ماسٹر احمدیار سے میں برسوں قبل پڑھا تھا مگر آج تک وہ
مجھے یاد تھے،ان سے بہت کچھ سیکھا تھا۔لیکن ان سے پڑھائی چھوٹ جانے کے بعد
دوبارہ ملاقات نہ ہو سکی تھی۔
آج جب وہ پھر ملے تو اپنا ایک وہ خاص تاثر چھوڑ گئے جو کہ انکی قابلیت اور
ذہانت کے حوالے سے تھا۔ماسٹر صاحب اﮮ ﭨﯽ ﺍﯾﻢ ﻣﺸﯿﻦ سے کچھ ﭘﯿﺴﮯ ﻧﮑﻠﻮﺍﻧﮯ
ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺗﺸﺮﯾﻒ ﻟﮯ ﮔﺌﮯ ﺗﻮ ﭘﺘﮧ ﭼﻼ ﮐﮧ ﻣﺸﯿﻦ ﮨﯽ ﺧﺮﺍﺏ ﮨﮯ۔
ﭼﯿﮏ ﺑﮏ ﺟﯿﺐ ﻣﯿﮟ ﺗﮭﯽ، ﺑﯿﻨﮏ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭآئے اور مجھ سے مخاطب ہوئے۔ میں چونکہ اس
بنک میں بطور کیشیئر کام کر رہا تھا تو باہر اے ٹی ایم میشن خراب ہونے کا
شکوہ کیا۔میں نے پہچان کر ان سے سلام دعا کی اور رقم کو چیک کے ذریعے سے
نکلوانےکا مشورہ بھی دے ڈالا۔مجھے خبر تھی کہ وہ کوئی جواب ایسا دیں گے کہ
میں خاموش ہو جاوںگا۔ مگر وہ چپ رہے۔ ﺍﯾﮏ ﮨﺰﺍﺭ ﺭﻭﭘﮯ ﮐﺎ ﭼﯿﮏ ﮐﺎﭦ ﮐﺮ ﮐﯿﺶ ﮐﺮﻧﮯ
ﮐﻮ ﺩﯾﺎ۔
اسی اثنا میں بنک کا ایک نیا قانون چونکہ بنک نیا نیا بنا تھا تو
بتایا۔ﮨﻤﺎﺭﮮ ﭘﺎﺱ ﻧﯿﺎ قانون ﺁﯾﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﮔﺮ ﭼﯿﮏ ﭘﺎﻧﭻ ﮨﺰﺍﺭ ﺭﻭﭘﮯ ﺳﮯ ﮐﻢ ﮐﺎ ﮨﻮﮔﺎ
ﺗﻮ ﮨﻢ ﺁﭖ ﮐﮯ ﺣﺴﺎﺏ ﺳﮯ ﭼﺎﺭﺟﺰ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﭘﺮ سو ﺭﻭﭘﮯ ﮐﺎﭨﯿﮟ ﮔﮯ۔
ماسٹر ﺻﺎﺣﺐ ﻧﮯ ﭼﯿﮏ ﻭﺍﭘﺲ ﻟﯿﺎ،ﺍﻭﺭ چھ ﮨﺰﺍﺭ ﮐﺎ ﻧﯿﺎ ﭼﯿﮏ ﺑﻨﺎ ﮐﺮ ﮐﯿﺶ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯿﻠﺌﮯ
ﺩﯾﺪﯾﺎ۔
ماسٹر احمد یار صاحب کو میں نے ﻧﮯ ﺿﺮﻭﺭﯼ ﮐﺎﺭﻭﺍﺋﯽ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺟﯿﺴﮯ ﮨﯽ چھ ﮨﺰﺍﺭ
ﺭﻭﭘﮯ ﮐﺎ ﮐﯿﺶ ﺗﮭﻤﺎﻧﺎ ﭼﺎﮨﺎ،ماسٹرﺻﺎﺣﺐ ﻧﮯ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﮨﺰﺍﺭ ﺭﻭﭘﮯ ﺍﭨﮭﺎ ﮐﺮ،
ﺑﺎﻗﯽ ﮐﮯ ﭘﯿﺴﮯ ﻭﺍﭘﺲ ﻟﻮﭨﺎﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﯾﮧ ﭘﺎﻧﭻ ﮨﺰﺍﺭ ﺭﻭﭘﮯ ﺍُﻥ ﮐﮯ ﺣﺴﺎﺏ ﻣﯿﮟ
ﮈﯾﭙﺎذﭦ ﮐﺮلوں۔
پھر میں نے ﺧﺸﻤﮕﯿﻦ ﻧﻈﺮﻭﮞ ﺳﮯ ماسٹر ﺻﺎﺣﺐ ﮐﻮ ﮔﮭﻮﺭﺍ ﺗﻮ ماسٹر ﺻﺎﺣﺐ ﻧﮯ ﻣﺴﮑﺮﺍﺗﮯ
ﮨﻮﺋﮯ ﮐﮩﺎ: ﭘُﺘﺮ، ﺟﺲ ﻧﮯ یہ ﻧﯿﺎ قانون ﺑﻨﺎﯾﺎ ﮨﮯ ﻧﺎﮞ، ﺍﺳﮯ ﻣﯿﺮﺍ ﺳﻼﻡ کہہ دینا
ہو سکتا ہے کہ یہ نیا قانون بنانے والا میرا شاگرد ہی ہو۔
وہ تو ایسا کر کے چلے مگر بعد میں جتنے بھی افراد آئے وہ سب نئے قانون کے
مطابق ادائیگی کرتے رہے کسی میں اتنی سمجھداری نہیں تھی کہ نئے قانون کے
مطابق ماسٹر احمد یار کی طرح مطلوبہ رقم بنا کٹوتی کے حاصل کر سکتے۔ |