خواتین کا مقام، معاشرتی اقدار اور روایات

مشرق ہو یا مغرب، خواتین کا مقام وہاں کی معاشرتی اقدار اور روایات کے مطابق ہوتا ہے۔ ترقی یافتہ دور میں دونوں ہی طرح کے معاشروں میں خواتین کے روایتی کردار میں تبدیلی آئی ہے۔ خواتین اب اپنی روایتی ذمہ داریاں پورا کرنے کے ساتھ ساتھ مختلف شعبہ ہائے زندگی میں بھی نمایاں کردار ادا کر رہی ہیں۔ اس کی سب سے بڑی اور اہم وجہ خواتین میں تعلیم حاصل کرنے کا بڑھتا رجحان ہے۔ عورتوں کی تعلیم کی اہمیت کا شعور اب دنیا کے ان قدامت پسند معاشروں میں بھی اجاگر ہونے لگا ہے جہاں والدین لڑکی کی پیدائش سے ہی زر اور زیور جمع کرنے کی فکر میں گُھلنا شروع ہو جاتے تھے کیونکہ انہیں اپنی بیٹی کو بیاہنے کا بندوبست کرنا اپنا اولین فریضہ لگتا تھا۔ جیسے جیسے لڑکیاں تعلیم کے زیور سے آراستہ ہونے لگیں، ویسے ویسے والدین کے کندھوں پر سے یہ بوجھ کم ہونا شروع ہو گیا۔

مغربی دنیا میں حقوق نسواں کی تحریک انیسویں صدی میں فرانسیسی سرزمین سے شروع ہوئی، جسے Feminism یا ’نسائیت‘ کا نام دیا گیا۔ اس کا بنیادی مقصد خواتین کو سماجی حقوق کے ساتھ ساتھ اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے یعنی ووٹ ڈالنے کا حق دلوانا تھا۔ نسائیت کی تحریک کے مقاصد میں عورتوں کے لیے حقِ رائے دہی، مساوات، عورتوں کی ضروریات، حقِ وراثت، آزادیٴ رائے، خود کفالت اور آزاد خیالی کے ساتھ ساتھ خانگی ایذا یا گھریلو تشدد اور آبروریزی سے تحفظ وغیرہ بھی شامل ہیں۔

مغربی معاشروں میں سیاسی سطح پر خواتین کو ان میں سے بہت سے حقوق دلوانے کے لیے حقوق نسواں کی علم بردار تنظیموں اور سرگرم افراد کی کوششیں کافی حد تک رنگ لائیں اور مذکورہ حقوق میں سے بیشتر مغربی عورتوں کو رفتہ رفتہ مل ہی گئے۔ یہ الگ بات ہے کہ مغربی معاشروں میں زندگی کے بہت سے شعبوں میں اب بھی خواتین کو مردوں کے مساوی حقوق اور مقام حاصل نہیں ہے تاہم آزادیٴ رائے، تعلیم، خود کفالت اور گھریلو تشدد وغیرہ کے خلاف قانونی تحفظ جیسے حقوق انہیں حاصل ہو گئے۔

حقوق نسواں کے ضمن میں مشرقی معاشروں بالخصوص جنوبی ایشیا میں صورتحال مغرب سے کہیں مختلف ہے۔ اٹھارہ سو ستاون کی جنگ آزادی کے بعد اگرچہ جنوبی ایشیا میں بھی خواتین کے لیے ایسی تحریکوں نے سر اُٹھایا تاہم یہ تحریکیں دور حاضر تک بھی وہاں کی عورتوں کو وہ حقوق نہ دلا سکیں، جو مغرب کی عورتوں کو بیسویں اور اکیسیوں صدی میں میسر آ چُکے ہیں۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ متحدہ ہندوستان میں، جہاں اب بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش کی صورت میں تین علیحدہ علیحدہ خود مختار ریاستیں وجود رکھتی ہیں، انیسویں صدی میں مولوی سید ممتاز علی کے ایماء پر تحریک حقوق نسواں کا آغاز ہوا لیکن اس کے اثرات بہت سست روی کے ساتھ مرتب ہونا شروع ہوئے۔ برصغیر کی خواتین نے تعلیم حاصل کرنا شروع کی اور انہوں نے اپنے حقوق کے لیے آواز بھی اٹھانا شروع کی تاہم ایسی خواتین کی تعداد بہت کم تھی اور ان کا تعلق معاشرے کے ایک خاص طبقے سے تھا۔ بیسویں صدی میں بر صغیر کی سر زمین پر پہلے دو اور سقوط ڈھاکہ کے بعد تین ریاستوں نے جنم لیا۔

ان تینوں معاشروں میں تعلیم تیزی سے عام ہوئی اور خواتین میں تعیلم اور اپنے حقوق کے حصول کا شعور بھی بیدار ہوا۔ صنعتی ترقی کے مثبت اثرات کے نتیجے میں خواتین روزگار کی منڈی میں بھی نظر آنے لگیں۔ اگرچہ ان ممالک کی اقتصادی ترقی میں بھی خواتین کا کردار اہم ہے تاہم دنیا کے دیگر ایسے معاشروں کی طرح، جہاں مردوں کی اجارہ داری ہے، جنوبی ایشیائی ملکوں میں بھی خواتین کے چند بنیادی حقوق کا تحفظ اب بھی قانونی دستاویزات میں تو موجود ہے تاہم اس پر پوری طرح عملدرآمد نہ ہونے کے سبب عورتوں کی صورتحال نہایت دگرگوں ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ خواتین کے مساوی حقوق کا تصور ان معاشروں کے مردوں کی اکثریت کے لیے اب بھی قابل قبول نہیں ہے۔ عورت اب بھی مرد کی جاگیر تصور کی جاتی ہے۔ تعلیم کے فقدان والے معاشرتی طبقے میں تو ایسا ہے ہی مگر تعلیم یافتہ طبقے میں بھی آئے دن ہونے والے واقعات اس امر کا مُنہ بولتا ثبوت ہیں کہ معاشرے کے مرکزی دھارے کا عورت کے مقام کے بارے میں تصور، سوچ اور رویہ بدل نہیں پایا۔ جنوبی ایشیائی معاشروں میں روزمرہ زندگی کے چھوٹے موٹے واقعات اور گھریلو مسائل سے لے کر پارلیمان کے ایوانوں تک عورتوں کے ساتھ مردوں کا رویہ اس امر پر غور کا متقاضی ہے کہ آخر ایسا کیوں ہے؟

Dr. Shakira Nandini
About the Author: Dr. Shakira Nandini Read More Articles by Dr. Shakira Nandini: 203 Articles with 211565 views I am settled in Portugal. My father was belong to Lahore, He was Migrated Muslim, formerly from Bangalore, India and my beloved (late) mother was con.. View More