جنات کا درخت سنا ہے، جنات کا گھر سنا ہے جنات کی حویلی سنا ہے لیکن کیا آپ نے 'جنات کی گاڑی' کا قصہ سنا ہے۔ انٹرنیٹ پر اکثر ایسی ویڈیوز وائرل ہوتی ہیں کہ گاڑی کی ہیڈ لائٹ اپنے آپ آن ہوگئی، یا گاڑی اپنے آپ چلنے لگی۔
لیکن ہم جو آپ کوحقیقی واقعہ سنانے جا رہے ہیں اس میں جنات کی اپنی گاڑی تھی اور وہ رات اور صبح کے درمیانے حصے میں خود بہ خود چلتی پھرتی تھی۔
امریکی شہر جنوبی ڈکوٹا میں رہنے والے شخص جیک نے اس حوالے سے کہانی انٹرنیٹ پر شئیر کی تھی جو دلچسپ ہونے کے ساتھ خوفناک بھی تھی۔
یہ واقعہ سن 2000 کا ہے۔ جیک جہاں رہائش پذیر تھا وہاں اتنی آبادی موجود نہیں تھی۔ جیک کو پرانی گاڑیاں جمع کرنے کا بہت شوق ہے۔ ایک دن وہ اپنے والد کے ساتھ کار کے شوم گیا اور وہاں اس کی نظر 40 سالہ پرانی گاڑی پر پڑی جس کو اس نے خریدنے کا سوچا۔وہ گاڑی سلور ہاک تھی جواسے بے حد پسند آئی۔ یہ گاڑی بہت سستے داموں میں فروخت ہو رہی تھی۔
جیک نے جب یہ گاڑی خریدی تو اسے محسوس ہوا اس کے اندر سے بہت بری بدبو آرہی ہے۔ جسے گاڑی کے اندر کوئی جانور مرا ہوا ہو۔ جیک نے گاڑی کے کاغذات مانگے تو اس آدمی نے ایک نمبر دیا اور کہا کہ اس بندے سے رابطہ کرلو۔
جیک بہت مشکلوں سے اس گاڑی کو اپنے گھر لایا تھا کیونکہ گاڑی راستے میں بار بار بند ہورہی تھی۔جیک نے اس نمبر پر کال کی اور گاڑی کے پیپرز مانگے لیکن اس نے یہ کہہ کر فون رکھ دیا کہ گاڑی کا اصل مالک مر چکا ہے، کاغذات بھی اسی کے پاس تھے۔
اگلے روز جیک نے گاڑی اچھی طرح صاف کیا اور وہ عجیب بدبو بھی نکال دی تھی۔ گاڑی اب بھی اسٹارٹ نہیں ہو رہی تھی۔ جیک کو لگا کہ شدید ٹھنڈ کی وجہ سے گاڑی کا انجن جام ہوگیا تھا۔
کچھ روز بعد گاڑی سے پھر وہی بدبو آنے لگی تھی جو گاڑی خریدتے وقت اسے محسوس ہوئی تھی۔ اور بدبو اتنی شدید تھی کہ گاڑی کے پاس کھڑے ہونا مشکل ہوگیا تھا۔ ایک وقت تو ایسا آیا جب جیک کی گاڑی سے مرے ہوئے پرندوں کی لاشیں ملنا شروع ہوئیں۔ اور وہ پرندے رابن ہوتے تھے۔ جیک جب بھی گاڑی کا دروازہ کھولتا تو اسے سیٹ پر مردہ حالت میں پرندے موجود ہوتے۔
یہ پراسرار واقعہ کئی ہفتوں جاری رہا۔ جیک بہت خوف میں مبتلا ہوگیا تھا۔ اور ایک مرتبہ تو گاڑی رات اور صبح کے درمیانے حصے میں خود بہ خود چلنے لگی۔ ایسا بتایا جیک کے پڑوسی نے جیک کو اور وہ یہ سن کر حیران رہ گیا۔
پڑوسی نے جب بتایا کہ تمھارے گھر کے آگے گاڑی ایک گھنٹے تک گھومتی رہی اور شور کر رہی تھی تو یہ سن کر جیک کے ہوش اڑ گئے۔ کیونکہ جیک کی گاڑی تو اسٹارٹ ہی نہیں ہورہی تھی۔ والد سے پوچھا تو انہیں بھی کچھ علم نہیں تھا۔
جیک نے انہیں پراسرار واقعات کی وجہ سے اپنی گاڑی کا نام ایول اسٹو رکھ دیا تھا۔ جیک کولگتا تھا کہ اسے اپنی گاڑی میں انسانی چہرے بھی نظر آتے تھے۔ یہ سب واقعات رونما ہونے کے بعد جیک کو بہت تشویش ہوئی۔ اس نے گاڑی کے گیراج میں خفیہ کیمرہ نصب کیا تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ گاڑی خود کیسے باہر چلی جاتی ہے۔
جیک نے جب صبح کیمرہ دیکھا تو ہکا بکا رہ گیا کیونکہ کیمرے کا رخ گاڑی کی طرف نہیں تھا۔ ایک مرتبہ تو یہ ہوا کہ جیک اپنی گاڑی صحیح کر رہا تھا اور اسے ایسا محسوس ہوا جیسے اس کا پیچھے سے کوئی گلا دبا رہا ہو۔ یہ احساس اتنا شدت والا تھا کہ بعد میں جیک کی طبعیت خراب ہوگئی اور اسے اسپتال لے جایا گیا۔
بہرآل جیک کی یہ گاڑی زیادہ تر گیراج میں ہی کھڑی رہتی ہے۔