✕
Poetry
Famous Poets
Allama Iqbal
Ahmed Faraz
Amjad Islam Amjad
Wasi Shah
Parveen Shakir
More Poets
Poetry Categories
Love Poetry
Sad Poetry
Friendship Poetry
Islamic Poetry
Punjabi Poetry
More Categories
Poetry SMS
Poetry Images
Tags
Poetry Videos
Featured Poets
Post your Poetry
News
Business
Mobile
Articles
Islam
Names
Health
Shop
More
WOMEN
AUTOS
ENews
Recipes
Poetries
Results
Videos
Directory
Photos
Business & Finance
Education News
Add Poetry
Home
LOVE POETRY
SAD POETRY
FAMOUS POETS
POETRY IMAGES
POETRY VIDEOS
NEWS
ARTICLES
MORE ON POETRY
Home
Urdu Poetry
Most Recent Poetries
Search
Add Poetry
Latest Poetry
Most Viewed
Best Rated
دولت تو وراثت میں ملتی ہے
دولت تو وراثت میں ملتی ہے
لیکن پہچان اپنے دم پر بنانی پڑتی ہیں
زرش
Copy
عجیب سی عادت اور غضب کی فطرت ہے میری
عجیب سی عادت اور غضب کی فطرت ہے میری
نفرت ہو یا محبت بڑی شدت سے کرتا ہوں
سجاول
Copy
میرے نام سے نفرت کرنے والے
میرے نام سے نفرت کرنے والے
اب میرے ہم نام ڈھونڈ رہے ہیں
عثمان
Copy
ہم جیسا بننے کی کوشش چھوڑ دو
ہم جیسا بننے کی کوشش چھوڑ دو
شیر پیدا ہوتے ہیں بنائے نہیں جاتے
ریحان
Copy
شب حیات میں قندیل آرزو ترا غم
شب حیات میں قندیل آرزو ترا غم
سکوت جاں میں فروزاں صدائے ہو ترا غم
رم نفس میں مچلتی ہوئی صدا ترا نام
رگ گلو میں سلگتا ہوا لہو ترا غم
حریم ذات میں روشن چراغ کے مانند
ریاض شوق میں نخل سبک نمو ترا غم
مرے شعور کے زنداں میں اک دریچۂ نور
مرے وجود کے صحرا میں آب جو ترا غم
لگن کوئی بھی ہو عنوان جستجو ترا حسن
سخن کسی سے ہو موضوع گفتگو ترا غم
سرور و کیف کی سب محفلوں میں دیکھ لیا
کہیں شراب ترا غم کہیں سبو ترا غم
خیال و فکر کے سب مکتبوں میں پوچھ لیا
متاع دانش و تحقیق و جستجو ترا غم
سماع و سوز کی سب مجلسوں میں ڈھونڈ لیا
مآل ذکر و مناجات و ہا و ہو ترا غم
حرم میں حرز دل و جان قدسیاں ترا نام
صنم کدے میں برہمن کی آرزو ترا غم
سکون قلب جو سوچا تو سربسر تری یاد
نشاط زیست کو دیکھا تو ہو بہو ترا غم
غم جہاں غم جاناں غم دگر غم خویش
جہان غم میں ہر اک غم کی آبرو ترا غم
ہر ایک رنج سے گزرے ہر اک خوشی سے گئے
لئے پھرا جنہیں اک عمر کو بکو ترا غم
رہی نہ کوئی بھی حسرت کہ رکھ دیا میں نے
ہر ایک جذبہ دلکش کے روبرو ترا غم
شریف
Copy
نیند آ گئی تھی منزل عرفاں سے گزر کے
نیند آ گئی تھی منزل عرفاں سے گزر کے
چونکے ہیں ہم اب سرحد عصیاں سے گزر کے
آنکھوں میں لیے جلوۂ نیرنگ تماشا
آئی ہے خزاں جشن بہاراں سے گزر کے
یادوں کے جواں قافلے آتے ہی رہیں گے
سرما کے اسی برگ پرافشاں سے گزر کے
کانٹوں کو بھی اب باد صبا چھیڑ رہی ہے
پھولوں کے حسیں چاک گریباں سے گزر کے
وحشت کی نئی راہ گزر ڈھونڈھ رہے ہیں
ہم اہل جنوں دشت و بیاباں سے گزر کے
بن جائے گا تارا کسی مایوس خلا میں
یہ اشک سحر گوشۂ داماں سے گزر کے
آوارگی فکر کدھر لے کے چلی ہے
سر منزل آزادئ انساں سے گزر کے
پائی ہے نگاہوں نے تری بزم تمنا
راتوں کو چناروں کے چراغاں سے گزر کے
اک گردش چشم کرم اک موج نظارہ
کل شب کو ملی گردش دوراں سے گزر کے
ملنے کو تو مل جائے مگر لے گا بھلا کون
ساحل کا سکوں شورش طوفاں سے گزر کے
اک نشتر غم اور سہی اے غم منزل
آ دیکھ تو اک روز رگ جاں سے گزر کے
اب درد میں وہ کیفیت درد نہیں ہے
آیا ہوں جو اس بزم گل افشاں سے گزر کے
شاہین
Copy
تیری زلفوں کے پیچ و خم کی قسم
تیری زلفوں کے پیچ و خم کی قسم
چین سے ہیں تیرے ستم کی قسم
جس نے دیکھیں سو دل گنوا بیٹھا
تیری آنکھیں وہ جام جم کی قسم
ہم تو دیکھا کیے تھے حسرت سے
سرخیٔ لب کو چشم نم کی قسم
لڑکھڑانا ہے ان کی فطرت میں
کون کھائے تیرے قدم کی قسم
جانے کب پی تھی پر نشہ نہ گیا
میرے ساقی تیرے کرم کی قسم
بت گئے بت کدہ ہے ویرانہ
دل ہے باقی ابھی حرم کی قسم
ہو مبارک تمہیں یہ بزم تراب
ہم بھی خوش ہیں جہان غم کی قسم
شیراز
Copy
خوشی نے مجھ کو ٹھکرایا ہے درد و غم نے پالا ہے
خوشی نے مجھ کو ٹھکرایا ہے درد و غم نے پالا ہے
گلوں نے بے رخی کی ہے تو کانٹوں نے سنبھالا ہے
محبت میں خیال ساحل و منزل ہے نادانی
جو ان راہوں میں لٹ جائے وہی تقدیر والا ہے
جہاں بھر کو متاع لالہ و گل بخشنے والو
ہمارے دل کا کانٹا بھی کبھی تم نے نکالا ہے
کناروں سے مجھے اے ناخداؤ دور ہی رکھنا
وہاں لے کر چلو طوفاں جہاں سے اٹھنے والا ہے
چراغاں کر کے دل بہلا رہے ہو کیا جہاں والو
اندھیرا لاکھ روشن ہو اجالا پھر اجالا ہے
نشیمن ہی کے لٹ جانے کا غم ہوتا تو غم کیا تھا
یہاں تو بیچنے والوں نے گلشن بیچ ڈالا ہے
عدیل
Copy
زندہ رہنے کی یہ ترکیب نکالی میں نے
زندہ رہنے کی یہ ترکیب نکالی میں نے
اپنے ہونے کی خبر سب سے چھپا لی میں نے
جب زمیں ریت کی مانند سرکتی پائی
آسماں تھام لیا جان بچا لی میں نے
اپنے سورج کی تمازت کا بھرم رکھنے کو
نرم چھاؤں میں کڑی دھوپ ملا لی میں نے
مرحلہ کوئی جدائی کا جو درپیش ہوا
تو تبسم کی ردا غم کو اوڑھا لی میں نے
ایک لمحے کو تری سمت سے اٹھا بادل
اور بارش کی سی امید لگا لی میں نے
بعد مدت مجھے نیند آئی بڑے چین کی نیند
خاک جب اوڑھ لی جب خاک بچھا لی میں نے
جو علیناؔ نے سر عرش دعا بھیجی تھی
اس کی تاثیر یہیں فرش پہ پا لی میں نے
ساحر
Copy
میں نقش ہائے خون وفا چھوڑ جاؤں گا
میں نقش ہائے خون وفا چھوڑ جاؤں گا
یعنی کہ راز رنگ حنا چھوڑ جاؤں گا
تو آنے والے کل کے لئے کیوں ہے فکر مند
تیرے لئے میں اپنی دعا چھوڑ جاؤں گا
تیرے خلاف کوئی نہ کھولے کبھی زباں
تیری نگاہ میں وہ نشہ چھوڑ جاؤں گا
آ جائیے گا شوق سے بے بے چین جب ہو دل
دروازہ اپنے گھر کا کھلا چھوڑ جاؤں گا
رخسار و لب کی تیری نہ کم ہوں گی رونقیں
میں ہر غزل میں ذکر ترا چھوڑ جاؤں گا
آئینے دے سکیں گے نہ تجھ کو کبھی فریب
تیری جبیں پہ تیرا پتہ چھوڑ جاؤں گا
اک خاص چیز چھوڑوں گا سب کے لئے علیمؔ
پہلے سے کیوں بتاؤں کہ کیا چھوڑ جاؤں گا
شان
Copy
گھر جل رہا تھا سب کے لبوں پر دھواں سا تھا
گھر جل رہا تھا سب کے لبوں پر دھواں سا تھا
کس کس پہ کیا ہوا تھا غضب بولنے نہ پائے
مصباح
Copy
خود نمائی کے سلیقے ابھی کم آتے ہیں
خود نمائی کے سلیقے ابھی کم آتے ہیں
آئینا ہاتھ سے رکھ دیجیے ہم آتے ہیں
انصاری
Copy
اک رنج بہ پیرایۂ زر کیوں نہیں جاتا
اک رنج بہ پیرایۂ زر کیوں نہیں جاتا
کشکول ہوس ہے تو یہ بھر کیوں نہیں جاتا
وہ آئنہ رو ہے تو مرا روپ دکھائے
میں اس کے مقابل ہوں سنور کیوں نہیں جاتا
دریا کا تلاطم تو بہت دن کی کتھا ہے
لیکن مرے اندر کا بھنور کیوں نہیں جاتا
کہتے ہو کہ ہو اسوۂ شبیر پہ قائم
دربار میں کیوں جاتے ہو سر کیوں نہیں جاتا
جب روح سے کہتے ہو کہ لبیک حسینا
پھر جی سے یزیدوں کا یہ ڈر کیوں نہیں جاتا
تم صاحب معنیٰ ہو تو تمثال پہ مت جاؤ
الزام کبھی آئنے پر کیوں نہیں جاتا
لو شام گئی رات ہے کابوس ہے میں ہوں
میں صبح کا بھولا ہوں تو گھر کیوں نہیں جاتا
ہر سنگ دعا مجھ کو لگا پھول سے بڑھ کر
جب اتنی دعائیں ہیں تو مر کیوں نہیں جاتا
اخترؔ تری گفتار فسوں کار میں کیا ہے
جو بھی ادھر آتا ہے ادھر کیوں نہیں جاتا
ولی
Copy
اس کے نزدیک غم ترک وفا کچھ بھی نہیں
اس کے نزدیک غم ترک وفا کچھ بھی نہیں
مطمئن ایسا ہے وہ جیسے ہوا کچھ بھی نہیں
اب تو ہاتھوں سے لکیریں بھی مٹی جاتی ہیں
اس کو کھو کر تو مرے پاس رہا کچھ بھی نہیں
چار دن رہ گئے میلے میں مگر اب کے بھی
اس نے آنے کے لیے خط میں لکھا کچھ بھی نہیں
کل بچھڑنا ہے تو پھر عہد وفا سوچ کے باندھ
ابھی آغاز محبت ہے گیا کچھ بھی نہیں
میں تو اس واسطے چپ ہوں کہ تماشا نہ بنے
تو سمجھتا ہے مجھے تجھ سے گلا کچھ بھی نہیں
اے شمارؔ آنکھیں اسی طرح بچھائے رکھنا
جانے کس وقت وہ آ جائے پتا کچھ بھی نہیں
سلیمان
Copy
زندگی کیا ہوئے وہ اپنے زمانے والے
زندگی کیا ہوئے وہ اپنے زمانے والے
یاد آتے ہیں بہت دل کو دکھانے والے
راستے چپ ہیں نسیم سحری بھی چپ ہے
جانے کس سمت گئے ٹھوکریں کھانے والے
اجنبی بن کے نہ مل عمر گریزاں ہم سے
تھے کبھی ہم بھی ترے ناز اٹھانے والے
آ کہ میں دیکھ لوں کھویا ہوا چہرہ اپنا
مجھ سے چھپ کر مری تصویر بنانے والے
ہم تو اک دن نہ جیے اپنی خوشی سے اے دل
اور ہوں گے ترے احسان اٹھانے والے
دل سے اٹھتے ہوئے شعلوں کو کہاں لے جائیں
اپنے ہر زخم کو پہلو میں چھپانے والے
نکہت صبح چمن بھول نہ جانا کہ تجھے
تھے ہمیں نیند سے ہر روز جگانے والے
ہنس کے اب دیکھتے ہیں چاک گریباں میرا
اپنے آنسو مرے دامن میں چھپانے والے
کس سے پوچھوں یہ سیہ رات کٹے گی کس دن
سو گئے جا کے کہاں خواب دکھانے والے
ہر قدم دور ہوئی جاتی ہے منزل ہم سے
راہ گم کردہ ہیں خود راہ دکھانے والے
اب جو روتے ہیں مرے حال زبوں پر اخترؔ
کل یہی تھے مجھے ہنس ہنس کے رلانے والے
عبادات
Copy
کس کو کہتے ہیں جفا کیا ہے وفا یاد نہیں
کس کو کہتے ہیں جفا کیا ہے وفا یاد نہیں
اے محبت مجھے کچھ تیرے سوا یاد نہیں
دیکھیے ہوتی ہے کس طرح شب غم کی سحر
اب تو اے درد جگر کوئی دعا یاد نہیں
ہو گئی ختم رہ و رسم محبت شاید
میں وفا بھول گیا ان کو جفا یاد نہیں
یوں بھی کر سکتے ہو برباد محبت پہ کرم
ہم نے مانا کہ تمہیں عہد وفا یاد نہیں
دل دیوانہ پہ الزام لگانے والے
جس نے دیوانہ بنایا وہ ادا یاد نہیں
جس سے اخترؔ ہو مرے درد محبت کا علاج
کیا مسیحا نفسوں کو وہ دوا یاد نہیں
فالق
Copy
ہجر اک حسن ہے اس حسن میں رہنا اچھا
ہجر اک حسن ہے اس حسن میں رہنا اچھا
چشم بے خواب کو خوں ناب کا گہنا اچھا
کوئی تشبیہ کا خورشید نہ تلمیح کا چاند
سر قرطاس لگا حرف برہنہ اچھا
پار اترنے میں بھی اک صورت غرقابی ہے
کشتئ خواب رہ موج پہ بہنا اچھا
یوں نشیمن نہیں ہر روز اٹھائے جاتے
اسی گلشن میں اسی ڈال پہ رہنا اچھا
بے دلی شرط وفا ٹھہری ہے معیار تو دیکھ
میں برا اور مرا رنج نہ سہنا اچھا
دھوپ اس حسن کی یک لحظہ میسر تو ہوئی
پھر نہ تا عمر لگا سائے میں رہنا اچھا
دل جہاں بات کرے دل ہی جہاں بات سنے
کار دشوار ہے اس طرز میں کہنا اچھا
فہیم
Copy
تجھ سے ملنے کی آرزو ہے بہت
تجھ سے ملنے کی آرزو ہے بہت
اس لئے تیری جستجو ہے بہت
زندگی کے نگار خانے میں
ایک میں اور ایک تو ہے بہت
ناصح محترم خدا حافظ
آج اتنی ہی گفتگو ہے بہت
گردش وقت تجھ سے لڑنے کو
ان رگوں میں ابھی لہو ہے بہت
ساری دنیا کی بیٹیاں سن لیں
اس غریبی میں آبرو ہے بہت
زارون
Copy
نفرتوں سے چہرہ چہرہ گرد تھا
نفرتوں سے چہرہ چہرہ گرد تھا
مجرم انسانیت ہر فرد تھا
کچھ ہواؤں میں بھی تھا خوف و ہراس
کچھ فضاؤں کا بھی چہرہ زرد تھا
بے حسی میں دفن تھی انسانیت
آدمیت کا بھی لہجہ سرد تھا
اپنے کاندھوں پر اٹھائے اپنا بوجھ
کوئی آوارہ کوئی شب گرد تھا
پھول سے چہرے تھے مرجھائے ہوئے
شہر گل بھی آج شہر درد تھا
جس نے دنیا بھر کے غم اپنائے تھے
اس کو دنیا نے کہا بے درد تھا
سچ تو اخترؔ یہ ہے اس ماحول میں
میرا دشمن ہی مرا ہمدرد تھا
توحید
Copy
میں تیری یاد میں گم ہوں سو میں ہوں تو ہو کر
میں تیری یاد میں گم ہوں سو میں ہوں تو ہو کر
کہ جیسے پھول میں رہتا ہوں اس کی بو ہو کر
پھر آ جا اور یہ تصویر لے کے جا اپنی
تو خود کو چھوڑ گیا میرے رو بہ رو ہو کر
یہ دل تو روز نشیمن سجا کے رکھتا ہے
مری طرف سے گزر تو بھی تو کبھو ہو کر
گلاب سن تو گل اندام آ رہا ہوگا
دکھا دے سامنے اس کے بھی سرخ رو ہو کر
تو چاہتا ہے تو سینہ یوں چیر اخترؔ کا
کہ چیرنے کو تجھے پھر ملے رفو ہو کر
عارب
Copy
Load More