کئی سالوں سے سوشل میڈیا پہ کام کرنے کی وجہ سیلوگوں میں
میرا نام اور نمبر کافی معروف ہوگیا ہے، (اس میں میری کوئی بڑائی نہیں
ہرقسم کی تعریف کا مستحق اﷲ تعالی ہے)اس لئے بہت سارے سوالات مختلف سماجی
روابط پہ مجھ سے کئے جاتے ہیں پہلے میں سائل کووہیں پہ جواب دے دیا کرتا
تھا جہاں سوال آتا تھا مگر اسے محفوظ نہیں کرپاتا تھا اب سوشل میڈیا کے
مختلف مقامات پہ کئے گئے سارے سوالات کو ایک جگہ جمع کرتا ہوں اور پھر ان
سب کا ایک ساتھ جواب شائع کرتا ہوں تاکہ نہ صرف سوال کرنے والا مستفید ہو
بلکہ دوسرے حضرات بھی اس سے فائدہ اٹھائیں ۔ اس سلسلے کی کئی کڑیاں گزرچکی
ہیں جنہیں میرے بلاگ "مقبول احمد ڈاٹ بلاگ اسپاٹ ڈاٹ کام" پر دیکھ سکتے ہیں
،اس کی ایک اور کڑی پیش خدمت ہے۔
سوال(1):میں نے صحیح بخاری کی ایک حدیث پڑھی "جنت تلوار کی چھاؤں تلے ہے"اس
حدیث کا مطلب کیا ہے؟
جواب : ہاں یہ حدیث صحیح بخاری میں اس طرح سے ہے ۔ الجنۃ تحت ظلال
السیوف(صحیح البخاری:3024) یعنی جنت تلوارکی چھاؤں میں ہے ۔ اس حدیث میں
جہاد کی ترغیب دی گئی ہے جس اسلام کو سربلندی حاصل ہوتی ہے اور مسلمان
میدان جنگ میں تلواروں سے جہاد کرتے ہیں تو ان تلواروں کی وجہ سے جنت ملتی
ہے ۔ یہ حدیث مسلم میں بھی ہے جس کی شرح کرتے ہوئے شارح صحیح مسلم امام
نووی لکھتے ہیں کہ اس کا معنی ہے جہاد اور معرکہ قتال میں حاضر ہونا جنت کا
راستہ ہے اور اس میں داخل ہونے کا سبب ہے ۔
سوال(2): کیا امام مہدی کی جماعت میں بہت تھوڑے مسلمان شامل ہوں گے؟ اور
کیا ان مسلمانوں کی تعداد بھی بتائی گئی ہے؟
جواب : مہدی علیہ السلام پر ایمان لانے والوں کی تعداد مجھے احادیث میں
نہیں ملی مگر ایک ایسی روایت ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ عہد مہدی میں ساری
زمین پر عدل قائم ہوجائے گا۔ سیدنا علی رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی
کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا :
لو لم یبقَ منَ الدَّہرِ إلَّا یومٌ ، لبعثَ اللَّہُ رجلًا من أَہْلِ بیتی
، یملأُہا عدلًا ، کما مُلِئتْ جَورًا(صحیح أبی داود:4283)
ترجمہ: اگر اس زمانے سے ایک دن بھی باقی ہوا تو اﷲ تعالیٰ میرے اہل بیت سے
ایک آدمی کو اٹھائے گا جو اسے عدل سے بھر دے گا جیسے کہ ظلم سے بھری ہو گی
۔
اہل تشیع کی کتابوں میں تعداد مذکور ہے اس طرف دھیان نہیں دیں ۔
سوال(3): زمیں پر دجال کا فتنہ سب سے بڑا ہے توکیا دجال کے فتنے سے بچنے کے
لئے سورہ الکہف کافی ہوگی، مطلب جن لوگوں نے سورہ الکہف حفظ کر لیا ہے وہ
دجال کے خروج کے وقت سورہ الکہف پڑھیں گے تواس کے فتنے سے بچ جائیں گے؟
جواب : سورہ کہف کی ابتدائی دس آیات حفظ کرنے سے فتنہ دجال سے حفاظت ہوتی
ہے ۔اس کی دلیل مسلم شریف کی مندرجہ ذیل روایت ہے ۔
من حفِظ عشرَ آیاتٍ من أولِ سورۃِ الکہفِ ، عُصِمَ من الدَّجَّالِ(صحیح
مسلم:809)
ترجمہ: جو شخص سورہ کہف کی ابتدائی دس آیات یاد کرے گا وہ دجال کے فتنہ سے
بچا لیا جائے گا۔
اس حدیث میں ابتدائی دس آیات حفظ کرنے کی بات ہے ، مسلم کی ایک دوسری روایت
میں مطلقا ابتدائی آیات پڑھنے کا ذکر ہیجس سے دس آیات ہی مراد ہیں ۔
فمن أدرکہ منکم فلیقرأْ علیہ فواتحَ سورۃِ الکہفِ(صحیح مسلم:2937)
ترجمہ: تم میں سے جو شخص دجال کو پائے، اسے چاہیے کہ وہ سورہ کہف کی
ابتدائی آیات پڑھے۔
یہ فرمان نبوی ہے اس پر ہمیں ایمان لانا ہے اور یقین کرنا ہے کہ جو سورہ
کہف کی تلاوت کرے بالخصوص دس ابتدائی آیات اور یہی آیات دجال کے خروجکے وقت
پڑھے تو اس کے فتنے سے محفوظ رہے گا۔ اس پہ تفصیلی مضمون پڑھنے کے لئے میرے
بلاگ پر تشریف لائیں ۔
سوال (4): قرضدار زندگی میں قرض ادا کرنے سے قاصر رہا اور موت کی آغوش میں
چلا گیا ۔نا اسکے پاس کوئی جائیداد تھی جس سے قرض ادا ہو اور نا ہی کوئی
اسکا قرض ادا کیا تو ایسی صورت میں وہ ہمیشہ سزا کا مستحق قرار دیا جائے گا
یا اسکی توحید کی وجہ سے اسکو معاف بھی کیا جائے گا ؟
جواب : اولا بلاضرورت قرض نہیں لینا چاہئے لیکن اگر شدید حاجت پڑجائے تو اس
نیت سے قرض لیں کہ اسے چکانا ہے نہ کہ غصب کرجانا ہے ۔ جس کی نیت ایسی تھی
کہ وہ قرض کو ادا کرے گا لیکن اس کی ادائیگی سے قبل وفات پاگیا نہ ہی اس نے
مال چھوڑا کہ قرض ادا کیا جائے اور نہ مسلمانوں میں سے کسی نے اس کی جانب
سے قرض ادا کیا تو قرض خواہ کو چاہئے کہ معاف کردے ، اﷲ نے وقت پر قرض نہ
ادا کر سکنے کی وجہ سے سورہ بقرہ ((280میں تنگ دست کے واسطے مہلت دینے کا
حکم دیا ہے ۔اور نبی ? کا فرمان ہے : من أخذَ أموالَ النَّاسِ یریدُ أداء
َہا أدَّی اﷲُ عنہ ، ومن أخذ یریدُ إتلافَہا أتلفَہُ اﷲُ(صحیح
البخاری:2387)
ترجمہ: جو کوئی لوگوں کا مال قرض کے طور پر ادا کرنے کی نیت سے لیتا ہے تو
اﷲ تعالیٰ بھی اس کی طرف سے ادا کرے گا اور جو کوئی نہ دینے کے لیے لے، تو
اﷲ تعالیٰ بھی اس کو تباہ کردے گا۔
قرض خواہ نے اس کی وفات کے بعد معاف کردیا تو ٹھیک ورنہ اﷲ تعالی اس کی
جانب سے قیامت میں بدلہ دے گا لیکن واضح رہے یہ اس قرض کی بات ہے جو چکانے
کی نیت سے لیا گیا ہو۔
سوال (5): عورت کی ڈیلیوری کے وقت کون سی دعا پڑھنی چاہئے ؟
جواب : بچہ ہوتے وقت عورت کوشدید سے شدید تکلیف ہوتی ہے بسااوقات زچگی کی
تاب نہ لاکر عورت موت کی آغوش میں بھی چلی جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ اﷲ تعالی
نے اس تکلیف کا قرآن میں ذکر کرکے والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا ہے ۔
اﷲ کا فرمان ہے :
وَوَصَّیْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ إِحْسَانًا حَمَلَتْہُ أُمُّہُ
کُرْہًا وَوَضَعَتْہُ کُرْہًا(الأحقاف:15) .
ترجمہ: اور ہم نے انسان کو اپنے ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم دیا
ہے اس کی ماں نے اسے تکلیف جھیل کر پیٹ میں رکھا اور تکلیف برداشت کرکے اسے
جنا۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسلام نے اتنی تکلیف دہ حالت زچگی کے لئے
کوئی مخصوص دعا یا کوئی مخصوص عمل بتلایا ہے ؟
تو اس کا جواب یہ ہے کہ اسلام میں تکلیف کے وقت کے لئے متعدد دعا موجود ہے
مگر زچگی کے لئے کوئی مخصوص ذکر، کوئی مخصوص دعا، کوئی مخصوص وظیفہ اور
کوئی مخصوص عمل نہیں بتلایاگیاہے ۔ تکلیف کی حالت میں عورت بغیر تخصیص کے
ذکرواذکار، تلاوت قرآن، دعاواستغفاروغیرہ کر سکتی ہے ۔
سوال (6 :عرب کو برا بھلا نہ کہنے کے بارے میں کیا کوئی حدیث ہے ؟ جو عرب
کو کھلے عام گالیاں دیتے ہیں ان کا کیا حکم ہے ؟
جواب : عرب کوگالی مت دو ایسی کوئی صحیح حدیث مجھے نہیں ملی ،اس طرح ایک
روایت بیان کی جاتی ہے "لا تسبوا العرب فأنا من العرب" کہ تم عرب کو گالی
نہ دو کیونکہ میں عرب میں سے ہوں ۔ اس روایت کی کوئی حقیقت نہیں ہے ۔ اسی
طرح مندرجہ ذیل روایات بھی موضوع یا ضعیف ہیں ۔
من سبَّ العربَ ؛ فأولئکَ ہمُ المشرکونَ(السلسلۃ الضعیفۃ:4601)
ترجمہ: جو عرب کو گالی دیتاہے دراصل وہ مشرک ہے۔
حبُّ العربِ إیمانِ ، وبغضُہم نفاقٌ(ضعیف الجامع:2683)
ترجمہ: عرب سے محبت کرنا ایمان ہے اور ان سے بغض رکھنا نقاق ہے ۔
لا یَبْغَضُ العربَ مؤمنٌ، ولا یُحِبُّ ثَقِیفًا إلا مؤمنٌ( السلسلۃ
الضعیفۃ:1191)
ترجمہ: عرب سے کوئی مومن بغض نہیں رکھتا اور ثقیف سے مومن ہی محبت کرتا ہے۔
دوسری عام متفق علیہ حدیث کی روشنی میں کہا جاسکتا ہے کہ جس طرح کسی مسلمان
کو گالی دینا فسق ہے اسی طرح عرب کو بھی گالی دینا فسق ہیاور جو اس کا
ارتکاب کرے وہ فاسق ہے ۔
سوال(7): ایک مؤحد کی سرکاری نوکری ہے اسے ایک ثقافتی پروگرام میں نظامت کا
فریضہ سونپا گیا، دیپ جلانے کے وقت وہ اس سے الگ رہے لیکن مجبورا انہیں
بھجن کا اعلان کرنا پڑا ، وہ بھائی شرمندہ ہیں اور پوچھتے ہیں اس کا کیا
گناہ اور کیا کفارہ ہے؟
جواب : کسی سرکاری پروگرام کی نظامت کرنا برا نہیں ہے مگر برائی کا اعلان
کرنا بہرحال برا ہے۔ اگر اس موحد کو معلوم تھا کہ اس قسم کے پروگرام میں
شرک کا پرچار کرنا پڑے گا تواس کی نظامت قبول نہیں کرنا چاہئے تھا ۔ خیر
آئندہ سے احتیاط کرے اور گزشتہ گناہ کی معافی کے لئے اﷲ تعالی سے توبہ
واستغفار کرے ۔
سوال(8):جب نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کا نام لکھتے ہیں تو پورا نام نہیں لکھتے
ہیں بلکہ نبی صلعم لکھتے ہیں تو کیا اس طرح سے لکھنا صحیح ہے مہربانی کرکے
وضاحت کریں؟
جواب : آج کل لوگ موٹی موٹی کتابیں لکھ لیتے ہیں ،لمبے لمبے مضامین ومقالات
سے سیکڑوں صفحات سیاہ کرلیتے ہیں مگر چند حروف والفاظ پر مشتمل صلی اﷲ علیہ
وسلم نہیں لکھ سکتے ۔ صلعم کا کوئی معنی نہیں نکلتا اس لئے ہمیں مکمل صلی
اﷲ علیہ وسلم لکھنا چاہئے ۔ اگر مضامین ومقالات میں ہر جگہ اس کا التزام
مشکل ہے تو دل میں پڑھ لیا جائے اور آج تو کمپیوٹر سے لکھا جاتا ہے جہاں
صلی اﷲ علیہ وسلم صرف ایک بٹن دبانے سے آجاتا ہے پھر کون سی پریشانی ؟
موبائل میں بھی ایک حرف لکھنے سے اس کے مساوی کئی الفاظ آپ خود ظاہر ہوجاتے
ہیں لہذا ہمیں مکمل صلی اﷲ علیہ وسلم لکھناچاہئے جیساکہ صحابہ کرام ومحدثین
عظام جب نبی ﷺ کی کوئی حدیث بیان کرتے تو صلی اﷲ علیہ وسلم لازما کہتے اور
لکھتے۔
سوال(9): امام کے مصلی پر جانے سے پہلے ہی موذن نے اقامت شروع کردی تو کیا
اس طرح کرنا صحیح ہے ؟
جواب : اقامت کا وقت ہوجائے اور امام مسجد کو آتا ہوا دیکھ لے تو موذن
اقامت کہنا شروع کرسکتا ہے اس سے پہلے کی امام مصلی پر کھڑا ہو ۔ اس کی
دلیل بخاری ومسلم کی یہ روایت ہے ۔
عن أبی قتادۃ رضی اﷲ قال : قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم (إِذَا أُقِیمَتْ
الصَّلَاۃُ فَلَا تَقُومُوا حَتَّی تَرَوْنِی) رواہ البخاری (637) ومسلم
(604) وفی روایۃ لمسلم : (حَتَّی تَرَوْنِی قَدْ خَرَجْتُ).
ترجمہ : حضرت ابوقتادہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: جب
اقامت ہوجائے تو تم اس وقت تک نہ کھڑے ہو جب تک مجھے دیکھ نہ لو ۔ اسے
بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے ۔ اور مسلم کی ایک روایت میں ہے : یہاں تک
کہ تم مجھے نکلتے ہوئے دیکھ لو۔
سوال(10): کیا مشرک کی تعزیت اور تدفین میں شرکت کی جاسکتی ہے؟
جواب : کسی کافر کی میت پہ اس کی تعزیت یعنی صرف صبر کی تلقین کرنا
(استغفار جائز نہیں) کرنا جائز ہے لیکن اس کے جنازہ میں شرکت کرنا جائز
نہیں ہے ۔آپ ﷺ ابوطالب کی موت پہ ان کے جنازہ میں شریک نہیں ہوئے اور نہ ہی
ان کی تدفین میں جبکہ ابوطالب نے قدم قدم پہ آپ کی مدد کی تھی ۔
ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ اسلام نے کفار سے موالات کو منع فرمایاہے اور کافر
کی میت میں شرکت موالات میں سے ہے ، اس میں کافر کا احترام اور اس سے محبت
کا اظہار ہے ۔ جنازہ کے پیچھے چلنا، یہ تو ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پہ
حق ہے، اسے کافروں کو کیسے دیا جاسکتاہے ۔ کافرمیت پہ اس کے کافر رشتہ
داروں کو صبر کی تلقین کرنے کی بات اسلام کے احسان و سلوک کے تئیں ہے ۔
سوال(11 :میں نے ایک حدیث پڑھی ہے کہ اعرابی لوگ گوشت لاتے پتہ نہیں اس پر
اﷲ کا نام لیا ہوتا کہ نہیں نبی ? نے فرمایابسم اﷲ کرکے کھالوتو اس حدیث کی
روشنی میں ہم یورپ رہنے والے عام دوکانوں سے گوشت خرید کر کھاسکتے ہیں ؟
جواب : یہ حدیث نسائی وغیرہ میں موجود ہے اور صحیح روایت ہے ۔ یہاں اعرابی
سے مراد مدینہ کامسلمان اعرابی ہے ۔ کافر کا ذبیحہ حلال نہیں ہے سوائے اہل
کتاب کے ۔ ابوداؤد میں "إنَّ قومًا حَدیثو عَہْدٍ بالجاہلیَّۃِ" (کچھ لوگ
جاہلیت سے نئے نئے نکلے ہیں یعنی نئے مسلمان ہوئے ہیں)کے الفاظ آئے ہیں ۔
یہ روایت بخاری شریف اس طرح مروی ہے ۔
عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہَا: أَنَّ قَوْمًا قَالُوا لِلنَّبِیِّ
صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: إِنَّ قَوْمًا یَأْتُونَا بِاللَّحْمِ، لاَ
نَدْرِی: أَذُکِرَ اسْمُ اللَّہِ عَلَیْہِ أَمْ لاَ؟ فَقَالَ: سَمُّوا
عَلَیْہِ أَنْتُمْ وَکُلُوہُ قَالَتْ: وَکَانُوا حَدِیثِی عَہْدٍ
بِالکُفْرِ (صحیح البخاری : 5507)
ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ گاؤں کے کچھ لوگ ہمارے یہاں
گوشت بیچنے لاتے ہیں اور ہمیں معلوم نہیں کہ انہوں نے اس پر اﷲ کا نام بھی
ذبح کرتے وقت لیا تھا یا نہیں ؟ آپ نے فرمایا کہ تم ان پر کھاتے وقت اﷲ کا
نام لیا کرو اور کھا لیا کرو ۔
اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ مسلمان کا ذبیحہ کھایا کرو اور کھاتے وقت بسم اﷲ
پڑھ لیا کرو کیونکہ مسلمان اﷲ کے نام سے ہی ذبح کرتے ہیں اس لئے مسلمانوں
کے بازار سے یا مسلمان کی دوکان سے گوشت بلاپوچھے خرید سکتے ہیں الا یہ کہ
تردد ہو لیکن کافر کی دوکان سے گوشت نہیں لے سکتے ہیں ۔
المعجم الاوسط اور مجمع الزوائد میں اس روایت میں یہ زیادتی ہے ۔
اجہَدوا أیمانَہم أنَّہم ذبَحوہا ثمَّ اذکُروا اسمَ اﷲِ وکُلوا۔
ترجمہ: ان اعرابی سے قسم کھلاؤ کہ ذبح کرتے وقت بسم اﷲ کہا ہے پھر اﷲ کا
نام لیکر کھاؤ۔
اس روایت کو شیخ البانی نے ضعیف کہا ہے ۔ ( السلسلۃ الضعیفۃ:5494)
سوال(12): میرے پاس سند ہے ،صلاحیت ہے مگر تجرباتی سرٹیفکیٹ نہیں ہے جس کی
وجہ سے کہیں نوکری نہیں ملتی کہاجاتا ہے اکسپیرئنس لاؤ ایسی صورت میں جعلی
تجرباتی سرٹیفکیٹ بناکر نوکری کرنا کیسا ہے ؟
جواب : آج حلال روزی کمانا مشکل اور حرام روزی کمانا آسان ہوگیا ہییہی تو
فتنے کے زمانہ میں مومن کی آزمائش ہے اس لئیجس قدر بھی حلال روزی کا حصول
مشکل ہو مومن سے حلال کمائی ہی مطلوب ہے ۔ آپ نے اچھی تعلیم حاصل کی ہے ،
قابلیت بھی موجود ہے تو احساس کمتری کا شکار نہ ہوں بہت سارے اداروں میں
بغیر تجربہ کے نوکری ملتی ہے ،ہمیں زیادہ تنخواہ کا لالچ غلط راستہ دکھاتا
ہے ، کم تنخواہ سے ہی زندگی کا آغاز کریں ،حلال روزی کم بھی ملے تو حرا م
کی بے پناہ دولت سے بہتر ہے ۔ اس لئے یاد رکھیں کسی قسم کی جعلی سرٹیفکیٹ
نہ بنائیں یہ جائز نہیں ہے ۔اپنی تعلیم ، محنت ، صلاحیت اور ایمانداری کے
بل بوتے پر نوکری حاصل کریں بھلے ہی کم تنخواہ والی نوکری ملے ۔
سوال(13): اگر غیرمسلم لڑکی کلمہ پڑھ لے تو مسلمان لڑکا اس سے نکاح کرسکتا
ہے؟
جواب : مسلمان اسے کہتے ہیں جو زبان سے کلمہ کا اقرار کرے ، دل سے اس کی
تصدیق کرے اور اعضاء وجوارح سے اس پر عمل کرکے دکھائے۔اگر غیرمسلم لڑکی اس
طرح سے ایمان لاتی ہے تو اس سے نکاح کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن کلمہ
صرف عشق ومحبت کے چکر میں مسلمان لڑکا سے شادی کرنے کے لئے پڑھتی ہے ، اس
کا دل کلمہ کی تصدیق نہیں کررہاہے تو اس سے شادی جائز نہیں ہے ۔ آپ کہیں گے
کہ اس کے اسلام کو کیسے پہچانیں تو میرا جواب یہ ہے کہ اسکے عمل وکردار سے
پہچانیں ۔ نماز قائم کرتی ہے کہ نہیں ، روزہ رکھتی ہے کہ نہیں ، پردہ کرتی
ہے کہ نہیں اور اسی طرح اسلام کی دیگر تعلیمات؟ ۔
سوال(14): کیا ہم اپنے آپ کو اﷲ کا غلام نہیں کہہ سکتے ؟ کسی نے مجھ سے کہا
کہ یہ اﷲ کو پسندنہیں ہمیں اﷲ کا بندہ کہنا چاہئے ؟
جواب : ہم اپنے آپ کو اﷲ کے بندے اور اس کے غلام دونوں کہہ سکتے ہیں کیونکہ
اﷲ تعالی ہمارا خالق بھی ہے اور مالک بھی ہے ۔ قرآن میں عبد اور عبید کالفظ
آیا ہے ۔
وَمَا رَبُّکَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِیدِ (فصلت:46)
ترجمہ: اور آپ کا رب بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ۔
وَعِبَادُ الرَّحْمَٰنِ الَّذِینَ یَمْشُونَ عَلَی الْأَرْضِ ہَوْنًا
(الفرقان:63)
ترجمہ: رحمن کے سچے بندے وہ ہیں جو زمین پر فروتنی کے ساتھ چلتے ہیں۔
یہ دونوں لفظ بندے اور غلام دونوں کے لئے عربی میں مستعمل ہے۔
سوال(15): میرے ذہن میں کئی دنوں سے ایک سوال کھٹکتا ہے وہ یہ کہ انسان دل
سے سوچتا ہے یا دماغ سے؟
جواب : سوچنے اور سمجھنے کا مرکز دل ہے اس لئے قرآن میں تدبر وتفکر کے لئے
قلب (دل) کا لفظ آیا ہے اور اسی طرح حدیث میں بھی ۔ اﷲ کا فرمان ہے:
أَفَلَا یَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ أَمْ عَلَیٰ قُلُوبٍ أَقْفَالُہَا (سورۃ
محمد :24)
ترجمہ : کیایہ لوگ قرآن میں غورنہیں کرتے ؟ یا ان کے دلوں پہ ان کے تالے
لگے ہوئے ہیں۔
نبی ﷺ کا فرمان ہے : ألا وإن فی الجسدِ مُضغَۃً : إذا صلَحَتْ صلَح الجسدُ
کلُّہ، وإذا فسَدَتْ فسَد الجسدُ کلُّہ، ألا وہی القلبُ .(صحیح البخاری:52)
ترجمہ:سن لو بدن میں ایک گوشت کا ٹکڑا ہے جب وہ درست ہو گا سارا بدن درست
ہو گا اور جہاں بگڑا سارا بدن بگڑ گیا۔ سن لو وہ ٹکڑا آدمی کا دل ہے۔
سوال(16): میں نے ایک محلے میں مکان کرائے پر لیکر اس میں سلائی فیکٹری
ڈالی ہے،اس کام کے لئے چھ سات افراد مامور ہیں ان کے لئے اس مکان میں ایک
کمرہ نماز کے لئے مختص کردیا ہے کیا یہ صحیح ہے جبکہ اس محلہ میں کچھ فاصلے
پر مسجد موجود ہے ؟
جواب : مسجد قریب میں ہو اور اذان کی آواز سنائی دیتی ہو تو مسجد میں حاضر
ہوکر جماعت سے نماز ادا کرنا چاہئے ، رسول اﷲ ﷺنے مسجد میں جماعت سے نماز
نہ پڑھنے والوں کو سخت وعید سنائی ہے ، نابینا کو بھی مسجد میں آنے کا حکم
دیا ہے تو پھر مسجد چھوڑ کر اس کے بغل میں مصلی کیسے قائم کیا جاسکتا ہے ؟
ہاں مسجد دور ہو تو کام کرنے کی جگہ مصلی قائم کرلینے میں حرج نہیں ہے ۔
سوال(17): تکبیر تحریمہ امام زور سے اور مقتدی آہستہ کہے اس کی صریح دلیل
کیا ہے ؟
جواب : امام کے حق میں نماز کی تمام تکبیریں بلند آواز سے کہنا مسنون ہے
جبکہ مقتدی کے حق میں آہستہ سے۔ امام کا بلند آواز سے اس لئے کہ مقتدی کو
امام کی پیروی کرنی ہے جیساکہ اس سے متعلق کئی احادیث موجود ہیں اور مقتدی
آہستہ سیاس لئے کہ اس کے حق میں تکبیر سمیت ساری چیزیں سرا ً کہنا مسنون ہے
،صرف وہی کلمات بلند آواز سے کہیں گے جن کا الگ سے مقتدی کے لئے جہرا کہنے
کا ثبوت ملتا ہے مثلا جہری نماز میں آمین کہنا۔اس بات کی دلیل وہ ساری
احادیث ہیں جن کی بنیاد پر مقتدی کاالتحیات ،درود ، دعا وغیرہ آہستہ کہنے
پر دلیل ہیں۔
سوال(18 :ہمارے پڑوس میں ایک ساٹھ سالہ خاتون رہتی ہے جو عمرہ پہ جانا
چاہتی ہے مگر اس کا کوئی محرم نہیں ہے کیا کوئی راستہ ہے؟
جواب : بغیر محرم کے عورت کا سفر کرنا جائز نہیں ہے اس لئے اس خاتون کو
عمرہ پراس وقت تک نہیں جانا چاہئے جب تک کوئی محرم نہ مل جائے ۔ ایسی خاتون
کے لئے ایک طریقہ یہ ہے کہ وہ اپنے پیسے سے کسی نیک آدمی کو بھیج کر اس کے
ذریعہ عمرہ بدل کرالے۔
سوال(20): کیا ایسی کوئی حدیث ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اپنی خوشیوں کو
چھپاؤ؟
جواب : اگر کسی مسلمان کو اﷲ کی طرف سے کوئی نعمت ملے تو اسے بیان کرنا
چاہئے اس سے نعمت کی قدر اور اﷲ کا شکر ظاہر ہوتا ہے ۔ اﷲ نے نبی ﷺ کو اس
بات کا حکم بھی دیا ہے۔
وَأَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثْ (الضحی:11)
ترجمہ: اور اپنے رب کی نعمتوں کا تذکرہ کریں۔
ہاں اگر کسی خاص نعمت کے بیان کرنے سے بغض وحسد کا اندیشہ ہو تو نعمت کا
ذکر خصوصیت کے ساتھ نہ کریں بلکہ عمومی انداز میں کریں تاکہ آپ کی اس خاص
نعمت کا حاسد کو پتہ نہ چلے جیساکہ اﷲ تعالی نے قرآن میں ذکر کیا ہے۔
قَالَ یَا بُنَیَّ لَا تَقْصُصْ رُؤْیَاکَ عَلَی إِخْوَتِکَ فَیَکِیدُوا
لَکَ کَیْدًا(یوسف:5)
ترجمہ: یعقوب علیہ السلام نے کہا پیارے بچے ! اپنے اس خواب کا ذکر اپنے
بھائیوں سے نہ کرنا، ایسا نہ ہو کہ وہ تیرے ساتھ کوئی فریب کاری کریں ۔
اس آیت میں خواب کی نعمت وبشارت کو اپنے حاسد بھائی سے چھپانے کا ذکر ہے۔
اورفرمان نبوی ہے ۔
استعینوا علی إنجْاحِ الحوائِجِ بالکتمانِ ؛ فإنَّ کلَّ ذی نعمۃٍ
محسودٌ(صحیح الجامع:943)
ترجمہ: لوگوں سے چھپاکر اپنے مقاصد کی کامیابی پرمدد طلب کرو کیونکہ ہر
نعمت والا حسد کیا جاتا ہے۔ |