سرکاری حکام کے مطابق اتوار کی شب کراچی کے ایئرپورٹ کے قریب ایک خودکش حملے میں دو چینی شہری ہلاک جبکہ ایک چینی باشندے سمیت 11 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ حملے کی ذمہ داری بی ایل اے نے قبول کی ہے اور کہا ہے کہ اس میں خودکش بمبار شاہ فہد ملوث تھے۔
’یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد شاہ فہد ملازمت ڈھونڈ رہے تھے اور مقابلے کے امتحان کی تیاری کر رہے تھے۔‘
یہ الفاظ سندھ کے صوبائی دارالحکومت کراچی میں چھ اکتوبر کی شب جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے قریب چینی شہریوں پر ہونے والے ایک حملے میں مبینہ طور پر ملوث شاہ فہد کے ایک سابقہ کلاس فیلو کے ہیں جو چار سال تک لسبیلہ یونیورسٹی آف میرین سائنسز میں اُن کے ساتھ پڑھتے تھے۔
اس حملے کے بعد درج ہونے والی ایف آئی آر کے مطابق اتوار کی شب کراچی کے ایئرپورٹ کے قریب ہونے والے ایک خودکش حملے میں دو چینی شہری ہلاک جبکہ ایک چینی باشندے سمیت 11 افراد زخمی ہوئے تھے۔ زخمیوں میں سکیورٹی فورسز کے اہلکار بھی شامل تھے جو کہ چینی وفد کی سکیورٹی پر مامور تھے۔
اس خود کش حملے کی ذمہ داری کالعدم بلوچ عسکریت پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے قبول کی ہے اور ایک بیان میں کہا ہے کہ یہ حملہ ’مجید بریگیڈ سے تعلق رکھنے والے شاہ فہد بلوچ عرف آفتاب نے کیا۔‘
پاکستان میں چین کے سفارتخانے نے اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے پاکستانی حکام سے کہا ہے کہ وہ اس کی جامع تحقیقات کر کے اس میں ملوث مجرموں کو سزا دیں۔
بی بی سی نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ اس حملے میں ملوث حملہ آور شاہ فہد کون تھے۔
’اندازہ نہیں تھا کہ شاہ فہد ایسا انتہائی قدم اٹھائیں گے‘
شاہ فہد بلوچ کا تعلق صوبہ بلوچستان کے افغانستان سے متصل سرحدی ضلع نوشکی سے قریب 150 کلومیٹر دور نواحی علاقے کلی سردار بادینی سے تھا۔
شاہ فہد کے بارے میں تفصیلات حاصل کرنے کے لیے بی بی سی نے جب نوشکی میں ان کے بڑے بھائی سے فون پر رابطہ کیا تو انھوں نے کہا کہ وہ صدمے کی وجہ بات نہیں کر سکتے۔
ان کے ایک پڑوسی نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ شاہ فہد نے انٹرمیڈیٹ تک تعلیم نوشکی شہر سے حاصل کی جس کے بعد وہ مزید پڑھنے کے لیے پنجاب کے شہر سرگودھا چلے گئے۔ ’پھر انھوں نے لسبیلہ یونیورسٹی آف میرین سائنسز میں بزنس ایڈمنسٹریشن کے شعبے میں داخلہ لیا۔‘
ان کے کلاس فیلو گلزار احمد کے مطابق انھوں نے 2022 میں لسبیلہ یونیورسٹی سے بیچلز آف بزنس ایڈمنسٹریشن کی ڈگری حاصل کی۔
کالعدم بی ایل اے کی جانب سے میڈیا کو جاری بیان کے مطابق 28 سالہ شاہ فہد بلوچ نے ’2019 میں بی ایل اے میں شمولیت اختیار کی تھی۔‘ بی بی سی اس دعوے کی آزادانہ تصدیق نہیں کر سکا ہے۔
بلوچستان کے تعلیمی اداروں میں بلوچ اور پشتون قوم پرست طلبہ تنظیمیں متحرک رہتی ہیں۔ اکثر بلوچ یا پشتون طلبہ ان تنظیموں سے وابسطہ بھی رہتے ہیں۔
گلزار احمد نے بتایا کہ بظاہر یونیورسٹی میں تعلیم کے دوران شاہ فہد کا ’کسی قوم پرست تنظیم سے تعلق نہیں رہا اور نہ ہی وہ قوم پرست طلبہ تنظیموں کی سرگرمیوں میں بہت زیادہ حصہ لیتے تھے۔‘
انھوں نے بتایا کہ شاہ فہد کا شمار ’پڑھنے والے طلبہ میں ہوتا تھا۔ انھیں اکاؤنٹنگ کے مضمون پر عبور حاصل تھا۔‘
گلزار احمد نے بتایا کہ ’ہم 10 سے زیادہ کلاس فیلو تھے جو کہ کبھی ان کے کمرے میں جاتے تھے اور کبھی باہر سٹڈی سرکل کا انعقاد کرتے تھے۔ نہ صرف ہم ان سے مشکل چیزیں سمجھتے تھے بلکہ اکاؤنٹنگ پر ہمارے مقابلے میں زیادہ عبور ہونے کے باعث وہ یہ مضمون ہمیں باقاعدہ پڑھاتے بھی تھے۔‘
گلزار احمد نے بتایا کہ تعلیم کے بعد شاہ فہد ملازمت کے حصول کی کوششیں کر رہے تھے اور اس کے ساتھ پبلک سروس کمیشن کے مقابلے کے امتحانات کی بھی تیاری کر رہے تھے۔
’میری ان سے آخری ملاقات 2023 میں کوئٹہ میں ہوئی۔۔۔ (وہ) کوئٹہ میں لائبریری جا کر مقابلے کے امتحانات کی تیاری میں مصروف تھے۔‘
گلزار کا کہنا تھا کہ وہ اس خبر پر حیران ہوئے کہ شاہ فہد نے کراچی میں خودکش حملہ کیا۔ ’وہ ایک سادہ طبعیت طالب علم تھے۔ مجھے کبھی یہ اندازہ نہیں ہوا کہ وہ اس طرح کا بھی کوئی انتہائی قدم اٹھا سکتے ہیں۔‘
علاقہ مکینوں کے مطابق شاہ فہد تین، چار روز قبل نوشکی میں اپنے گھر سے نکلے تھے تاہم انھوں نے گھر میں یہ نہیں بتایا تھا کہ وہ کراچی جا رہے ہیں۔
نوشکی میں ان کے ایک پڑوسی نے بتایا کہ ’وہ دو جوڑے کپڑے لے کر گھر سے یہ کہہ کر نکلے تھے کہ اتوار تک واپس آجائیں گے۔‘
ان کے ہمسائے کے مطابق ’شاہ فہد سے پہلے جب میرا سامنا ہوتا تھا تو وہ دور سے سلام دعا کرتے تھے یا ہاتھ ملاتے تھے لیکن تین چار روز قبل جب ملاقات ہوئی تو وہ مجھ سے بغل گیر ہوئے۔ مجھے ابھی اندازہ ہوا کہ وہ مجھ سے اپنی زندگی کی آخری ملاقات کر رہے تھے۔‘
شاہ فہد کے ہمسائے کے مطابق ’وہ بچپن سے ہماری آنکھوں کے سامنے رہے لیکن ہمیں کبھی یہ احساس نہیں ہوا کہ وہ اس طرح کا کوئی قدم اٹھائیں گے۔‘
یاد رہے کہ اس سال کالعدم تنظیم بلوچ لبریشن آرمی کی مجید بریگیڈ کی جانب سے متعدد حملے کیے گئے ہیں۔
26 اگست کو بلوچستان کے مقبول سیاسی رہنما نواب اکبر بگٹی کی 18ویں برسی کے موقع پر دس اضلاع میں کالعدم تنظیم بی ایل اے کی کارروائیوں میں، جنھیں ’آپریشن ھیروف‘ کا نام دیا گیا، کم از کم 39 افراد کی ہلاکت ہوئی جبکہ پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے مطابق جوابی کارروائی کے دوران 21 شدت پسند اور 14 سکیورٹی اہلکار ہلاک ہوئے۔
ان میں سے ایک بڑی کارروائی بیلہ میں ہوئی جہاں خود بی ایل اے کے مطابق دو خودکش بمباروں میں سے ایک ماہل بلوچ بھی تھیں۔ کالعدم شدت پسند تنظیم کی جانب سے جاری ایک اعلامیے کے مطابق آپریشن ھیروف کا آغاز ماہل بلوچ کی گاڑی ٹکرانے سے ہوا۔ ماہل بلوچ تربت یونیورسٹی میں ایل ایل بی یعنی وکالت کی طالبہ تھیں۔
اس سے قبل 2022 میں کراچی یونیورسٹی کے احاطے میں چینی زبان کے مرکز کے قریب ایک خودکش حملے میں تین چینی اساتذہ سمیت کم از کم چار افراد ہلاک اور چار زخمی ہوئے تو حملے کی ذمہ داری بلوچ انتہا پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی کے مجید بریگیڈ نے قبول کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’یہ پہلی مرتبہ ہے کہ تنظیم کی جانب سے خاتون خودکش حملہ آور کا استعمال کیا گیا۔‘
کالعدم تنظیم بلوچ لبریشن آرمی کی جانب سے جاری بیان کے مطابق کراچی یونیورسٹی میں چینی شہریوں کو دہشتگردی کا نشانہ بنانے والی خودکش حملہ آور خاتون شاری بلوچ عرف برمش تھیں جنھوں نے بلوچستان یونیورسٹی سے زولوجی میں ایم ایس سی کر رکھی تھی۔
کراچی حملے کا نشانہ بننے والے چینی شہری کون تھے؟
پاکستان میں چینی سفارتخانے کے ایک بیان کے مطابق حملے کا نشانہ بننے والے چینی باشندوں کا تعلق پورٹ قاسم الیکٹرک پاور کمپنی سے تھا۔
پاکستان میں چینی سفارت خانے اور قونصلیٹ جنرل کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والے بیان میں بتایا گیا ہے کہ چھ اکتوبر کو رات 11 بجے کے قریب پورٹ قاسم اتھارٹی الیکٹرک پاور کمپنی (پرائیویٹ) لمیٹڈ سے چینی عملے کو لانے والے ایک قافلے پر کیے گئے حملے میں دو چینی شہری ہلاک جبکہ ایک چینی شہری زخمی ہوا ہے۔
چینی قونصل خانے نے اپنے بیان میں اس حملے کی مذمت کی ہے اور دونوں ممالک سے تعلق رکھنے والے متاثرہ شہریوں کے اہلِخانہ سے گہرے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ پاکستانی حکام کے ساتھ مل کر اس کے بعد کی صورتحال کو ہینڈل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
چینی قونصل خانے نے بتایا ہے کہ ان کی جانب سے فوری طور پر ایک ایمرجنسی پلان شروع کر دیا گیا ہے اور پاکستانی حکام سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ اس حملے کی جامع تحقیقات کریں اور ملوث افراد کو سزا دینے کے ساتھ ساتھ پاکستان میں مختلف منصوبوں میں کام کرنے والے چینی شہریوں کی حفاظت کے لیے اقدامات کریں۔
یاد رہے کہ سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے دور میں گوادر پورٹ کی تعمیر کے آغاز کے باعث نہ صرف چینی کارکنوں کی بڑی تعداد گوادر آئی بلکہ ضلع لسبیلہ کے علاقے دودڑھ میں بھی معدنیات کا ایک منصوبہ چینی کمپنی کے حوالے کیا گیا۔
تاہم چینی شہریوں کو کراچی کے علاوہ بلوچستان کے جن علاقوں میں نشانہ بنایا گیا ہے ان میں گوادر، حب اور دالبندین شامل ہیں۔ ان حملوں میں خود کش حملے بھی شامل تھے جن میں متعدد چینی کارکن ہلاک اور زخمی ہوئے ہیں۔
کراچی ایئرپورٹ کے قریب حملے کی طرح بلوچستان کے مختلف علاقوں میں بھی چینی کارکنوں پر حملوں کی ذمہ داری کالعدم بلوچ لبریشن آرمی کی جانب سے قبول کی جاتی رہی ہیں۔