ایک دوست نے نقل کیا ہے کہ جنوبی افریقہ میں ایک
یونیورسٹی کے داخلہ دروازے پر کچھ اس طرح کی عبارت لکھی ہوئی ہے۔ ۔۔۔
کسی بھی قوم کو تباہ کرنے کے لئیایٹم بم یا میزائیل کی ضرورت نہیں۔ اگر ملک
میں تعلیم کا معیار گرا دیا جائے تو قوم خود ہی تباہ ہو جائے گی،کیونکہ...تعلیمی
معیار کم ہونے کی وجہ سے مریض ڈاکٹر کے ہاتھوں مر جائے گا.۔عمارتیں
انجینئرزکے ہاتھوں گر جاییں گی ۔معیشت اکنامکسٹ کے ہاتھوں تباہ ہو جائے گی۔
انسانیت اور مذہب میں مذہبی سکالرز کی وجہ سے دراڈ آ جائے گی۔انصاف ججز کے
ہاتھوں ناپید ہو جائے گا۔آپ ذرا اپنی حالت دیکھیں ھمارا تعلیمی معیار کیسا
ہے ۔میں کل مظفرآباد یونیورسٹی میں تھا۔وہاں کا ماحول دیکھ کے ایسا لگا کہ
ہم اسے طرف بڑھ رہے ہیں۔ایم بی اے ڈیپارٹمنٹ میں %90 فیکلٹی وزٹنگ پہ مشتمل
ہے۔ انھیں 800روپیہ فی لیکچر دیا جاتا ہے اور اسمیں %25ان سے ٹیکس کاٹا
جاتا ہے طلباء اس ضد پہ ہیں انہیں صرف 2,3 چپٹر سے آگے پڑنا نہیں ہے ۔
ریگولر سٹاف لا پتہ ہے۔اگر قوم کے استاد اعلیٰ تعلیم یافتہ اور بصیرت سے
عاری ہیں تو قوم کے اندر نا اتفاقی ،کرپشن ،بددیانتی، لڑائیجھگڑے، فسادات،
دہشتگردی وغیرہ کی لعنت جنم لیتی ہے۔
1945 میں امریکہ نے جاپان پہ دو ایٹم بم پھینکے۔ جاپان کی معشیت صفر ہو گئی۔
امریکہ جاپان پہ قابض ہوگیا۔ امریکی جنرل نے جاپانی وزیراعظم کو اپنے آفس
میں بلایا اور بلا وجہ انھیں انتظار کروایا۔اس کے بعد جاپانی قوم نے سب کچھ
چھوڑ کے تعلیم پہ توجہ دی۔اس قوم نے تعلیم اور انڈسٹری کا معیار بلند
کیا۔اس سے پہلے یورپی تاجر جاپانی مصنوعات خریدنا اپنی توہین سمجھتے تھے ۔مگر
10 سال بعد جاپانیوں نے اتنی ترقی کی کہ لوگ آنکھیں بند کرکے جاپان کی
اشیاء خریدنے لگے۔وہ تب ممکن ہوا جب جاپانیوں نے اپنا تعلیمی معیار درست
کیا انہوں نے پوری دنیا سے ماہرینمنگوائے تاکہ اساتذہ کی تربیت کر سکیں ۔تبھی
وہ قوم بغیر فوج، ایٹمی بم کے آج دنیا کی مہذب اور ترقی یافتہ قوم کہلاتی
ہے۔کسی دوست نے اسے نقل کیا۔ جو کہ سب کے لئے باعث عبرت ہے۔
اشفاق احمدمرحوم نے استاد کے بارے میں جو واقعہ رقم کیا کہ کس طرح مغرب کی
ایک عدالت میں استاد کو دیکھ کر سب تعظیماً کھڑے ہو گئے۔ آج کئی مقامات سے
خبریں آتی ہیں کہ فلاں جگہ گھسٹ سکول کھلے ہیں۔ استاد کرایہ کے لوگ رکھ
لیتے ہیں۔ خود گھر میں بیٹھے رہتے ہیں اور چند ہزار دے کر کسی لڑکے کو سکول
بھیج دیتے ہیں۔ میر پور آزاد کشمیر میں ایک غیر رجسٹرڈسکول کو ڈی ای او نے
سربمہر کیا تو مقامی سیاستدانوں مداخلت کرتے ہوئے اسے دوبارہ کھلوا دیا۔ یہ
سکول کسی گھر میں قائم کیا گیا تھا۔ اس طرح کے لا تعداد سکول ہیں جو غیر
قانونی طور پر کام کرتے ہیں۔ جن کا اپنا نصاب، اپنا نظام ہے۔ من مانی فیسیں
ہیں۔ انتظامیہ نوٹس لے تو سیاسی دباؤ کام کر جاتا ہے۔
معیاری تعلیم کی غیر معمولی اہمیت ہے۔ جو ڈگریوں کے بجائے انسانی صلاحیتوں
کو انسانیت کے حق میں بروئے کار لا سکے۔ ورنہ ڈاکٹر کے ہاتھوں مریض قتل ہو
گا۔ اس عمارت کو انجینئر ہی گرا دے گا۔ معاشرے کو یہ صحافی ہی تباہ کر دے
گا۔ آج ہم توجہ رٹہ اور نمبر سکورننگ پر دے رہے ہیں۔ بچے پر کتابوں کا بوجھ
لاددیا جاتا ہے۔ سکول سے واپس آئے تو اکیڈمی یا ٹیویشن سنٹر۔ بچے کے کردار
پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اسے ذمہ دار شہری بنانا اہم ہے۔ آج گیس پیپرز کا
وقت ہے۔ وہی سوال رٹہ کرائے جاتے ہیں جو امتحان ایا ٹیسٹ میں آ سکتے ہیں۔
تعلیم ہے۔ مگر تربیت نہیں۔ نساب میں ٹیکسٹ کتابوں کی اہمیت کو نظر انداز
کیا جاتا ہے۔ بچے کے سیکھنے کی صلاحیتوں کو دبا دیا جاتا ہے۔ اسے ڈسپلن کا
پابند اس حد تک بنایاجاتا ہے کہ وہ یونیفارم اور سکول کی حد تک معیار کی
پابندی کرے۔ اخلاقیات یا شخصیت سازی کا درس یا ذہن سازی کی ضرورت محسوس
نہیں کی جاتی۔ اس میں ہمارا مادیت پرستی کی طرف بڑھتا ہوا رحجان ہے۔
ہم پیسہ کمانے کی مشین بن رہے ہیں۔ نئی نسل کو بھی مشین بنانے میں دلچسپی
لیتے ہیں۔ انہیں ہنگامی حالات سے سائینسی طریقوں یا نئے زاویوں سے نپٹنے کے
لئے تیار نہیں کرتے۔ اگر تعلیم و تربیت میں خود غرضی یا اساتذہ کی باہمی
چپقلش ھاوی رہے تو کیا ہو گا۔ اس کے اثرات ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم
مسائل کو سلجھانے کے بجائے انہیں الجھا دیتے ہیں۔ اپنی زات کے لئے ہی جیتے
اور مرتے ہیں۔ دوسروں کی عزت نفس کا خیال رکھنا مناسب نہیں سمجھا جاتا۔ صرف
انا پرستی ہی دماغ پر غالب رہتی ہے۔ اس لئے ہمارا استاد ایسا رول ماڈل ہو
جس کے نقش قدم پر طلباء چلنا باعث فخر سمجھیں۔ ورنہ ہمارے معمار ایسے ہی
ہوں گے۔ پھر ہم رہبر کو رہزن کہتے رہیں گے۔ پھر یہ باڑ ہی فصل کو کھائے گی۔
گھر کا چوکیدار ہی ڈاکہ ڈالے گا۔ صحافی مقدس مشن کے بجائے بلیک میلنگ کرے
گا۔ تعلیم تجارت بنے گی۔ ہر شے کی پرکھ اور قدر کاروباری نکتہ نگاہ سے کی
جائے گی۔
|