آرام و سکون سے زندگی بسر کرنا ہر انسان کی فطری خواہش
ہے۔ اس خواہش کی تکمیل کے لئے انسان پوری زندگی مصروفِ عمل رہتا ہے۔ اس کی
کوشش ہوتی ہے کہ اسے کوئی بھی ناگوار بات پیش نہ آئے۔ کوئی دکھ یا تکلیف اس
کی ذات کو نہ پہنچے۔گویا جیتے جی دنیامیں جنت کے خواب دیکھتا ہے جہاں ابدی
آرام و سکون نصیب ہوگا۔جہاں غم کا نشان تک نہ ہوگا۔جہاں کوئی کسی کو اذیت
نہیں پہنچائے گا ۔ لیکن دنیا میں ایسی زندگی کا خواب شرمندۂ تعبیر ہونا
ممکن نہیں۔کیونکہ دنیا رنج و راحت کا مجموعہ ہے۔یہاں ہر ایک کو لازماََ
خوشی اور غم سے سابقہ پیش آتا ہے۔
لیکن اگر انسان شریعتِ مطہرہ کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو تو پھر اس کی زندگی
عافیت سے بسر ہوتی ہے۔شریعتِ مقدسہ کی زریں تعلیمات میں سے ایک اہم تعلیم
حسنِ معاشرت ہے جسے آج مسلمانوں نے عملی طور پر اپنی زندگیوں سے نکال دیا
ہے۔ اسی کا شاخسانہ ہے کہ آج ہمارے معاشرے میں ہر شخص دوسرے سے دست و
گریباں نظر آتا ہے۔اتحاد و اتفاق کی فضا ڈھونڈے سے نظر نہیں آتی۔ہر فرد
دوسرے سے شاکی دکھائی دیتا ہے۔ معاشرت کی خرابی کی بنا پر تکدر و انقباض کا
ماحول چھایا ہوا ہے۔
بخاری شریف کی روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے نہایت جامع انداز میں ارشاد
فرمایا: مسلمان(کامل) تو وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمانوں کو
تکلیف نہ پہنچے۔ اس حدیثِ مبارکہ میں مسلمان کی پہچان یہ بتائی گئی ہے کہ
اس کی ذات تمام مسلمانوں کے لئے امن و سلامتی کا باعث ہوتی ہے اور وہ اپنے
کسی قول یا فعل سے دوسروں کو ایذارسانی کا باعث نہیں بنتا۔اس خصوصیت کے
حصول کی آسان تدبیر ایک دوسری حدیثِ مبارکہ میں بتلا دی گئی ہے جس کا مفہوم
یہ ہے کہ مسلمان اپنے دوسرے بھائی کے لئے وہی چیز پسند کرے جو خود اپنی ذات
کے لئے پسند کرتا ہے۔یہ لازمی امر ہے کہ انسان اپنی ذات کے لئے ہمیشہ بہتر
اور عمدہ حالت کا انتخاب کرتا ہے۔ تکلیف پہنچانے والے اقوال و اعمال سے
اپنی حفاظت کرتا ہے۔ لہٰذا اگر وہ یہی حالت اپنے دوسرے مسلمان بھائی کے لئے
اختیار کرلے کہ اپنی کسی حرکت سے اسے تکلیف نہ پہنچائے تو اس کی ذات سے
خودبخود دوسرے مسلمان تکلیف اٹھانے سے محفوظ ہوجائیں گے۔
نبی کریم ﷺ نے اپنے عمل سے اس بات کی امت کو ترغیب دی ہے۔سننِ نسائی میں
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے کہ ایک بار شبِ برأت میں حضورِ
اکرم ﷺ بستر سے آہستہ سے اٹھے اور اس خیال سے کہ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا
محوِ خواب ہوں گی، وہ بے چین نہ ہوں آہستہ نعلِ مبارک لئے، آہستہ سے دروازے
کے کواڑ کھولے، آہستگی سے باہر تشریف لائے اور آہستہ سے کواڑ بند کئے۔اس
حدیث میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں سونے والے کی کتنی رعایت ہے
کہ ایسی آواز پیدا نہ ہو جس سے سونے والا جاگ جائے۔مسلم شریف میں حضرت
مقداد بن اسود رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ ہم رسول اﷲ ﷺ کے مہمان تھے اور آپ
ہی کے یہاں مقیم تھے۔بعد عشاء اگر ہم سونے کے لئے لیٹ رہتے اور حضور ﷺ دیر
میں تشریف لاتے تو چونکہ مہمانوں کے سونے اور جاگنے دونوں کا احتمال ہوتا
تھا، اس لئے سلام تو کرتے تھے کہ شاید جاگتے ہوں اور ایساآہستہ سلام کرتے
کہ اگر جاگتے ہوں تو سن لیں اور اگر سوتے ہوں تو آنکھ نہ کھلے۔
ابو داؤد شریف کی روایت میں آتا ہے کہ عیادت میں مریض کے پاس زیادہ نہ
بیٹھے، تھوڑا بیٹھ کر جلد ہی اٹھ کھڑا ہو۔ اس حدیث میں اس بات کی کس قدر
دقیق رعایت ہے کہ عیادت کرنے والے کی کوئی حرکت مریض کے لئے گرانی کا باعث
نہ بنے کیونکہ بعض اوقات کسی کے بیٹھنے سے مریض کو کروٹ بدلنے میں، پاؤں
پھیلانے میں اور بات چیت کرنے میں ایک گونہ تکلف ہوتا ہے۔لیکن جس شخص کے
بیٹھنے سے مریض کو راحت ہو وہ اس اصول سے مستثنیٰ ہے۔
حضرت عبداﷲ ابن مبارکؒ کا شمار محدثین، فقہاء اور صوفیاء کے اعلیٰ طبقوں
میں ہوتا ہے۔ ایک مرتبہ وہ بیمار ہوگئے۔بیماری کے دوران عیادت کرنے والوں
کا تانتا بندھا ہوا تھا۔اس اثناء میں ایک صاحب ایسے آئے جو جم کر وہیں بیٹھ
گئے اور واپس جانے کا نام ہی نہ لیتے تھے۔ حضرت عبداﷲ ابن مبارکؒ کی خواہش
تھی کہ یہ صاحب واپس چلے جائیں تو میں اپنے ضروری کام بلا تکلف انجام دوں
اور گھر والوں کو اپنے پاس بلاؤں۔ مگر وہ صاحب ادھر ادھر کی باتوں میں لگے
رہے۔ جب بہت دیر گزر گئی تو اس شخص نے حضرت عبداﷲ ابن مبارکؒ سے کہا کہ اگر
آپ اجازت دیں تو میں دروازے کو بند کردوں تاکہ کوئی عیادت کرنے نہ آئے اور
آپ کو آرام ملے۔ اس پر حضرت عبداﷲ ابن مبارکؒ نے اس سے فرمایا کہ ہاں:
دروازہ تو بند کردو، مگر باہر جاکر بند کرو۔ اس واقعہ سے مذکورہ بالا حدیث
کی اہمیت واضح ہوتی ہے کہ شریعت میں عیادتِ مریض کے آداب کا کتنا خیال رکھا
گیا ہے۔
اسی طرح ترمذی شریف کی روایت میں ہے کہ ایسے دو افراد کے درمیان (جو قصداََ
پاس بیٹھے ہوں)بغیر ان کی اجازت کے جا کر بیٹھنا حلال نہیں ہے ۔اس سے صاف
ظاہر ہے کہ کوئی ایسی بات کرنا جس سے دوسروں کو تکلیف پہنچے جائز نہیں
ہے۔ابوداؤد شریف کی روایت میں آتا ہے کہ جب حضورِ اکرم ﷺ کو چھینک آتی تو
اپنا منہ ہاتھ یا کپڑے سے ڈھانپ لیتے اور آواز کو پست فرماتے۔اس سے پتہ چلا
کہ اپنے پاس بیٹھنے والے کی اتنی رعایت کرے کہ اس کو سخت آواز سے اذیت اور
وحشت نہ ہو۔
ایک بار حضرت جابر رضی اﷲ عنہ حضورِ اقدس ﷺ کے درِ دولت پر حاضر ہوئے اور
دروازے پر دستک دی۔ آپ نے پوچھا کون ہے ؟ انھوں نے عرض کیا کہ میں ہوں۔ آپ
ﷺ نے ناگواری سے فرمایا کہ میں ہوں ، میں ہوں( کیا کہتے ہو، اپنا نام بتاؤ)
اس سے یہ بات علم میں آئی کہ انسان کو بات صاف کہنی چاہیے جس کو مخاطب سمجھ
سکے۔ایسی ادھوری نامکمل بات کہنا جس کے سمجھنے میں تکلیف ہو، دوسرے کو
الجھن میں ڈالنا ہے۔
ایک دفعہ نبی کریم ﷺ کے سامنے دو عورتوں کا ذکر کیا گیا جن میں سے ایک نماز
و روزہ کثرت سے کیا کرتی تھی(یعنی نوافل کا اہتمام کیونکہ کثرت اسی میں ہو
سکتی ہے) مگر اپنے ہمسایوں کو تکلیف پہنچاتی تھی۔ دوسری زیادہ نماز روزہ تو
نہ کرتی تھی ( یعنی صرف ضروریات پر اکتفا کرتی تھی) مگر ہمسایوں کو ایذا نہ
دیتی تھی۔ آپ ﷺ نے پہلے عورت کو دوزخی اور دوسری کو جنتی عورت قرار دیا۔
مذکورہ بالا احادیثِ مبارکہ پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک مسلمان کی
زندگی اس طرح بسر ہونی چاہیے کہ اس کے کسی بھی قول یا فعل سے دوسرے کو
تکلیف نہ پہنچے۔ اگر انسان کسی کو فائدہ نہیں پہنچا سکتا ہو تو کم از کم
اسے اس بات کا اہتمام کرنا چاہیے کہ اس کی ذات سے کسی کو تکلیف نہ پہنچے۔
اگر ہر مسلمان اس پر عمل کرے تو جلد ہی ہمارا معاشرہ جنت کا گہوارہ بن جائے
گا۔ اس حقیقت کو ایک شاعر نے اس انداز میں تعبیر کیا ہے
تمام عمر اسی احتیاط میں گذری
کہ آشیانہ کسی شاخِ گل پہ بار نہ ہو |