✕
Poetry
Famous Poets
Allama Iqbal
Ahmed Faraz
Amjad Islam Amjad
Wasi Shah
Parveen Shakir
More Poets
Poetry Categories
Love Poetry
Sad Poetry
Friendship Poetry
Islamic Poetry
Punjabi Poetry
More Categories
Poetry SMS
Poetry Images
Tags
Poetry Videos
Featured Poets
Post your Poetry
News
Business
Mobile
Articles
Islam
Names
Health
Shop
More
WOMEN
AUTOS
ENews
Recipes
Poetries
Results
Videos
Directory
Photos
Business & Finance
Education News
Add Poetry
Home
LOVE POETRY
SAD POETRY
FAMOUS POETS
POETRY IMAGES
POETRY VIDEOS
NEWS
ARTICLES
MORE ON POETRY
Home
Urdu Poetry
Most Recent Poetries
Search
Add Poetry
Latest Poetry
Most Viewed
Best Rated
ہر ظلم ترا یاد ہے بھولا تو نہیں ہوں
ہر ظلم ترا یاد ہے بھولا تو نہیں ہوں
اے وعدہ فراموش میں تجھ سا تو نہیں ہوں
اے وقت مٹانا مجھے آسان نہیں ہے
انساں ہوں کوئی نقش کف پا تو نہیں ہوں
چپ چاپ سہی مصلحتاً وقت کے ہاتھوں
مجبور سہی وقت سے ہارا تو نہیں ہوں
یہ دن تو مجھے ان کے تغافل نے دکھائے
میں گردش دوراں ترا مارا تو نہیں ہوں
ان کے لیے لڑ جاؤں گا تقدیر میں تجھ سے
حالانکہ کبھی تجھ سے میں الجھا تو نہیں ہوں
ساحل پہ کھڑے ہو تمہیں کیا غم چلے جانا
میں ڈوب رہا ہوں ابھی ڈوبا تو نہیں ہوں
کیوں شور بپا ہے ذرا دیکھو تو نکل کر
میں اس کی گلی سے ابھی گزرا تو نہیں ہوں
مضطرؔ مجھے کیوں دیکھتا رہتا ہے زمانہ
دیوانہ سہی ان کا تماشا تو نہیں ہوں
جنید
Copy
چبھے جب دل میں خار عشق پھر کمتر نکلتے ہیں
چبھے جب دل میں خار عشق پھر کمتر نکلتے ہیں
نکلتے ہیں اگر تو جان ہی لے کر نکلتے ہیں
ترے ناوک جو سینے میں کبھی چبھ کر نکلتے ہیں
تو بن کر خون ارمان دل مضطر نکلتے ہیں
کدھر کا قصد ہے کس کا مقدر آج جاگا ہے
طلب ہوتا ہے شانہ آئینہ زیور نکلتے ہیں
تمہارا تیر رستہ روک کر سینے میں بیٹھا ہے
جو نالے بھی نکلتے ہیں تو رک رک کر نکلتے ہیں
وہ کہتے ہیں اجل ہوتی ہے جس کی ہم پہ مرتا ہے
قضا آتی ہے جب چیونٹی کی اس کے پر نکلتے ہیں
حسینوں کو جو دیکھو شکل کیسی بھولی ہوتی ہے
ٹٹولو دل اگر ان کے تو وہ پتھر نکلتے ہیں
لگا دی گرمئ الفت نے کیسی آگ سینے میں
کہ آنکھوں سے جو آنسو کی جگہ اخگر نکلتے ہیں
کوئی دیکھے ذرا آفاقؔ کی اس وقت کیفیت
کبھی حضرت جو صہبائے سخن پی کر نکلتے ہیں
جنید
Copy
چاند تارے بنا کے کاغذ پر
چاند تارے بنا کے کاغذ پر
خوش ہوئے گھر سجا کے کاغذ پر
بستیاں کیوں تلاش کرتے ہیں
لوگ جنگل اگا کے کاغذ پر
جانے کیا ہم سے کہہ گیا موسم
خشک پتا گرا کے کاغذ پر
ہنستے ہنستے مٹا دیے اس نے
شہر کتنے بسا کے کاغذ پر
ہم نے چاہا کہ ہم بھی اڑ جائیں
ایک چڑیا اڑا کے کاغذ پر
لوگ ساحل تلاش کرتے ہیں
ایک دریا بہا کے کاغذ پر
ناؤ سورج کی دھوپ کا دریا
تھم گئے کیسے آ کے کاغذ پر
خواب بھی خواب ہو گئے عادلؔ
شکل و صورت دکھا کے کاغذ پر
ذیشان
Copy
جو بن سنور کے وہ اک ماہ رو نکلتا ہے
جو بن سنور کے وہ اک ماہ رو نکلتا ہے
تو ہر زبان سے بس اللہ ہو نکلتا ہے
حلال رزق کا مطلب کسان سے پوچھو
پسینہ بن کے بدن سے لہو نکلتا ہے
زمین اور مقدر کی ایک ہے فطرت
کہ جو بھی بویا وہی ہو بہو نکلتا ہے
یہ چاند رات ہی دیدار کا وسیلہ ہے
بروز عید ہی وہ خوبرو نکلتا ہے
ترے بغیر گلستاں کو کیا ہوا عادلؔ
جو گل نکلتا ہے بے رنگ و بو نکلتا ہے
حمزہ
Copy
اسے تم سے محبت ہے غلط فہمی میں مت رہنا
اسے تم سے محبت ہے غلط فہمی میں مت رہنا
یہ بس دل کی شرارت ہے غلط فہمی میں مت رہنا
تمہی کو دیکھ کر وہ مسکراتا ہے تو حیرت کیا
اسے ہنسنے کی عادت ہے غلط فہمی میں مت رہنا
ہوئے برباد تو اب آہ و زاری کر رہے ہو تم
کہا بھی تھا سیاست ہے غلط فہمی میں مت رہنا
میں تجھ کو چاہتا ہوں بات یہ سچ ہے مگر پھر بھی
مجھے تیری ضرورت ہے غلط فہمی میں مت رہنا ہی
جھکی نظروں سے تکنا اور خموشی سے گزر جانا
محبت کی روایت ہے غلط فہمی میں مت رہنا
کیا کرتا ہوں راہیؔ اس کی تعریفیں سبب یہ ہے
وہ مجھ سے خوب صورت ہے غلط فہمی میں مت رہنا
آیان
Copy
ہم کہیں بھی ہوں مگر یہ چھٹیاں رہ جائیں گی
ہم کہیں بھی ہوں مگر یہ چھٹیاں رہ جائیں گی
پھول سب لے جائیں گے پر پتیاں رہ جائیں گی
کام کرنا ہو جو کر لو آج کی تاریخ میں
آنکھ نم ہو جائے گی پھر سسکیاں رہ جائیں گی
اس نئے قانون کا منظر یہی دکھتا ہے اب
پاؤں کٹ جائیں گے لیکن بیڑیاں رہ جائیں گی
صرف لفظوں کو نہیں انداز بھی اچھا رکھو
اس جگت میں صرف میٹھی بولیاں رہ جائیں گی
کیوں بناتے ہو سیاست کو تم اپنا ہم سفر
سب چلے جائیں گے لیکن کرسیاں رہ جائیں گی
تم کو بھی آدرش پر آدرشؔ چلنا ہے یہاں
ورنہ اس دلدل میں دھنستیں پیڑھیاں رہ جائیں گی
عمران
Copy
سفر میں ایسے کئی مرحلے بھی آتے ہیں
سفر میں ایسے کئی مرحلے بھی آتے ہیں
ہر ایک موڑ پہ کچھ لوگ چھوٹ جاتے ہیں
یہ جان کر بھی کہ پتھر ہر ایک ہاتھ میں ہے
جیالے لوگ ہیں شیشوں کے گھر بناتے ہیں
جو رہنے والے ہیں لوگ ان کو گھر نہیں دیتے
جو رہنے والا نہیں اس کے گھر بناتے ہیں
جنہیں یہ فکر نہیں سر رہے رہے نہ رہے
وہ سچ ہی کہتے ہیں جب بولنے پہ آتے ہیں
کبھی جو بات کہی تھی ترے تعلق سے
اب اس کے بھی کئی مطلب نکالے جاتے ہیں
حذیفہ
Copy
وصل کا موسم ہو تو یہ سردیاں ہی ٹھیک ہیں
وصل کا موسم ہو تو یہ سردیاں ہی ٹھیک ہیں
ہجر میں قربت کی یہ پرچھائیاں ہی ٹھیک ہیں
کیا بتاؤں میں کہ تم نے کس کو سونپی ہے حیا
اس لئے سوچا مری خاموشیاں ہی ٹھیک ہیں
عشق سے بیزار دل یہ چیخ کر کہنے لگا
عشق چھوڑو عاشقوں تنہائیاں ہی ٹھیک ہیں
اس قدر ہم ہو چکے رسوا وفا کے نام پر
اب شرافت چھوڑ دی بد نامیاں ہی ٹھیک ہیں
آپ نے چاہا جدائی سو الگ ہم ہو گئے
کیا کہیں اب آپ کی یہ مرضیاں ہی ٹھیک ہیں
ہو نہ پائے جب مکمل عشق کا قصہ تو پھر
شہرتیں رہنے دو اب گمنامیاں ہی ٹھیک ہیں
اس سے پہلے ہم جدا ہوں کچھ بھرم باقی رہے
درمیاں اب تلخ سی یہ دوریاں ہی ٹھیک ہیں
بجھ چکا جو کیوں وہ سلگاؤں محبت کا الاؤ
اب تلک جھیلی جفا کی سختیاں ہی ٹھیک ہیں
ہے فسانہ عشق کا ڈوبا ہے ساحل اشک میں
میرے مضموں کا یہ عنواں تلخیاں ہی ٹھیک ہیں
ریحان
Copy
کاش یہ درد فقط ہمارا ہو
دل ہو، درد ہو، تمھارا ذکر ہو
چپ کی دیوار میں بھی اِک صدا سا ہو
کتنے لمحے بکھر گئے ہم میں
کاش ہر پل تمھارا نقشِ پا سا ہو
کیا تمہیں بھی خلش سی رہتی ہے؟
کاش یہ درد صرف اِک جُفا سا ہو
تم تو ہر رنگ میں نمایاں ہو
پھر یہ اندھیرا کیوں نہ آشنا سا ہو؟
اب کسی نام کا سہارا کیا؟
جب وفا بھی فقط تماشا سا ہو
M Hanan
Copy
مُجھے عشق ہو خدا کرے
مُجھے عشق ہو خدا کرے
ہوؤں خدا سب سے پَرے
مُجھے عشق ہو خدا کرے
جگتی آنکھیں یقتبس ترَے
مجھے عشق ہو خدا کرے
مثالِ بلال رحمت رہے
مجھے عشق ہو خدا کرے
غلام ترا رب وفا کرے
مجھے عشق ہو خدا کرے
میں جہاں نگر کہا کرے
Zishan Haider Shani
Copy
کوئی راز اپنے غَموں کا مَت ہمیں بے سَبَب کبھی کہہ نہ دے
کوئی راز اپنے غَموں کا مَت ہمیں بے سَبَب کبھی کہہ نہ دے
ہمیں دَردِ دِل کی سزا تو دے، مگر اپنے لَب کبھی کہہ نہ دے۔
یہ چراغِ اَشک ہے دوستو، اِسے شوق سے نہ بُجھا دینا،
یہی ایک ہمدمِ بے وفا، ہمیں بے خبر کبھی کہہ نہ دے۔
مجھے زَخم دے، مجھے رَنج دے، یہ گلہ نہیں مرے چارہ گر،
مگر اپنے فیض کی ایک گھڑی مرا مُستقل کبھی کہہ نہ دے۔
مرے عَزم میں ہے وہ اِستقامت کہ شرر بھی اپنا اَثر نہ دے،
مجھے ڈر فقط ہے نسیم سے کہ وہ خاکِ چمن کبھی کہہ نہ دے۔
وہ جو بیٹھے ہیں لبِ جام پر، وہ جو مَست ہیں مرے حال پر،
انہی بزم والوں سے ڈر ہے مظہرؔ کہ وہ میرا نشاں کبھی کہہ نہ دے۔
مجھے توڑنے کی ہوس نہ ہو، مجھے آزمانے کی ضِد نہ ہو،
مجھے قرب دَشت کا شوق ہے، کوئی کارواں کبھی کہہ نہ دے۔
یہ جو صَبر ہے یہ وَقار ہے، یہ وَقار میرا نہ لُوٹ لینا،
مجھے زَخم دے کے زمانہ پھر مجھے بے اَماں کبھی کہہ نہ دے۔
مرے حوصلے کی ہے اِنتہا کہ زمانہ جُھک کے سَلام دے،
مگر اے نگاہِ کرم سنَبھل، مجھے سَرکشی کبھی کہہ نہ دے۔
جو چراغ ہوں مرے آستاں، جو اُجالہ ہو مرے نام کا،
کسی بَدزبان کی سازشیں اُسے ناگہاں کبھی کہہ نہ دے۔
یہی عَرض مظہرؔ کی ہے فقط کہ وَفا کی آنچ سَلامت ہو،
کوئی دِلرُبا مرے شہر میں مجھے بے وَفا کبھی کہہ نہ دے۔
MAZHAR IQBAL GONDAL
Copy
تُمہاری یاد میں دِل کا نِظام کس کا تھا
تُمہاری یاد میں دِل کا نِظام کس کا تھا؟
یہ اِضطراب، یہ شوقِ دَوام کس کا تھا؟
جو بے نَقاب ہوا خواب میں، بتایا نہیں،
یہ حُسن، یہ نگہِ خوش کَلام کس کا تھا؟
سَکوتِ شَب میں جو دِل کو جَلا گیا آخر،
چَراغ کون تھا، شُعلۂ خام کس کا تھا؟
تُمہارے بعد جو تَنہائی کا سَفر گُزرا،
ہر ایک موڑ پہ سایہ، سَلام کس کا تھا؟
جو لَب ہِلے نہ کبھی، اَشک بَن کے بَہتا رہا،
وہ غَم تُمہارا تھا یا میرا نام کس کا تھا؟
جو زَخم دے کے بھی چُپ تھا، وہ شَخص کیسا تھا؟
نہ پُوچھ مجھ سے، وُہی اِنتقام کس کا تھا؟
دھُواں تھا دِل میں، مَگر روشنی سی باقی تھی،
جَلا جو خواب، وُہی احتشام کس کا تھا؟
جو زِندگی کو بِکھرنے سے روک لیتا تھا،
وہ حَرف، وہ دُعا، وہ کَلام کس کا تھا؟
سُنے بغیر جو خاموش ہو گیا مظہرؔ،
وہ آخری سا دِل آشوب جام کس کا تھا؟
نَظر میں عَکس رہا، دِل میں چُپ سا طُوفاں تھا،
یہ بے قَراری، یہ وَجد و قیام کس کا تھا؟
جو دَستِ غیر سے خط بھی ملا تو حَیرت تھی،
بِکھرتے حَرف میں وہ اِحترام کس کا تھا؟
کہیں سے آئی صَدا، اور سَب لَرز سے گئے،
یہ کَیف، یہ اَثر، یہ پَیام کس کا تھا؟
تُمہیں جو کہتے ہیں مظہرؔ وَفا سے دُور ہوا،
بَتاؤ ان کو، وُہی تو غُلام کس کا تھا؟
MAZHAR IQBAL GONDAL
Copy
شورِ ہجراں کی کوئی ساعَت اگر روشن نہیں ہوتی
شورِ ہجراں کی کوئی ساعَت اگر روشن نہیں ہوتی
اَشک آنکھوں میں رہیں لیکن نَظر روشن نہیں ہوتی۔
دِل کو تَسکینِ تَمنا بھی تو حاصِل کب ہوئی مظہرؔ
چاہ ہو جتنی بھی گہری، مُعتبر روشن نہیں ہوتی۔
جِس طرف دیکھو، اَندھیرا سا بَسا ہوتا ہے دِل میں،
دَرد کی بَستیوں کی کوئی دیوار روشن نہیں ہوتی۔
یاد کی شَمعیں جلاتے ہیں، مگر وہ لُو بُجھاتی،
زِندگی کی دھُوپ میں یہ شُعلہ گر روشن نہیں ہوتی۔
سَچ تو یہ ہے خواب بھی اَب ہم سے روٹھے روٹھے ہیں،
نیند آتی ہے مگر وہ چشمِ تَر روشن نہیں ہوتی۔
تم نہیں ہو، ہم نہیں ہیں، اور نہ وہ لَمحے رَہے،
وَرنہ یوں ہر بات کی اَیسی خَبر روشن نہیں ہوتی۔
دوستی، اُلفَت، مُحبت سَب سَزا کے نام سے،
دِل پہ جو گُزری وہ کِسی دَفتَر روشن نہیں ہوتی۔
مظہرؔ اَب ہر شخص جیسے آئنے سے ڈَر گیا،
کاش سَچ کہنے کی بھی کوئی ہُنر روشن نہیں ہوتی۔
MAZHAR IQBAL GONDAL
Copy
بَرگِ آوارہ ہوں، سینے سے لگا لے مجھ کو
بَرگِ آوارہ ہوں، سینے سے لگا لے مجھ کو
میری بِکھری ہوئی ہَستی میں سجا لے مجھ کو۔
یہ زمانہ مجھے ہر موڑ پہ ٹھوکر دے گا،
اے مُحبت! تُو کہیں جا کے بَچا لے مجھ کو۔
ہر صَدا بَن کے صَداکار بھَٹکتا ہوں میں،
کبھی خاموش مُحبت سے دِکھا لے مجھ کو۔
کبھی مَحسوس کیا تُو نے مِرے دَرد کی دھُن؟
آکر دَرد کے سُر میں کبھی گا لے مجھ کو۔
کیا پَتا اور کہاں جاؤں میں دُنیا سے اَلگ،
کوئی رَستہ نہ ملے تو تُو بُلا لے مجھ کو۔
میرے دامن میں فقط زَخم ہی زادِ سفر،
تُو اگر چاہے تو ہنستے ہوۓ چھُپا لے مجھ کو۔
مجھ کو مظہرؔ کبھی خوشبو سا بِکھر جانا ہے،
پھُول کی طرح تُو ہاتھوں میں تَھما لے مجھ کو۔
MAZHAR IQBAL GONDAL
Copy
پہلے محبت پھر روگ اور اب بیماری بن گئی ہے
پہلے محبت پھر روگ اور اب بیماری بن گئی ہے
دل کی خوشی چھن گئی اور آنکھوں میں خاری بن گئی ہے۔
یادوں کے طوفاں چلے اور نیندیں بھی ساری بن گئی ہے،
غم کی وہ زنجیر جس کو توڑی تھی، بھاری بن گئی ہے۔
جس کو سمجھتے تھے راحتوں کی سواری بن گئی ہے،
زندگی سچ کہہ رہی، محض ایک مجبوری بن گئی ہے۔
ہر دن نئی اِک کسک دل میں بیداری بن گئی ہے،
سانسوں کی ڈوری بھی اب تو اِک مجبوری بن گئی ہے۔
خوابوں کا عالم بھی اب محض بیقراری بن گئی ہے،
چاہت تھی جو روشنی، اب تو تاریکی بن گئی ہے۔
کل جو تھا دلکش بہت، آج وہ بیزاری بن گئی ہے،
رنگوں کی دنیا بھی مظہرؔ سنساری بن گئی ہے۔
لمحے جو تھے خوشنما، اب تو عیاری بن گئی ہے،
حالات کی موج ہر پل اِک دشواری بن گئی ہے۔
یادوں کا طوفان اب دل پہ سرکاری بن گئی ہے،
پہلے جو راحت تھی وہ زخمِ کاری بن گئی ہے۔
مظہرؔ جو کل تک دل میں تھی ایک چنگاری بن گئی ہے،
اب تو محبت ہر سمت کی بازار داری بن گئی ہے۔
MAZHAR IQBAL GONDAL
Copy
بے وفائی کا یوں صلہ دیں گے
بے وفائی کا یوں صلہ دیں گے
دل کو تیری نظر لُٹا دیں گے
جس کو چاہا تھا اپنی دنیا میں
ہم وہی درد اب لگا دیں گے
خود سُنے گا زمانہ قصّہ اپنا
غم کی محفل میں یہ سُنا دیں گے
خاک ہونے کا کب گِلہ ہم کو
اپنے ارمان سب جلا دیں گے
وقت کی گرد میں چھپا ہر زخم
پھر کسی دن تمہیں چُبھا دیں گے
زندگی کا ہر اِک فسانہ ہم
دھوپ میں اپنے نام مِٹا دیں گے
میرے مظہرؔ نہ پوچھ دردِ دل
جو کمایا ہے سب اُڑا دیں گے
MAZHAR IQBAL GONDAL
Copy
برسا ت کا د ن
عجب دلکش موسم برسات کا دن ہے
تو جو ہو تو عجب شاداب کا دن ہے
روش دل کی ٹلے خوشی کے موسم میں
موسم بارش عجب سوغات کا دن ہے
جدائی میں کیسے خوشی کے جملے ہوں
صورت ہو تیری واہ نغمات کا دن ہے
موسم ہے چاہوں کا قربت میں تیری تو
تو لوٹ آ کہ یہ تو جذ با ت کا د ن ہے
تو تو ہے خا کؔ طیبؔ کی محبت دل
میری چا ہو ں کی تو بارات کا دن ہے
MUHAMMAD TAYYAB AWAIS KHAKH
Copy
تعلقات
کاش تعلقات وضاحت کے محتاج نہ ہوتے
بلکہ احساس خود بولتا کہ کون کتنا اپنا ہے!!
Rana Khurram
Copy
جد ا ئی
ملے بھی نہ جدا ہو وہ کیسے مجھ سے
دوری میں بے وفا ہو وہ کیسے مجھ سے
وہ پر رونق تھا بھاگیا نین میرے کو بس
سما کے پھر فنا ہو وہ کیسے مجھ سے
عجب لمحہ تھا یا ر اں وہ فنا کر گیا
بتا تو باوفا ہو وہ کیسے مجھ سے
یہ دل گم ہے وہ کیا تھا یہ خبر نہ کچھ
یہ دل گم کیوں ملا ہو وہ کیسے مجھ سے
اچانک اس کو دیکھا نظر پھر موڑ ی
جھلک اک سے فدا ہو وہ کیسے مجھ سے
کرے پیش خاک طیب کیسے خواہش کو
نہ ہے ، ا س کی نو ا ہو وہ کیسے مجھ سے
MUHAMMAD TAYYAB AWAIS KHAKH
Copy
کچھ ان کی اداوں کا طلبگار بہت تھا
کچھ ان کی اداوں کا طبگار بہت تھا
کچھ اپنے آنسوؤں سے مجھے پیار بہت تھا
سوچا تھا پا لیں گے اسے ایک نہ ایک دن
پہلے سی ہی محبت پہ اعتبار بہت تھا
منزل کیسے نصیب ہو تیرے پیار کی
راستہ جو تیرے گھر کا پراسرار بہت تھا
اس نے کچھ اس انداز میں اظہار کیا تھا
اقرار کم اقرار میں انکار بہت تھا
مسعود کو فقط پیار میں رسوائیاں ملیں
شاہد کہ محبت کا گناہگار بہت تھا
Mohammed Masood
Copy
Load More