میرے ذہن میں اکثر یہ خیال آتا ہے کہ دنیا بھر میں خالق
کائنات کی سب سے خوبصورت تخلیق کیا ہے؟
ویسے تو ہر چیز، ہر نعمت، ہر ذائقہ، ہر منظر لا جواب ہے، ہم اپنے رب کی کس
کس نعمت کا شکربجا لائیں ، ہر روز صبح کے آغاز میں میرے ذہن میں سورہ رحمان
کی آیت فبائ الاء ربکما تکذبان کی تکرار ہوتی ہے. میں مبہوت ہو کر سوچتی
ہوں کہ شکر کا حق کیسے بجا لایا جائے. تو سوچ متحیر ہو جاتی ہے.
ایک روز اسی سوچ کے بہنور میں غوطہ زن تہی کہ وجدان نے کہا کہ ....
دنیا میں رب کی سب سے خوبصورت تخلیق "عورت " ہے- یہ ماں بھی ہے ،بیوی بھی
ہے، بہن بھی، بیٹی بھی اور انگنت رشتوں کا نام ہے. اللہ سبحانہ تعالٰی نے
اسے بیٹی کے روپ میں جنت کا ذریعہ بنایا ہے، مرد بیٹے کے روپ میں سب سے
پہلے جس ہستی کی گود میں آنکھ کھولتا ہے وہ ماں کی گود ہی ہے، بچے کا سب سے
پہلا احساس اس کی ماں کی کوکہہ ہے.
ماں جائ ماں کا ہی دوسرا روپ ہے ،ماں کا سایہ بہن ہوتی ہے.
ہر بیٹا اپنی ماں اور بہن کے لیے چھاوءں جیسا ہوتا ہے، ایک چادر جیسا ہوتا
ہے. مگر ایک سوال اکثر مجھے پریشان کرتا ہے، کسی گلی محلے کی تکرار میں یہ
چہاوءں، خاردار باڑ میں کیسے تبدیل ہوجاتی ہے؟
کیسے ماں بہن کی گالیاں کسی دوسرے کو بلا جھجھک دے دی جاتی ہیں ؟
میں نے بعض لوگوں کو مذاق برائے مذاق میں گالیاں بکتے سنا ہے.
بعض لوگ صرف اس لیے گالیاں ماں بہن کی بکتے ہیں تاکہ وہ اپنی غنڈا گردی کی
دھاک بٹہا سکیں. سوال یہ اٹھتا ہے کہ ہر بار ان گالیوں کا
مرکزی کردار عورت ہی کیوں؟
آپ خود کسی کی چادر ہیں مگر کسی اورکی چادر کو تار تار کرنے میں چوکتے نہیں.
کیا اپنی ماں بہن کی عزت کرنے والے کی نظر میں دوسرے کی ماں بہن کی کوئی
عزت نہیں ہے؟
میں نے آج تک کسی کو باپ یابھائی کی گالیاں دیتے نہیں سنا. کیا ہم مسلمان
کہلانے کے روادار بھی ہیں؟
جو قرآن گالی گلوچ، برے القابات، اور دل آزاری سے منع کرتا ہے، جو کہتا ہے
کہ رحمان کے بندے بن جاوء. اس کے پیروکار .... کیا یہ کام کرتے ہوئے ہم
مسلمان جچتے ہیں؟
ہمارے اس بیمار معاشرے میں کیا ماں اور بہن کی یہی حیثیت ہے؟
اگر آپ کی ماں بہنیں، اللہ کی نعمت ہیں تو للہ دوسرے لوگوں کی ماں بہنیں
بھی آپ کی ماں بہنوں کی طرح آپ کے احترام کی حق دار ہیں.
یہ انتہائی افسوسناک امر ہے کہ چہوٹے چھوٹے سے اختلافی مسائل پر آپ کسی کو
ماں بہن کی گالیاں دینے لگیں . میں کہتی ہوں ،بات بڑی بہی ہو تب بھی عزت
دار عورتوں کی عصمت یوں نہ اچہالیں. اپنی ماں اور بہن کے چہرے یاد کر لیا
کریں، جب بہی زبان بغاوت کا سوچے. خود بخود سارا غصہ جہاگ ہو جائے گا.
سوچئے گا ضرور. |