سورہ احزاب کی آیت نمبر 59 میں اﷲ تعالیٰ کا ارشاد پاک
ہے،،اے نبی اپنی بیبیوں اور صاحبزادیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے فرما دو
کہ اپنی چادروں کا ایک حصہ اپنے منھ پر ڈالے رہیں(ف150)یہ اس سے نزدیک تر
ہے کہ ان کی پہچان ہو(ف 151) تو ستائی نہ جائیں (ف152 ) اور اﷲ بخشنے والا
مہربان ہیـ،،
حالیہ دنوں میں ایک رپور ٹ شائع ہوئی جس میں پاکستان کے شہر کراچی کا
عورتوں کو جنسی طور پر ہرساں کرنے والی فہرست میں دوسرا نمبر ہے یہ رپورٹ
ٹھیک ہے یا غلط اس پر بحث کی جا سکتی ہے اس رپورٹ کے شائع ہونے کے کچھ دن
بعد ہی شرمین عبید چنائے کی بہن کو اُ ن کے معالج کی طرف سے جنسی طور پر
ہراساں کرنے کا واقع پیش آ گیاڈاکٹر کو ملازمت سے برخاست کر دیا گیا اس سے
کچھ عرصہ پہلے تبدیلی کے علمبردار جناب عمران خان اور عائشہ گلالئی کا کیس
بھی میڈیا کی زینت بنا رہا کچھ لوگوں کی نظروں میں یہ دونوں واقعات sexual
harassment کے کیس ہیں اور کچھ کی نظروں میں نہیں لیکن میرئے لیے یہ بھی
کوئی اتنی اہمیت کی حامل بات نہیں جس پر بحث کی جائےsexual harassment کی
روک تھام کے لیے ملک میں قوانین بھی موجود ہیں مارچ 2010میں گورنمنٹ نے دو
قوانین پاس کیے کریمنل لا میں ترامیم کر کے سیکشن 509 کے تحت جنسی ہراساں
کے مقدمات میں پانچ لا کھ جرمانہ یا تین سال سزا یا دونوں ایک ساتھ لیکن
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان قوانین کے نفاظ کے بعد کیا اس طرح کے واقعات کا
وقوع پذیر ہونا بند ہو گیا مجھ کو یقین ہے آپ کا جواب ہو گا جی نہیں اس سے
پہلے میں اُن عوامل پر بات کروں جو sexual harassment کے واقعات کو پروان
چڑھا رہے ہیں صرف دو با تیں اور ان دو باتوں کو مدنظر رکھ کر ہی آپ نے ان
عوامل پر غور کرنا ہے پہلی بات اگر ایک کرسٹل کا ڈیکوریشن پیس لے اور اُس
کو بیڈ روم کے سائیڈ ٹیبل یا ڈرائنگ روم میں سجاوٹ کے لیے رکھیں تو کسی وقت
بھی کسی کا ہا تھ لگنے سے اُس کی قسمت میں ٹوٹنا ہی لکھا ہوتا ہے دوسری بات
اگر آپ آگ پر ہا تھ رکھ دیں اور یہ سوُچے کہ ہاتھ جلے گا نہیں تو یہ آپ کی
بے وقوفی ہی ہو گی اور ہم مغرب کی اندھی تقلید میں ، اپنے آپ کو امیر،
ایڈوانس ،لبرل اورکھلے ذہن کا ثابت کرنے کے لیے اُس راستے پر چل رہیں ہیں
جس میں ہماری قسمت میں صرف ٹوٹنا او ر جلنا ہی لکھا ہے مخلوط نظام تعلیم،
کمزور تعلیمی نصاب ، لبرل ازم کے خبط میں مبتلا ڈرامے،اشتہارت،نام نہاد اور
بے حیائی کا دوسرا نام فیشن،اپنی روایات سے ہٹ کر عالمی دن،جواہنٹ فیملی
سسٹم کا خاتمہ ، مشرقی روایات سے بغاوت اور سب سے بڑھ کر اپنے اصل سے دوری
ہمار ا اصل کیا ہے اس پر بات بعد میں یہ وہ عوامل ہے جن کی وجہ سے آج
ہمارئے معاشرئے میں اس طرح کے واقعات رونما ہو رہیں ہیں یہ بات نہیں کہ میں
عورت کی تعلیم کے حق میں نہیں ہوں لیکن مخلوط نظام تعلیم آگ کے اوپر تیل
ڈالنے والی بات ہے اور اگر آپ کے نویں کلاس کے نصاب میں یہ درج ہو،، کہ
آبادی میں آضافے کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ غریب انسان کے پاس عور ت کے علاوہ
انجوائے کرنے کے لیے اور کچھ نہیں،، تو پھر ہمارئے تعلیمی نصاب کے کیا کہنے
اور کچے ذہنوں کی آبپاری کا اس سے بہتر طریقہ بھی شاہد کوئی نہ ہو ہم کو تو
تعلیمی نصاب میں اپنے بچوں کو تو یہ بتانا چاہیے کہ اسلام میں عورت کا کیا
مقام ہے، قرآن پاک میں اﷲ تعالی نے عورت کا کیا رتبہ بیا ن کیا ہے حضر ت
عائشہ صدیقہ ؓ اورحضرت فاطمہؓ کا کیا کردار تھا او ر ہم بتا رہے ہیں کہ
عورت صرف زندگی انجوائے کرنے کا ایک ذریعہ ہے، ہما رئے گھروں میں دیکھے
جانے والے ڈراموں کی اگر بات کروں تو صرف ایک ہی بات لڑکی اور لڑکے کی محبت
، ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر گھومنا،عورت کا کھلا گریبان، سکن ٹائٹ جینز،عورتوں
کا رقص اور انسان کے جذبات کو اُبھارنے والی باتیں اور ادائیں، میڈیا پر
چلنے والے اشتہارت کی بات کی جائے تو شیونگ کریم کا اشتہار ہو یاگاڑی کے
ٹائر ٹیوب کا عورت کے بغیر نامکمل،آبادی کو کنٹرول کرنے کے اشتہارات ، عورت
کے مخصوص ایام میں استعمال ہونے والی اشیا کے اشتہارات ،فیشن کے نام پر بے
حیائی کی بھر مار، شرم و حیا نا پید، ویلنٹائن ڈئے کی اندھی تقلید، مشرقی
روایات سے دوری ہماری روایات تو یہ تھی کہ باپ کے سامنے بیٹی کی آنکھ نہیں
اُٹھتی تھی، بھائی کے سامنے بہن کا دوپٹہ سر سے نہیں سرکتا تھا، میاں اور
بیوں بچوں کے سامنے ایک بیڈ پر نہیں بیٹھتے تھے ، جواہنٹ فیملی سسٹم میں
چچا، ماموں آپ کے باپ کی طرح ہوتے تھے دادی ،دادا آپ کو اچھی اور بڑی باتوں
میں تمیز سکھاتے تھے لیکن مغربی طرز زندگی کی خواہش میں ہم جواہنٹ فیملی
سسٹم سے بھی کنارہ کش ہو گئے اور ان تما م عوامل کے ہوتے ہوئے بھی اگر
sexual harrassment کے واقعات پروان نہ چڑھیں تو پھر یہ ایسے ہی ہے جیسے
سائیڈ ٹیبل پر پڑا ہوا کرسٹل کا ڈیکوریشن پیس ہاتھ لگنے سے نیچے گرئے اور
ٹو ٹے نہ یا ہم اپنا ہاتھ آگ پر رکھ دیں اور جلے نہ ہم مغرب کی مثالیں دیتے
ہیں بڑی جلدی اُن کی باتوں سے متاثر ہوتے ہیں اس لیے میں یہاں حقوق نسواں
کی معروف کارکن بیٹی فریڈن کے خیالات جس کا اظہار اُنھوں نے اپنی کتاب The
second stage میں کیا ہے وہ درج کر رہا ہوں،،اب وقت آگیا ہے کہ ہم مر د اور
عورت کے باہمی تعلقات میں خاندان اور طرز زندگی کے درمیان توازن پیدا کریں
پہلے ہم عورت کے طرززندگی کو خاندان اور مادرانہ ذمہ داریوں پر ترجیح دیتے
تھے اب وقت ہے کہ ہم اپنے گزشتہ نظریات سے رجوع کر لیں،مرد ہمارئے ہمدرد
اور غمگسار ہیں، عورتوں کو اُن کے ساتھ مل کر ایسا ماحول تشکیل دینا ہو گا
جو مرد اور عورت دونوں کے لیے یکساں اطمینان اور سکون کا باعث ہو،، میں بار
بار کہتا ہوں ہمارئے ان تمام مسائل کا حل ہے اصل کی طرف واپسی اصل کیا ہے
اس کو سمجھنے کے لیے آپ کو سورہ نور کی آیت نمبر 31کا مطالعہ کرنا پڑھے گا
جس میں ارشاد باری تعالیٰ ہے،،اور مومن عورتوں کو بھی کہہ دو کہ وہ اپنی
نگائیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں اور اپنی
آرائش (یعنی زیور کے مقامات) کو ظاہر نہ ہونے دیا کریں مگر جو ان میں سے
کھلا رہتا ہو۔ اور اپنے سینوں پر اوڑھنیاں اوڑھے رہا کریں اور اپنے خاوند
اور باپ اور خسر اور بیٹیوں اور خاوند کے بیٹوں اور بھائیوں اور بھتیجیوں
اور بھانجوں اور اپنی (ہی قسم کی) عورتوں اور لونڈی غلاموں کے سوا نیز ان
خدام کے جو عورتوں کی خواہش نہ رکھیں یا ایسے لڑکوں کے جو عورتوں کے پردئے
کی چیزوں سے واقف نہ ہوں (غرض ان لوگوں کے سوا) کسی پر اپنی زینت( اور
سنگار کے مقامات) کو ظاہر نہ ہونے دیں۔ اور اپنے پاؤں(ایسے طور پر زمین پر)
نہ ماریں (کہ جھنکارکانوں میں پہنچے اور) ان کا پوشیدہ زیور معلوم ہو
جائے۔اور مومنو۔سب خدا کے آگے توبہ کرو تا کہ فلاح پاؤ۔
اور ہماری فلاح اس میں ہی ہے کہ ہم اپنے اصل کی طرف لوٹ جائے نہیں تواس طرح
کے واقعات ہمارئے نصیب میں لکھ دیے جائیں گے |