پنجابی پاپ گلوکار سدھو موسے والا کے والدین نے رواں برس مارچ میں پیدا ہونے والے اپنے چھوٹے بیٹے شوبھدیپ سنگھ کی تصویر سوشل میڈیا پر شیئر کی ہے جسے دیکھ کر کوئی کہہ رہا ہے کہ ’کنگ از بیک یعنی سدھو موسے والا واپس آ گئے ہیں‘ تو کسی کا ماننا ہے کہ ’یہ سدھو کا دوسرا جنم ہے۔‘
پنجابی پاپ گلوکار سدھو موسے والا کے والدین نے رواں برس مارچ میں پیدا ہونے والے اپنے چھوٹے بیٹے شوبھدیپ سنگھ کی تصویر سوشل میڈیا پر شیئر کی ہے جسے دیکھ کر کوئی کہہ رہا ہے کہ ’کِنگ از بیک‘ تو کسی کا ماننا ہے کہ ’یہ سدھو کا دوسرا جنم ہے۔‘
چھوٹے سے شوبھدیپ نے ہلکے گلابی رنگ کی پگڑی باندھ رکھی ہے اور اپنے والد کی گود میں بیٹھے مسکراتے ہوئے کیمرے کی طرف دیکھ رہے ہیں۔
یاد رہے رواں برس مارچ میں سدھو موسے والا کی والدہ چرن کور کے ہاں دوسرے بچے کی پیدائش ہوئی تھی۔
اس تصویر کے ساتھ اُن کے والدین نے لکھا ہے ’نگاہوں میں ایک خاص گہرائی ہے جو ہماری زندگی کی ہر سچائی کو سمجھتی ہے۔۔۔ نور سے بھرے چہرے کی معصومیت کو لفظوں میں بیان کرنا ناممکن ہے۔۔۔ کیونکہ یہ ہمیں ہمیشہ یہی محسوس کرواتا ہے کہ جس چہرے کو نم آنکھوں کے ساتھ رب کو سونپا تھا، رب کی مہر اور سب کی دعاؤں سے دوبارہ اس کا دیدار کر رہے ہیں۔‘
سدھو موسے والا کے انسٹاگرام اکاؤنٹ سے شیئر کی گئی فوٹو کے ساتھ ایک ویڈیو بھی ہے جس میں بلکور سنگھ چھوٹے سے شوبھدیپ کو پگڑی پہنا رہے ہیں اور پسِ منظر میں سدھو کا گانا ’پیاری ماں‘ چل رہا ہے۔ سدھو کے بچپن کی تصاویر بھی اس ویڈیو میں دیکھی جا سکتی ہیں۔
یاد رہے 15 مئی 2020 کو سدھو موسی والا نے اپنی ماں کے لیے ’پیاری ماں‘ گانا ریلیز کیا تھا۔
ایک صارف نے اس گانے کے بول ’مینوں لگدا ماں میں جمیاں تیرے ورگا آں‘ (ماں مجھے لگتا ہے میں آپ جیسا پیدا ہوا ہوں) شئیر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’ایسا لگ رہا ہے میں ہمارے سدھو کو دوبارہ دیکھ رہا ہوں۔‘
سدھو موسے والا کے چھوٹے بھائی کی پیدائش کے چند روز بعد اُن کے والد بلکور سنگھ نے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں حکومت پر یہ الزام عائد کیا تھا کہ ان سے ان کے نومولود بچے کی قانونی حیثیت سے متعلق ثبوت مانگ کر انھیں ہراساں کیا جا رہا ہے۔
بچے کی پیدائش کے وقت اس کے نام کے بارے میں شوبھدیپ سنگھ (سدھو موسے والا) کے والد بلکور سنگھ کا کہنا کہ یہ بچہ بالکل ان کے لیے شوبھدیپ جیسا ہے۔
یاد رہے کہ سدھو موسے والا کا اصل نام شوبھدیپ تھا۔ 28 سالہ سدھو موسے والا بطور گلوکار بین الاقوامی سطح پر بہت مقبول تھے۔ 29 مئی 2022 کو دن دیہاڑے انھیں جدید ترین ہتھیاروں سے گولیاں مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔
یہ واقعہ پنجاب کے ضلع مانسا کے گاؤں جواہرکے میں پیش آیا تھا۔
بچے کی پیدائش کے بعد لوگوں کی بڑی تعداد سدھو موسے والا کے گھر مبارکباد دینے پہنچی تھی۔
اس موقع پر سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ اینٹرٹینمنٹ انڈسٹری سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے بھی خوشی کا اظہار کیا تھا۔
اس بچے کی پیدائش بھٹنڈہ کے ایک نجی ہسپتال میں ہوئی تھی۔ بچے کی پیدائش پر اس لیے بھی بہت بات ہوئی کیونکہ سدھو موسے والا کی والدہ کی عمر 58 سال ہے اور عام طور پر اس عمر میں بچے کو جنم دینا مشکل ہوتا ہے۔
چرن کور نے اس بچے کو آئی وی ایف یعنی ان وٹرو فرٹیلائزیشن تکنیک کے ذریعے جنم دیا تھا۔ آئیے آپ کو بتاتے ہیں کہ یہ تکنیک ہے کیا؟
آئی وی ایف ٹیکنالوجی کیا ہے؟
آئی وی ایف ایک ایسا طریقہ کار ہے جس کے دوران عورت کے ایگز (انڈوں) کو مرد کے سپرم سے لیبارٹری میں فرٹیلائز کیا جاتا ہے اور اس کے بعد جنین کو عورت کے رحم (بچہ دانی) میں ڈالا جاتا ہے۔
آئی وی ایف ٹیکنالوجی کا استعمال اس وقت کیا جاتا ہے جب یا تو حمل قدرتی طور پر نہیں ہو سکتا یا حاملہ ہونے کے دیگر تمام طریقے ناکام ہو جاتے ہیں۔
آئی وی ایف ٹیکنالوجی پہلی بار 1978 میں متعارف کرائی گئی تھی۔
ڈاکٹر نینا پٹیل نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ طریقہ کار 1978 میں شروع ہوا، جب لیسلی براؤن ٹیسٹ ٹیوب بچے کو جنم دینے والی دنیا کی پہلی خاتون بنیں۔
گجرات کے آنند میں واقع اکانکشا ہسپتال اور ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے میڈیکل ڈائریکٹر ڈاکٹر نینا پٹیل کہتی ہیں کہ ’آئی وی ایف کا استعمال ان خواتین کے معاملے میں کیا جاتا ہے جن کی ٹیوبیں انفیکشن یا کسی اور وجہ سے خراب ہو جاتی ہیں۔‘
انھوں نے مزید وضاحت کی، ’اس میں ہم لیب میں انڈے اور سپرم کو فرٹیلائز کرتے ہیں۔ جب ایمبریو(حیاتیات کی نشوونما کا ابتدائی مرحلہ یا جنین) تیار ہو جاتا ہے تو اسے عورت کے رحم میں داخل کر دیا جاتا ہے۔
’اس ٹیکنالوجی نے بہت سے جوڑوں کو والدین بننے کی خوشی سے ہمکنار کیا ہے اور خواتین سے بانجھ پن کا لیبل دور کیا ہے۔‘
وہ اس انقلاب کے دوسرے مرحلے کے طور پر 1991 میں متعارف کروائی گئی انٹراسیٹوپلاسمک سپرم انجیکشن (ICSI) تکنیک کو قرار دیتی ہیں۔
ان کے مطابق، ’آئی سی ایس آئی نے ان جوڑوں کے لیے والدین بننا آسان بنا دیا ہے، جنھیں مردوں کے سپرم کی کم یا ناقص معیار کی وجہ سے مسائل کا سامنا تھا۔ اس ٹیکنالوجی نے ڈونر سپرم کی ضرورت کو بھی ختم کردیا۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ اب اسے بلا جھجک اپنانے لگے ہیں۔‘
کیا یہ اتنا آسان ہے؟
لیکن سب کچھ اتنا آسان نہیں جتنا سننے میں لگتا ہے۔
پچھلے کچھ سالوں میں آئی وی ایف کا رجحان بہت بڑھ گیا ہے لیکن ایسا ہر بار نہیں ہوتا کہ کوئی اس عمل کے ذریعے والدین بن جائے۔ کئی بار اس کے کیسز بھی ناکام ہو جاتے ہیں۔
ڈاکٹر پٹیل کہتے ہیں، ’کبھی کبھی جوڑے پہلی بار خوشی پاتے ہیں اور کبھی کبھی یہ عمل بہت طویل ثابت ہوتا ہے۔‘
گیتا بین بتاتی ہیں کہ آئی وی ایف سے پہلے بھی ان کا کافی علاج ہوا تھا۔ پھر آئی وی ایف کا سہارا لیا اور یہ بھی تقریباً دو سال بعد کامیاب رہا۔
آٹھ ناکام سائیکلوں کے بعد وہ نویں بار حاملہ ہوئیں لیکن چند ماہ بعد ان کا حمل ختم ہو گیا ۔ پھر دسویں چکر میں وہ ایک بچے کو جنم دینے میں کامیاب ہو گئیں۔
گیتا بین اتنے صبر کے ساتھ علاج کروانے میں اس لیےکامیاب ہوئیں کیونکہ ان کے شوہر منوج کمارنے ہر قدم پر ان کا ساتھ دیا۔ بہت سے معاملات میں ماں بننے کی خواہش مند خواتین کو اپنے خاندان کی حمایت نہیں ملتی۔
IVF کے لیے کن چیزوں کا خیال رکھنا چاہیے؟
چرن کور نے ڈاکٹر رجنی جندال کی نگرانی میں ایک بچے کو جنم دیا۔
میڈیا سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر رجنی جندال نے کہا کہ لوگوں کو اس خبر سے آئی وی ایف ٹیکنالوجی کے بارے میں غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہیے۔
انھوں نے کہا کہ بڑی عمر میں آئی وی ایف ٹیکنالوجی استعمال کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ماں کی صحت بالکل ٹھیک ہو۔
انھوں نے بتایا کہ چرن کور روزانہ ان کے پاس میڈیکل چیک اپ کے لیے آتی تھی۔ کبھی کبھی یہ تھوڑا مشکل تھا، بڑھاپے میں کبھی کبھی بلڈ پریشر بڑھ جاتا اور خون بہنے لگتا۔۔۔ پھر ہم اس کا خیال رکھتے تھے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ چرن کور بالکل صحت مند ہیں۔ اسے صحت سے متعلق کوئی مسئلہ نہیں تھا، یہی وجہ ہے کہ ہم آئی وی ایف ٹیکنالوجی کو کامیابی سے استعمال کرنے میں کامیاب رہے۔
انھوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ اس خبر کو دیکھ کر کوئی غلط پیغام نہ جائے۔ جب بھی بڑی عمر میں حمل ہوتا ہے تو سب سے پہلے ماں کی صحت کو چیک کرنا ہوتا ہے۔ سب سے پہلے اس کا خیال رکھنا ہماری ذمہ داری ہے۔ کسی بھی طریقہ کار کو اپنانے سے پہلے یہ یقینی بنانا ضروری ہے کہ ماں محفوظ ہے۔ یہ سب کا فرض ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اگر ماں صحت مند نہیں ہے تو آئی وی ایف تکنیک کا استعمال نہیں کرنا چاہیے، اگر ماں صحت مند ہے،اور سانس لینے میں تکلیف نہیں ہے، دل صحت مند ہے، ذیابیطس یا بلڈ پریشر نہیں ہے تو ایسے لوگوں آئی وی ایف کی مدد لے سکتے ہیں۔‘
وہ مزید کہتی ہیں کہ ’اگر ماں ٹھیک ہے تو بھی اسے نگرانی میں رکھنا زیادہ محفوظ ہے۔ یہ ضروری ہے کہ ایسے وقت میں ڈیلیوری ہو جب بچہ اور ماں دونوں محفوظ ہوں۔‘
انھوں نے بتایا کہ پیدائش کے وقت بچے کا وزن دو کلو تھا۔
بڑی عمر میں آئی وی ایف کتنا خطرناک ہے؟
گائناکالوجسٹ ڈاکٹر شیوانی کا کہنا ہے کہ بڑی عمر میں آئی وی ایف کروانا خطرناک ہو سکتا ہے کیونکہ جس طرح عمر کے ساتھ جسم میں بہت سی تبدیلیاں آتی ہیں اسی طرح حمل کے ساتھ جسم میں بہت سی تبدیلیاں آتی ہیں۔
بڑی عمر میں آئی وی ایف کے ذریعے حمل ہونے کی صورت میں کئی طرح کے ہارمونز جسم میں داخل کرنے پڑتے ہیں جس کی وجہ سے ہائی بلڈ پریشر، ذیابیطس اور کولیسٹرول جیسے خطرات بھی بڑھ سکتے ہیں۔
کیا مینو پاز کے بعد عورت حاملہ ہو سکتی ہے؟
کیا مینو پاز کے بعد عورت حاملہ ہو سکتی ہے؟
ڈاکٹر شیوانی کا کہنا ہے کہ خواتین میں مینوپاز یا ماہواری بند ہونے کے بعد آئی وی ایف کے ذریعے حاملہ ہونا بہت مشکل ہے۔ کیونکہ مینوپاز کا مطلب ہے کہ عورت کے رحم میں انڈے تقریباً ختم ہو چکے ہیں۔
ایسی حالت میں ڈونر ایگ یعنی کسی اور کا انڈا لیا جاتا ہے۔ پھر اس عورت جس کی ماہواری کا عمل بند ہو گیا ہے اس کی بچہ دانی کو ہارمونز سے تیار کرکے بیضہ پیدا کرنے کا عمل شروع کیا جاتا ہے۔ اس طرح وہ عورت حاملہ ہو سکتی ہے۔
بچہ دانی کے سکڑنے کے بعد اس طریقہ سے علاج کیسے کیا جاتا ہے؟
گائناکالوجسٹ ڈاکٹر شیوانی کا کہنا ہے کہ جیسے جیسے عورت کی عمر بڑھتی ہے بچہ دانی سکڑ جاتی ہے کیونکہ عمر کے ساتھ جسم میں ہارمونز کم ہوتے جاتے ہیں۔
اس لیے بیرونی ہارمونز دینے پڑتے ہیں جس کی وجہ سے بعض اوقات انھیں زیادہ مقدار میں دینا پڑتا ہے۔ اس کی وجہ سے بچہ دانی دوبارہ فعال ہونا شروع ہو جاتی ہے۔
عمر کی حد قانون کے ذریعہ مقرر کی گئی ہے
2021 میں انڈیا میں ایک نیا قانون اسسٹڈ ری پروڈکٹیو ٹیکنالوجی (ART) ایکٹ نافذ ہوا۔ ڈاکٹر سنیتا اروڑہ اس قانون کے تحت آئی وی ایف حاصل کرنے کے لیے ماں کی زیادہ سے زیادہ عمر 50 سال اور والد کی عمر 55 سال تک بڑھانے کی بھرپور حمایت کرتی ہیں۔
ڈاکٹر اروڑہ کے مطابق
’زیادہ سے زیادہ عمر مقرر کرنے کی ایک وجہ بچے کی پرورش سے متعلق ہے۔ فرض کریں جب بچہ 15-20 سال کا ہو جائے، والدین کی عمر 70 سال سے اوپر ہو، تو وہ اس کی دیکھ بھال کی ذمہ داری کیسے نبھائیں گے۔
’لیکن سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ 50 سال کے بعد ماں بننا صحت کے لحاظ سے آسان نہیں ہے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’45 سال سے زیادہ عمر کے آئی وی ایف کے معاملات میں، ہم طبی صحت پر بہت زیادہ توجہ دیتے ہیں۔ کیونکہ حمل کے دوران دل کا دباؤ بڑھ جاتا ہے اور بلڈ پریشر بھی اوپر نیچے ہوتا ہے۔ کئی بار خواتین ایسی تبدیلیوں کو برداشت کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتیں۔‘
ڈاکٹر پٹیل بڑی عمر میں آئی وی ایف کا سہارا لینے کے بھی خلاف ہیں۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ بعض صورتوں میں ایک یا دو سال کی نرمی پر غور کرنے کی گنجائش ہونی چاہیے۔
مثال کے طور پر،’اگر بیوی کی عمر 40-45 سال کے درمیان ہے لیکن شوہر کی عمر 56 سال ہے یا بیوی کی عمر 51 سال ہے اور شوہر کی عمر 53 سال ہے، تو ایسی صورتوں میں میڈیکل فٹنس کی بنیاد پر آئی وی ایف کی اجازت دینے پر غور کیا جا سکتا ہے۔‘
- ڈاکٹروں کے مطابق بڑی عمر میں خواتین کا جسم بچے کو جنم دینے کے لیے مکمل طور پر فٹ نہیں ہوتا
- حمل کے دوران دل کا دباؤ اور بی پی بڑھ جاتا ہے۔ کئی بار خواتین اسے برداشت کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتیں
- بڑی عمر میں بچے کی جسمانی اور مالی پرورش کی ذمہ داری کسی بڑے چیلنج سے کم نہیں
کیا اس طریقہ علاج سے کامیابی کی ضمانت ہے؟
اس پر ڈاکٹر نینا پٹیل نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ 80 فیصد کامیابی 35 سال سے کم عمر کی خواتین کے معاملے میں ملتی ہے۔
اگر خواتین کی عمر 35 سے 40 سال کے درمیان ہے تو بچہ پیدا ہونے کے امکانات 60 فیصد تک ہوتے ہیں۔ اگر عمر 40 سال سے اوپر ہے تو صرف 18 سے 20 فیصد کیسز کامیاب ہوتے ہیں۔