مولا نا محمد الیاسؒ کے سوز اندروں سے جنم لینے والی دعوت
و تبلیغ کی عالمگیر تحریک کے سہ روزہ عالمی تبلیغی اجتماع کے پہلے مرحلے کا
آغاز تین نومبر کو ہوگا ،جس میں دنیا بھر سے فرزندانِ اسلام شرکت کریں گے۔
اس سلسلے میں پہلے تو ایک اجتماع ہو تا تھا، لیکن اب کثرت تعداد کے پیش نظر
اس اجتماع کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے ۔ دعوت و تبلیغ کی نسبت
رکھنے والے لاکھوں فرزندانِ توحید رائیونڈ کی طرف رواں دواں ہیں۔ حج کے بعد
پورے عالم اسلام کا دوسرا بڑا عظیم الشان اجتماع ہے ، رائیونڈ کا وسیع و
عریض پنڈا ل اپنی وسعتوں کے باوجود کم پڑ جاتا ہے ۔تا حد ِ نگاہ نصب خیمے ،
عوام کا ٹھاٹھے مارتاسمندر اس گئے گزرے دور میں مسلمانوں کے بکھرے شیرازے
کی اجتماعیت کی ایک جھلک ہے ۔
دعوت و تبلیغ کے اس پھلتے پھولتے چمن کی نسبت بطحا کی سنگ لاخ پہاڑیوں سے
ابھرتے ہدایت کے ماہتاب ،محسنِ انسانیت اور مشفق امت ہمارے آقا ‘ محمد
الرسول اﷲ ﷺکے ساتھ ہے۔ جو کبھی فاران کی چوٹی پر کھڑے ہو کر یا ایہا الناس
قولو لا الہٰ الا اﷲ تفلحوا ’’ترجمہ ‘‘ ( اے لوگو لا الہٰ الا اﷲ پڑھ لو
کامیاب ہو جاؤ گے ) کا نعرۂ مستانہ بلند کرتے دکھائی دیتے ہیں ، کبھی عکاظ
کے میلے میں دعوت اسلام دیتے دکھائی دیتے ہیں اور کبھی طائف کی وادی میں
پتھروں سے لہو لہان نظر آتے ہیں۔ آتش و آہن کی بارش آپ ﷺ کے پہاڑ جیسے بلند
عزائم کو روکنے میں ناکام رہی آخر کار آپ صلی اﷲ علیہ و سلم کی 23سالہ محنت
رنگ لائی اور کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار نفوس قدسیہ پر مشتمل صحابہ کر
ام ؓ کی جماعت تیار ہو گئی جن کے قلوب میں دعوت توحید اس طور پر رچ بس چکی
تھی کہ اس وقت کی سپر طاقتیں ان سے ٹکراکے پاش پاش ہو گئیں ۔
مسلمانوں کی تیرہ سو سالہ تاریخ عزت و عظمت ،شان وشوکت اور دبدبہ وحشمت سے
لبریز ہے ۔لیکن تاریخ سے نظریں ہٹا کر اگر آج کے دور میں مسلمانوں کے حالات
واقعات کا مشاہدہ کیا جائے تو مسلمان زبوں حالی کا شکار نظر آتے ہیں ذلت و
خواری ، افلاس و ناداری ان کا مقدر لگتی ہیں۔‘ آج مسلمانوں نے دعوت و تبلیغ
کے اس فریضے سے پہلو تہی کی تو ان کی انفرادی وا جتماعی زندگیوں سے ایمان
کی بنیادیں مضمحل ہونے لگیں ،مسلمانوں کے اعتقاد کمزور پڑنے لگے ،مسلمان
وحی کی برکات سے محروم ہونے لگے ، قرآنِ کریم کی بے شمار آیات اور احادیث
سے دعوت وتبلیغ کی اہمیت اور فضیلت ظاہر ہوتی ہے۔چنانچہ ارشادِ باری تعالٰی
ہے کہ تم بہترین اُمت ہو لوگوں کی نفع رسانی کے لیے تمہیں نکا لا گیا ہے ،تم
بھلی باتوں کا حکم کرتے اور بری باتوں سے روکتے ہو اور ایک اللٰہ پر ایمان
لاتے ہو۔) سورۃآلِ عمران آیت۔11o)۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول
خدا صلی اﷲ نے ارشاد فرمایا کہ جب میری امت دنیا کو قابل وقعت و عظمت
سمجھنے لگے گی تو اسلام کی وقعت و ہیبت ان کے قلوب سے نکل جائے گی اور جب
امر باالمعروف اور نہی عن المنکر چھوڑ دے گی تو وحی کی برکات سے محروم ہو
جائے گی ۔ایک اور روایت میں ہے کہ ایک دفعہ حضور ﷺ منبر پر جلوہ افروز ہوئے
اور حمد و ثنا کے بعد فرمایا لوگو !اﷲ کا حکم ہے بھلی باتوں کا حکم کرو اور
بری باتوں سے منع کرو مبادا وہ وقت آجائے کہ تم دعامانگو اور میں دعا قبول
نہ کروں مجھ سے سوال کرو میں اس کو پورا نہ کروں اور تم مجھ سے مدد چاہو
میں تمہاری مدد نہ کروں۔کیا آج یہی کچھ نہیں ہورہا؟آج ہماری دعاؤں میں
تاثیر کیوں نہیں ۔۔؟
امام ربانی حجۃ الاسلام امام غزالی ؒ دعوت و تبلیغ کی اہمیت ان الفاظ میں
بیان فرماتے ہیں ’’اس میں شک نہیں کہ امر با المعروف اور نہی عن المنکر دین
کا ایسا زبر دست رکن ہے جس سے دین کی تمام چیزیں وابستہ ہیں ۔اس کو انجام
دینے کے لیے حق تعالیٰ شانہ نے انبیاء کرام علیہم السلام کو مبعوث فرمایا
اگر خدانخواستہ اسکو بالائے طاق رکھ دیا جائے اوراس کے علم و عمل کو ترک کر
دیا جائے تو العیاذ با اﷲ نبوت کابیکار ہونا لازم آئے گا ۔کاہلی اور سستی
عام ہو جائے گی ،گمراہی اور ضلالت کی شاہرائیں کھل جائیں گیں ،جہالت
عالمگیر ہو جائے گی ۔تمام کاموں میں خرابی آجائے گی۔آپس میں پھوٹ پڑ جائے
گی۔آبادیاں خراب ہو جائیں گی ۔مخلوق تباہ و برباد ہو جائے گی ۔اور اس تباہی
و بربادی کی اُس وقت خبر ہوگی جب روزِ محشرخدائے بالا وبرتر کے سامنے پیشی
اور بازپُرس ہوگی۔
افسوس صد افسوس ! جو خطرہ تھا وہ سامنے آگیا ،جو کھٹکا تھا آنکھوں نے دیکھ
لیا ۔اس سرسبز ستون کے علم وعمل کے نشانات مِٹ چکے،خدائے پاک کے ساتھ قلبی
تعلُق مِٹ چکااور نفسانی خواہشات کی اتباع میں انسان جانوروں کی طرح بے باک
ہوگئے۔روئے زمین پر ایسے صادق مومن کا ملنا دشوار وکمیاب ہی نہیں بلکہ
معدوم ہو گیاجو اظہارِ حق کی وجہ سے کسی کی ملامت گوارا کرے۔ اگر کوئی مرد
مومن اس تباہی ر بربادی کے ازالہ میں سعی کرے ،اور اس سنت کے احیا ء میں
کوشش کرے اور اس مبارک بوجھ کو لے کر کھڑا ہو تو یقینا وہ شخص تمام مخلوق
میں ایک ممتاز اور نمایاں ہستی کا مالک ہو گا ‘‘
عالمی اجتماع جہاں اُمت ِمسلمہ کی اجتماعیت کا مظہر ہے وہیں مسئلہ ختمِ
نبوت کا امین بھی ہے۔ہرہر داعی زبانِ حال وقال سے یہ پیغام دے رہا ہوتا ہے
کہ آپ ﷺآخری نبی ہیں۔آپﷺ کے بعد اللٰہ رب العزت قیامت تک کسی نئے نبی کو
مبعوث نہیں فرمائیں گے ۔آپﷺکے عالمی نبی ہونے کے واسطے دعوت وتبلیغ کا عظیم
فریضہ اس اُمت کے ذمہ ہے۔اِسی مبارک سنت کے احیاء کے لیے اﷲ تعالی نے حضرت
مولا نا محمد الیاس ؒکا انتخاب فرمایا ۔آپؒ1344ھ میں سفر حج پر روانہ ہوئے
،خواب میں آنحضرت ﷺ کی زیارت سے مشرف ہوئے اور اس عظیم مقصد کے لیے کمربستہ
ہو کر میوات سے عالمگیر محنت شروع کی۔اجتماعی طور پر دعوت وتبلیغ کی محنت
آپ ہی نے شروع کی۔ ہندوستان کے قصبے میوات سے ُاٹھنے والی یہ تحریک آج دنیا
کے کونے کونے تک پھیل چکی ہے ۔دنیا کا کوئی کونہ ،کوئی گلی محلہ ایسا نہیں
جہاں دعوت و تبلیغ کی بازگشت سنائی نہ دیتی ہو۔ لاکھوں انسانوں کی زندگیوں
میں انقلاب،احیائے سنت کی بہاریں اور مساجد و مدارس کی آبادی وتعمیر وترقی
کے پیچھے نحیف بدن ،معتدل شخصیت کے مالک مولانا محمدالیاس ؒ کی شب وروز کی
محنتیں ،اُمت کے غم میں بہنے والے آنسوکار فرما ہیں۔ جماعت کی بنیادوں میں
اخلاص اور اعلائے کلمۃ اﷲ جیسے عظیم مقاصد ودیعت ہیں۔ اﷲ تعالیٰ ان کی قبر
کو نور سے بھر دیں اور ہم سب کو دعوت و تبلیغ کے فریضے کی ادائیگی کی توفیق
عطافرمائیں ۔(آمین ) |