گرین شرٹس نے دنیا کے معروف میدانوں کرکٹ کے کھیل میں
کارہائے نمایاں انجام دینے کے بعداب سطح آب پر بھی کامیابی کا آغاز کردیا
ہے ۔جھیل کی سطح آب پر کرکٹ کھیلنا ناقابل یقین بات لگتی ہے لیکن فروری کے
مہینے میں قومی ٹیم کے سابق لیجنڈ کھلاڑی ، شاہد آفریدی کی قیادت
میںپاکستان کے دو کرکٹرز سمیت، عالمی کھلاڑیوں پر مشتمل ٹیم نے جھیل کے
منجمدپانی پربھی کرکٹ کھیلی۔ کرکٹ کے کھیل کی مذکورہ طرز برف پر کھیلی جاتی
ہے جسے ’’آئس کرکٹ‘‘ کا نام دیا گیا ہے لیکن شاہد آفریدی جن کی قیادت میں
قومی ٹیم نت نئے ریکارڈ قائم کرتی رہی ہے، دنیا کے شہرت یافتہ کرکٹرز کے
ساتھ کھیل کی اس جہت میں بھی جیت کا ریکارڈ قائم کیا ہے۔ پاکستانی عوام کے
لیے ’’آئس کرکٹ‘‘ ایک نیا کھیل ہے لیکن تین پاکستانی کرکٹرز سوئٹزرلینڈ کے
برفانی میدان میں اپنے کھیل سے شائقین کرکٹ کے دل موہ لے چکے ہیں اور آئس
کرکٹ کا عالمی ٹورنامنٹ ریڈیائی لہروں کے ذریعے دنیا بھر میں دیکھا گیا ۔
گزشتہ سال دسمبر کے آخر میں سوئٹزر لینڈ کی ’’وی جے اسپورٹس‘‘ نے بین
الاقوامی کھلاڑیوں پر مشتمل دو ٹیمیں تشکیل دی تھیں۔ ’’بیڈرٹس پیلس ڈائمنڈ
‘‘ جس میں بھارتی کرکٹر محمد کیف، اجیت اگرکار، رمیش پوار، مٹھن منہاس،
آسڑیلین کھلاڑی مائیکل ہسی، اینڈریو سائمنڈز، سری لنکا کے مہیلا جے
وردھنے، تلکارے دلشان، لیستھ ملنگا اور سوئٹزر لینڈ کے روحان جین شامل تھے۔
دوسری ٹیم رائلز کے کپتان، شاہد آفریدی تھے۔ مذکورہ ٹیم میں جنوبی افریقہ
کے جیکس کیلس، گریم اسمتھ، نیوزی لینڈ کے ڈینئل ویٹوری، گرانٹ ایلیٹ، ناتھن
میک کولم، برطانیہ سے اویس شاہ، مونٹی پیسر، میٹ پرائر ،جب کہ پاکستان سے
کپتان شاہد آفریدی، شعیب اختر، عبدالرزاق کے علاوہ ایک سوئس کرکٹر ایڈن
اینڈ ریوز بھی شامل تھے۔دونوں ٹیموں کے کپتان اپنے ازلی حریف کو شکست دینے
کے عزم کے ساتھ برف زار میں اترے۔مذکورہ عالمی ٹورنامنٹ دو ٹی 20 میچوں پر
مشتمل تھا اور دونوں میچوں میں ٹیم رائلز نے فتح حاصل کرکے سیریز جیت لی۔
اس میچ میں ٹیم رائلز کے بلے باز جیک کیلس نے دھواں دار بیٹنگ کا ریکارڈ
قائم کرکے 90 رنز بنائےجب کہ برطانوی کھلاڑی اویس شاہ نے بھی شاندار کھیل
پیش کیا۔ انہیں سیریز کے بہترین کھلاڑی جب کہ جیک کیلس کو مین آف دی میچ
کا ایوارڈ دیا گیا۔اس ٹورنامنٹ کا انعقاد دی جے اسپورٹس اور سوئس کرکٹ
ایسوسی ایشن نے کیا تھا جس کی منظوری انٹرنیشنل کرکٹ کونسل سے لی گئی تھی۔
اسی سلسلے کا پہلا میچ 8فروری 2018 کو سینٹ مورٹیز کے برفانی میدان میں
منعقد ہوا۔ آسڑیلیا، نیوزی لینڈ ، سوئٹزر لینڈ و برطانیہ کے علاوہ بعض
بھارتی کرکٹرز کے لیے کرکٹ کی یہ طرز نئی نہیں ہے ، وہ پہلے بھی برفانی
میدانوں میں آئس کرکٹ کھیلتے رہے ہیں لیکن، پاکستانی و سری لنکن کرکٹرز کے
لیے برف پر کھیلنا نیا تجربہ تھا۔ وہ اب تک بیٹنگ وکٹوں اور سرسبز میدانوں
میں کرکٹ کھیلتے آئے ہیں لیکن منفی 20 ڈگری سینٹی گریڈدرجہ حرارت، برف سے
ڈھکے ہوئے میدان اور مصنوعی آسٹروٹرف پرکھیلنے کا ان کے لیے نیا اور
انوکھا تجربہ تھا، جس سے وہ مکمل طور سے لطف اندوز ہوتے ہوئے کھیلے اور
آئس کرکٹ کے تجربہ کار کھلاڑیوں کو شکست سے ہم کنار کیا۔
سینٹ مورٹیز کے مقام پر یہ ٹورنامنٹ ہر سال منعقد ہوتا ہے جس کا اہتمام
مقامی کرکٹ ایسوسی ایشن کرتی ہے۔تماشائیوں کے بیٹھنے کے لیے دھوپ میں
اسٹینڈ بنایا جاتا ہے جہاں بیٹھ کر وہ نہ صرف بغیر ٹکٹ اس کھیل کے مزے لیتے
ہیں بلکہ انہیں مفت اشیائے خورونوش بھی فراہم کی جاتی ہیں، جس کا اہتمام
محکمہ سیاحت کی جانب سے کیا جاتا ہے۔رواں سال وی جے اسپورٹس اور سوئٹزر
لینڈ کرکٹ ایسوسی ایشن اور محکمہ سیاحت نے سینٹ مورٹیز کےمنجمد اسٹیڈیم
اوریورپ کے بلند ترین سیاحتی مقام کی جانب عالمی توجہ مرکوز کرانے کے لیے
دنیا ئے کرکٹ کی دو عظیم لیکن روایتی حریف ٹیموں کے کھلاڑیوں کی قیادت
میںعالمی کرکٹ کے معروف کھلاڑیوں پر مشتمل دو ٹیمیںبنائیں اور انہیں دنیا
کی چھت سے معروف، ’’ سینٹ مورٹیز جھیل ‘‘پرایک دوسرے کے مقابل صف آرا کیا۔
اس ٹورنامنٹ میں وریندر سہواگ، اینڈریو سائمنڈز، جیکس لیکس، گریم اسمتھ نے
بلے بازی کے جوہر دکھائے جب کہ عبدالرزاق، شعیب اختر اور گرانٹ ایلیٹ نے
تیز رفتار بالنگکا مظاہرہ کرکے سخت سردی میں تماشائیوں کے جذبات کو گرمایا
لیکن شاہد آفریدی کے پرستاروں کو ان کے بلند و بالا چھکے اور چوکوں کو جو
توقع تھی وہ پوری نہ ہوسکی شاید اس کی وجہبرف پر بنائی گئی انوکھی وکٹ تھی،
جس کا انہیں تجربہ نہیں تھا۔ سخت سردی میں سر سے پاؤں تک گرم لباس، برف پر
پھسلنے سے محفوظ رہنے والے جوتے پہن کراور آئس کرکٹ کے مروجہ آلات کے
ساتھ دونوں ٹیمیں ایک دوسرے سے نبرد آزما ہوئیں۔ شعیب اختر، ڈینئل ویٹوری
اور عبدالرزاق جیسے فاسٹ بالر، ملنگااور شاہد آفریدی جیسے دنیا کے بہترین
اسپنرز ،جب رن اپ کی طرف دوڑتے ہوئے آتے تو انہیں برف پر پھسلنے کا ڈر بھی
رہتا تھالیکن اس کے باوجود انہوں نے بہترین گیندیں کرائیں۔ بلے باز یخ بستہ
ہواؤں سے اپنی آنکھوں کو بچاتے ہوئے وکٹوں کی جانب آنے والی سرخ پلاسٹک
کی گیند سے چھکے اور چوکے مارنے کی کوشش کرتے جب کہ فیلڈر اسےپکڑنے کی تگ و
دو میں برفانی میدان میں دوڑ لگاتے۔ یہاںبیٹس مین کے لیے ہیلمٹ پہننا ایک
مسئلہ ہوتا ہے کیوں کہ برف کے ذرات اڑتے ہوئے ان کے ہیلمٹ پر جم جاتے ہیں،
جس کی وجہ سے وہ بال پر نظریں جمانے سےقاصر رہتے ہیں۔ سرخ رنگت کی وجہ سے
گیند کھونے کا بھی خدشہ نہیں تھا، کیوں کہ برف کے ٹیلوں کے پیچھے یہ
باآسانی نظر آجاتی ہے۔ٹورنامنٹ کے دوران بلے بازوں کے ہر شاٹ اور بالرز
کی تیز گیند بازی پر تماشائیوں کا جوش و خروش بھی قابل دید تھا۔ ان
تماشائیوں میں کھلاڑیوں کے اہل خانہ کے علاوہ سوئٹزر لینڈ کی سیر کے لیے
آنے والے سیاح بھی شامل تھے، جو آئے توسینٹ مورٹیز کی پرکشش جھیل کی
تفریح کی غرض سے تھے لیکن دنیا کے میاہ ناز کرکٹرز کو ایکشن میں دیکھ کر ان
کی سیر کا لطف دوبالا ہوگیا۔ سب سے زیادہ پذیرائی شاہد آفریدی کو ملی اور
لوگوں نے ان کے ساتھ تصاویر بنوائیں۔ آئس اسٹیڈیم میں داخلہ بالکل مفت تھا
جب کہ تماشائیوں کے لیےاشیائے خوردونوش اور اسنیکس کا انتظام بھی میچ
آرگنائزرز کی طرف سے کیا گیا تھا۔
سینٹ مورٹیز یا سان مازیزیو، ایلپس کے بلند و بالا پہاڑوں کے درمیان سوئیز
کائونٹی ’’گریبونڈن‘‘ کی ’’مالوجہ‘‘ ڈسٹرکٹ میں وسیع و عریض جھیل ہے جس کا
پانی سردی کے موسم میں منجمد ہوکر برف کی صورت اختیار کرلیتا ہے۔ 5910 فٹ
بلندی پر الپائن کے درختوں کے درمیان واقع یہ جھیل سوئٹزر لینڈکا حسین
مناظر والا،تفریحی مقام ہے جہاں ہر سال معتدل موسم میں ہزاروں سیاح سیر کے
لیے آتے ہیں۔جھیل کے اطراف میں مقامی لوگوں کے خوب صورت مکانات اور
کاٹجزجب کہ تفریح کی غرض سے آنے والے سیاحوں کے لیے، ہوٹل اور ریسٹ ہاؤسز
جب کہ برف سے تیار کردہ اسکیمو طرز کے ہٹس بھی بنے ہوئے ہیں۔ اس علاقے
میںچھ ماہ تک موسم سخت سرد رہتا ہے۔ اس عرصے میں درجہ حرارت منفی 20 تک
پہنچ جاتا ہے۔ جھیل کا پانی منجمد ہوکر برفانی میدان میں تبدیل ہوجاتا ہے
اور یہ برف اتنی سخت ہوتی ہے کہ اس پر 200 ٹن تک کابو جھ یا 33 ہاتھیوں کو
بیک وقت دوڑنے کے لیے چھوڑا جاسکتا ہے جب کہ اس میدان میں 2600 افراد
باآسانی ایتھلیٹکس کے انداز میں اچھل کود کر سکتے ہیں۔ یہ علاقہ یورپ
میںدنیا کی چھت کے نام سے معروف ہے۔ گرم موسم میں جب برف پگھلتی ہے تو جھیل
پانی سے بھر جاتی ہے،اطراف کے کثیرالمنزلہ مکانات ،کاٹجز اور الپائن کے
جنگل کا عکس جھیل کے مناظر کو زیادہ سحر انگیز بناتا ہے ۔یورپ اور امریکا
سمیت ایشیائی ممالک سےسوئٹزرلینڈ آنے والے سیاح، سینٹ مورٹیز جھیل دیکھنے
ضرور آتے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر لوگ اس میں کشتی رانی اور پیراکی سے لطف
اندوز ہوتےہیں۔ موسم سرد ہونے کے بعد اس کا پانی منجمد ہونا شروع ہوتا ہے
اور جب درجہ حرارت گرتے ہوئے منفی بیس تک پہنچتا ہے تو اس کا پانی ٹھوس برف
کے ہموار میدان کی شکل اختیار کرلیتا ہے ۔ اس پر مقامی افراد مختلف قسم
کےکھیلوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں جن میں آئس ہاکی، گھڑ دوڑ اور پولو شامل
ہیں جب کہ گزشتہ تیس سال سے جھیل کیکے جمے ہوئے پانی پر مصنوعی آسٹروٹرف
بچھانے کے بعد، اس کے اطراف سے برفانی تودے صاف کرکے آئس کرکٹ کےمیچز کے
لیے سازگار بنایا جاتا ہے۔
سینٹ مورٹیز کے برف زار پر آئس کرکٹ کا آغاز 1988 میں ہوا۔ سوئٹزر لینڈ
میں رہنے والا برطانوی قومیت کا حامل شہری، ڈینئل ہائرنگ، اپنے چند دوستوں
کے ساتھ سینٹ مورٹیز کی سیر کے لیے آیا۔ جھیل کا پانی منجمد ہوکر برف بن
گیا تھا، اس کے اطراف میں الپائن کے درختوں کا جھنڈ خوب صورت منظر پیش
کررہا تھا جب کہ گردو نواح کے مکانات پویلین کی شکل میں نظر آرہے تھے۔
ڈینئل یہاں کی سیر سے بہت لطف اندوز ہوا اور کافی دنوں تک اپنے دوستوں کے
ساتھ یہاں قیام پذیر رہا۔ ایک روز وہ منجمدجھیل کے کنارے بیٹھا تھا،کہ اس
کےذہن میں یہاںآئس کرکٹ کھیلنے کے انوکھے خیال نے جنم لیا۔ وہ نزدیک میں
واقع لیسیئم الپینیم اسکول گیا اور وہاں کی انتظامیہ سے درخواست کی کہ ہم
برف پر کرکٹ میچ کھیلنا چاہتے ہیں ، ہمیں ٹیم بنانے کے لیےچند لڑکے اور
کرکٹ کھیلنے کا ضروری سامان فراہم کردیں۔اسکول انتظامیہ نے فوری طور سے
مالوجہ ڈسٹرکٹ سے مذکور سامان منگواکر اپنے اسکول کے طلبا کے ساتھ ڈینئل کے
پاس بھجوایا۔ اس نے اپنے دوستوں اور طلباء کی دو ٹیمیں بنائیں ، ہموار جگہ
پر سبز کارپٹ پچ کی صورت میں بچھایا گیا، اطراف سے برف کے ٹیلے صاف کیےگئے،
اس کے بعدمخصوص دن طے کرکےآئس کرکٹ میچ کے انعقاد کا اعلان کیاگیا۔ برف پر
کھیلا جانے والا یہ میچ مالوجہ ڈسٹرکٹ کے شہریوں اور محکمہ سیاحت کے افسران
سمیت مقامی کرکٹ حکام کے لیے بھی نیا تجربہ تھا، اس لیے وہ بھی اسے دیکھنے
کے لیے برفانی م یدان میں موجود تھے۔ ان کے بیٹھنے کے لیے کرسیاں منگوائی
گئی تھیں۔ مقررہ وقت پر میچ شروع ہوا، ہر ٹیم چھ کھلاڑیوں پر مشتمل تھی،
ڈینئل کا ایک دوست ایمپائر جب کہ دوسرا دوست اسکوررکے فرائض انجام دے رہا
تھا۔برف پر کھیلا جانے والا آئس کرکٹ کا یہ میچ اتنا دل چسپ ثابت ہوا کہ
ڈینئل اور اس کے ساتھیوں کی واپسی کے بعد بھی اس کا انعقاد ہوتا
رہا۔۔سوئٹزر لینڈ کے محکمہ سیاحت نے جمے ہوئے پانی پر کرکٹ کے کھیل کو
سیاحت کے فروغ کے لیے استعمال کیا اورسینٹ مورٹیزکو غیرملکیوں کے لیے پرکشش
بنانے کے لیے ہاں سرکاری سطح پر میچز کا انعقاد ہونے لگا۔ بھارتی اداکار
رنبیر سنگھ کو آئس کرکٹ کا برانڈ ایمبسڈر بنایا گیا ۔
سینٹ مورٹیز کے برفانی اسٹیڈیم کی بائونڈری کی لمبائی 33میٹرہے، اس میدان
میںہر میچ سے قبل مصنوعی آسٹروٹرف پچ بچھائی جاتی ہے۔آئس کرکٹ کے مقابلے
کا انحصار کرکٹرز کی تعداد پر ہوتا ہے، آئس کرکٹ کے قوانین ، فیلڈ کرکٹ سے
مختلف ہوتے ہیں، اس میں کھلاڑیوں کی کم سے کم تعداد 6اور زیادہ سے زیادہ
10ہوتی ہے۔ کھیل کے دوران وائیڈ بال پربیٹنگ ٹیم کو فائدہ پہنچانے کے لیے
دو رنز دیئے جاتے ہیں جب کہ بالر جس صورت حال میں برف پر دوڑتے ہوئے بالنگ
کراتے ہیں، اسے مدنظر نظر رکھتے ہوئے ، فیلڈنگ ٹیم پر اضافی بال کا جرمانہ
عائد نہیں کیا جاتا۔ اس کھیل میں موسمی تغیراتکو سامنے رکھتے ہوئےمیچ کے
نتیجے کے بارے میں قبل از وقت کوئی پیش گوئی نہیں کی جاسکتی، لیکن اس کی
ہیجان خیزی کی وجہ سے تماشائی ہر لمحے سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
آئس کرکٹ کا خیالی خاکہ 1817 میں جنیوا میں نمائش کے لیے رکھی جانے والی
ایک پینٹنگ میں بھی پیش کیا گیا تھا جس میں کچھ افراد کو لمبے سے بیٹ اور
رنگ برنگی گیند کے ساتھ گرم پیراہن زیب تن کیے میچ کھیلتے دکھایاگیا
تھا۔ہوسکتا ہے کہ ڈینئل ہائرنگ کے ذہن میں آئس کرکٹ کا تصورمذکورہ پینٹنگ
دیکھ کر ابھرا ہو۔سوئٹزر لینڈ میں اس وقت 15ٹیمیں لیگ اور کپ کرکٹ کھیل رہی
ہیں، جو کرکٹ سوئٹزرلینڈ کے ساتھ رجسٹرڈ ہیں اور ان ہی ٹیموں کے کھلاڑیوں
پر مشتمل قومی ٹیم بھی ہے جس کا الحاق انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کے ساتھ ہے جو
آئس کرکٹ کے عالمی ٹورنامنٹس کے انعقاد میں معاونت کرتی ہے۔
2004میں آئس کرکٹ کا کھیل شمالی یورپ کی ریاست ، جمہوریہ اسٹونیا میں بھی
مقبول ہوگیا۔سینٹ مورٹیز میں آئس کرکٹ کے میچز کو اسٹونیا کی قومی کرکٹ
ٹیم کے صدر اور کوچ، جیسن بیری نے بھی دیکھا، انہوں نے اسے اپنے ملک میں
بھی رائج کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس مقصد کے لیے ’’ٹلّن‘‘شہر میں واقع ’’ہارکو
بوٹنگ لیک‘‘ کے انتخاب کیا گیا۔ یہ بھی سینٹ مورٹیز کی طرح آبی جھیل ہے جس
کا پانی سردیوں میں منجمد ہوکر ٹھوس برف کی صورت اختیار کرلیتا ہے اور وسیع
و عریض علاقہ ہموار برفانی میدان بن جاتا ہے۔ 2004میں اس جگہ مصنوعی
آسٹروٹرف بچھا کر آئس کرکٹ کا پہلا میچ کھیلا گیاجو یورپ میں خاصا مقبول
ہوا۔ اسٹونیا میں آئس کرکٹ کی ’’کٹ‘‘ میں تبدیلی کی گئی۔ کھلاڑیوں کو گرم
کپڑے کی سفید پتلون اور قمیض اور ’’وی نیک سوئٹر ‘‘پہنایا گیا۔ اب وہاں
جنوری کے مہینے میں آئس کرکٹ کی عالمی چیمپئن شپ کا انقعاد ہوتا ہے جس میں
یورپ ، امریکا، روسی ریاستوں اور کینیڈا کی ٹیمیں شرکت کرتی ہیں۔ فاتح ٹیم
کو چیمپنز ٹرافی دی جاتی ہے۔ یہ کھیل پاکستان یوں کے لیے نیا ہے لیکن وہ
وقت دور نہیں جب مری ، گلگت بلتستان کے برفانی میدانوں پر آئس کرکٹ کے
باقاعدہ ٹورنامنٹس منعقد کیے جائیں اور ہماری قومی ٹیم کرکٹ کی اس نئی طرز
کی بھی عالمی چیمپئن بنے۔ |