خسارے میں ڈوبی پاکستان کی قومی ایئرلائن پی آئی اے کی نجکاری کے سلسلے میں ایک نجی کمپنی کی طرف سے 10 ارب روپے میں اسے خریدنے کی پیشکش کی گئی ہے۔
خسارے میں ڈوبی پاکستان کی قومی ایئرلائن پی آئی اے کی نجکاری کے سلسلے میں ایک نجی کمپنی کی طرف سے 10 ارب روپے میں اسے خریدنے کی پیشکش کی گئی ہے۔
وفاقی حکومت کی جانب سے اسلام آباد میں جمعرات کے روز پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) کی نجکاری کے لیے بولی کھولی گئی۔ اسے صرف ایک پارٹی ’بلیو ورلڈ سٹی کنسورشیم‘ کی جانب سے بولی وصول ہوئی۔
ریئل اسٹیٹ ڈویلپمنٹ کمپنی بلیو ورلڈ نے پی آئی اے کی نجکاری کے لیے 85 ارب روپے کی کم از کم متوقع قیمت کے مقابلے میں صرف 10 ارب روپے کی بولی جمع کرائی، یعنی متوقع قیمت کا تقریباً 12 فیصد حصہ۔
بلیو ورلڈ سٹی کی جانب سے پی آئی اے کو خریدنے کے لیے 10 ارب کی بولی کا جائزہ پاکستان کی وفاقی کابینہ لے گی۔
خیال رہے کہ پی آئی اے ایک پبلک لمیٹڈ کمپنی ہے جس کے سرمائے کا تقریباً 96 فیصد حصہ حکومت کے پاس ہے۔
نجکاری کمیشن نے ابتدائی طور پر چھ بولی دہندگان کو اہل قرار دیا تھا تاہم ان میں سے پانچ اس عمل سے دور رہے۔
حکومت نے ایئر بلیو لمیٹڈ، عارف حبیب کارپوریشن لمیٹڈ، ایئر عربیہ کی فلائی جناح، وائی بی ہولڈنگز پرائیویٹ، پاک ایتھنول پرائیویٹ اور بلیو ورلڈ سٹی کو قومی ایئرلائنز میں اکثریتی حصص کے لیے شارٹ لسٹ کیا تھا۔
بولی میں شامل نہ ہونے والے تین گروپس کے عہدیداروں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر روئٹرز کو بتایا کہ انھیں مستقبل میں حکومت کے اس معاہدے پر پورا اترنے کی صلاحیت کے بارے میں خدشات ہیں۔
پی آئی اے مسلسل کئی برسوں سے خسارے کا شکار ہے اور اس کا شمار حکومتی سرپرستی میں چلنے والے ان اداروں میں ہوتا ہے جو قومی خزانے کو سالانہ اربوں روپے کا نقصان پہنچاتے ہیں۔
گذشتہ ادوار میں انتظامی تبدیلیوں کے ذریعے بہتری لانے کی تمام تر کوششوں کے بعد پی آئی اے کی نجکاری کی کئی کوششیں بھی ناکام ہوئی ہیں۔
ماضی میں پی آئی نجکاری کی کوششیں کیوں کامیاب نہ ہو سکیں؟
ماضی میں بھی پاکستان کی قومی ایئر لائن کی نجکاری کے لیے اعلانات ہوئے تاہم ان پر عملدرآمد نہیں ہو سکا تھا۔
پاکستان کے سابق چیئرمین نجکاری کمیشن محمد زبیر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا تھا کہ نجکاری کرنے کا ایک طریقہ کار ہے جس میں پہلے تو پروفیشنل ورک کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ نجکاری کے تمام مراحل کو پیشہ وارانہ انداز میں طے کیا جائے۔
انھوں نے کہا کہ یہ ’بڑا چیلنجنگ‘ کام ہوتا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ جب وہ پاکستان مسلم لیگ ن کے تیسرے دورِ حکومت میں چیئرمین نجکاری کمیشن بنے تو اس کے بعد پی آئی اے کی نجکاری کے لیے تمام پروفیشنل مراحل کو طے کر لیا گیا تھا لیکن سیاسی وجوہات کی بنا پر یہ کام مکمل نہیں ہو سکا۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے اس عمل کی شدید مخالفت کی گئی تھی اور میڈیا میں بھی اس کے خلاف مہم چلائی گئی تھی۔
نجکاری کے بعد پی آئی اے کے ملازمین اور اثاثوں کا کیا بنے گا؟
پی آئی اے میں اس وقت 7200 مستقل ملازمین کام کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ڈیلی ویجز پر کام کرنے والے ملازمین بھی اس ایئرلائن کا حصہ ہیں۔
نجکاری کمیشن سے پی آئی اے کے ملازمین اور اس کے اثاثوں کے بارے میں پوچھا گیا تو اس کے ترجمان نے بی بی سی کو بتایا کہ اظہارِ دلچسپی کے مرحلے کے بعد یہ معاملہ زیرِ بحث آئے گا جس میں اس بات پر غور کیا جائے گا کہ ان ملازمین کو ایئرلائن کا نیا خریدار کم از کم کتنے عرصے تک ملازمت پر رکھنے کا پابند ہوگا۔
ترجمان نے اثاثوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ اثاثوں کو علیحدہ کرنے کے بعد کچھ تو ہولڈنگ کمپنی کے پاس چلیں جائیں گے اور کچھ پی آئی اے کے ساتھ فروخت کر دیے جائیں گے۔
ان اثاثوں میں پی آئی اے کے دفاتر اور جائیدادیں شامل ہیں۔
نجکاری امور پر گہری نظر رکھنے والے سینیئر صحافی شہباز رانا کے مطابق پی آئی اے کی نجکاری کے بعد ملازمین کو ایک سے تین سال تک ملازمت پر رکھنے کی تجویز زیرِ غور ہے۔تاہم اس کے بعد انھیں ملازمت سے فارغ کیا جا سکتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ایئرلائن کے فنانشل ایڈوائزر کی جانب سے ایک سال تک ملازمین کو نوکریوں پر رکھنے کی تجویز دی گئی جبکہ سابقہ نگراں حکومت کی جانب سے اس کی مدت تین سال طے کی گئی تھی۔
حکومت کو پی آئی اے کی نجکاری سے کیا حاصل ہو گا؟
گذشتہ کئی سال سے پی آئی اے کی جانب سے پیش کی جانے والی سالانہ مالیاتی رپورٹس میں ایئر لائن کے خسارے میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔
پی آئی اے کی سالانہ رپورٹ 2022 کے مطابق اُس برس ایئرلائن کا خسارہ 88 ارب روپے تھا۔
پی آئی اے کی جانب سے سال 2023 کے صرف پہلے چھ مہینوں کے مالیاتی نتائج کا اب تک اعلان کیا گیا اور اس کے مطابق ایئر لائن کا ابتدائی چھ مہینوں کا خسارہ 60 ارب رہا تھا۔
ایوی ایشن کے شعبے پر گہری نگاہ رکھنے والے افسر ملک کا کہنا ہے کہ پی آئی اے میں خسارے کا سلسلہ 2004 میں شروع ہوا اور اس کے بعد سے اس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
مالی امور کے ماہر خرم شہزاد نے اس سلسلے میں کہا کہ حکومت کو پی آئی اے کی نجکاری سے سب سے پہلا فائدہ یہ ہو گا کہ قومی خزانے کو پہنچنے والے نقصان کا سلسلہ تھم جائے گا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پی آئی اے کی نجکاری سے حکومت کو سرمایہ کاروں کی جانب سے سرمایہ حاصل ہوگا جس کی ملک کو اس وقت اشد ضرورت ہے۔
پی آئی اے کی نجکاری کے بعد اس کی کارکردگی پر کیا اثر پڑے گا؟
نجکاری کے بعد پی آئی اے کی متوقع کارکردگی پر بات کرتے ہوئے خرم شہزاد نے کہا کہ جب کوئی نجی کمپنی اس کا آپریشن سنبھالے گی تو یقینی طورپر ایئرلائن کی کارکردگی بھی بہتر ہو گی۔
خرم شہزاد کے مطابق پی آئی اے کی نجکاری کے بعد اس میں سیاسی مداخلت بھی ختم ہوگی، جسے اکثر پی آئی اے کے زوال کی وجہ بتایا جاتا ہے۔
محمد زبیر نے اس سلسلے میں کہا کہ نجکاری کے پس پردہ دو مقاصد ہوتے ہیں، ایک تو یہ کہ کوئی بھی ادارہ ان لوگوں کے پاس جائے جو اس کے کاروبار کو سمجھتا ہو، کوئی ایئر لائن اگر پی آئی اے کو خریدتی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ زیادہ بہتر طریقے سے پی آئی اے کو چلائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ نجکاری کی صورت میں کم از کم حکومتِ پاکستان پر پڑنے والا مالی بوجھ ختم ہو جائے گا۔
محمد زبیر کا کہنا تھا کہ انھیں امید ہے کہ نجکاری کے بعد پی آئی اے کے طیاروں میں اضافہ ہوگا، اس کا انفراسٹرکچر اور آئی ٹی سسٹم بہتر ہوگا اور اس کے ملازمین کی تربیت کا بھی اچھا انتظام ہو گا۔
انھوں نے انکشاف کیا کہ 1987 سے لے کر آج تک پی آئی اے نے صرف مالی سال 07-2006 میں منافع کمایا، جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کوئی بھی حکومت اس ادارے کو بہتر نہیں کر سکی۔