’سلمان خان کی مدد‘ کرنے والوں کو دھمکی دینے والا ملزم گرفتار: پولیس

image
سابق انڈین وزیر بابا صدیقی کے قتل کے الزام میں ایک اور شخص کو گرفتار کیا گیا ہے جس کے بارے میں پولیس کا کہنا ہے کہ اُس نے نہ صرف سوشل میڈیا پر پوسٹ لکھی بلکہ وہ قتل کی سازش کرنے والا مرکزی ملزم ہے۔

این ڈی ٹی وی کے مطابق اتوار کو فیس بک پر ایک شوبو لونکر نامی ہینڈل نے ایک پوسٹ کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ ’بابا صدیقی کو اس لیے قتل کیا گیا ہے کیونکہ وہ انڈیا کے انتہائی مطلوب دہشت گرد داؤد ابراہیم سے منسلک تھے، سلمان خان کے قریبی تھے اور اپریل میں خان کے گھر کے باہر فائرنگ میں گرفتار ملزمان میں سے ایک انوج تھاپن کی جیل موت کی وجہ سے۔‘

ہندی زبان میں کی گئی پوسٹ میں لکھا تھا کہ ’ہماری کسی سے کوئی دشمنی نہیں ہے لیکن جو بھی سلمان خان اور داؤد گینگ کی مدد کرتا ہے، حساب کتاب کر لینا۔‘

کہا جا رہا ہے کہ شبو لونکر نامی ہینڈل کے پیچھے شبھم رامیشور لونکر ہو سکتا ہے جو بشنوئی گینگ سے منسلک ہے جس نے قتل کی ذمہ داری قبول کی تھی۔

اگرچہ لونکر اس وقت جیل میں ہیں تاہم پولیس کا کہنا ہے کہ یہ پوسٹ ان کے بھائی پروین لونکر نے کی ہے۔

28 سالہ پروین کو اتوار کی شام پونے سے گرفتار کیا گیا تھا۔ ممبئی پولیس کا کہنا ہے کہ پروین اور شبھم نے فائرنگ کرنے والے دو افراد دھرمراج کشیپ اور شیو کمار گوتم کو اس سازش میں شامل کیا تھا۔

پولیس اب اتر پردیش کے رہائشی شیو کمار گوتم اور تینوں شوٹروں کے مبینہ ہینڈلر محمد ذیشان اختر کی تلاش میں ہے جن کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ ممبئی میں چُھپے ہوئے ہیں۔

لارنس بشنوئی گینگ نے انڈیا کی ریاست مہاراشٹر کے سابق وزیر بابا صدیقی کے قتل کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ یہ وہی گینگ ہے جس پر پنجابی سنگر سدھو موسے والا کے قتل کا الزام ہے۔

انڈیا کی ریاست مہاراشٹر کے سابق وزیر اور سلمان خان اور شاہ رخ خان سمیت بالی وُڈ کے بے شمار ستاروں کے دوست سمجھے جانے والے بابا صدیقی کو سنیچر کو ممبئی میں فائرنگ کر کے قتل کردیا گیا تھا۔ 

انڈین خبر رساں ایجنسی اے این آئی کے مطابق بابا صدیقی پر سنیچر کو ممبئی کے علاقے باندرا میں اُن کے بیٹے ذیشان صدیقی جو کہ قانون ساز اسمبلی کے رکن (ایم ایل اے) ہیں کے دفتر کے باہر فائرنگ کا نشانہ بنایا گیا۔


News Source   News Source Text

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Get Alerts