یوں تو جاوید اختر کے متنازع بیانات اور ان پر انڈیا اور پاکستان دونوں میں شدید ردِ عمل نئی بات نہیں لیکن حال ہی میں دونوں ملکوں کے درمیان ایک مختصر جنگ کے بعد ان کے بیان نے شاید سوشل میڈیا صارفین کے جذبات کے لیے جلتی پر تیل کا کام کیا۔

’اگر یہی آخری صورت ہو کہ مجھے جنہم میں جانا ہے یا پاکستان میں تو میں نرکھ (جہنم) میں جانا پسند کروں گا۔‘ یہ وہ جملہ ہے جس نے انڈیا کے مشہور مصنف و نغمہ نگار جاوید اختر کو سوشل میڈیا صارفین کی طنز و ملامت کا مرکز بنا رکھا ہے۔
یوں تو جاوید اختر کے متنازع بیانات اور ان پر انڈیا اور پاکستان دونوں میں شدید ردِ عمل نئی بات نہیں لیکن حال ہی میں دونوں ملکوں کے درمیان ایک مختصر جنگ کے بعد ان کے اس بیان نے شاید سوشل میڈیا صارفین کے جذبات کے لیے جلتی پر تیل کا کام کیا۔
سوشل میڈیا پر جاوید اختر کے تازہ وائرل کلپ میں انھیں یہ کہتے سنا جا سکتا ہے کہ انڈیا اور پاکستان دونوں ممالک کے لوگ انھیں برا بھلا کہتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اس طرف (پاکستان) کے لوگ مجھے کافر کہتے ہیں اور کہتے ہیں جہنم میں جاؤ گے اور اس طرف (انڈیا) کے لوگ مجھے دہشتگرد کہتے ہیں اور کہتے ہیں پاکستان چلے جاؤ۔‘
اس کے بعد انھوں نے وہ کہا جس کی وجہ سے وہ شدید تنقید کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ انھوں نے آخری آپشن کے طور پر جہنم کو پاکستان پر ترجیح دی۔
شبانہ اعظمی نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ وہ مسلمان ہونے کی وجہ سے ممبئی میں فلیٹ نہیں خرید سکتیں سوشل میڈیا صارفین ناراض
جاوید اختر کے اس بیان پر پاکستان صارفین کا غصہ گویا ساتویں آسمان پر تھا اور انھوں نے جاوید اختر کو غصے میں یہی کہا کہ ’آپ نے بہترین انتخاب کیا۔‘
فرزانہ نامی صارف کا کہنا تھا ’جاوید اختر اس طرح مظلوم انسان کا کردار کیسے ادا کر سکتے ہیں کہ دونوں طرف کے لوگ مجھے گالیاں دیتے ہیں۔‘
انھوں نے ایک تصویر پوسٹ کی جو جاوید اختر کے دورہِ پاکستان کی تھی اور پاکستانی فنکار اور مداح انھیں گھیرے ہوئے ہیں۔
فرزانہ نے لکھا کہ ’یہاں ان کی ایک تصویر ہے جس میں وہ جہنم سے بھی بدتر جگہ پر لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ آپ کے دل میں جتنا زہر ہے جہنم آپ کو پہلے منتخب کرے گی۔‘
ایک پاکستان صارف زمر نے لکھا کہ ’جاوید اختر کو وہاں جانا چاہیے جہاں جانے کی انھیں خواہش ہے۔ انھیں پاکستان جیسی جنت میں آنے کا کوئی حق نہیں۔‘
کچھ پاکستانی تو اتنے ناراض ہیں کہ وہ چاہتے ہیں کہ جاوید اختر کے پاکستان آنے پر ہی پابندی لگ جائے۔ ایسی ہی ایک صارف ثمینہ قاسم کا کہنا تھا کہ ’میری ارباب اختیار، عسکری قیادت اورپاکستانی قوم سے گزارش ہے کہ اس شخص کو کبھی پاکستان میں گھسنے نہ دیا جائے۔ یہ پاکستان سے نفرت کرنے والے شخص ہیں۔ ان کی شاعری پر بھی پاکستان میں پابندی عائد کر دینی چاہیے۔‘
شجاعت علی نامی صارف کا کہنا تھا کہ ’آپ نے سچ کہا آپ بلاواسطہ طور پر انڈیا کی جانب اشارہ کر رہے ہیں کیونکہ آپ شاعر ہیں۔‘
ایک صارف نے شبانہ اعظمی کا ایک پرانا انٹرویو کلپ شیئر کیا جس میں ان سے پوچھا گیا کہ انھوں نے ایسا کیوں کہا کہ ’انڈیا ایک سیکولر سٹیٹ نہیں‘ تو اس پر شبانہ اعظمی جواب دیتی ہیں کہ ’میں ممبئی میں ایک فلیٹ خریدنا چاہتی تھی اور یہ مجھے نہیں دیا گیا کیونکہ میں مسلمان ہوں۔‘
اسی کلپ کے ساتھ فہیم احمد نامی صارف نے لکھا کہ مسلمان ہونے کی وجہ سے جاوید اختر اور شبانہ اعظمی ایک اپارٹمنٹ نہیں خرید سکے۔ جاوید اختر کو جہنم میں رہنے کی عادت ہے۔ اس لیے حیرت کی بات نہیں اگر وہ اب جہنم میں ہی رہنے کا انتخاب کرتے ہیں۔‘
کچھ لوگ اس بات پر ناراض ہیں کہ انڈیا کے فنکار پاکستان سے متعلق متنازع بیانات دیتے ہیں لیکن انھیں ہمیشہ پاکستان میں عزت دی جاتی ہے۔
ماضی کی مثالوں کے پیشِ نظر شبنم نامی صارف کا کہنا تھا کہ ’ایسے لوگ مزید نفرتیں پیدا کرتے ہیں لیکن بدقسمتی سے جب ایسے لوگ پاکستان آتے تو پھولوں کے ہار نچھاور کیے جاتے۔‘
احمد علی بٹ سمیت کچھ پاکستانی فنکاروں سمیت بیشتر صارفین کے تبصرے اس قدر ناراضی سے بھرے ہیں کہ ان کے الفاظ قابلِ اشاعت نہیں۔
تاہم اداکارہ اور میزبان مشی خان سمیت کچھ لوگ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ جاوید اختر کے پاکستان آنے پر آؤ بھگت کرنے والے لوگوں کو بھی ’ان کے ساتھ بھیج دینا چاہیے۔‘
باسط سبحانی نامی صحافی نے لکھا کہ ’دانشور اس وقت اپنا وقار کھو بیٹھتے ہیں جب وہ ان سیاست دانوں کی طرح بات کرنا شروع کر دیتے ہیں جنھیں اپنے ووٹ بینک قائم رکھنے کے لیے نفرت انگیز بیانات دینے پڑتے ہیں۔ جاوید اختر صاحب آپ نے اپنے معیار سے گری بات کہہ کر کیا حاصل کیا؟‘

جاوید اختر کے ماضی کے متنازع بیانات
جاوید اختر کے بیانات اور پھر ان پر کی جانے والی تنقید نئی بات نہیں۔ ہر تھوڑے عرصے بعد ان کا کوئی بیان کسی نئے تنازع کی وجہ بن جاتا ہے۔
انڈین چینلز اور تقریبات میں ان کے بیانات کے بارے میں تبصرے تو ہوتے ہی رہتے ہیں لیکن سنہ 2023 میں جاوید اختر پاکستان آئے تو ایک تقریب میں ان کا ممبئی حملوں سے متعلق بیان بھی اچھی خاصی تنقید کا باعث بنا۔
جاوید اختر نے کہا تھا کہ 'ہم بمبئی کے لوگ ہیں ہم نے دیکھا ہمارے شہر پر کیسے حملہ ہوا تھا، وہ لوگ ناروے سے تو نہیں آئے تھے، نہ مصر سے آئے تھے۔۔۔ وہ لوگ ابھی بھی آپ کے ملک میں گھوم رہے ہیں۔ تو یہ شکایت ہندوستانیوں کے دل میں ہو تو آپ کو بُرا نہیں ماننا چاہیے۔'
لاہور میں منعقدہ فیض فیسٹول میں ایک خاتون نے جاوید اختر سے سوال کیا تھا کہ آپ کئی بار پاکستان آ چکے ہیں اور آپ دیکھ چکے ہیں کہ پاکستان بہت دوستانہ، مثبت سوچ رکھنے اور محبت والا ملک ہے لیکن انڈیا میں ہمارا تصور اتنا اچھا نہیں۔
اس پر جاوید اختر نے کہا کہ ’آپ جو کہہ رہیں ہیں اس میں بہت سچائی ہے اور یہ بہت دکھ کی بات ہے کہ لاہور اور امرتسر کے درمیان 30 کلومیٹر کا فاصلہ ہے اور اس کے باوجود ان دونوں شہروں اور ملکوں کے لوگوں میں ایک دوسرے کے بارے میں جو لاعلمی ہے وہ حیرت انگیز ہے۔ یہ مت سوچیں کہ آپ انڈیا کے بارے میں سب کچھ جانتے ہیں یا میں یہ نہیں کہوں گا کہ میں پاکستان کے بارے میں سب کچھ جانتا ہوں۔ یہ لاعلمی دونوں طرف ہے۔‘
اس وقت بھی بہت صارفین کا خیال تھا کہ اس پلیٹ فارم کو اس نوعیت کی گفتگو کے لیے استعمال نہیں کرنا چاہیے تھا۔
اس سے پہلے سنہ 2022 میں بھی جاوید اختر کا ایک بیان انڈیا میں تنازع کا باعث بنا۔ انھوں نے اپنی ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں وزیرِ اعظم نریندر مودی پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’انھوں نے صدر سے ملاقات کے دوران اس ’غیر واضع‘ خطرے کا تو ذکر کیا جو انھیں چند روز قبل خود لاحق ہوا تھا لیکن انھوں نے اس وقت ایک لفظ بھی نہیں کہا جب انڈیا کے 20 کروڑ مسلمانوں کو ختم کرنے کی کھلے عام دھمکی دی جا رہی تھی۔‘
اس سے پہلے 2021 میں بھی شدت پسندی کے حوالے سے ان کا ایک بیان تنازع کا باعث بنا تھا۔ اس وقت انھوں نے ہر مذہب میں شدت پسندی کی موجودگی پر اظہارِ خیال کیا تھا۔
انھوں نے کہا تھا کہ ’جس طرح طالبان ایک اسلامی ریاست چاہتے ہیں، اُسی طرح ایسے لوگ بھی ہیں جو ہندو راشٹر چاہتے ہیں۔ یہ تمام لوگ ایک ہی نظریے سے تعلق رکھتے ہیں، چاہے وہ مسلمان ہوں، عیسائی ہوں، یہودی یا ہندو۔‘
فنکار انڈیا پاکستان کشیدگی کی لیپٹ میں
انڈیا پاکستان کی کشیدگی ہو تو دونوں ملکوں کی فوجیں، سیاست دان اور عوام تو اس میں بالواسطہ یا بلاواسطہ شامل ہوتے ہی ہیں لیکن بظاہر امن اور تفریح کا باعث بننے والے فنکار بھی اس سے دور نہیں رہ سکتے۔
پاکستان اور انڈیا کی جانب سے نہ صرف فلموں، ڈراموں کی ایک دوسرے کے ملک میں نشر و اشاعت روک دی جاتی ہے بلکہ اب سوشل میڈیا کے دور میں کئی فنکاروں کے اکاؤنٹس بھی بلاک کر دیے جاتے ہیں۔
مجموعی طور پر فنکاروں کا خیال ہے کہ انٹرٹینمنٹ انڈسٹری کو سیاسی و عسکری تنازعات کا شکار نہیں ہونا چاہیے تاہم انڈیا اور پاکستان کے درمیان جنگی صورتحال میں گئی بلکہ فنکار بھی خود کو اظہار خیال سے نہ روک پائے۔
پہلے تو انڈیا میں پاکستانی اداکاروں کی فلموں کی نمائش روک دی گئی بلکہ پاکستانی انٹرٹینمنٹ چینلز اور اداکاروں کے اکاؤنٹس بھی بلاک کیے گئے۔
فواد خان کی فلم ’عبیر گلال‘ کی ہیروئین وانی کپور کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے بھی فلم کی پروموشن سے متعلق تمام مواد ڈیلیٹ کر دیا گیا۔ پاکستانی اداکارہ ماورا حسین کی فلم ’صنم تیری قسم‘ کے ہیرو ہرشوردھن نے فلم کے سکیوئیل میں اداکارہ کے ساتھ کام کرنے سے انکار کر دیا۔
فنکار ایسے تنازعات سے کیسے دور رہ سکتے ہیں؟اس بارے میں پاکستان میں میڈیا تجزیہ کار آمنہ عیسانی کا کہنا تھا ’جہاں تک جاوید اختر کا تعلق ہے وہ ہمیشہ سے پاکستان کے بارے میں نفرت انگیز بیانات دیتے رہے ہیں۔ ماضی میں پاکستان میں ہونے والی تقریبات اور دبئی میں ریختہ کی محفلوں میں وہ پاکستان مخالف تلخ باتیں کہتے رہے ہیں۔ اس لیے ان کی جانب سے ایسا بیان حیران کن نہیں تھا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان اور انڈیا کے درمیان حالیہ کشیدگی میں فنکاروں کا خود کو اس سے الگ رکھنا مشکل ہو گیا۔‘
’آج سے 20 یا 25 سال پہلے فنکار اپنے فن تک محدود تھے چاہے وہ فلم ہو، ٹی وی یا موسیقی لیکن اب ان کی ایک سوشل میڈیا فالوونگ ہے جہاں لوگ چاہتے ہیں کہ وہ مخصوص معاملات پر اپنا اظہارِ خیال کریں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’سوشل میڈیا کی نہ کوئی حد ہے اور نہ سرحد اور فنکار بھی عموماً اپنی رائے دیتے رہتے ہیں‘ تاہم آمنہ عیسانی کا کہنا تھا کہ حالیہ کشیدگی میں پاکستانی فنکاروں اور عوام نے قدرے ذمہ دارانہ رویہ اختیار کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’دروازے کھلے رکھنے چاہیے۔ اتنی گنجائش رکھنی چاہیے کے جب حالات ٹھیک ہوں تو کوئی آپ کے ساتھ بیٹھ کر بات کر سکے اور میرے خیال میں جاوید اختر نے اپنے لیے وہ گنجائش ختم کر دی۔‘