وہ قصبہ جہاں ہر شہری کے لیے بندوق رکھنا لازمی ہے

1980 کی دہائی میں لائے جانے والے ایک قانون کے تحت قصبے کے رہائشیوں پر بندوق رکھنا لازم ہے۔
جیمز رابن کا بندوقوں کا خاندانی کاروبار ہے
BBC
جیمز رابن کا بندوقوں کا خاندانی کاروبار ہے

امریکی ریاست جارجیا کا قصبہ کینیسیو بظاہر تو کسی بھی دوسرے عام سے قصبے جیسا دکھتا ہے جہاں بیکری سے اٹھتی تازہ بسکٹوں کی خوشبو اور پاس سے گزرتی ٹرین کی آواز آپ کو کسی پر سکون قصبے کا احساس دلائے گی۔

لیکن یہاں کا ایک قانون اسے دوسری جگہوں سے الگ بناتا ہے۔

1980 کی دہائی میں لائے جانے والے ایک قانون کے تحت قصبے کے رہائشیوں پر بندوق رکھنا لازم ہے۔

ڈیرک سٹرلنگ تیسری مرتبہ اس قصبے کے میئر منتخب ہوئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کا قصبہ کوئی ’وائلڈ ویسٹ‘ نہیں جہاں ہر کوئی اپنے پہلو میں بندوق لٹکائے گھوم رہا ہو۔

’نہ ہم آپ کے گھر کے دروازے پر آ کر دستک دیں گے کہ ہمیں اپنا ہتھیار دکھائیں۔‘

کینیسیو کے قانون کے مطابق: ’شہر اور اس کے باشندوں کی حفاظت، سلامتی اور فلاح و بہبود کی خاطر شہر کی حدود میں بسنے والے ہر گھر کے سربراہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایک آتشیں اسلحہ اور گولیاں ہمیشہ رکھیں۔‘

وہ رہائشی جو ذہنی یا جسمانی طور پر معذور ہیں یا جن کا مجرمانہ ریکارڈ رہا ہے یا وہ افراد جن کے مذہب میں اسلحہ رکھنا ممنوع ہے وہ اس قانون سے مستثنیٰ ہیں۔

تاہم میئر سٹرلنگ اور کئی دیگر حکام کے مطابق 1982 میں لاگو کیے گئے ہتھیار رکھنے کے قانون پر عمل نہ کرنے پر آج تک کسی کو سزا نہیں ہوئی ہے۔

بی بی سی نے جن لوگوں سے بات کی ان میں سے کسی کو علم نہیں تھا کہ اس قانون پر عمل نہ کرنے پر انھیں کیا سزا ہو سکتی ہے۔

اس کے باوجود میئر سٹرلنگ کا اصرار ہے کہ یہ کوئی علامتی قانون نہیں ہے اور وہ محض دکھاوے کی چیز پر یقین نہیں کرتے ہیں۔

جورجیا کینیسیو
BBC

کچھ لوگوں کی نظر میں یہ قانون فخر کا باعث ہے کہ ان کے شہر نے اسلحہ رکھنے کی روایت کو اپنایا ہے۔

دوسروں کے لیے یہ شرمندگی کا باعث ہے، تاریخ کا ایک ایسا باب جسے وہ بھول کر آگے بڑھ جانا چاہتے ہیں۔

تاہم قصبے کے بیشتر لوگوں کا ماننا ہے کہ اس قانون کا مقصد کینیسیو کو محفوظ رکھنا ہے۔

مقامی پیزا کی دکان پر بیٹھے اس قانون کے حامی کہیں گے کہ اس قانون سے اور کچھ نہیں تو مجرموں کے دلوں میں ایک خوف رہتا ہے کہ اگر وہ آپ کے گھر میں چوری کی نیت سے داخل ہوں گے تو آپ کے پاس کوئی بھی اسلحہ ہو سکتا ہے۔

کینیسیو پولیس کے مطابق 2023 میں قصبے میں قتل کا کوئی بھی واقعہ نہیں ہوا تاہم خودکشی کے دو واقعات میں بندوق استعمال ہوئی تھی۔

بلیک ویدربی کینیسیو کے بیپٹسٹ چرچ سے منسلک ہیں۔ ان کے خیال میں قصبے میں جرم کی شرح کم ہونے کی وجہ کچھ اور ہے۔

ان کے مطابق بندوقوں کو لے کر قصبے والوں کے رویے کی وجہ سے کینیسیو میں جرائم کی شرح کم ہے۔

’اس سے فرق نہیں پڑتا کہ بندوق ہے، کانٹا، مکہ یا ہائی ہیل والی سینڈل۔ ہم اپنی اور اپنے پڑوسیوں کی حفاظت کرتے ہیں۔‘

پیت فیرس نے اس قانون کے لاگو ہونے کے دو سال بعد 1984 میں کینیسیو کی سٹی کونسل میں شمولیت اختیار کی۔ ان کے مطابق یہ قانون ایک سیاسی بیان سے زیادہ کچھ نہیں۔

امریکی ریاست الینوائے کا شہر مورٹن گرو بندوق رکھنے پر پابندی لگانے والا پہلا شہر تھا جس کے بعد کینیسیو پہلا شہر بن گیا جہاں بندوق رکھنا لازمی قرار دیا گیا۔ کینیسیو کی سٹی کونسل کے اس اقدام نے اخبارات میں کافی ہلچل مچائی۔

1982 میں امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز میں شائع ہونے والے ایک کالم میں کہا گیا کہ اس قانون کے لاگو ہونے پر کینیسیو کے حکام تو کافی خوش ہیں تاہم 'کرمنالوجسٹ' نہیں۔

پینٹ ہاؤس میگزین نے اپنے جریدے میں اس قانون کے متعلق ایک خبر شائع کی جس کا عنوان تھا: 'ایک امریکی قصبہ جہاں بندوق نہ رکھنا جرم ہے۔' اس جریدے کے سرورق پر بکنی میں ملبوس ایک سفید فام خاتون کی تصویر لگی ہوئی تھی۔

اسی طرز کے قانون امریکہ کے پانچ دیگر شہروں میں بھی لاگو ہیں۔

فیرس کہتے ہیں کہ اس قانون کے نافذ ہونے کے 40 سال بعد لوگوں کے ذہنوں سے اس کی یاد مٹتی جا رہی ہے۔

’مجھے نہیں معلوم کتنے لوگوں کو یہ قانون یاد بھی ہو گا۔‘

بلیک ویدربی کا کہنا ہے کہ بڑے ہو کر ان کے والد نے ان سے کہا کہ
BBC
بلیک ویدربی کا کہنا ہے کہ جب وہ بڑے ہورہے تھے تو ان کے والد نےانھیں کہا تھا کہ ’اگر آپ مرد ہیں تو آپ کے پاس بندوق ہونی چاہیے۔‘

بلیک ویدربی اس ہی سال پیدا ہوئے تھے جس سال کینیسیو میں بندوق لازمی قرار دیا گیا تھا۔

وہ اپنے بچپن کے بارے میں یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اکثر ان کے والد انھیں مذاقاً کہا کرتے تھے کہ ’مجھے پرواہ نہیں کہ تمھیں بندوق نہیں پسند، یہ قانون ہے۔‘

’مجھے سکھایا گیا تھا کہ اگر آپ مرد ہیں تو آپ کے پاس بندوق ہونی چاہیے۔‘

بلیک محض 12 برس کے تھے جب انھوں نے پہلی مرتبہ بندوق چلائی۔ آج وہ 42 سال کے ہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ جب انھوں نے پہلی مرتبہ بندوق چلائی ڈر کے مارے ان کے ہاتھ سے ہتھیار گر گیا تھا۔

ایک وقت تھا کہ بلیک 20 سے زیادہ بندوقوں کے مالک تھے۔ آج ان کے پاس ایک بھی نہیں ہے۔ انھوں نے اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے تمام بندوقیں بیچ دیں۔

’مجھے بندوق سے زیادہ فیول کی ضرورت تھی۔‘

کینیسیو کی مرکزی شاہراہ پر واقع ڈیئر کِریک گن شاپ ایک ایسی جگہ تھی جہاں وہ اپنی بندوقیں بیچنے کے لیے کبھی بھی جا سکتے تھے۔

36 سالہ جیمز رابن ہائی سکول مکمل کرنے کے بعد سے اس دکان پر کام کر رہے ہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ اس یہ دکان ان کے والد اور دادا نے شروع کی تھی۔ جب بی بی سی کی ٹیم وہاں پہنچی تو اس وقت بھی جیمز کے والد اور دادا دکان پر موجود تھے۔

جیمز رابن اس قانون کے حق میں ہیں کیونکہ یہ ان کے کاروبار کے لیے منافع بخش ہے۔

’بندوقوں کے متعلق اچھی بات یہ ہے کہ ہر کوئی انھیں اپنے دفاع کے لیے خریدتا ہے لیکن بہت سے لوگ انھیں کسی فن پارے یا بٹ کوائن جیسی نایاب چیز کی مانند پسند کرتے ہیں۔‘

فروخت کرنے کی غرض سے دیوار پر لٹکے درجنوں ہتھیاروں میں ڈبل بیرل شاٹ گنزکے علاوہ 19ویں صدی کی چند ونچسٹر رائفلیں بھی تھیں جو اب نہیں بنتی ہیں

امریکہ
BBC

کینیسیو میں صرف گن شاپ کے مالکان یا ادھیڑ عمر کے مرد ہی بندوقوں کے شیدائی نہیں۔

کرس ویلش دو نوعمر بیٹیوں کی ماں ہیں لیکن بندوق سے ان کا عشق کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ وہ نہ صرف گن کلب کی ممبر ہیں بلکہ اپنی دونوں بیٹیوں کے ہمراہ باقاعدگی سے مقامی گن رینج میں شوٹنگ بھی کرتی ہیں۔

ان کے پاس ایک پستول، ایک بریٹٹا، ایک گلاک اور تقریباً آدھا درجن شاٹ گنز ہیں۔

لیکن وہ کینیسیو کے بندوق رکھنے کے قانون کی حامی نہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’جب میں لوگوں کو بندوق کے قانون کے بارے میں بات کرتے سنتی ہوں تو مجھے شرمندگی ہوتی ہے۔ یہ ایک ماضی کی چیز ہے جسے لوگ آج بھی تھامے بیٹھے ہیں۔‘

ان کی خواہش ہے کہ جب باہر والے کینیسیو کے بارے میں سنیں تو ان کے دماغ میں پارک اور سکولوں کا خیال آنا چاہیے نہ کہ بندوق کا قانون۔

’کینیسیو میں اور بھی بہت کچھ ہے۔‘

سٹی کونسل کی رکن میڈلین اوروچینا اس بات سے متفق ہیں کہ قانون ’ایسی چیز ہے جس کی تشہیر کو لوگ ترجیح نہیں دیں گے۔

’یہ ہماری کمیونٹی کے بارے میں صرف ایک عجیب سی حقیقت ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’رہائشی یا تو اس بارے مِن شرما کر آنکھیں پھیر لیں گے یا اس پر ہنس دیں گے۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.