کیا وہ ہرمسلمان کے جذبات کی عکاسی ہے۔

15نومبر 1929کو شہید ناموس رسالت غازی علم الدین شہید کا جسد خاکی بذریعہ ٹرین میانوالی سے لاہور منتقل ہوا تو مصور پاکستان علامہ محمد اقبال اور سر محمد شفیع نے شہید کا جسد خاکی وصول کیا اور اسی روز لاہور کی تاریخ کا سب سے بڑا جنازہ ادا کیا گیا جنازے میں تقریباً چھ لاکھ سے زائد افراد نے شرکت کی اور غازی علم الدین شہید کی وصیت کے مطابق آپ کو میانی صاحب قبرستان میں دفن کیا گیا۔ مسجد وزیر خان کے خطیب قاری شمس الدین نے نماز جنازہ پڑھایا ، پیر سید جماعت علی شاہ محدث علی پوری نے غازی علم الدین شہید کے پاؤں کا چوما۔ علامہ محمد اقبال اور سید دیدار علی شاہ نے عظیم میت کو لحد میں اتارا اس موقع پر علامہ محمد اقبال نے کہا کہ ’’لوہاراں دا پتر بازی لے گیا اسی ساتے سوچدے ای رے ‘‘
 

abdul rehman jalalpuri
About the Author: abdul rehman jalalpuri Read More Articles by abdul rehman jalalpuri: 22 Articles with 29324 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.