ایف آئی اے نے نیشنل سائبر کرائم ایجنسی کے ایڈیشنل ڈائریکٹر چوہدری سرفراز اور تین دیگر افسران کو حراست میں لے لیا ہے۔ یہ گرفتاریاں مبینہ طور پر اختیارات کے ناجائز استعمال اور رشوت ستانی کے الزامات پر کی گئیں۔
ذرائع کے مطابق ملزمان کو ایف آئی اے کی تحویل میں رکھا گیا ہے اور انہیں بدھ کے روز لاہور کی ضلع کچہری میں پیش کیے جانے کا امکان ہے۔ گرفتار افسران نے اپنی قانونی معاونت کے لیے معروف قانون دان بیرسٹر میاں علی اشفاق کی خدمات حاصل کر لی ہیں۔
اسی دوران گرفتار افسران کو عدالت میں پیش نہ کیے جانے پر ایڈووکیٹ رانا عبدالمعروف کی جانب سے ایک درخواست بھی دائر کی گئی ہے۔ درخواست میں موقف اپنایا گیا ہے کہ گرفتار افسران کو فوری طور پر عدالت میں پیش کیا جائے ان کے اہلِ خانہ اور وکلا سے ملاقات کی اجازت دی جائے جبکہ ایف آئی آر کی کاپی بھی فراہم کی جائے۔
دریں اثناء رشوت کے سنگین الزامات پر عدالت نے این سی سی آئی اے افسران کا تین روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرلیا۔
نیشنل سائبر کرائم ایجنسی (این سی سی آئی اے) کے دو اعلیٰ افسران پر رشوت کے سنگین الزامات کے مقدمے میں لاہور کی عدالت نے تین روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرتے ہوئے تفتیشی ادارے کو مزید تحقیقات کی اجازت دے دی۔
مقدمہ ایف آئی آر نمبر 36/2025 کے تحت تھانہ این سی سی آئی اے لاہور میں درج کیا گیا، جس میں ایڈیشنل ڈائریکٹر سرفراز چوہدری اور اسسٹنٹ ڈائریکٹر شعیب ریاض سمیت دیگر افسران نامزد ہیں۔
تفتیشی افسر نے عدالت سے استدعا کی کہ ملزمان سے غیر قانونی طور پر حاصل کی گئی رقم کی برآمدگی اور گروہ کے دیگر ارکان کے انکشاف کے لیے 14 روزہ جسمانی ریمانڈ دیا جائے۔
تاہم ملزمان کے وکلا علی اشفاق ایڈووکیٹ اور جہانگیر گیلانی ایڈووکیٹ نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ ایف آئی آر بغیر کسی ابتدائی انکوائری یا مجاز اتھارٹی کی منظوری کے صرف 20 منٹ میں درج کی گئی، جس کے فوراً بعد گرفتاریاں عمل میں لائی گئیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ شکایت کنندہ کی درخواست میں رقم، بینک تفصیلات یا رسید کا کوئی ذکر موجود نہیں، لہٰذا گرفتاری غیر قانونی قرار دی جائے۔
دوسری جانب ایف آئی اے کی ایڈیشنل ڈائریکٹر لیگل نائلہ شہزادی نے عدالت میں مؤقف اپنایا کہ تمام قانونی تقاضے پورے کیے گئے ہیں، شواہد موجود ہیں اور ملزمان نے رشوت کے لین دین کا اعتراف بھی کیا ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ این سی سی آئی اے کے اندر ایک منظم گروہ غیر قانونی مالی فوائد حاصل کرتا رہا ہے۔
عدالت نے ریکارڈ کے جائزے کے بعد قرار دیا کہ شکایت کنندہ خاتون نے تحریری طور پر الزام عائد کیا کہ اس نے اپنے شوہر کے مقدمے میں رعایت حاصل کرنے کے لیے ملزمان کو رقم ادا کی۔
خاتون نے چیکوں اور کرنسی نوٹوں کی تصاویر بطور ثبوت پیش کیں، جنہیں تفتیشی افسر نے قبضے میں لے کر ریکارڈ کا حصہ بنا لیا۔
عدالتی حکم نامے کے مطابق، موجودہ شواہد سے بادی النظر میں مالی لین دین اور رابطوں کے ثبوت موجود ہیں، اس لیے مزید تحقیقات ضروری قرار دی گئیں۔
جوڈیشل مجسٹریٹ سیکشن 30 لاہور محمد نعیم وٹو نے مقدمے کی سماعت کے بعد فیصلہ سناتے ہوئے تمام ملزمان کا تین روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرلیا اور حکم دیا کہ انہیں 31 اکتوبر 2025 کو دوبارہ عدالت میں پیش کیا جائے۔
ذرائع کے مطابق، مقدمہ اس وقت سامنے آیا جب ایک خاتون نے الزام لگایا کہ این سی سی آئی اے افسران نے اس کے شوہر کے مقدمے میں ریلیف دینے کے عوض بھاری رقم وصول کی۔
تحقیقات کے دوران چیکوں، بینک ٹرانزیکشنز اور کرنسی نوٹوں کے شواہد بھی برآمد ہوئے، جن سے شبہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ایجنسی کے بعض افسران مبینہ طور پر رشوت خور نیٹ ورک کا حصہ ہیں۔
عدالتی ذرائع کے مطابق، ملزمان کے خلاف مقدمہ پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (PECA) 2016 اور پاکستان پینل کوڈ کی دفعات 420، 468، 471، 25، 26 کے تحت درج کیا گیا ہے، جبکہ مزید انکشافات کی توقع ظاہر کی جا رہی ہے۔