کراچی میں بارانِ رحمت وژالہ باری

کراچی میں اتوار اور پیر کی دریانی شب بارانِ رحمت خوب خوب برسا ساتھ ہی ژالہ باری کے تڑکے نے موسم کو حسین ،خوشگوار و شاداں بنا دیا ۔وہ تو اس نعمت سے پھولے نہ سمائے، صبح سویرے جب کہ سردی اہل کراچی کے لیے اپنے عروج پر تھی ، چھما چھم بھی ہو رہا تھا اس میں بچے ، بڑے سب ہی ژالہ باری کا لطف لے رہے تھے۔ محکمہ موسمیات کے مطابق دسمبر کے مہینے میں کراچی میں بارش گزشتہ پانچ سال سے نہیں ہوئی تھی۔ پانچ سال بعد دسمبر میں نہ صرف بارش ہوئی ژالہ باری نے سیاسی افسردگی، پژمردگی، کُملاھٹ ، اداسی کے باوجود اہل کراچی نے خوشیوں کے شادیانے بجا دیئے۔ سعود عثمانی کا ایک شعر ہے ؂
حیرت سے تکتا ہے صحر ا بارش کے نذرانے کو
کتنی دور سے آئی ہے یہ ریت سے ہاتھ ملانے کو
شاعر موصوف سے معزرت سے اس شعر میں کچھ ترمیم کے ساتھ ؂
حیرت سے تکتا ہے کراچی بارش و ژالہ کے نذرانے کو
بہت دیر سے آئی ہے یہ اہل کراچی سے ہاتھ ملانے کو

کلام مجید کی سورۃ الفرقان آیت48اور49، ترجمہ ’’اور وہی تو ہے جو اپنی رحمت کے مینھ کے آگے ہواؤں کو خوش خبری بنا کر بھیجتا ہے۔ اور ہم آسمان سے پاک(اور نتھرا ہوا) پانی برساتے ہیں ، تاکہ اس ے شہر مردہ (یعنی زمین افتادہ) کو زندہ کردیں اور پھر اسے بہت سے چوپایوں اور آدمیوں کو جو ہم نے پیدا کیے ہیں پلاتے ہیں‘‘۔اسی طرح سورۃ النساء کی آیت102میں کہا گیا’’اگر تم بارش کے سبب تکلیف میں ہو یا بیمار ہو تو تم پر کچھ گناہ نہیں کہ ہتھیار اُتار رکھو مگر ہوشیار ضرور رہنا خدا نے کافروں کے لیے ذلت کا عذاب تیار کر رکھا ہے‘‘۔ سورۃ البقرہ کی آیت164میں اللہ نے کہا ’’ اور مینہ میں جس کو خدا آسمان سے برساتا اور اُس سے زمین کو مرنے کے بعد زندہ (یعنی خشک وسرسبز) کر دیتا ہے ‘‘۔ بارش ہمارے لیے کس قدر ضروری اور مفید ہے کلام مجید کی آیاتِ مبارکہ سے واضح ہے۔

کراچی میں پانچ سال بعد موسم سرما کی باقاعدہ پہلی بارش ہوئی جب کہ ژالہ باری سات سال بعد ۔ اس اعتبار سے کراچی کے لیے دسمبر کا مہینا برکھا کے اعتبار سے خوش کن ہے۔ اس بارش سے بہت سے نشیبی علاقے پانی میں تر بہ تر ہوگئے، غریب بستیوں کے مکینوں کو سردی سے دوچار ہونا پڑا، پریشان ہوئے لیکن دوسری جانب کراچی میں جس قسم کی مختلف بیماریاں پھیلی ہوئی تھیں ان بیماریوں سے نجات کے لیے بارش کا ہونا بہت ضروری تھا۔کھانسی، نزلہ ، زکام اور بخار کا وائرل سر چڑھ کر بول رہا تھا جس گھر میں دیکھو لوگ بچے بڑی کھانسی اور بخار میں مبتلا نظر آرہے تھے، بچے اس سے زیادہ متاثر ہیں۔ اس بارش سے خوشک سردی میں کمی واقع ہوئی ۔ حالانکہ بارش کے بعد سردی بڑھتی ہے لیکن اس بارش نے سردی کی اس خشک لہر میں کمی کردی ہے۔ امید ہے کہ وائرل کا خاتمہ بھی ہوگا اور لوگوں کو کھانسی نزلہ سے نجات مل جائے گی۔ کسی شاعر نے کہا ؂
بارش کیسی تیز ہوئی ہے
آدھی رات کا سناٹا ہے
آنکھ اداسی میں ڈوبی ہے
خواب چھپ چھپ کے تکتے ہیں
خوشبو کچھ مانوس سی ہے
اور دل نکھرا نکھرا سا ہے
شیشے کی ان دیواروں کے پار
افق ہے اور دعا
جب تک لوٹ کر آئے گی
شاید میں ہوجاؤں راکھ

کراچی کے جن علاقوں میں باران رحمت شدید اور بہت برسا ان میں گلشن اقبال، ڈیفنس، لانڈھی، نارتھ کراچی، ناظم آباد، صدر کے علاقے شامل ہیں۔ محکمہ موسمیات کے مطابق صدر کے علاقے میں12 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی۔ کہا جارہا ہے کہ بارش کا سلسلہ یا سسٹم مغرب یا کہیں اور سے نہیں بلکہ یہ سمندر کے اندر بنا صبح جب کے پو پھٹنے والی تھی گرجتا، چمکتا ،دھوم دھام سے کراچی کو بہاروں ، نظاروں سے لبالب کرگیا۔امجد اسلام امجد کے شعر ؂
بارش میں بھیگے ہوئے جھونکے ہوا کے تھے
وہ چند بے گمان جھونکے ہوا کے تھے

محکمہ موسمیات کے مطابق بحیرہ عرب میں گزشتہ شب اچانک شمال مشرقی سمت سے ہوائیں رک گئیں شمالی ہوائیں رکنے کی وجہ سے کئی روز سے مسلسل بند سمندری جنوب مغربی ہوئیں چل پڑیں ۔ سمندری ہواؤں نے بلند ی پر موجود بخارات سے گہرے بادلوں کی شکل اختیار کر لی اور پھر پورے گھن گرج کے ساتھ تیز بارشوں نے شہر کراچی کو جل تھل کر دیا۔تیز ہواؤں کی رفتار 60کلومیٹر فی گھنٹہ ریکارڈ کی گئی۔شہر جل تھل ہوگیا، سڑکیں برسات کے پانی میں ڈوب گئیں، شہر میں ہونے والا ترقیاتی کام متاثر ہوا۔ لیکن تمام تر مشکلات اور پریشانیوں کے بارانِ رحمت کا آجانا اہل پر اللہ کی رحمت ہے۔
ناصر کاظمی نے کہا ؂
پھر ساون رت کی پون چلی تم یاد آئے
پھر پتوں کی پازیب بجی تم یاد آئے

کراچی موسم کے اعتبار سے اپنی انفرادیت رکھتا ہے یعنی کراچی کا اپنا کوئی موسم نہیں، تیز ہوائیں چلیں تو وہ سمندر میں طغیانی و فراوانی کہلاتی ہے، ٹھنڈی ہوائیں چلیں ، موسم سرد ہوجائے تو کہا جاتا ہے کہ کوئٹہ میں برف پڑی ہوگی اس کے اثرات آگئے ہیں۔گویا اہل کراچی کا اپنا کوئی موسم نہیں ، وہ بے موسمیے ہیں۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ بتا تی ہے کہ اہلِ کراچی کی سیاست کا موسم بھی جدا رہا ہے۔ پورا ملک ایک طرف ہوتا ہے تو اہل کراچی اپنا قبلہ دوسری جانب کیے ہوئے ہوتے ہیں۔ اسے چھا کہیں یا برا۔ موسم کی مانند سیاسی موسم میں کراچی اپنی مخصوص انفرادیت برس ہا برس سے قائم رکھے ہوئے ہے۔ ایوب خان کے گلاب کے پھول نے جائز و ناجائز طریقے سے پورے ملک میں اپنی خوشبو مہکائی پر یہ اہل کراچی تھے کہ جنہوں نے گلاب کے پھول کو اپنے سینے پر سجانا گوارا نہ کیا بلکہ انہوں نے مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کی لالٹین کو سر کا تاج بنا یا، لالٹین کو تو سابق مشرقی پاکستان والوں نے بھی تھاما تھا، انہیں پھول سے نفرت کی جو سزا ملی وہ سب کے سامنے ہے۔ اگر اُسی وقت پھول کو صرف پھول ہی رہنے دیا جات اور لالٹین کو تھام لیا جاتا تو شاید ہمارا ایک بازو ہم سے جدا نہ ہوتا۔ سیاسی موسم میں اہل کراچی نے اپنی سرشت نہیں بدلی۔70 کی دہائی ملک میں جئے بھٹوہورہا تھا پر اہل کراچی نو ستاروں کے دیوانے ہوئے جارہے تھے اور آگے آئیں تو پنجاب میں نون لیگیوں کو چاہا گیا، اندرون سندھ پی پی کے جیالوں کو پسند کیا گیا، پختونخواہ میں کپتان کو لیکن کراچی نے اپنی راہ الگ اپنائی ، اپنی سوچ ، اپنی عادت کو نہیں بدلہ چاہیے انہیں اس کا کتنا ہی خمیازَہ پھگتناپڑا۔معروف شاعرہ پروین شاکر کی مشہور غزل پر کراچی کے موسم پر انی بات ختم کرتا ہوں ؂
بارش ہوئی تو پھولوں کے تن چاک ہوگئے
موسم کے ہاتھ بھیگ کے سفاک ہوگئے
بادل کو کیا خبر ہے کہ بارش کی چاہ میں
کیسے بلند و بالا شجر خاک ہوگئے
جگنو کو دن کے وقت پرکھنے کی ضد کریں
بچے ہمارے عہد کے چالاک ہوگئے
لہرا رہی ہے برف کی چادر ہٹاکے گھاس
سورج کی شہہ پہ تنکے بھی بے باک ہوگئے
بستی میں جتنے آب گزیدہ تھے سب کے سب
دریا کے رخ بدلتے ہی تیراک ہوگئے
سورج دماغ لوگ بھی ابلاغِ فکر میں
زلفِ شبِ فراق کے پیچاک ہوگئے
جب بھی غریبِ شہرسے کچھ گفگو ہوئی
لہجے ہوائے شام کے نمناک ہوگئے

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 865 Articles with 1436949 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More