’میں اپنی کوکھ کرائے پر دیتی ہوں، عمر 22 سال ہے‘: غربت مٹانے کی خاطر اپنی کوکھ کرائے پر دینے والی خواتین

’میں اپنی کوکھ کرائے پر دیتی ہوں، عمر 22 سال ، کوئی بچے نہیں ہیں‘۔
علامتی تصویر
Getty Images

کولمبیا میں کرائے کی کوکھ ڈھونڈنا بالکل ایسا ہی ہے جیسے ایک استعمال شدہ کار کو آن لائن خریدنا یا فروخت کرنا۔ اس ملک میں یہ چلن عام ہے کیونکہ کئی نوجوان لڑکیوں اور عورتوں کو لگتا ہے کہ اپنی ضروریات پورا کرنے کے لیے اب اُن کے پاس یہی ایک طریقہ بچا ہے۔

’میرا تعلق بگوٹہ سے ہے اور میں اپنی کوکھ کرائے پر دیتی ہوں۔‘

کولمبیا کی ایک خاتون کی جانب سے یہ فیس بُک پر لگایا گیا ایک اشتہار ہے۔ یہ کوئی انہونی بات نہیں کیونکہ اس ملک میں اس طرح کے اشتہار نظروں سے گزرنا عام ہیں۔

وینزویلا کی 22 سالہ میری جو اب کولمبیا میں رہتی ہیں کافی عرصے سے اپنی کوکھ کرائے پر دینے کے کاروبار سے منسلک ہیں۔

آن لائن کوکھ برائے فروخت

علامتی تصویر
Getty Images

آن لائن اشتہار دینے سے اُن کا مقصد بھی دوسری عورتوں کا طرح پیسے کمانا ہے۔

میری کا کہنا ہے کہ ’میں نے یہ کام اس وقت شروع کیا جب میں اپنے پارٹنر سے علیحدہ ہوئی تھی۔ ہم پانچ سال تک ساتھ رہے اور ہمارے دو بچے ہیں تو اب میں یہ کام ضرورت مند جوڑوں کے لیے ہی نہیں بلکہ اپنی مالی مدد کے لیے بھی کرتی ہوں۔‘

میری نے کرائے کی کوکھ کے بارے میں ایک پوڈ کاسٹ میں سُنا تھا لیکن اس کام کو اپنانے کے بارے میں انھوں نے ابتدا میں نہیں سوچا کیونکہ اس وقت تک ان کی مالی حالت بہتر تھی۔

بڑھتی منگائی اور اپنی خراب ہوتی مالی حالت کے سبب اچانک انھیں پیسے کمانے کا یہ واحد راستہ نظر آنے لگا۔

کرائے پر کوکھ دینے کے عوض کچھ عورتیں 12 ہزار ڈالر جبکہ چند محض چار ہزار ڈالر تک لیتی ہیں۔

میری کو نہیں معلوم تھا کہ اس کام کے لیے کتنے پیسے لیے جائیں۔ انھوں نے آن لائن اِس کے لیے 8 ہزارسے 40 ہزار ڈالر تک کی قیمتیں دیکھی تھیں لیکن آخر کار انھوں نے اس کام کے لیے 10 سے 12 ہزار ڈالر تک لینے کا فیصلہ کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ اتنی رقم کے ساتھ وہ باآسانی اپنے بچوں کے ساتھ نئی زندگی شروع کر سکتی ہیں۔

پھلتا پھولتا کاروبار

کولمبیا میں اس متنازع کاروبار کی تحقیقات کرنے والی صحافی لوسیا فرینکو کا کہنا ہے کہ انھیں یہ دیکھ کر حیرانی ہوئی کہ یہاں کرائے کی کوکھ حاصل کرنا اور فروخت کرنا کتنا آسان ہے۔

’میں نے تصور تک نہیں کیا تھا کہ یہ کام کتنے کُھلے عام ہوتا ہے۔ فیس بک پر ایک اشتہار کے ذریعے اُن عورتوں تک پہنچنا کتنا آسان ہے جوغریب ہیں اور اپنی غربت مٹانے کے لیے اپنی کوکھ فروخت کرتی ہیں کیونکہ روزی روٹی کمانے کا ان کا یہ واحد راستہ ہے، یہ بہت حیران کن ہے۔‘

جنوبی امریکی ممالک میں سیرو گیسی قانونی ہے اور اس کے کوئی ضابطہ یا قواعد نہیں ہیں اسی لیے اب اس کام میں غیر اخلاقی طریقے اپنائے جاتے ہیں۔

بی بی سی کی جانب سے رابطہ کیے جانے پر کولمبیا کی وزارت برائے صحت اور سماجی تحفظ نے ایک تحریری بیان میں اعتراف کیا کہ اس میں قانونی جھول یا کمی ہے۔

بیان میں کہا گیا کہ حکومت اس طرح کی سیرو گیسی کو کنٹرول کرنے کےلیے قانونی مسودے پر کام کر رہی ہے۔

وزارت نے تسلیم کیا کہ مناسب قانون نہ ہونے کے سبب اس حوالے سے مالی معاملات اور پابندیوں کا فیصلہ فرٹیلیٹی کلینِک کرتے ہیں، مثال کے طور پر اس بات کا کوئی ریکارڈ نہیں رکھا جاتا کہ کتنی سیروگیٹس ہیں اور انھوں نے کتنی بار اپنی کوکھ کرائے پر دی ہے۔

فرینکو کا کہنا ہے کہ اس طرح کا قانون یا ریکارڈ نہ ہونا سیروگیٹ ماں اور بچے دونوں کے لیے خطرناک ہے اور یہ انسانی حقوق کی خلا ف ورزی ہے۔

روز نامہ ’ال پائس‘ سے بات کرتے ہوئے سینٹیاگو کی سابق رکن پارلیمان کا کہنا تھا کرائے پر کوکھ دینے والی عورتوں کے ساتھ اکثر بُرا برتاؤ کیا جاتا ہے اور انھیں کام دینے والی ایجنسیاں بچے کی پیدائش تک انھیں کرائے کے اپارٹمنٹس میں قید رکھتی ہیں۔

بی بی سی نے اس طرحکے کلینکوں سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن کوئی جواب یا ردِ عمل نہیں ملا۔

کرائے کی کوکھ لینے کے آپشنز

علامتی تصویر
Getty Images

کولمبیا میں سیرو گیسی کے دو طریقے ہیں۔ ایک تو یہ کہ عورت کا جنین کے ساتھ کوئی جینیاتی تعلق نہیں ہوتا، وہ صرف ایک جنین کو اپنی کوکھ میں رکھتی ہے یا پھر وہ مصنوعی تخم کے ذریعے بچہ پیدا کرتی ہے۔

کولمبیا میں جب کوئی سیرو گیٹ ماں بچہ پیدا کرتی ہے تو پیدایش کے سرٹیفکیٹ پر اُسی کا نام ہونا چاہیے۔ تاہم وہاں رشوت عام ہے اور کئی لوگ ڈاکٹروں یا کلینک کو رشوت دے کر کرائے کی کوکھ حاصل کرنے والے جوڑے کا نام سرٹیفکیٹ پر لکھ دیتے ہیں۔ اس طرح بچے کو جنم دینے والی ماں کا نام کہیں نہیں آتا۔

پیدائش کے سرٹیفکیٹ میں ان مبینہ قانونی کمیوں کے بارے میں وزارت کا کہنا تھا کہ حکومت کو اس بارے میں تشویش ہے اور یہ کہ بچے کی پیدائش کے سرٹفکیٹ پر جنم دینے والی ماں کا ہی نام ہونا چاہیے۔

میری بھی میڈیکل عملے کو رشوت دینے کے بارے میں سوچ رہی ہیں کیونکہ اس سے یہ تمام عمل ان جوڑوں کے لیے تیز، سستا اور آسان ہو جاتا ہے جو جلد از جلد اپنے بچے کو اپنے ملک واپس لے جانا چاہتے ہیں اور انھیں بچہ گود لینے کے عمل سے نہیں گزرنا پڑتا۔

میری کا خیال ہے کہ یہ زیادہ بہتر پیشکش ہوتی ہے۔

میری کو اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ بچے کے والدین کہاں سے ہیں وہ صرف ان لوگوں کو اپنی خدمات دینا چاہتی ہیں جنھیں اس کی سخت صرورت ہے۔

مارکیٹنگ

اس طرح کے آفر ملنا مشکل نہیں ہے کیونکہ فیس بک کے مختلف گروپ اس طرح کے اشتہار دیتے ہیں۔

’میں اپنی کوکھ کرائے پر دیتی ہوں، عمر 22 سال، کوئی بچے نہیں ہیں۔‘ ’میں ایک خاندان کو اس کے خواب پورے کرنے میں مدد کرنا چاہتی ہوں، صحت مند ہوں اور مجھ میں کوئی جسمانی عیب نہیں ہے۔‘ یہ چند اشتہارات میں لکھی تحریریں ہیں۔

کچھ لوگ اپنے بچوں کی تصویریں بھی پوسٹ کرتے ہیں تاکہ ضرورت مند جوڑے ان میں وہ خصوصیات یا صلاحیت دیکھ سکیں جن کی انھیں تلاش ہے۔ جیسا کہ ایک اشتہار میں لکھا تھا ’میری بیٹی کی آنکھوں کا رنگ ہلکا نیلا ہے، مزید تصاویر دستیاب ہیں۔‘

حالیہ برسوں میں اس صنعت کو لگام ڈالنے کے حوالے سے دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔ مختلف سیاسی جماعتوں کے اراکین اب تک 16 بل پیش کر چکے ہیں جس میں سیرو گیسی کو محض اس صورت میں قانونی قرار دینے کی بات کہی گئی ہے جب یہ کام منافع یا پیسہ کمانے کے لیے نہ کیا جائے۔ لیکن کوئی بھی بل پہلی بحث سے آگے نہیں جا سکا۔

ستمبر 2022 میں کولمبیا کی آئینی عدالت نے کانگریس کو حکم دیا تھا کہ سیرو گیسی کو ریگولیٹ کیا جائے اور اس کے لیے چھ ماہ کا وقت دیا گیا تھا تاہم ابھی تک کسی طرح کا قانون سامنے نہیں آیا۔

اس قانون کا مقصد وہ پیمانے طے کرنا ہے جس سے سیرو گیسی کے دوران دیکھ بھال، دونوں فریقوں کے درمیان معاہدہ اور کرائے پر کوکھ دینے والی ماں کا تحفظ شامل ہے۔

فریبنکو کا کہنا ہے کہ اس بڑھتے کاروبار پر لگام کسنے اور معاشی اور مالی طور پر کمزور عورتوں کے تحفظ کے لیے اسے ریگولیٹ کرنا بہت اہم ہے۔

گزر بسر کے لیے کوکھ کرائے پر دینا

یہ مسئلہ کولمبیا یا جنوبی امریکہ سے کہیں زیادہ بڑا ہے۔ یہ دنیا بھر کا مسئلہ ہے۔

ان ممالک میں جہاں یہ غیر قانونی ہے کرائے کی کوکھ کیتلاش کرنے والوں کو متعدد مشکلات کا سامنا ہو گا لیکن جن ملکوں میں یہ قانونی ہے وہاں بھی بچے کو اپنے ملک واپس لے جانا مشکل عمل ہوتا ہے۔

کولمبیا میں کچھ ہی قانونی رکاوٹیں ہیں اس لیے وہاں یہ آسان ہے۔

عورتوں کے لیے کرائے پر کوکھ دینا فائدے کا سودا ہو سکتا ہے کہ وہ کسی دوسرے کے بچے کو جنم دیں لیکن کچھ خواتین یہ سب کسی منافع کے بغیر ذاتی خوشی کے لیے کرتی ہیں۔

چلی کی رہنے والی ڈینیلا کا کہنا ہے کہ ’وہ اپنی کوکھ ایک ایسے جوڑے کے لیے کرائے پر دے رہی ہیں جو ماں باپ بننے کا اپنا خواب پورا کرنا چاہتے ہیں، ماں بننا ایک خوبصورت احساس ہے اور میں اس احساس کو محسوس کرنا چاہتی ہیں۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.