وہ ملک جہاں ایم پوکس کے سینکڑوں مریض ہیں مگر لوگوں میں ’وبا کا کوئی خوف نہیں‘

دنیا کے غریب ترین ممالک میں شامل برونڈی کی سرحد جمہوریہ کانگو سے ملتی ہے جو اس وقت ایم پوکس کا مرکز ہے۔ جمہوریہ کانگو میں اس برس اب تک ایم پوکس کے 14 ہزار مشتبہ کیس سامنے آ چکے ہیں جبکہ کم از کم 450 افراد اس سے ہلاک ہوئے ہیں۔
getty
Getty Images

چالیس برس کے ایگی ارمبونا ہسپتال کے کمرے میں اپنی چھاتی کو بغیر ڈھانپے بیڈ پر بیٹھے ہیں۔ ہسپتال کے اس کمرے میں ان کے علاوہ دو اور مریض بھی موجود ہیں۔

ارمبونا کا چہرہ چھالوں سے بھرا ہوا ہے جبکہ ان کی چھاتی اور بازوؤں پر بھی چھالے ہی چھالے ہیں۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میرے گلے میں موجود غدود سوجے ہوئے ہیں۔ مجھے گلے میں اتنا درد تھا کہ میں سو نہیں سکا اور پھر یہ درد ٹانگوں میں منتقل ہو گیا۔‘

ارمبونا کو ایم پوکس ہے۔

وہ افریقی ملک برونڈی کے ان 170 افراد میں شامل ہیں جن میں گذشتہ ایک ماہ کے دوران ایم پوکس کی تشخیص ہوئی۔ دنیا کے غریب ترین ممالک میں شامل برونڈی کی سرحد جمہوریہ کانگو سے ملتی ہے جو اس وقت ایم پوکس کا مرکز ہے۔ جمہوریہ کانگو میں اس برس اب تک ایم پوکس کے 14 ہزار مشتبہ کیس سامنے آ چکے ہیں جبکہ کم از کم 450 افراد اس سے ہلاک ہوئے ہیں۔

برونڈی میں ابھی تک ایم پوکس سے کسی موت کا ریکارڈ تو سامنے نہیں آیا اور نہ ہی ابھی تک یہ واضح ہے کہ اس وبا کا پھیلاؤ کتنا شدید ہے کیونکہ متاثرہ علاقوں میں ٹیسٹ کرنے کی گنجائش ہی نہیں۔

تاہم ایم پوکیس کے پھیلاؤ کو عالمی ایمرجسنی قرار دیا گیا ہے کیونکہ اس بارے میں خدشات پائے جاتے ہیں کہ یہ وبا غیر متاثرہ علاقوں اور خطے میں بھی پھیل سکتی ہے۔

شاہ خالد یونیورسٹی ہسپتال میں ارمبونا کا علاج نویں دن میں داخل ہو چکا ہے۔ اس وائرس کے پھیلاؤ کا ایک طریقہ یہ ہے کہ متاثرہ شخص سے رابطے میں آنے والے افراد بھی اس کا شکار بن سکتے ہیں اور ارمبونا کی اہلیہ بھی اس سے متاثر ہوئی ہیں۔ ان کا بھی اسی ہسپتال میں علاج جاری ہے۔

ارمبونا نے ہلکی آواز میں کہا کہ ’میرے ایک دوست کو چھالے تھے۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ یہ ایم پوکس تھا۔ شکر ہے میرے سات بچوں میں سے کوئی بھی اس سے متاثر نہیں ہوا۔‘

برونڈی کے شہر بوجمبورا میں ایم پوکس کے علاجکے لیے تین مرکز بنائے گئے ہیں جن میں سے شاہ خالد یونیورسٹی ہسپتال ایک ہے۔

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق 61 بیڈز میں سے 59 پر متاثرہ مریض ہیں جن میں سے ایک تہائی مریضوں کی تعداد 15 برس سے کم ہے۔ یہاں بچے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔

اوڈیٹ نساویمانا
Mercy Juma/BBC
اوڈیٹ نساویمانا ہسپتال کی انچارج ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ مریضوں کی تعداد بڑھ رہی ہے

اوڈیٹ نساویمانا ہسپتال کی انچارج ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ مریضوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔

انھوں نے بتایا کہ ’اب ہم باہر بھی ٹینٹ لگا رہے ہیں۔ ہم نے تین ٹینٹ لگائے ہیں: ایک ابتدائی تشخیص کے لیے، ایک مشتبہ مریضوں کے لیے اور ایک میں ایسے لوگ ہیں جن میں ایم پوکس کی تشخیص ہو گئی ہے تاکہ انھیں وارڈز میں منتقل کیا جا سکے۔‘

’یہ سب بہت مشکل ہے خاص کر کے جب بچوں کو لایا جاتا ہے۔ وہ اکیلے نہیں رہ سکتے تو ہمیں ان کی ماؤں کو بھی یہاں رکھنا پڑتا ہے۔ یہ بہت مشکل صورتحال ہے۔‘

برونڈی میں کیسز کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

ڈاکٹر اوڈیٹ نے ہمیں بتایا کہ ’میں بڑھتی تعداد کی وجہ سے پریشان ہوں۔ اگر اس میں اضافہ ہوتا رہا تو ہمارے پاس اس سے نمٹنے کی سہولیات نہیں۔‘

متاثرہ افراد کو ہسپتال میں موجود دیگر لوگوں سے دور رکھنے کے لیے بہت محنت کی جا رہی ہے۔ ہر طرف سرخ رنگ کی ٹیپ ہے، مریضوں کی تیمارداری کے لیے آنے والوں کا ماسک پہننا لازمی ہے جبکہ انھیں متاثرہ افراد سے ایک فاصلے سے ہی ملنے کی اجازت ہے۔‘

یہ بھی پڑھیے

ہسپتال، ایم پوکس
Mercy Juma/BBC

صحت کے حکام محدود وسائل کی وجہ سے پریشان ہیں۔ ملک میں صرف ایک لیبارٹری ایسی ہے جہاں وائرس کی تشخیص کے لیے خون کی جانچ ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ ٹیسٹ کے لیے کٹس بھی ناکافی ہیں جبکہ ویکسین بھی دستیاب نہیں۔

بوجمبورا میں حفظان صحت کے حالات کو برقرار رکھنا بھی مشکل ہے کیونکہ شہر میں پانی جیسے بنیادی وسائل تک بھی رسائی محدود ہے۔ شہر میں پانی کی قلت ہے اور عوام کے لیے لگائے گئے نلکوں پر لوگوں کی قطاریں نظر آتی ہیں۔

سینٹر فار پبلک ہیلتھ ایمرجنسی آپریشنز کی ڈائریکٹر ڈاکٹر لیلین نکنگروتسے کہتی ہیں کہ وہ آنے والے دنوں کے بارے میں انتہائی فکر مند ہیں۔

’یہ بہت بڑا چیلنج ہے۔ تشخیص صرف ایک جگہ پر ہو رہی ہے جس سے نئے کیسز کی تشخیص میں تاخیر ہو رہی ہے۔‘

ڈاکٹر لیلین کہتی ہیں کہ ’صحت کے مراکز لیبارٹری والوں کو بتا رہے ہیں کہ ان کے پاس مشتبہ کیس ہیں لیکن لیبارٹری کو سیمپل لینے کے لیے اپنی ٹیمیں بھیجنے میں وقت لگ رہا ہے۔‘

’اس کے علاوہ ٹیسٹ کے نتائج آنے میں بھی وقت لگتا ہے۔ ہمیں اس وبا پر اپنے ردعمل کو بہتر بنانے کے لیے ایک کروڑ 40 لاکھ ڈالر کی ضرورت ہے۔‘

کہا جا رہا ہے کہ جمہوریہ کانگو میں ویکسین آئندہ ہفتے پہنچ جائے گی تاہم برونڈی کے بارے میں ایسی کوئی اطلاعات سامنے نہیں آئی ہیں۔

ایم پوکس، بس سٹاب
Mercy Juma/BBC

ایم پوکس کے بارے میں عوامی آگاہی کا بھی فقدان ہے۔

بوجمبورا، جمہوریہ کانگو کی سرحد سے صرف 20 منٹ کے فاصلے پر ہے اور سرحد پار سفر اور تجارت کا مرکز ہے لیکن یہاں وبا کے ممکنہ خطرات کے بارے میں کوئی خوف نہیں۔

شہر میں تمام سرگرمیاں جاری ہیں۔ لوگ معمول کے مطابق خریدو فروخت کر رہے ہیں۔ہاتھ ملانا اور گلے ملنا عام ہے۔ بس سٹیشنز پر لمبی قطاریں ہیں اور لوگ پہلے سے بھری بسوں میں گھسنے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔

ڈاکٹر لیلین کہتی ہیں کہ ’بہت سے لوگ اس معاملے کی سنجیدگی کو نہیں سمجھ رہے۔ یہاں کیسز سامنے آنے کے باوجود لوگ مل جل رہے ہیں۔‘

بی بی سی نے بوجمبورا میں متعدد لوگوں سے بات کی لیکن ان میں سے زیادہ تر کو ایم پوکس کے بارے میں معلوم نہیں تھا اور جن لوگوں کو اس بارے میں علم تھا وہ یہ نہیں جانتے کہ یہ وبا ان کے ملک میں بھی پھیل رہی ہے۔

ایک شخص نے کہا کہ ’میں نے اس بیماری کے بارے میں سن رکھا ہے لیکن میں نے کسی ایسے شخص کو نہیں دیکھا جو اس سے متاثر ہو۔ میں نے صرف ایسا سوشل میڈیا پر بھی دیکھا۔‘

ایک اور شخص نے کہا کہ ’میں جانتا ہوں کہ یہ بچوں اور نوجوانوں کو متاثر کر رہا ہے۔ میں اس سے خوفزدہ ہوں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں گھر بیٹھ جاؤں گا۔ مجھے کام پر جانا ہے۔ میرے گھر والوں کو کھانے کے لیے کچھ چاہیے۔‘

ہیلتھ ورکرز جانتے ہیں کہ ایسے افراد کو احتیاط کرنے کے لیے رضا مند کرنا انتہائی مشکل کام ہے جنھیں پہلے سے معاشی دشواری کا سامنا ہے لیکن وہ متاثرہ افراد کا علاج جاری رکھے ہوئے ہیں اور اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ایسے افراد کا پتا لگایا جا سکے جو وائرس سے متاثرہ مریضوں کے رابطے میں آئے ہیں۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.