بلاشبہ پاکستانی بلے بازوں کو بھی اندھا دھند بلے گھمانے کی بجائے اپنی شاٹ سلیکشن میں بہتر فیصلہ سازی کرنا چاہیے تھی اور ہر گیند پر چھکے کی بے سود خواہش نہ کرنا چاہیے تھی مگر جس طور سے میکسویل نے اپنی خاموشی توڑی، یہ میچ پاکستانی اننگز سے کہیں پہلے ہی ختم ہو چکا تھا۔
یہ آسٹریلوی ہوم سیزن کا آغاز ہے اور اگرچہ کرکٹ آسٹریلیا نے پاکستان کے دورے کو زیادہ تشہیر کے لائق نہیں سمجھا مگر اس سیریز میں کوئی تھوڑا بہت شور اگر بپا ہو سکتا تھا تو وہ میکسویل کے بلے کی بدولت ہی ہو سکتا تھا، جنھیں نہ صرف اپنی نوآموز بیٹنگ لائن کا ستون بننا تھا بلکہ آسٹریلوی کراؤڈ کے لیے بھی ٹکٹیں خریدنے کی کوئی وجہ پیدا کرنا تھا۔
جس طور سے پاکستان نے ون ڈے سیریز میں میکسویل کو باندھے رکھا، وہ قابلِ تحسین تھا کہ ایسے مستند اور متنوع بلے باز کو مسلسل چپ کروائے رکھنا بھی کسی معجزے سے کم نہیں۔
پہلے ون ڈے میچ میں حارث رؤف کی پیس کا قہر جھیلنے کے بعد میکسویل نے کہا تھا کہ حارث وہ بولر ہیں جو اکیلے اپنے بل پہ کھیل کا نقشہ بدلنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ اگلے دونوں میچز میں میکسویل کی بات درست بھی ثابت ہوئی کہ حارث رؤف ہی پھر سے ان کی امیدوں کا انہدام ٹھہرے۔
مگر گابا میں صورتِ حال مختلف تھی۔
اول تو کسی ایشیائی ٹیم کے لیے برسبین کی باؤنڈری ڈائمینشنز سے مانوس ہونا ہی بہت مشکل ہے جہاں گراؤنڈ کے ایک طرف باؤنڈری اگر 60 میٹر کے لگ بھگ پڑتی ہے تو وہیں دوسری سمت یہ باؤنڈری کوئی 80 میٹر تک جا پڑتی ہے۔
ایسے میں اصل امتحان اسی بیٹنگ لائن کا ہونا تھا جسے راولپنڈی جیسے وینیوز پر بعض اوقات 55 میٹر تک کی باؤنڈری جیسی سہولت بھی میسر ہوتی ہے اور ایسی باؤنڈریز کے رسیا ریفلیکسز کے لیے برسبین کی باؤنڈری عبور کرنا تو ڈبل چھکے لگانے کے مترادف تھا۔
اور جس طرح سے بارش نے کھیل کا دورانیہ بالکل مختصر کر دیا، حالات بھی میکسویل کی سی دھواں دھار اننگز کے لیے سازگار ہو گئے کہ جہاں ون ڈے سیریز میں انھیں پچاس اوورز تک اننگز لے جانے کی ذمہ داری تھی، یہاں انھیں پہلی گیند سے ہی کھلا بلا چلانے کا لائسنس میسر تھا۔
کرکٹ میں دورانیہ جس قدر مختصر ہوتا جائے، بولرز اور فیلڈنگ کپتان کی مشکلات بڑھتی جاتی ہیں کہ جہاں بیس اوورز کھیلنے کو دس وکٹیں میسر ہوتی ہیں، یہاں سات اوورز کے لحاظ سے ایک بلے باز کے حصے ہی فقط چار گیندیں پڑتی تھیں۔
رضوان نے یہ فیصلہ تو درست کیا کہ وہ اس مختصر کردہ مقابلے میں پہلے بولنگ کر کے اپنی بیٹنگ لائن کے لیے ایک واضح ہدف پائیں گے۔ مگر یہ ان کے گمان میں نہ تھا کہ میکسویل بھی آج ہی اپنی خاموشی توڑیں گے اور جو ہدف ان کے بلے بازوں کے لئے طے کریں گے، وہ کسی ’نارمل‘ گراؤنڈ پر بھی دشوار ہو گا کجا کہ برسبین کے اس وینیو پر ایسا مطلوبہ رن ریٹ گلے پڑ جائے۔
میکسویل نے گراؤنڈ کی چھوٹی باؤنڈری کا بہترین استعمال کیا اور پہلی ہی گیند کو ’غیر انسانی‘ انداز میں لیگ سٹمپ کے باہر سے ریورس سویپ کر کے تھرڈ مین کے اوپر کھیل گئے۔ ایسی شاٹ کا رستہ روکنا صرف تبھی ممکن ہے جب فیلڈنگ کپتان کو پندرہ فیلڈرز ٹھہرانے کی سہولت میسر ہو۔
نسیم شاہ 140 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے بولنگ کرتے ہیں اور ایسی رفتار پر آتی گیندوں کے سامنے ایک سیکنڈ سے بھی کم وقت میں پورا سٹانس پلٹ کر آف سائیڈ پر باؤنڈریز بٹورنا عقل کو دنگ کر چھوڑنے والی بات ہے۔
یہاں میکسویل کے نشانے کی زد پہ صرف نسیم شاہ ہی نہیں آئے بلکہ شاہین آفریدی اور پوری ون ڈے سیریز ان پہ حاوی رہنے والے حارث رؤف بھی رہے جن کی ورائٹی کو بخوبی بھانپ کر میکسویل نے سکوائر لیگ باؤنڈری کی سیر کروا دی۔
بلاشبہ پاکستانی بلے بازوں کو بھی اندھا دھند بلے گھمانے کی بجائے اپنی شاٹ سلیکشن میں بہتر فیصلہ سازی کرنا چاہیے تھی اور ہر گیند پر چھکے کی بے سود خواہش نہ کرنا چاہیے تھی مگر جس طور سے میکسویل نے اپنی خاموشی توڑی، یہ میچ پاکستانی اننگز سے کہیں پہلے ہی ختم ہو چکا تھا۔