جہاں سوشل میڈیا پر کئی صارفین ارشد ندیم کی جیت کا جشن مناتے نظر آ رہے ہیں وہیں کچھ لوگ ان کے اس مقابلے میں شرکت پر سوال کیوں اٹھاتے نظر آتے ہیں؟
پاکستان کے ارشد ندیم نے اسلامی یکجہتی گیمز 2025 میں مردوں کے جیولن تھرو کے مقابلے میں گولڈ میڈل اپنے نام کر لیا۔
سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں کھیلے جا رہے اسلامی یکجہتی گیمز میں انھوں نے 83.05 میٹر کی تھرو پھینک کر پہلی پوزیشن حاصل کی۔
اسی مقابلے میں دوسری پوزیشن پر ایک اور پاکستانی محمد یاسر آئے جنھوں نے 76.04 میٹر کی تھرو کی جبکہ تیسری پوزیشن نائیجیریا کے سیمیوئل ایڈمز کیورے نے حاصل کی۔
ارشد ندیم نے اپنے ایکس اکاؤنٹ پر لکھا کہ ’پاکستان کے لیے ایک اور سونے کا تمغہ جیتنے پر شکر گزار ہوں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ وہ سرجری کے بعد دوبارہ 100 فیصد فٹ ہونے کے لیے سخت محنت کر رہے ہیں لیکن ’جیت کی بھوک اب بھی باقی ہے۔‘
انھوں نے امید ظاہر کی کہ وہ آنے والے ٹورنامنٹس میں مزید تمغے جیتیں گے۔
خیال رہے کہ جولائی میں ارشد ندیم انجری کا شکار ہو گئے تھے جس کے بعد انھیں سرجری بھی کروانی پڑی تھی۔
ان کے مطابق اسی انجری سے مکمل طور پر صحتیاب نہ ہونے کے باعث وہ رواں سال ستمبر میں کھیلے گئے ورلڈ ایٹھلیٹکس چیمپئن شپ کے فائنل میں متاثرکن کارکردگی نہیں دکھا سکے تھے اور تیسری تھرو کے بعد ہی میڈل کی دوڑ سے باہر ہو گئے تھے۔
اس ٹورنامنٹ میں ارشد ندیم کی پہلی تھرو 82.73 میٹر رہی جبکہ ان کی دوسری تھرو کو فاؤل قرار دے دیا گیا۔ ارشد ندیم کی تیسری تھرو بھی متاثر کن نہیں رہی اور صرف 82.75 میٹر تک جا سکی جس کے بعد وہ میڈل کی دوڑ سے باہر ہو گئے۔
ارشد ندیم نے 2024 کے پیرس اولمپکس میں گولڈ میڈل حاصل کیا تھا اور یہ کارنامہ 92.97 میٹر فاصلے پر نیزہ پھینک کر سرانجام دیا تھا جو نہ صرف ایک اولمپکس ریکارڈ ہے بلکہ ان کے کریئر کی بہترین کارکردگی بھی ہے۔
’ارشد ندیم کا کوئی بھی حریف اس کے مقابلے کا نہیں تھا‘
جہاں سوشل میڈیا پر کئی صارفین ارشد ندیم کی جیت کا جشن مناتے نظر آ رہے ہیں وہیں کچھ لوگ ان کے اس مقابلے میں شرکت پر سوال اٹھاتے نظر آتے ہیں۔
نتاشہ راحیل ایکس پر لکھتی ہیں کہ ’اسلامی یکجہتی مقابلوں میں ارشد ندیم کی جیت پر جشن منانا کچھ صحیح نہیں لگتا کیونکہ ان کا کوئی بھی حریف ان کے مقابلے کا نہیں تھا۔‘
ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کو اس مقابلے میں محمد یاسر کو ہی بھیجنا چاہیے تھا جبکہ ارشد ندیم کو دوبارہ فٹ ہونے پر دھیان دینا چاہیے تھا۔
امت بھیرے نامی صارف لکھتے ہیں کہ جسمانی اور ایٹھلیٹک طور پر ارشد ندیم بہت مضبوط ہیں۔ ’سیدھی سی بات ہے کہ وہ صحتمند رہیں گے تو جیتتے رہیں گے۔‘
یاد رہے کہ ارشد ندیم اور 76.04 میٹر کی تھرو کے ساتھ چاندی کا تمغہ حاصل کرنے والے محمد یاسر کی تھرو کے درمیان سات میٹر سے زیادہ کا فرق تھا جبکہ تیسری پوزیشن پر آنے والے سیمیوئل ایڈمز نے 76.01 میٹر کی تھرو کی تھی۔
سوشل میڈیا پر کئی صارفین کی جانب سے ارشد ندیم کی جانب سے 85 میٹر سے اوپر کی تھرو نہ کر سکنے پر تشویش کا اظہار کرتے نظر آئے۔
محمد ایاز نامی صارف پوچھتے ہیں کہ ان کی تھرو کا فاصلہ کم کیوں ہو گیا ہے۔ ایک اور صارف کا کہنا تھا کہ ارشد ندیم کا 85/86 میٹر کی تھرو نہ پھینک پانا تشویش کا باعث ہے۔
صحافی فیضان لکھانی اس تنقید کے جواب میں لکھتے ہیں کہ ’دنیا بھر میں تسلیم شدہ جیولن مقابلوں میں 80 میٹر سے زائد کی 8,123 تھڑوز ریکارڈ کی گئی ہیں اور ان میں سے صرف 131 تھروز ایسی ہیں جو 90 میٹر سے اوپر گئی ہیں جو کہ بمشکل 1.6 فیصد بنتا ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’تقریباً 1800 کھلاڑی ایسے ہیں جو جیولن مقابلوں میں کم از کم 73 میٹر کے نشان تک جیولن پھینک سکے ہیں اور ان میں صرف 27 کھلاڑی ایسے ہیں جو 90 میٹر کا ہدف عبور کر پائے ہیں۔‘
فیضان لکھانی کا کہنا ہے کہ ’یہ نمبرز ثابت کرتے ہیں کہ چاہے کوئی کھلاڑی کتنا بھی اچھا کیوں نہ ہو 90 میٹر کا ہدف عبور کرنا جیولین تھرو مقابلوں کے سب سے مشکل کارناموں میں سے ایک ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ جو لوگ ارشد ندیم کو تواتر سے 90 میٹر تک تھرو نہ پھینکنے پر تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں ’انھیں اپنی آنکھیں کھولنی چاہییں اور پاکستان کے بہترین کھلاڑی پر سوال اٹھانے سے جیولن کی سائنس سمجھنے کی ضرورت ہے۔‘