ریسرچ سنٹر اینڈ سیکورٹی سٹڈیز ایک
پاکستانی مائر جناب امتیاز گل نے 2007 ء میں اسلام آباد میں ایک جرمن ادارہ
ہنری بوئل ستفتنگ کے تعاون سے قائم کیا تھا جسکا مقصدسیکورٹی اور گورننس
تھا۔ تب سے یہ ادارہ وقتا فوقتا مختلف مائرین کی آراء لینے کی خاطر
پروگرامات منعقد کرواتا رہتا ہے ۔ حال ہی میں مسلہ کشمیر اور اس کے حل پر
بحث کے لیے ایک ورکشاپ منعقد کی گئی جس کے دو چیف سپیکر ڈاکٹر سید نذیر
گیلانی اور آزاد کشمیر کے ریٹائرڈ جسٹس جناب منظور حسین گیلانی تھے۔ ڈاکٹر
نذیر گیلانی کا تعلق بھارتی مقبوضہ کشمیر اوروحدت جموں کشمیر کی بحالی کے
لیے جاری تحریک کے بانی محمد مقبول بٹ شہید کے گاؤں بارہمولہ سے ہے۔ وہ سن
بیاسی سے لنڈن میں رہاش پزیر ہیں جہاں انکی سربراہی میں اقوام متحدہ سے
منسلک جموں کشمیر کونسل فار یومن رائٹس کشمیریوں کے حق خود ارادیت اور
انسانی حقوق کے حوالے سے سرگرم عمل ہے۔ ڈاکٹر نذیر گیلانی ایک وکیل کی
حیثیت سے مسلہ کشمیر کی آئینی ۔ سیاسی و عالمی حیثیت پر ایک اتھارٹی مانے
جاتے ہیں جبکہ عزت مآب جناب جسٹس (ر) منظور حسین گیلانی جموں کشمیر کے
انسانی حقوق کی تنظیم کے چئیرمین اور اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن بھی ہیں۔
وہ گائے بگائے اہم آئینی و قانونی ایشوز پر کالم بھی لکتھے رہتے ہی۔ ڈاکٹر
نذیر گیلانی ان دنوں پاکستان آئے ہوئے ہیں انہوں نے مذکورہ ورکشاپ پر ایک
جامع رپورٹ لکھی ہے جس میں مسلہ کشمیر کے حل کے لیے مائرین کی آراء کے ساتھ
ساتھ یہ زکر بھی کرتے ہیں کہ آیا جموں کشمیر اور ہندوستان کے درمیان باہمی
مسلہ کو کس طرح پہلے بھارت نے عالمی بنایا اور پھر عالمی برادری اور کشمیری
عوام کے ساتھ کیے گے وعدوں سے منحرف ہو گیا ۔ہم یہاں ان حقائق کا بھی حوالہ
دیں گے جنکی بنا پر بھارت کو اپنی شاطرانہ چالوں میں آسانیاں پیدا ہوئیں۔
اب آئیے پہلے ڈاکٹر نذیر گیلانی کی رپورٹ کے مندجات کی طرف۔
ڈاکٹر نذیر گیلانی کے مطابق ورکشاپ میں ہونے والی بات چیت میں کہا گیا کہ
ستائیس اکتوبر سن سنتالیس کو یا اس وقت تک مسلہ کشمیر حکومت جموں کشمیر اور
بھارتی حکومت کے درمیان باہمی تھا ۔ بھارتی وزیر اعظم نے اکتیس اکتوبر کو
پاکستانی وزیر اعظم کو جموں کشمیر کی تخت نشینی اور مہاراجہ جموں کشمیر کی
مدد کے لیے بھارتی فوج بھیجنے کے حوالے سے ایک تار ارسال کیا۔ اس ٹیلیگرام
کے پیراگراف سات میں بھارتی وزیر اعظم کہتے ہیں کہ وہ صرف اپنے پاکستانی ہم
منصب کی حکومت اور کشمیر عوام سے ہی نہیں بلکہ عالمی برادری سے بھی وعدہ
کرتے ہیں کہ جموں کشمیر میں امن و امان بحال ہونے کے بعد بھارت اپنی فوج
واپس بلا لے گا۔ نذیر گیلانی لکھتے ہیں کہ اس مرحلہ پر جموں کشمیر اور
بھارت کے درمیان دو طرفہ مسلہ سہ فریقی مسلہ بن گیا۔ دوسرے لفظوں میں
پاکستان کو بھارت نے فریق بنایا ۔ یکم نومبر سن اڑتالیس کو بھارت نے اقوام
متحدہ کی سیکورٹی کونسل کو کشمیر کے اشو پر ایک پٹٹیشن دی جسکے نتیجے میں
پندرہ جنوری سن اڑتالیس کو مسلہ کشمیر عالمی حیثیت اختیا کر گیا۔ بھارتی
نمائندہ نے عالمی برادری کو بتایا کہ بھارت ہر صورت میں یہ مسلہ پر امن طور
پر کشمیری عوام کی آزادانہ رائے سے حل کرنا چاہتا ہے اور بھارت نے اب تک جو
بھی اقدامات کیے ہیں وہ آئینی اور اخلاقی بنیادوں پر کیے ہیں۔ ڈاکٹر نذیر
گیلانی نے ۱۹۵۱ میں ڈچ نمائندہ کے بیانات کا بھی زکر کیا جنہوں نے برطانوی
نمائندے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ مسلہ کشمیر کشمیری عوام کی آزادانہ رائے
سے حل ہو گا جسے اس وقت دنیا کا سب سے اہم مسلہ قرار دیا جا رہا تھا۔ یکم
جنوری سن انچاس کو سیز فائر ہوا جس کے بعد جموں کشمیر میں ایک عبوری حکومت
کا قیام عمل میں لا کر اقوام متحدہ کی نگرانی میں رائے شماری کرائی جانی
تھی جو ابھی تک نہیں ہوئی۔ یہاں تک تو جو بھی تاریخی حقائق بیان کیے گے ہیں
ان سے ہمار اتفاق ہے بلکہ ہم یہ بھی اضافہ کرتے ہیں کہ بعد میں رونما ہونے
والے حالات و واقعات نے واضع کر دیا کہ بھارت صرف وقت خریدنے کے چکر میں
تھا۔ وہ جموں کشمیر میں اپنی پوزیشن مضبوط کرنا چاہتا تھا اور ایسا کر کے
اپنے تمام وعدوں سے منحرف ہو گیا لیکن پاکستان کی آنے والی ہر حکومت نے کچھ
ایسی غلطیاں کیں اور مسلسل کی جا رہی ہیں جنکی وجہ سے بھارت اپنی شاطرانہ
چالوں میں کامیاب ہوتا گیا اور پھر ایسا وقت آ گیا کہ وہ یہی نہیں کہ مسلہ
کشمیر کو عالمی مسلہ ماننے سے انکاری ہو گیا بلکہ پاکستان کو مداخلت کار
قرار دینے میں بھی کامیاب ہو گیا۔ وہ حقائق کیا ہیں ـ؟ اختصار سے ہم سب سے
پہلے پانچ جنوری سن انچاس کی قرار داد کر ز کریں گے جو پاکستان کی درخواست
پر منظور ہوئی جسکے مطابق مسلہ کشمیر کو کشمیر اور ہندوستان کے بجائے
پاکستان اور ہندوستان کے درمیان علاقائی جھگڑا بنا دیا گیا اور کشمیریوں کو
مکمل طور پر فارغ کر دیا۔ پھر پاکستان نے بھارت کے ساتھ شملہ اور لاہور
معاہدے کیے جنکی بنا پر بھارت کہتا ہے کہ پاکستان نے خود مسلہ کشمیر باہمی
طور پر حل کرنے کے معاہدے کیے ہیں اب وہ کس طرح اسے عالمی سطع پر اٹھاتا ہے۔
جہاں تک عبوری حکومت کا تعلق ہے وہ آزاد کشمیر کے نام سے ایک حکومت قائم
ہوئی تھی جسے پاکستان نے اپنی لوکل اتھارٹی بنا کر اس سے لکھوا لیا کہ
عالمی سطع پر صرف پاکستانی حکومت کشمیریوں کی وکالت کرے گی اور اب وکیل
صاحب مسلہ کے اصل فریق اور مالکان کشمیر کی بات ہی نہیں سنتا۔ آزاد کشمیر
کے چار ہزار مربع میل خطہ کو ایک ڈپٹی کمشنر چلا سکتا ہے لیکن اس پر درجنوں
غیر ضروری ادارے مسلط کر کے اس کا گلا گھونٹ دیا گیا جبکہ گلگت بلتستان کو
صوبہ بنا کر بھارت کو بھی یہی کام کرنے کا جواز مہیا کیا جا رہا ہے۔ آزاد
کشمیر اور گلگت بلتستان جب پاکستان کی سرکاری پالیسی کے تحت تحریک آزادی
کشمیر کی عملی جد و جہد سے الگ تھلگ کر دئیے گے تو مقبول بٹ شہید کی قیادت
میں بھارت کے خلاف تحریک چلی۔ کشمیریوں کی اپنی مدد آپ چلنے والی اس تحریک
نے زور پکڑا اور دنیا اسے کشمیریوں کی اندرونی تحریک تسلیم کرنے لگی اور
بھارتی حکومت گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوئی تو پاکستان کے بعض اداروں نے اپنے
غلط فیصلوں سے ایک بار پھرکشمیر پر بھارتی گرفت مضبوط کروا دی۔ پاکستانی
اداروں کے انہی فیصلوں کی جہ سے بھارت دنیا کے سامنے یہ واویلا کرنا شروع
ہو گیا کہ یہ کشمیریوں کی اندرونی تحریک نہیں بلکہ پاکستانی مداخلت ہے جو
کشمیری تحریک کے آغاز میں بھارت کو اپنا دشمن تصور کرتے تھے انکے تجربات نے
یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ رکاوٹ تو پاکستان بھی ہے کیونکہ آزاد کشمیر کے
جو لوگ وحدت کشمیر کی بحالی میں اپنا جائز اور پر امن کردار ادا کرنا چاہتے
ہیں انکے لیے غیر ضروری مشکلات پیدا کی جا رہی ہیں۔ ڈاکٹر نذیر گیلانی اور
جسٹس منظور گیلانی اپنی سفارشات میں حکومت پاکستان کو یہ بھی بتائیں کہ
کوئی کشمیر ی پاکستان کا مخالف نہیں وہ صرف پاکستان کی کشمیر پالیسی سے
اختلاف رکھتے ہیں جس پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ |