پروازوں کی ہیکنگ: کیا جی پی ایس کی جگہ ایٹمی گھڑیاں طیاروں کو محفوظ بنا سکیں گی؟

ہوا بازی کے شعبے کے علاوہ بھی جی پی ایس کے نظام کے جام ہونے کے مضمرات ہیں۔ جی پی ایس کے بغیر تو ہماری زندگی جیسے رک سی جائے گی۔ سنہ 2017 میں ایک سرکاری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس طرح باقاعدہ جی پی ایس کے جام ہونے سے برطانیہ کا معاش، بجلی اور مواصلات کا نظام رک کر رہ جائے گا۔
ٹائم لارڈز
BBC

لندن سے رایان ایئر کی پرواز 17 جنوری کو جب لیتھوینیا کے شہر ویلنیوس پہنچی تو اس کو لینڈنگ کی اجازت نہ مل سکی۔ ابھی یہ پرواز چند منٹ میں اترنے ہی والی تھی کہ اس پرواز کے گلوبل پوزیشنگ سسٹم یعنی جی پی ایس میں کوئی ایسی نامعلوم خرابی واقع ہوئی کہ اس پرواز کو ہنگامی طور پر واپس جانا پڑا۔

بوئنگ طیارہ MAX 8-200 737 تقریباً850 فٹ تک نیچے آ چکا تھا جب اس کے جی پی ایس میں یہ خلل واقع ہوا۔ لینڈنگ کے بجائے اس طیارے کو دوبارہ اوپر اڑان بھرنے پر مجبور کیا گیا۔ یہ طیارہ پولینڈ کے دارالحکومت وارسا کے جنوب میں 400 کلومیٹر دوری پر تھا جب اسے نیچے اترنے کے بجائے واپس مڑنا پڑا۔

لیتھوینیا میں ہوا بازی کے شعبے کے حکام نے بعد میں اس کی تصدیق بھی کہ اس جہاز کے جی پی ایس سگنل میں خلل پیدا ہو گیا تھا۔

یہ اپنی نوعیت کا کوئی واحد واقعہ نہیں ہے۔ گذشتہ برس تین ماہ کے دوران لیتھوینیا کی فضائی حدود میں جہازوں کے جی پی ایس میں خلل پڑنے کے 800 واقعات سامنے آ چکے ہیں۔

ایسٹونیا اور فن لینڈ نے اس پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اس کا مورد الزام روس کو ٹھہرایا ہے۔ ان کے مطابق روس نے نیٹو کے مشرقی کنارے میں سیٹلائٹ نویگیشن سسٹم کو جام کرنے والی ٹیکنالوجی نصب کر رکھی ہے۔ تاہم روس نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔

گذشتہ برس مارچ میں برطانوی وزیر دفاع گرانٹ شیپس اس جہاز پر سوار تھے جس کے روس کے قریب سے گزرتے ہوئے جی پی ایس سگنل جام ہو گئے تھے۔

ہوا بازی کے شعبے کے علاوہ بھی جی پی ایس کے نظام کے جام ہونے کے مضمرات ہیں۔ جی پی ایس کے بغیر تو ہماری زندگی جیسے رک سی جائے گی۔ سنہ 2017 میں ایک سرکاری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس طرح باقاعدہ جی پی ایس کے جام ہونے سے برطانیہ کا معاش، بجلی اور مواصلات کا نظام رک کر رہ جائے گا۔

اٹامک واچ
Getty Images

اپنی لوکیشن کی بالکل درست نشاندہی کرنے کے لیے ہمیں درست وقت کا پتا ہونا ضروری ہے۔ جب صارفین اپنی ڈیوائسز کے لیے متعدد سیٹلائٹس سے سگنل موصول کرتے ہیں تو یہ جی پی ایس سسٹم پھر کام کرتا ہے۔ ہر سیٹلائٹ کے سگنل کا انحصار اس بات پر بھی ہے کہ ہم دنیا کے کس کونے میں موجود ہیں۔

بہت بڑے ’ایٹمی گھڑیال‘ براہ راست ان سیٹلائٹس سے رابطے میں آتے ہیں جو انھیں وقت کے بارے میں صحیح صحیح معلومات بہم پہنچاتے ہیں یعنی ایک سیکنڈ کے 100 اربویں حصے تک کی درست معلومات پہنچاتے ہیں۔ وقت کی یہ درست معلومات متعدد شعبوں کے لیے اہمیت رکھتی ہے۔ جیسے دنیا بھر میں جاری معاشی سرگرمیاں ہیں بشمول مواصلاتی نظام، بجلی کے پاور گرڈز اور فنانشل نیٹ ورکس۔

جی پی ایس میں خلل کی صورت میں اندازاً روزانہ 1.4 بلین پاؤنڈ کا نقصان ہوتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ جی پی ایس نظام کے جام ہونے کا خطرہ برطانیہ کے ’نیشنل رسک رجسٹر‘ میں سب سے بڑے خطرات میں سے ایک کے طور پر درج ہے۔

اس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے برطانوی سائنسدانوں کے ایک گروہ جسے ’ٹائم لارڈز‘ کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے سے کہا گیا ہے کہ وہ اس مسئلے کا کوئی حل نکالیں۔

ان کا منصوبہ بہت سادہ سا ہے کہ جی پی ایس کے متبادل ایک زیادہ محفوظ نظام بنایا جائے، جس کے تحت ایٹمی گھڑیال میں ایسی جدت لائی جائے کہ انھیں ایک عام گھڑی کے طور پر ہر وقت ساتھ رکھا جا سکے بجائے خلا میں سیٹلائٹ کے سگنل پر انحصار کرنے کے جنھیں کسی بھی وقت جام بھی کیا جا سکتا ہے۔

مگر اس منصوبے پر عملدرآمد انتہائی مشکل ہے: ایٹم کی طاقت کو استعمال میں لا کر ایک نئی قسم کی گھڑی تیار کرنا اور پھر چند برسوں میں اس طریقہ کار کو تبدیل کرنا جس کے ذریعے ہم وقت کا اندازہ لگاتے ہیں۔

جی پی ایس کے جام ہونے کے خطرات سے نمٹنے کے لیے حالیہ مہینوں میں برطانوی حکومت نے تحقیقی اقدامات اٹھائے ہیں۔ تاہم پروٹوٹائپس کو مضبوط اور مؤثر ڈیوائسز میں تبدیل کرنا جو ایک دن ہمارے فونز کا حصہ ہو سکتی ہیں ایک بہت بڑا اقدام ہے اور ایسے میں نئی ٹیکنالوجی کی ضرورت بہت زیادہ ضروری ہوتی جا رہی ہے۔

نیوٹن
Getty Images

وقت کا اندازہ لگانے کا نیا طریقہ

اس چیلنج کا موازنہ جان ہیریسن کی اٹھارویں صدی میں سمندری نیویگیشن کے لیے ایک پورٹیبل گھڑی کی ایجاد سے کیا جا سکتا ہے جس نے نام نہاد ’لانگیچیوڈ‘ (طول البلد) کے مسئلے کو حل کیا، جس سے تجارت اور ذخائر کی دریافت کے ایک نئے سنہری دور کا آغاز ہوا۔

تین صدیوں بعد ایک بار پھر محققین سر توڑ کوشش کر رہے ہیں کہ ایک ایسی گھڑی ایجاد کی جا سکے جس سے جی پی ایس کا مسئلہ حل ہو سکے اور اس کا اثر کم از کم ایک اچھی تبدیلی کا غماز ہو۔

برطانیہ کی نیشنل فیزیکل لیبارٹری (این پی ایل) کی ڈاکٹر ہیلن مارگولیس کا کہنا ہے کہ ’تاریخ سے یہ پتا چلتا ہے کہ ہر بار وقت کا صحیح اندازہ لگانے کے لیے ہماری صلاحیت میں بہتری آئی ہے، اب نئی ایپلیکیشنز وہ سب کچھ ممکن بنا سکیں گی جس کا لوگوں نے کبھی تصور نہیں کیا تھا۔‘

سنہ 1967 میں دنیا کے ’ٹائم کیپرز‘، ایک بین الحکومتی ادارہ جس کا نام ’جنرل کانفرنس آن ویٹس اینڈ میژرز‘ ہے نے زمین کی گردش کے بجائے ایٹمی گھڑیوں کا استعمال کرتے ہوئے وقت کا اندازہ لگانے پر اتفاق کیا۔

اس تبدیلی نے ہماری دنیا کو ہیریسن کی گھڑی کی طرح یکسر تبدیل کر دیا، جس نے پھر جی پی ایس اور اس طرح کے خلائی نظام کی بنیاد رکھی۔

اس تبدیلی کے بعد ایٹمی گھڑیال سے پھر وقت کے لیے سیٹلائٹ پر انحصار ہو گیا، جس سے دنیا بھر میں بڑے پیمانے پر مواصلات، حساب اور لین دین ممکن ہو سکا۔ اس نئی ایجاد سے زیادہ درست نیویگیشن بھی ممکن ہو سکی۔

جی پی ایس کے ’پورٹیبل‘ متبادل کی تحقیق میں کوانٹم ٹیکنالوجی کا استعمال ہوتا ہے، جس میں ایسے طریقے تلاش کیے جاتے ہیں جس سے پھر ایٹم کی ہیئت کو بدلا جا سکے۔

حالیہ برسوں میں اس موضوع کے ارد گرد زیادہ تر چہ مگوئیاں طاقتور کوانٹم کمپیوٹرز کی تیاری کے بارے میں رہی ہیں، جو اپنی کارکردگی کے لحاظ سے موجودہ سسٹم سے کہیں زیادہ بہتر ہوگا۔

پروفیسر ڈگلس پال کے مطابق ’نیویگیشن اور وقت کی پیمائش کو بہتر بنانے کے لیے ایک خاموش انقلاب آنے کو ہے، اور پھر خاص طور پر یہ ایک ایسے شعبے میں یہ سب ہو رہا ہے جہاں کوانٹم ٹیکنالوجی اپنا جلد اثر دکھانے کے قریب ہے۔‘

پروفیسر ڈگلس ’یو کے ہب فار کوانٹم اینیبلڈ پوزیشن نیویگیشنن اینڈ ٹائمنگ‘ (کیو ای پی این ٹی) کے شعبے کے سربراہ ہیں جسے برطانوی حکومت کی جانب سے گذشتہ دسمبر میں ایسی نئی ڈیوائسز تیار کرنے کے لیے قائم کیا گیا تھا۔

ان کے مطابق ’ہمیں یہ امید ہے کہ ہم کچھ اس قسم کا نیویگیشن سسٹم دو سے پانچ برس میں مارکیٹ میں دیکھ سکیں گے۔ اس حوالے سے کچھ ٹیکنالوجی پہلے ہی بہت آگے ہیں یعنی ترقی یافتہ ہیں۔‘

'ٹائم لارڈز‘

پروفیسر پال اور ان کے کوانٹم کے شعبے کے سائنسدان این پی ایل کی ڈاکٹر مارگولیس اور ان کے ساتھی محققین کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں، جنھیں دیگر واچ میکرز کی طرف سے ’ٹائم لارڈز‘ کا نام دیا گیا ہے۔

سنہ 1955 میں این پی ایل نے پہلی ایک طرح کی ایٹمی گھڑی ایجاد کی جو آج بھی استعمال ہو رہی ہے۔ یہ ایجاد سیزیم کے ایک ایٹم سے کثرت سے تابکاری کے ذریعے سے ممکن بنائی گئی۔

جی پی ایس اور دیگر سیٹلائٹ نیویگیشن کے نظام جب زمین پر آتے ہیں تو پھر یہاں کی گھڑیوں کے مطابق اپنا وقت درست کر لیتے ہیں۔ جی پی ایس کے متبادل کے طور پر سائنسدانوں کو اب ایک نئی ایٹمی گھڑی کی ضرورت ہو گی جو لیبارٹری میں استعمال ہونے والی نازک گھڑی سے بہت چھوٹی اور انتہائی مضبوط ہو تاکہ وہ معمول کی گھڑی کے طور پر استعمال میں لائی جا سکے۔

این پی ایل کے محققین ایک نام نہاد آپٹیکل گھڑی کی تکمیل کے ذریعے اس ہدف کو حاصل کرنا چاہتے ہیں، جو عام استعمال کی صحیح سیزیم گھڑیوں سے سو گنا سے بھی زیادہ درست ہو۔ بظاہر یہ اس طرح کی گھڑی ہو گی جو ’ٹائم لارڈ‘ ڈاکٹر ہُو کے خلائی ’ٹادس‘ مشن کا حصہ ہو اور مائیکرو ویو کے بجائے لیزر لائٹ سے چلے گی۔

ڈاکٹر مارگولیس کے مطابق جب آپٹیکل گھڑیاں، جو یونیورسل کوآرڈینیٹڈ ٹائم (یو ٹی سی) کا تعین کرتی ہیں نے سیزیم یعنی ایٹمی گھڑیوں کی جگہ لے لی ہے تو پھر ایسے میں وقت کے گزرنے کے طریقے کو بھی تبدیل کرنا پڑے گا۔

وہ کہتی ہیں کہ عالمی برادری کو سیکنڈ کی از سر نو تعریف کے لیے ایک نیا طریقہ کار دینا ہوگا۔

این پی ایل کی فوری امید تو یہی ہے کہ 2030 تک ایک قومی نیٹ ورک بنے جس سے پھر برطانیہ میں چار ایٹمی گھڑیوں کے ملاپ کے ذریعے تمام کاروبار محفوظ اور درست وقت کا تعین کر سکیں۔ اس کے علاوہ وہ اسے نئی جدید ایپلی کیشنز تیار کرنے کے لیے بھی استعمال میں لا سکتے ہیں۔

پروفیسر پال کا کہنا ہے کہ رفتہ رفتہ پھر برطانیہ میں بہت اہم فنانس، ٹیلی کمیونیکیشنز، انرجی، یوٹیلیٹیز اور نیشنل سکیورٹی کے نظام بھی اس پر آ جائیں گے۔ اگرچہ اس میں کچھ زیادہ وقت لگے گا۔ ہر چیز کو نئے نظام پر لے آنے میں ایک دہائی درکار ہے، جو کہ شاید بہت زیادہ وقت ہوتا ہے۔

ان کے مطابق اس نظام سے بہت امیدیں جڑی ہوئی ہیں اور یہ نئی ٹیکنالوجی جو متبادل پیش کرتی ہے وہ اہمیت کا حامل ہے۔

پروفیسر پال کے مطابق ’امریکی محکمہ دفاع جی پی ایس کی حمایت سے پیچھے ہٹ سکتا ہے۔‘ ان کے مطابق یہ حمایت کسی تنازع یا اور کسی ایسے واقعے کی بنیاد پر واپس لی جا سکتی ہے۔‘

ان کے مطابق ’اس بات کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ جی پی ایس ہمیشہ دستیاب رہے گا۔‘

پروفیسر پال کے مطابق جب یہ جی پی ایس اس طرح ہی جعل سازی کا نشانہ بنے گا اور جام ہوتا رہے گا تو پھر اس کے ذریعے درست معلومات کا حصول مشکل ہوتا جائے گا اور پھر یہ قابل بھروسہ نہیں رہے گا اور یوں لوگ اس کا استعمال ترک کر دیں گے۔

یہ نئی تحقیق دنیا بھر میں ہو رہی ہے اور برطانیہ اس کی سربراہی کر رہا ہے۔

جب مئی 2024 میں اس ٹیکنالوجی سے لیس طیارے نے آزمائشی پرواز کی تو اس وقت کے برطانوی وزیر برائے سائنس اینڈریو گریفتھ نے اسے کوانٹم کے شعبے میں دنیا میں برطانیہ کی برتری کا ثبوت قرار دیا۔

برطانوی حکومت کے مطابق یہ برطانیہ میں پرواز کے دوران کسی طیارے پر اس قسم کی ٹیکنالوجی کا پہلا تجربہ تھا، اور یہ ’دنیا بھر میں اس قسم کی پہلی پرواز تھی جس کا عوامی سطح پر اعتراف کیا گیا ہے۔‘

جب ہوائی جہاز میں ہی ایٹموں کے ایک گروپ کو منفی 273 سینٹی گریڈ تک ٹھنڈا کیا جا سکتا ہے تو پھر اس سے کسی بیرونی سگنل پر بھروسے کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی اور اس ٹیکنالوجی کو جام کر کے خلل نہیں ڈالا جا سکتا۔

لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہ آلات اتنے بڑے ہیں کہ ان کا معمول میں ان ہوائی جہازوں میں لے جانا ممکن نہیں ہے۔

اس ٹیسٹ یا آزمائشی پرواز کے بی اے ای نظام کے ایک رکن ہینری وائٹ نے بی بی سی نیوز کو بتایا کہ ان کے خیال میں اس ٹیکنالوجی کا پہلا تجربہ بحری جہازوں پر کیا جا سکتا ہے جہاں ہوائی جہازوں کے مقابلے میں ذیادہ جگہ دستیاب ہوتی ہے۔

کوانٹم گھڑیاں، جائروسکوپس اور ایکسیلرومیٹرز بہت بڑے، وزنی اور حیرت انگیز طور پر مہنگے آلات ہیں۔ ایک کوانٹم گھڑی کی قیمت 100,000 پاؤنڈ بنتی ہے۔

پھر بھی فوجی تحقیق چھوٹے، بہتر اور سستے سسٹمز کی تخلیق کی راہ ہموار کر رہی ہے۔

ڈی ایس ٹی ایل کی ایک سرکردہ محقق جو سیکورٹی وجوہات کی بنا پر اپنا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتی ہیں نے بتایا کہ جی پی ایس کا جام ہونا برطانوی فوج کے لیے یوکرین جیسے تنازعات والے علاقوں میں مشکلات کا باعث بن رہا ہے۔ حکومت کے ڈیفنس، سائنس اینڈ ٹیکنالوجی لیبارٹری (ڈی ایس ٹی ایل) کے سائنسدانوں کو درپیش اہم چیلنجوں میں سے ایک حساس ٹیکنالوجی کو نہ صرف بحریہ کی طرف سے دور دراز سمندروں میں بلکہ حقیقی دنیا میں متعارف کرانا ہے۔ ان چیلنجز میں سے ایک اس ٹیکنالوجی کو میدان جنگ جیسے سخت ترین ماحول میں بھی کارآمد بنانا ہے۔

ان کے مطابق ہم ایٹموں کو اس مقاصد کے لیے بروئے کار لا رہے ہیں۔

آپ کو وائبریشن، دباؤ اور درجہ حرارت میں تبدیلیوں کا سامنا رہتا ہے اور آپ کو ایسی صورتحال کا سامنا ہے جس میں یہ تمام مختلف عوامل ساتھ ساتھ آگے بڑھ رہے ہوتے ہیں۔ اور پھرآپ کو روشنی سے بھی نمٹنا ہوتا ہے۔ لہٰذا اس معاملے کا قابل عمل حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔

ہماری جیب میں ایٹمی گھڑیاں

اس ٹیکنالوجی پر کام کرنے والوں میں سے کچھ کا حتمی مقصد یہی ہے کہ ہم میں سے ہر ایک کے پاس فون میں اپنا جی پی ایس سسٹم ہو۔

اس میں ایک چھوٹی آپٹیکل گھڑی اور بہت ہی چھوٹا سا جائروسکوپ شامل ہے جس سے ہمیں پتا چل سکے کہ ہم کس سمت جا رہے ہیں اور ایکسیلرومیٹر سے ہمیں معلوم ہوگا کہ ہم کتنی رفتار سے آگے بڑھ رہے ہیں۔

برطانیہ کا کیو ای پی این ٹی جیسا ادارہ بنانے کا مقصد ہی یہی ہے کہ ان بڑے آلات اور ٹیکنالوجی کو ’چِپ‘ جیسی چھوٹی ٹیکنالوجی میں بدلا جا سکے تاکہ یہ روزمرہ کے استعمال میں آجائے اور اس کی قیمت ہر کسی کی پہنچ میں بھی ہو۔

اگرچہ یہ سارا عمل کوئی جلد ہونے والا نہیں ہے۔ پروفیسر پال کے مطابق برطانوی اداروں میں اس نظام کو ہر جگہ اپنا کام دکھانے کے لیے کئی دہائیاں لگ جائیں گی۔

کوانٹم کلاک پر کام کرنے والے محققین کو بالکل اسی طرح کے مسائل کا سامنا ہے، جو اٹھارویں صدی میں جان ہیریسن کو درپیش تھے جب وہ ایک چھوٹی میرین گھڑی تیار کر رہے تھے۔ جان ہیریسن کو ایک ایسی گھڑی بنانی تھی جس پر درجہ حرارت کی تبدیلی، دباؤ یا نمی اثر انداز نہ ہو سکے۔ اور یہ گھڑی ایک چلتے ہوئے بحری جہاز پر بھی نہرکے اور وقت کا پہیہ آگے گھماتی رہی۔ جان ہیریسن کے سامنے سب سے بڑی مشکل یہ تھی کہ اس گھڑی کو چھوٹے سائز میں کیسے تیار کیا جائے۔

ان کی یہ مشکل ہی اس مسئلے کے حل بن گئی۔ انھوں نے دیکھا کہ وہ اپنی گھڑی کو جتنا چھوٹا کرتے وہ سمدنری سفر میں اتنی ہی مضبوط ثابت ہوتی ہے۔ ڈی ایس ٹی ایل کے ایک اور سائنسدان کے مطابق جان ہیریسن نے یہ دریافت کر لیا تھا کہ ان چھوٹی گھڑیوں کو بیرونی اثرات سے محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔

تین صدیاں پہلے والی ایجاد کو لیا جائے تو اس سے یہ پتا چلتا ہے کہ جتنا ہم ان آلات کو چھوٹا کریں گے تو پھر ان کے گرد درپیش ماحول کو کنٹرول کرنا اتنا ہی آسان ہو جائے گا اور انھیں وائبریشن، ٹمپریچر، پریشر اور نمی سے محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔

اٹھارویں صدی کے معروف سائنسدان جن میں سر آئزک نیوٹن بھی شامل ہیں کی یہ سوچ تھی کہ چھوٹی میرین گھڑیوں کے ساتھ نیویگیشن ناممکن ہے۔ تاہم ایک سادہ گھڑی ساز اور کارپینٹر جان ہیریسن نے اپنے بہت خاص اور معروف ساتھیوں کو غلط ثابت کیا۔

پروٹوٹائپ کی چھوٹی آپٹیکل گھڑیوں کو پہلے میدان جنگ اور پھر اس کے بعد عام زندگی میں متعارف کرانا ایک چیلنج ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا جو سائنسدان اس حوالے سے تحقیق کر رہے ہیں وہ اس مقصد میں جلد کامیاب ہو جائیں گے؟

ایک دن آئے گا کہ ان گھڑیوں کو ہم اپنی جیب میں لے کر گھوم رہے ہوں گے۔ مگر ابھی فوری ضرورت اس بات کی ہے کہ انھیں ان جگہوں پر لے کر جایا جائے جہاں ہم محفوظ طریقے سے ہوائی سفر کر سکیں۔ تاکہ ہوائی جہازوں میں جی پی ایس اور اہم ترین کمپیوٹر نظام میں خلل کے بڑھتے واقعات کا تدارک کیا جا سکے۔

یہ امید کی جا سکتی ہے کہ ٹائم لارڈز اور کوانٹم کے شعبے کے سائنسدان گھڑی کی ایجاد کو مزید آگے بڑھائیں گے، جس سے پھر وقت کا درست تعین کیا جا سکے گا اور برطانیہ کے انتہائی اہم سسٹم کو جی پی ایس جیسے حملوں سے محفوظ بنایا جا سکے گا۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.