وہ تنوع اور توازن جسے سمجھنے کے لیے بنیادی انسانی شعور اور موسموں کی ہلکی سی سوجھ بوجھ ہی کافی ہو سکتی تھی، پی سی بی کی ذہانت نے اس کی گتھی سلجھانے میں اتنے سال لگا دیے کہ مہمان کپتان بھی اپنی حیرت نہ چھپا سکے۔
جب ملتان میں انگلینڈ کے خلاف پہلے ٹیسٹ میچ میں پہلی اننگز کے 500 سے زائد مجموعے کے بعد بھی ایک اننگز کی تاریخی شکست پاکستان کا مقدر ہوئی تو پاکستان نے ہوم ایڈوانٹیج حاصل کرنے کو سپن پچز کی حکمتِ عملی اپنائی جو ایسی بار آور ہوئی کہ پاکستان نے پیچھے سے لپک کر آخری دونوں میچز کے ساتھ ساتھ سیریز بھی اپنے نام کر لی۔
کوئی چار برس کے انتظار اور مسلسل 11 ہوم ٹیسٹ میچز میں فتح سے محرومی کے بعد یہ لیجنڈری فوک داستانوں جیسی کامیابی بہت بڑی خوشی کا سامان تھی مگر کمنٹری پر مامور رمیز راجہ کی بھنویں تنی ہوئی تھیں اور لہجے میں ناگواری اس قدر تھی کہ چھپائے نہ چھپے۔
سو، جہاں انھوں نے چار سال بعد ہوم گراؤنڈز پر پہلی ٹیسٹ سیریز جتوانے والے کپتان کی گذشتہ چھ ناکامیوں پر متواتر زور دیا، وہیں یہ سوال بھی داغ دیا کہ آئندہ شان مسعود کی ٹیم سیمنگ پچز پر کیسے جیت کر دکھائے گی۔
مگر یہ بتانا وہ بھول گئے کہ مسلسل فلیٹ ہوم پچز پر کھیلنے سے سیمنگ کنڈیشنز میں پاکستان کے کھیل کو کیا نکھار ملا تھا؟
قصور رمیز راجہ کا بھی نہیں تھا۔ بطور چیئرمین آسٹریلیا کی میزبانی کے ہنگام، انھوں نے سدا سے نتیجہ خیز رہنے والی راولپنڈی پچ کو نہ صرف بانجھ کیا تھا بلکہ کمنٹری باکس میں بیٹھے اپنے ساتھیوں پر بھی زور دیتے رہے تھے کہ پچ پر کوئی تنقید نہ کی جائے۔
بطور چیئرمین انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ پچز کی تیاری کے معاملے میں پاکستان تاریک ادوار میں رہ رہا تھا جسے بدلنے کو دہائیاں درکار تھیں مگر علیم ڈار اور عاقب جاوید کے تخلیقی اذہان نے جیسے ’دہائیوں‘ کا یہ سفر دو ہفتے میں طے کیا، اس کے بعد ضروری ہے کہ سالہا سال سے پاکستانی پچز کے موضوع پر اٹھتی بحث کی گَرد بھی اب سمیٹ دی جائے۔
بنگلہ دیش کے ہاتھوں پہلی شکست کے بعد نسیم شاہ نے بھی پی سی بی سے شکوہ کیا تھا کہ اب انھیں ہوم ایڈوانٹیج اٹھانے کی کوئی سمت ڈھونڈ لینا چاہیے۔ تاریخی طور پر پاکستان اکثر آسٹریلوی پچز کے باؤنس کی نقالی میں ناکام کوششیں رچاتا آیا ہے جو ہائی وے جیسی پچز کی پیدائش کا موجب رہیں۔
پاکستان میں ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ دیکھی جائے تو یہ خطہ عموماً بیٹنگ کے لیے سازگار فلیٹ پچز کے سبب معروف رہا ہے جبھی آج بھی سارو گنگولی ازراہِ تفنن انضمام الحق اور محمد یوسف کو اسی پر چھیڑتے ہیں کہ ان کی ضخیم کریئر بیٹنگ اوسط کی بنیاد پاکستان کے وہ ’روڈ‘ ہیں جو پچز کے نام پر سٹیڈیمز میں بچھائے جاتے رہے۔
مگر پاکستانی پچز کبھی بھی بولرز کے لیے ایسے قبرستان ثابت نہیں ہوئیں جو پچھلے چند برسوں میں دیکھنے کو ملے۔ اگر ان ہی پچز پر فضل محمود، خان محمد، سرفراز نواز، عمران خان، وسیم اکرم اور وقار یونس جیسے سیمرز نے عمدہ اوسط سے کامیابیاں حاصل کی تو وہیں اقبال قاسم، عبدالقادر، مشتاق احمد، ثقلین مشتاق اور دانش کنیریا نے بھی ان سے بھرپور فائدے اٹھائے۔
تاریخی اعتبار سے راولپنڈی پاکستان کا وہ گراؤنڈ رہا جہاں سپنرز کو کبھی سہولت نہیں ملی جبکہ کراچی وہ وینیو رہا جہاں سپنرز اور سیمرز کو یکساں مواقع فراہم رہے۔ لاہور میں دھیمے باؤنس کی بدولت بلے بازوں کی زندگی آسان ہوتی رہی جبکہ پاکستانی سیمرز ان دشوار کنڈیشنز میں بھی ڈسپلن اور ریورس سوئنگ سے نتائج کھودنے میں کامیاب ہوتے رہے۔
پاکستان میں ہوم کرکٹ کی واپسی کے بعد جو ٹیسٹ کرکٹ کھیلی گئی، اس کے گذشتہ پانچ سال مدِ نظر رکھے جائیں تو، پہلی تین سیریز میں سری لنکا، بنگلہ دیش اور جنوبی افریقہ کے خلاف کھیلے گئے پانچ ٹیسٹ میچز میں سے چار فیصلہ کن رہے۔ سری لنکا کے خلاف راولپنڈی ٹیسٹ بارش کے باعث ڈرا ہوا۔
باقی ماندہ چار مکمل ہوئے میچز میں پاکستانی بولرز نے 619 اوورز پھینک کر 23.9 کی زبردست اوسط سے 80 وکٹیں حاصل کی اور یہ چاروں میچز پاکستان کے نام رہے۔
راولپنڈی اور کراچی کی دو الگ مزاج پچز پر پاکستان کے لیے بیس وکٹیں حاصل کرنا کوئی مسئلہ نہیں رہا۔ صرف پاکستان ہی کے لیے نہیں، مہمان ٹیموں کے پیسرز اور سپنرز کو بھی یہ کنڈیشنز موزوں رہیں مگر پھر اس منظر نامے میں انٹری ہوتی ہے رمیز راجہ کی اور سب بدل جاتا ہے۔
اپنے پہلے میچ میں ہی راولپنڈی کی پچ سے گھاس اڑا کر جو فن پارہ انھوں نے تخلیق کیا، وہاں پانچ روز میں قریب 1200 رنز کے عوض صرف 14 وکٹیں حاصل ہوئیں۔ فی وکٹ رنز کی شرح یہاں 84.7 تھی، گویا بلے بازوں کو ایک ففٹی کے ساتھ سینچری مفت بانٹی جا رہی ہو۔
وہی راولپنڈی کی پچ جہاں سال بھر پہلے شاہین آفریدی اور حسن علی نے 202 رنز کے عوض 15 وکٹیں حاصل کی تھیں، وہیں پیٹ کمنز، مچل سٹارک، ہیزل ووڈ، شاہین آفریدی اور نسیم شاہ پر مشتمل پیس بولنگ پانچ دن تک سر پٹخ کر بھی، 135 اوورز میں 305 رنز کے عوض صرف چار وکٹیں حاصل کر پایا۔
رمیز راجہ نے ایک ہی چٹکی میں پانچ بہترین ورلڈ کلاس ٹیسٹ بولرز کی بولنگ اوسط 76 رنز سے بھی زائد کر دی اور اپنا حتمی فیصلہ بھی سنا دیا کہ پچز بہتر ہونے میں کئی سیزنز کی محنت پڑے گی۔
مگر عاقب جاوید اور علیم ڈار کے سلیکشن پینل نے ہفتے بھر کے اپنے جادو میں ہی ممکن کر دکھایا کہ اگر بنیادی سوجھ بوجھ استعمال کر لی جائے تو کسی بھی طرز کی پچ تیار کرنا کوئی راکٹ سائنس نہیں۔
راولپنڈی ٹیسٹ کے بعد برینڈن میکلم بھی حیران تھے کہ اتنے آسان کام میں پی سی بی کو اتنے سال کیوں لگ گئے۔
اب اس سوال پر آئیے کہ اگر پاکستان ٹرننگ پچز سے ہوم ایڈوانٹیج حاصل کر بھی لیتا ہے تو سیمنگ اور باؤنسی کنڈیشنز میں کیا کرے گا۔
اگرچہ اس سوال کا پہلا درست جواب تو یہی ہے کہ جب گرین ٹاپ کے نام پر فلیٹ ہائی ویز بن رہی تھیں، تب بھی پاکستان سے باؤنسی کنڈیشنز میں کیا ہی کچھ ہو پایا تھا؟
مگر یہاں آسٹریلین کنڈیشنز کا وہ تنوع پاکستان کے لیے ایک عمدہ مثال ہو سکتا ہے جو ہر طرح کی پچز میسر ہونے کے باوجود مہمان ایشیائی ٹیموں سے پہلا میچ پرتھ میں کھیلتے ہیں تاکہ اپنا بہترین ہوم ایڈوانٹیج حاصل کر کے سیریز میں برتری پا سکیں۔
دوسرا میچ اکثر میلبرن میں ہوتا ہے جہاں ایک بار پھر اضافی باؤنس ایشیائی بلے بازوں کی ذہنی ٹوٹ پھوٹ میں اضافہ کرتا ہے اور اگرچہ تیسرا میچ سڈنی یا ایڈیلیڈ کے موزوں باؤنس میں ہوتا ہے مگر تب تک ایشیائی ٹیمیں ذہنی طور پر ہی اتنا ٹوٹ چکی ہوتی ہیں کہ موافق کنڈیشنز میں بھی مات کھا جاتی ہیں۔
پاکستان اگر آسٹریلیا، انگلینڈ اور جنوبی افریقہ جیسے مہمانوں کے لیے دانش مندی سے یہ ماڈل استعمال کرنے میں کامیاب ہو جائے تو اس کے لیے ہوم کرکٹ میں برتری کا ناقابلِ تسخیر عہد شروع ہو سکتا ہے۔
ملتان کی پچ اپنی سپن ثابت کر چکی ہے۔ لاہور کی پچ اکٹر دھیمے باؤنس اور ریورس سوئنگ کی شہرت رکھتی ہے جبکہ راولپنڈی اگر ہمیشہ پیس اور باؤنس کے لیے معروف رہی ہے تو کراچی میں ابتداً کچھ سیم اور بعد ازاں سپن و ریورس سوئنگ کو فائدہ حاصل رہا ہے۔
سو، اگر اگلی بار بین سٹوکس یا پیٹ کمنز کی ٹیم دورے پر آئے اور پاکستان اس کا استقبال ہی ملتان کی گرد اڑاتی پچ پر کرے، دوسرے میچ میں لاہور کے دھیمے باؤنس سے اس کا رستہ روکے اور اس کے بعد تیسرا میچ بھلے راولپنڈی یا کراچی میں گرین ٹاپ بنا کر بھی کھیل لے تو بھی مہمان ٹیم وائٹ واش سے شاید ہی بچ پائے۔
یہ وہ تنوع اور توازن ہے جسے سمجھنے کے لیے بنیادی انسانی شعور اور موسموں کی ہلکی سی سوجھ بوجھ ہی کافی ہو سکتی تھی مگر پی سی بی کی ذہانت نے یہ گتھی سلجھانے میں اتنے سال لگا دیے کہ مہمان کپتان بھی اپنی حیرت نہ چھپا سکے۔