موسیقی کو روح کی غذاء کہا جاتا ہے لیکن اکثر یہ غذاء لوگوں کیلئے سزاء بھی بن جاتی ہے، بے ہنگم ناچ گانوں نے آج حقیقی موسیقی کو کہیں دور چھوڑ دیا ہے اور باذوق لوگ آج بھی ماضی کے گانوں سے ہی دل بہلاتے ہیں۔
آج اسمارٹ فون اور انٹرنیٹ کے دور میں ریلیز ہونے والے گانے منٹوں میں پوری دنیا میں پھیل جاتے ہیں اور سکینڈز میں لوگ انہیں آگے شیئر کرکے دوسروں تک پہنچادیتے ہیں لیکن ماضی میں ایسا نہیں ہوتا تھا۔
ماضی میں لوگ نئی آنے والی فلموں کے گانے کا مہینوں انتظار کرتے اور کچھ لوگ تو پسندیدہ فلم کے گانوں کی پوری کیسٹ خرید لیتے لیکن کچھ لوگ اپنی مرضی سے کیسٹ میں گانے ڈلواتے اور دکان پر بار بار چکر لگاتے۔
گانوں کے دوران اکثر کیسٹ کی ریل ٹیپ ریکارڈر میں پھنس جاتی اور کبھی کبھار یہ ریل ٹوٹ بھی جاتی تھی جس کو ناخن پالش یا اسکاچ ٹیپ سے واپس جوڑا جاتا تھا۔ کئی بار ریل مشین میں پھنس کر الجھ جاتی تو پنسل سے ریل کو واپس کیسٹ میں ڈالا جاتا تھا۔
نصرت فتح علی، مہدی حسن، نور جہاں کے علاوہ پاکستانی اور بھارتی فلموں کے گانوں کا لوگ بے صبری سے انتظار کرتے اور خوشی کے موقع پر اونچی آواز میں گانے لگائے جاتے۔ شادی بیاہ کیلئے خاص طور پر مخصوص گانے لکھ کر دکاندار کو دیئے جاتے اور پھر انہیں ایک کیسٹ میں ڈالا جاتا، غمگین لوگوں کیلئے بھی مخصوص والیم آتے تھے۔
ماضی کی موسیقی حقیقت میں دلوں کی بھاتی تھی اور لوگ گھنٹوں مشہور گیتوں، غزلوں اور قوالیوں سے دل بہلاتے تھے۔