بھارت میں ممتاز اسلامی اسکالر مفتی شمائل احمد عبداللہ ندوی اور معروف فلمی نغمہ نگار و شاعر جاوید اختر کے درمیان خدا کے وجود کے موضوع پر ہونے والا فکری مکالمہ اس وقت انٹرنیٹ پر زبردست توجہ حاصل کر رہا ہے۔ مباحثہ نشر ہونے کے بعد صرف یوٹیوب پر اسے 37 لاکھ سے زائد مرتبہ دیکھا جا چکا ہے جبکہ سوشل میڈیا پر بھی اس پر بھرپور بحث جاری ہے۔
بھارتی دارالحکومت دہلی میں ہفتے کے روز ’کیا خدا موجود ہے؟‘ کے عنوان سے منعقد ہونے والے اس فکری مباحثے کا اہتمام ایک معروف بھارتی ڈیجیٹل پلیٹ فارم نے کیا، جبکہ اس کی میزبانی سینئر صحافی سوربھ دویدی نے کی۔ مباحثے میں ایک جانب الحادی نظریات کے حوالے سے شہرت رکھنے والے جاوید اختر شریک تھے، جو ماضی میں بھارتی پارلیمنٹ کے رکن بھی رہ چکے ہیں، جبکہ دوسری جانب نوجوان اور ممتاز اسلامی اسکالر مفتی شمائل ندوی موجود تھے جو جدید فکری مسائل اور الحاد کے رد کے حوالے سے جانے جاتے ہیں۔
مباحثہ نشر ہوتے ہی پاکستان اور بھارت سمیت دنیا بھر میں مقبول ہونے لگا اور دونوں شخصیات کے دلائل، طرزِ گفتگو اور جوابات پر صارفین کی جانب سے مختلف ردعمل سامنے آ رہے ہیں۔ ایک موقع پر جاوید اختر نے اپنے مؤقف کے حق میں یہ دلیل دی کہ صحیح اور غلط کا فیصلہ اکثریت کرتی ہے، جس پر مفتی شمائل ندوی کے جواب کو حاضرین نے خوب سراہا۔ اس لمحے کی ویڈیو کلپ بھی انٹرنیٹ پر تیزی سے وائرل ہو رہی ہے۔
مباحثے کے دوران ایک موقع پر مفتی شمائل نے جاوید اختر کو محدود دائرے سے باہر نکل کر سوچنے کا مشورہ دیا، جس پر جاوید اختر کے جواب نے بھی حاضرین کو محظوظ کیا۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر کئی صارفین نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ جاوید اختر طے شدہ نکات کے باوجود جذباتی دلائل دیتے نظر آئے اور ان کے پاس بعض سوالات کے منطقی جوابات موجود نہیں تھے۔ بعض صارفین کا کہنا تھا کہ جب مضبوط دلائل پیش کیے گئے تو جاوید اختر نے مذاق اور جذباتی انداز اختیار کیا۔ کچھ تبصرے یہ بھی سامنے آئے کہ جاوید اختر کے اٹھائے گئے سوالات کے جوابات صدیوں پہلے دیے جا چکے ہیں اور مباحثے کے دوران وہ بعض بنیادی اصطلاحات سے بھی ناواقف دکھائی دیے۔
دوسری جانب سوشل میڈیا پر مفتی شمائل ندوی کی علمی تیاری، مدلل گفتگو اور پُرسکون انداز کو بے حد سراہا جا رہا ہے جبکہ مباحثے کو متوازن اور خوشگوار انداز میں آگے بڑھانے پر میزبان سوربھ دویدی کی بھی تعریف کی جا رہی ہے۔
متعدد یوٹیوبرز نے اس مباحثے پر تفصیلی تجزیاتی ویڈیوز جاری کی ہیں جن میں دونوں اطراف کے دلائل کا موازنہ کرتے ہوئے اسے2025 کا سب سے بڑا دانشورانہ ایونٹ قرار دیا گیا ہے۔ مباحثے کو اس بات پر بھی سراہا جا رہا ہے کہ نہایت حساس موضوع ہونے کے باوجود دونوں جانب سے تحمل، برداشت اور ایک دوسرے کی رائے کے احترام کا مظاہرہ کیا گیا۔
واضح رہے کہ اس مباحثے کا آغاز اس وقت ہوا تھا جب جاوید اختر نے ایک انٹرویو میں مذہب اور خدا کے تصور پر سخت سوالات اٹھائے تھے، جس کے جواب میں مفتی شمائل ندوی نے انہیں ایک باضابطہ علمی و فکری مباحثے کا چیلنج دیا تھا۔ شرائط طے ہونے کے بعد جاوید اختر نے یہ چیلنج قبول کر لیا تھا، جس کے نتیجے میں یہ تاریخی مکالمہ منعقد ہوا۔