بادشاہ بیلشضّر کے بارے میں لکھا گیا ہے کہ وہ درباریوں
کے ساتھ اپنے محل میں رنگ رلیاں منا رہا تھا اور یروشلم کے معبد سے لُوٹے
ہوئے طلائی برتنوں میں شراب نوشی کے دور چل رہے تھے کہ اچانک غیب سے ایک
ہاتھ نمودار ہوا اور اس نے دیوار پر کچھ لکھنا شروع کر دیا۔ بادشاہ خوف سے
تھر تھر کانپنے لگا۔ بعد کے واقعات کے مطابق بادشاہ نے بابل کے بڑے بڑے
عالموں، پیروں، فقیروں اور نجومیوں کو محل میں بلایا اور کہا کہ اس عبارت
کو پڑھ کر ذرا اسکا مطلب سمجھا دو، میں تمھیں سونے میں تول دوں گا۔ سارے
عامل، پیر، فقیر اور نجومی کوشش کرتے رہے لیکن وہ عجیب و غریب زبان کسی کے
سمجھ میں نہ آئی۔ ادھر بادشاہ کی حالت غیر ہوتی جا رہی تھی۔ آخر ملکہ نے
آکر مشورہ دیا کہ دانیال نامی اُس شخص کو بلایا جائے جس کا جسم تو انسان کا
ہے لیکن روح کسی دیوتا کی ہے۔ بادشاہ نے فوراً حضرت دانیال علیہ السلام کو
محل میں بلایا اور اس سے یوں گویا ہوا:
میں نے سنا ہے کہ تم ہر طرح کی گھتیاں سُلجھانے کے ماہر ہو اور ہر مسئلے کو
حل کر سکتے ہو۔ اگر تم دیوار پہ لکھی ہوئی یہ عبارت پڑھ کر اسکا مطلب مجھے
سمجھا دو تو تمھارے گلے میں سونے کی مالا ڈالی جائے گی اور تمھیں خلعتِ
فاخرہ سے نوازا جائے گا اور تمھیں سلطنت کا تیسرا سب سے بڑا عہدہ بھی سونپ
دیا جائے گا۔
حضرت دانیال علیہ السلام نے دیوار کی طرف دیکھا۔ وہاں یہ چار الفاظ لکھے
تھے۔
Mene – mene – takel – peres
یہ کسی اجنبی زبان کے غیر مانوس الفاظ تھے جنہیں ملک کا کوئی بھی عالم
سمجھنے سے قاصر تھا۔ لیکن حضرت دانیال علیہ السلام نے اپنی روحانی قوت کے
زور پر اس زبان کو سمجھ لیا اور بادشاہ سے کہا کہ تمھارا باپ بھی اس سلطنت
کا فرماں روا تھا لیکن اس نے عیش و عشرت میں پڑ کر خود کو تباہ کر لیا اور
اب تم بھی اسی کے نقشِ قدم پر چل رہے ہو چنانچہ تمھارا مقّدر بھی تباہی اور
بربادی ہے۔ دیوار پہ لکھے ہوئے الفاظ کی تشریح کرتے ہوئے حضرت دانیال علیہ
السلام نے کہا
mene کا مطلب ہے کہ تمھاری بادشاہی کے دِن پورے ہو گئے ہیں۔
takel کا مفہوم ہے کہ تمہیں کسوٹی پہ پرکھا گیا، لیکن تم کم عِیار ( ناقص)
نکلے۔
peres سے مُراد ہے کے تمھاری سلطنت عنقریب دشمنوں میں تقسیم ہو جائے گی۔
بائبل میں لکھی کہانی کے مطابق اسی رات بادشاہ قتل کر دیا گیا اور جلد ہی
اسکی سلطنت دو دشمن ریاستوں کے قبضے میں چلی گئی۔ بائبل کی کہانی تو یہیں
تک تھی لیکن ایک ضرب المثل کے طور پر یہ واقعہ کئی زبانوں کا جزو بن چُکا
ہے۔ جس میں اردو اور انگریزی کے علاوہ دنیا کی دوسری زبانیں بھی شامل ہیں۔
مثالیں۔
’حکومت میں شامل سیاست دانوں کو نوشتۂ دیوار پڑھ لینا چاہیے‘
’سردار اپنے قبیلے پر ظلم ڈھاتا رہا لیکن اسے نوشتۂ دیوار نظر نہ آیا۔‘
’باپ کو آخر بیٹی کا مطالبہ تسلیم کرنا ہی پڑا، شاید اس نے نوشتۂ دیوار پڑھ
لیا تھا۔ |