آپ جھوٹ کے جتنے بھی محل تیار کرلیں، آپ جتنے بھی چالاک
ہو کر دھوکے بازی کی کوشش کریں گے ، جھوٹ کا پردہ جب چاک ہوگا تو آپ بے
نقاب بھی ہونگے اور سچائی سے شرمسار بھی ہونگے کیونکہ جھوٹ کبھی آپ کو
کامیابی نہیں دلوا سکتا ہے۔
اپنے مفادات کے حصول کی خاطر عوام کو قربانی کا بکرا بنانا کہاں کا انصاف
ہے۔
آپ جب جھکنا سیکھ لیتےہیں تو پھر کوئی ہارا نہیں سکتا ہے کہ آپ ایک اللہ کے
سامنے جھک کر سب کچھ جیت جاتے ہیں۔
رنگت اور نین نقش کے حوالے سے اکثر لوگ شکوہ کرتے ہیں اور یہ کہتے ہوئے
بھول جاتے ہیں کہ پیدا کرنے والی ہستی نے اپنی تخلیق کو بہترین انداز میں
بنایا ہے۔ہمیں ہر حال میں اپنے رب کی مرضی پر خوش اور راضی ہو جانا چاہیے۔
دنیا کا خوب صورت احساس کا حامل رشتہ محبت پر ہی مبنی ہوتا ہے۔
جب سے مسلمانوں نے اپنی رہنما کتاب قرآن مجید سے دوری اختیار کی ہے اور
اپنی سوچ کے مطالق معاشرتی لحاظ سے اپنے آپ کو ڈھالنے کے لئے دینی تعلیمات
سے بغاوت کی ہے تب سے بہت کچھ خراب تر ہوتا چلا جا رہا ہے۔ہم سب کو اس
حوالے سے اپنے آپ کو جوابدہ ہونا ہے اس لئے ہمیں اسلام کی تعلیمات کو اپنا
نا چاہیے ورنہ حساب کتاب کے وقت دشواری ہوگی کہ ہمارے ہاتھوں میں ایسا شاید
کوئی عمل نہ ہو جس کی بدولت بخشش ہو سکے۔
محبت میں محبوب کی عزت و احترام کو برقرار رکھنا بہت اہم ہوتا ہے اگر یہ نہ
رکھا جائے تو پھر محبت کئے جانے کا عمل بے سود ہے۔
دو روپے کی چوری کرنے والوں کا ساتھ دینے والوں کا اپنا حصہ بھی آٹھ آنے
ضرور ہوتا ہے
حضرت امام حسین علیہ السلام سے محبت رکھنے والوں کو وقت کے یزیدوں کے خلاف
کھڑا ہونا چاہیے تاکہ انکا احتساب کیا جا سکے۔
محبتتوں میں حساب کتاب یاد نہیں رکھا جاتا ہے کہ یہ کاروبار نہیں جس میں
نفع کا بھی خیال رکھا جائے۔
نوکری کے حصول کے لئے قابلیت سے زیادہ سفارش کروانا یہ ظاہر کرتا ہے کہ آپ
کتنے پانی میں ہیں۔
بہترین ابلاغ وہ ہوتا ہے جو سامعین کے دل و دماغ میں رچ جائے اور وہی مقاصد
حاصل ہو جائیں جس کے لئے وہ کیا جا رہا ہو۔
محبت مل رہی ہو تو پھر ہر سفر خوشگوار ہوتا ہے۔
جنگیں جہاں بھی ہوتی ہیں وہاں وہی ملک جیتے ہیں جو کسی اور ملک کے تعاون کے
بنا اپنی افرادی طاقت,ہتھیاروں کے درست استعمال اور بہترین حکمت عملی کا
مظاہر ہ کرتے ہیں اور تنہا فرد بھی اسی طرح سہارے کے بنا کامیات ہو سکتے
ہیں۔اپنے حوصلہ کو قائم رکھیں سب حاصل ہو جائےگا۔
بڑوں کے احترام میں خاموش رہنا ایک اچھا عمل ہے مگر جہاں جھوٹ سچ کی بات ہے
تو لحاظ کے ساتھ سچ بولنا نافرمانی نہیں ہے۔
سچ کو کتنے ہی پردوں میں کتنے ہی سالوں سے کیوں نہ چھپا رکھا ہو وہ ایک دن
عین اُسوقت سامنے آتا ہے جب اس کو تسلیم کرنے کے سوا کوئی چارہ باقی نہیں
رہتا ہے۔
اکثر مرد حضرات کے گھر میں بیویاں بھوکی رہتی ہیں او روہ دوسری خواتین کے
ساتھ کھاپی رہے ہیں۔گھر میں بیوی کو وہ مقام نہیں دیتے ہیں جو وہ اپنے ساتھ
کام کرنے والی کسی عورت کو دیتے ہیں۔اپنے گھر میں اسلام کے قوانین یاد
آجاتے ہیں مگر بھر اُسی اسلام کے قوانین کو تؤر کر خوشی محسوس کرتے ہیں۔
اپنی کمزوریوں کو اُجاگر کرنے سے محض آپ کی انا کی تسکین ہو سکتی ہے مگر آپ
میں بہتری نہیں آسکتی ہے۔اپنی کمزوریوں کو اپنی طاقت بنا کر اپنی منزل کو
حاصل کرنا ایک بہترین فیصلہ ہوتا ہے۔
ڈر گئے تو مرگئے، خوف کوئی بھی آپ کو ناکارہ کر دیتا ہے لہذا خوف کی آنکھوں
میں آنکھیں ڈال کر سامنا کریں وہ آپ ہی دم دبا کر بھاگ جائےگا۔
عقلمندی یہ ہے کہ انسان خود کو گمراہی سے بچا کر ہدایت کی راہ پر گامزن
رہے۔
ظلم کرنے والے اپنے اعمال پر غور نہیں فرماتے ہیں اور جب کوئی آفت آن پڑے
تو چیخ پڑتے ہیں کہ ہم سے حساب کیوں لیا جا رہا ہے۔
کچھ لوگوں کو اپنی اوقات دکھانی ہوتی ہے کہ وہ کتنے گر سکتے ہیں اس لئے وہ
سب کرتے ہیں جو انکی ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے کہ وہ کس قدر بے ایمان شخص
ہیں۔
بچے بڑوں سے زیادہ حساس ہوتے ہیں ان میں اتنا حوصلہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے
جیسے کسی دوسرے بچوں کو اپنے کھانے میں سے کچھ حصہ دے دیں،مگر بڑے انکے لئے
کیا مثال دیتے ہیں کبھی غور کیجئے گا۔
غریب ہونا جرم نہیں ہے مگر اپنے آپ کو غربت کی دلدل سے نہ نکالنا بڑی حماقت
ہے۔
اکثر شادیاں اس وجہ سے ٹوٹ جاتی ہیں کہ کوئی بھی فریق سمجھوتہ کرنے کو تیار
نہیں ہوتا ہے، توڑنے سے جوڑے رکھنا ایک دشوارعمل ہے اسی وجہ سے آجکل طلاقیں
زیادہ دیکھنے کو مل رہی ہیں۔
طاقت کا غلط استعمال اکثر لے ڈوبتا ہے۔اسی وجہ سے نامی گرامی ہستیاں اپنے
بہترین اقدام کی بجائے برے اقدامات کی وجہ سے زیرعتاب ہوتی ہیں۔
موسم کے تیور بدلنے والے ہو ں تو تب احتیاط سے کام لینا چاہیے ورنہ آپ کو
ذہنی اور جسمانی دونوں صورتوں میں مسائل کا سامنا کرنا پڑتاہے۔
قانون کو سمجھ کر حق حاصل کرنے کی کوشش سے بہت سا وقت ضائع ہونے سے بچ جاتا
ہے۔
جب تک ہمیں اپنے فرائض پوری طرح سے نبھانے کی عادت نہ ہو جائے اُس وقت تک
پور ا حقوق حاصل کرنے کی لڑائی شروع نہیں کرنی چاہیے کہ وہ فوری مل جائیں۔
حوصلہ افزائی سے جتنی بہتری کسی انسان میں آسکتی ہے وہ کبھی بھی کسی کو سزا
دینے سے نہیں آتی ہے۔
کوشش کرتے جائیں ایک دن آپ وہ پا لیں گے جو آپ نے سوچا ہوا تھا اور جس کی
تگ ودو میں لگے ہوئے تھے۔
اپنی دنیا میں مگن رہنے والے اکثر پرسکون رہتےہیں کہ بہت سے لوگوں سے واسطہ
نہیں ہوتا ہے مگر کبھی کبھی یہی تنہائی اُنکو بے سکونی کی طرف بھی لے جاتی
ہے۔اس لئے اپنی دنیا سے نکل کر بھی جینا چاہیے تاکہ اندازہ ہو سکے کہ ہم جس
معاشرے میں رہتے ہیں وہاں بہت کچھ سہنا اور کرنا پڑتا ہے اور جبر کے ساتھ
بھی خوشی محسوس کر کے زندگی کو خوبصورت محسوس کرنا پڑتا ہے۔
جو شاگرد اپنے اساتذہ کا احترام نہیں کرتے ہیں وہ بہت کم ہی زندگی میں
بہترین کامیابی حآصل کر پاتے ہیں۔
سو چھوٹے و معمولی چوروں کو سزا دینے سے لوگ اتنی عبرت حاصل نہیں کرتے ہیں
جتنا کہ ایک بڑے چور و ڈاکو کوملنے والی سزا اُنکو جرائم سے دور رکھ سکتی
ہے۔
ہم کوشش نہیں کرتے ہیں اور شکوہ یہی کرتے ہیں کہ کچھ اچھا نہیں ہوتا ہے،کچھ
کرنے سے کچھ کم ہی حاصل ہوتا ہے سب بس سفارش اور رشوت کے بنا پر ہوتا ہے ہم
ازخود حقائق کی بنیاد پر جنگ شروع نہیں کرتے ہیں مگر منفی طرز عمل سے اپنا
اور دوسروں کا دماغ ضرور خراب کر لیتے ہیں۔
کسی کو بے عزت کر کے پھر معافی طلب کرنا بھی بڑے دل گردے کا کام ہوتا ہے یہ
اعلی ظرف کی نشانی ہوتی ہے۔ایسا نہ ہو تو پھر مثال بننا اور مثال دینا ایک
جیسی ہی بات ہوتی۔
حق کی آواز بلند کیجئے یہ نہ صرف آپ کے لئے بلکہ اُن لوگوں کے لئے بھی باعث
راحت ہوگا جو کہ اپنی آواز کو کسی خوف کے تابع بلند نہیں کر سکتے ہیں۔
ہم اپنی من منشا سے جینا چاہتے ہیں اور اپنی پسند کے فرد کے ساتھ ہی جینا
چاہتے ہیں مگر اگر ہم کسی دوسرے کی خواہش بن جائیں تو ہم یا تو اترانے لگ
جاتے ہیں یا پھر اُس سے کنارہ کشی اختیار کرنے کا سوچتے ہیں۔اپنی مرضی پوری
نہ ہو تو اپنی اور دوسروں کی زندگی بربادکرلیتے ہیں مگر دوسروں کی خوشی کے
لئے بہت کم ہی خود پر جبر کرکے کسی کو مسکراہٹ دیتے ہیں۔
جب تک آپ خود کو نالائق نہیں سمجھیں گے تب تک آپ زندگی میں کچھ بھی سیکھ
نہیں پائیں گے۔
اپنے آپ پر طنز کرنے والے برے لگتے ہیں مگر دوسروں کو نیچا دکھانا کچھ
لوگوں کا محبوب مشغلہ ہوتا ہے،مگر اپنی کی گئی بے عزتی زیادہ محسوس ہوتی ہے
۔
محبت کے نام پر چھوڑ دینے والے، دینا سے ڈرکر ساتھ چھوڑنے والے،مفادات پورا
ہو جانے کے بعد ایک طرف ہو جانے والے،رشتوں کا بھرم رکھنے والے تاکہ دوسروں
کا مفادات پورا نہ ہو سکے،اللہ کے قانون کو اپنے مفادات کے مطابق ڈھالنے
والے سب مجرم ہیں۔مگر انہی کی بدولت ہمیں زندگی میں وہ بھی حاصل ہوتا ہے جو
اس کے بغیر شاید ہمیں نہ مل پاتا،ا س لئے یہ سب ہمارے محسن ہیں اور محسنوں
سے اختلاف کیا جا سکتا ہے مگر ان کو بد دعا نہیں دی جا سکتی ہے۔
چھوڑ دینا آسان ہوتا ہے اس پر کچھ کبھی سہنا نہیں پڑتا ہے مگر نبھانے کے
لئے آپ کو اپنا آپ بھی مارنا پڑجاتا ہے۔
جہاں جہاں فساد برپا ہوتا ہے وہاں اکثر آگ کسی عورت نے ہی لگائی ہوتی ہے۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم آج نکاح کی بجائے گناہ کرنے کو ترجیح دیتے ہیں
اور نکاح جیسے عمل سے دور رہ کر بے راہ روی کا شکار ہو رہے ہیں۔نکاح کو
بروقت کرنے کی بجائے بچوں کی تعلیم پر زیادہ زور دیتے ہیں جس کی وجہ سے بے
شمار مسائل دیکھنے کو مل رہے ہیں۔
اپنے مطالبات کو منوانے کے لئے ایسا طریقہ کار اختیار کیا جائے جس سے
دوسروں کو مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑے، ہمارے ہاں اپنے ناجائز و جائز
مطالبات کو پورا کرنے کے لئے غلط ہتھکنڈے استعمال کرنے والے یہ یاد رکھیں
کہ جب تک درست عمل نہیں کیا جائے گا اُسوقت تک مقاصد کا حصول ممکن نہیں
ہوگا اگر دوسروں کو تکلیف دے کر ہی مطالبات منوانے ہیں تو پھر ایسا کرنے سے
کوئی بڑی تبدیلی رونما نہیں ہوگی۔
نوجوانوں کی جب تک مثبت سوچ کی جانب رغبت نہیں دلوائی جائے گی تو وہ منفی
سرگرمیوں میں ملوث ہو کر معاشرے میں بدامنی اور فساد کی کاروائیوں میں اپنا
کردار بھرپور ڈالنے کی کوششیں کرتے رہیں گے۔
اپنی الگ پہچان بنائیں دوسروں کی نقالی سے آپ اپنی قدروقمیت کھو دیتے ہیں۔
دوسروں کے لئے آسانیاں پیدا کرنے کا صلہ لوگ نہ بھی دیں تو بھی آپ کو اس کا
اجر اللہ سے ضرور مل جاتا ہے اور آپکی بہت سی تکلیفیں دور ہوتی ہیں اور کام
میں رکاوٹ ختم ہونے لگتی ہے ۔آپ پرسکون سے ہو جاتے ہیں جس سے زندگی خوشگوار
ہو جاتی ہے۔ |