وقت کی قدر و قیمت

وقت کسی کے لیے نہیں رکتا جس نے اس کی قدر کی اس کو کا میاب ،طاقت ور بنا دیا ،جس نے اس کی بے قد ری کی اس کو یہ معاف نہیں کر تا ،مفلس کنگال بنا دیتا ہے۔ شاکرہ نندنی

شاکرہ نندنی، پُرتگال

قر آن کریم واحا دیث کریمہ میں وقت کی بہت اہمیت بتائی گئی ہے نماز،حج جیسی اہم عبا د ات کو بھی اللہ رب العزت نے وقت کے ساتھ مقرر فر مایا اِنَّ ا لصَّلٰو ۃَ کَانَتْ عَلَی ا لْمُؤْ مِنِیْنَ کِتٰبًا مَّوْ قُوْ تًا۔ (القرآن،سورہ نساء ۴،آیت۱۰۳۔) تر جمہ: بے شک نماز مومنوں پر وقت کے حساب سے فرض ہے۔ایک وقت کے بعد دوسرا پھر دوسرے کے بعد تیسرا ، اللہ نے قر آن کریم میں کئی مقا مات پر مختلف اوقات کی قسم یاد فر مائی ہے جس سے وقت کی بے پناہ اہمیت معلوم ہو تی ہے قرآن کریم میں ہے ۔ وَالْفَجْرِ وَلَیَالٍ عَشْرٍ اس صبح کی قسم اور دس راتوں کی قسم، (کنزالایمان) اللہ تعا لیٰ نے سورہ الضحیٰ میں ــ’’چاشت کے وقت اور رات‘‘ کی قسم یاد فر مایا اور بھی آیتیں قرآن کریم میں ہیں جو وقت کی اہمیت کو بتا تی ہیں۔بحیثیت مسلمان ہمیں دیگر مذاہب کے ماننے والوں سے بڑ ھ کر وقت کی قدر کر نا چا ہئے کیو نکہ ہم جانتے ہیں کہ دنیاوی زندگی آخرت کی کھیتی ہے ہم اس میں جو وقت اللہ ورسول کے لیے اور اپنے واپنے بچوں کے لیے صرف کریں گے وہی کام آئے گا اگر وقت کا صحیح استعمال کریں گے تو کل قیامت میں اس کا اجر ملے گا۔(القرآن،سورہ الحا قۃ ۶۹،آیت ۲۴) تر جمہ: ( ان سے کہا جا ئے گا:) خوب لطف اندوزی کے ساتھ کھائو اور پیو ان (اعمال) کے بدلے جو تم گز شتہ(زندگی کے) اَیام میں آگے بھیج چکے تھے۔ اس کے بر عکس اگر زندگی میں وقت کی قدر نہ کی اسے غفلت ،سستی وکاہلی میں گزارتے ہو ئے برائی،بد عملی میں بر باد کیا تو پھر مایوسی اور ندامت کا سامنا کر نا پڑے گا: قرآن مجید میں کئی جگہ اللہ رب العزت نے، فجر، صبح، چاشت ، رات،دن اور زمانہ کی قسم یاد فر ما ئی ہے۔ان آیات کریمہ کے ذریعہ ہمیں جھنجھو ڑا(جگایا) جارہا ہے کہ اپنی زندگی کے اوقات کو معمولی اور حقیر نہ سمجھو، ایک ایک سکنڈ کا تم سے حساب ہو نا ہے۔

احادیث طیبہ میں ’’وقت‘‘ کی اہمیت
حضرت عبداللہ ابن عبا س رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور سر ور کائنات ﷺ نے فر مایا: ’’دو نعمتوں کے بارے میں اکثر لوگ خسارے میں رہتے ہیں:صحت اور فراغت۔‘‘(بخاری،کتا ب ا لر قا ق، لاعیش اِلا عیش الاخرہ۵: حدیث۲۳۵۷، ۶۰۴۹،تر مذی،کتاب ا لذہد حدیث ۲۳۰۴) رب قدیر نے انسا نوں کو بے شمار نعمتوں سے نوازاہے، انسان یہ سمجھ بیٹھتا ہے یہ رحمتیں، نعمتیں اس کی جا گیر ہیں ہمیشہ وہ اس پر ہا بض رہے گا حا لانکہ ایسا نہیں ہے یہ انسا نی بھول اور شیطانی وسو سہ ہے۔اللہ نعمتیں عطا فر مانے پر قادر ہے تو نعمتیں چھین لینے کی بھی قدرت رکھتا ہے۔یاد رہے اسلام نے اپنے پیرو کاروں کو وقت کی قدر کرنے کی زبردست تلقین کی ہے سر کار مدینہ ﷺ کا فرمان عا لیشان ملا حظہ فر مائیں’’اولاد آدم پر نیا آنے والا دن(اسے مخاطب ہو کر) کہتا ہے: اے مخلوق ابن آدم! میں نئی مخلوق ہوں، میں کل (یوم قیامت) تمھا رے عمل کی گواہی دوں گا پس تم مجھے کبھی بھی دیکھ نہیں سکو گے، آپ ﷺ نے فر مایا! اس طرح کے کلمات رات بھی دہراتی ہے۔‘‘ اتنے واضح احکامات کے بعد بھی اگر کو ئی مسلمان غفلت وسستی کا مظا ہرہ کرے اور اپنے دن رات کو کھیل کود، لہولعب، فضول باتوں،سیرو تفریح، سونے میں گزار دے تو اس سے بڑا کم نصیب اورنا دان کوئی ہو نہیں سکتا اور ایسے شخص پر صرف افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔

وقت گزر رہا ہے
جو اس کی قدر نہیں کرتا ہے تووقت بھی اسکی پرواہ کیے بغیر اس سے کو سوں آگے بڑھ جا تا ہے جو وقتــ سے فا ئدہ اُٹھا لیتا ہے وقت اسکے کام آجاتا ہے جس نے وقت پر وقت کی قدر کی وہی انسان عظیم مرتبے پر فائز ہوتا ہے۔ اگر زندگی میں کچھ کر گزر نے کی لگن اور چا ہت دل میںہے تو وقت کی قدر کرنا چاہیے۔ اگروقت کی قدر نہ کی تو ایک قیمتی خزانہ کھو دو گے،یاد رکھو۔۔۔! جو وقت گزر جاتا ہے وہ کبھی واپس نہیں آتا ہے ۔ اگر ہم پا بندیِ وقت کے ساتھ کام کرنا، محنت کرنا سیکھ جائیں توہم زندگی میں کسی کے محتاج نہیں ہوں گے اور نہ ہی کسی اور سے کسی قسم کی امید رکھنے کی چا ہت ہوگی۔ نظام زندگی کا اگر مطا لعہ کیا جا ئے تو ہم کو وقت کے تعین اور وقت کی مقدارو قیمت کا اندازہ ہو سکتا ہے کہ کس طرح قدرت کا نظام اپنے مقر رہ وقت پر مکمل ہو رہا ہے، چا ندو سو رج کا طلوع وغروب، زمین ودیگر قدر تی نظام سب ہم کو وقت کی قدر کے با رے میں آگاہ کررہے ہیں۔مشہور کہاوت ہے کہ’’ ایک منٹ کا بھو لا لا کھوں کوس دور نکل جاتا ہے‘‘ پھر صرف افسوس کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہو تا وقت کی نا قدری ، تساہل،سست روی ، ٹال مٹول،تاخیراور پھر کبھی ہما رے بہت بڑے د شمن ہیں، ہما رے اور ہما رے مستقبل کے لیے انتہائی تباہ کن ہیں۔یہ نشہ آور چیز وں سے زیا دہ نقصان دہ ہیں ،جوشخص نشہ کر تاہے وہ معاشرے سے کا فی حد تک کٹ جاتا ہے مگر سست اور کا ہل آدمی معاشرے میں شامل رہ کر معاشرے کو نقصان پہنچا تا ہے،حضرت علا مہ امام عبد ا لر حمٰن ابن جوزی رحمۃاللہ علیہ نے(۵۹۷۔۵۱۱ھ) اپنی (مشہور) کتاب ’’منھا ج القا صدین‘‘ میں توبہ کے باب میں ایک الگ باب قائم فر مایاہے ’’باب تسویف‘‘ (آئندہ کر لوں گا) میں کاہل لوگوں کے با ر ے میں لکھا ہےـ: ’’ آ ئندہ (کل) پر ٹا لنے والے کی مثال اس آدمی کی سی ہے جسے ایک درخت اکھا ڑ نا ہو ۔ وہ دیکھے کہ درخت بہت مضبوط ہے، بہت محنت سے اکھڑ ے گا ، تو وہ کہے کہ میں ایک سال بعد اس کو اکھا ڑ نے کے لیے آ ئوں گا۔وہ یہ نہیں جانتا کہ درخت جتنی مدت باقی رہے گا، مضبوط ہو جائے گا۔اور خود اس کی عمر گز ر تی جائے گی، وہ کمز ور ہو تا جائے گا۔ جب وہ طا قتور ہو نے کے باوجود درخت کی کم زوری کی حا لت میں اسے نہیں اکھاڑ سکتا تو جب وہ کمزور ہو جائے گا اور درخت زیا دہ طاقتور، تو پھر اس پر کیسے غالب آ سکے گا؟۔

کاہلی کے نقصانات
مزاج اور رویے کے باعث ہم وقت کی قدر نہیں کر تے اور بہت سے اہم کام اس لئے چھوڑ دیتے ہیں کہ ابھی بہت وقت ہے اور عمر با قی ہے۔ اس طرح ہم کا ہلی ( جو کوڑھ کی طرح ہے) کی وجہ کر اللہ کی انمول نعمت وقت کو بر باد کر تے رہتے ہیں آقا ﷺ نے فر مایا :’’ جو ں ہی آنے والے دن کی پو پھٹتی ہے تو وہ آواز لگا تا ہے: آدم کی اولاد! میں اللہ کی نئی تخلیق ہوں اور تمھا رے اعمال کا گواہ، اس لئے مجھ سے جتنا زیادہ زادِ راہ لے سکتے ہو لے لو، میں پھر کبھی لوٹ کر نہیں آئوں گا‘‘۔ ایک اورحدیث میں آیا ہے کہ مو من کو دو دھڑ کے لگے رہتے ہیں، ایک اس کا ماضی جس کے بارے میں وہ نہیں جانتا کہ اللہ اس کے کیا نتا ئج ظا ہر کرے گا اور دوسرا اس کا مستقبل جس کے با رے میں وہ نہیں جانتا کہ اللہ تعالیٰ اس کے متعلق کیا فیصلہ کر رکھا ہے۔اس لیے آ دمی کو اپنی جان کی خاطر اپنی جان کو،آخرت کی خاطر دنیا کو بڑ ھا پے سے پہلے جوانی کو اور موت سے پہلے زندگی کو کام میں لا نا چا ہیئے ۔ ایک حد یث میں ٹال مٹول کو شیطان کا شعار (طریقہ) فرمایا ہے جس کو وہ مسلما نوں کے دلوں میں بٹھا تا ہے۔علامہ امام ابن جوزی رحمۃاللہ علیہ فر ما تے ہیں کہ عمر کی سانسوں میںہر سانس ایک نفیس جو ہر ہے جس کا معاوضہ کو ئی چیز نہیں ہوسکتی۔’’ کل‘‘ کا لفظ بھی ایک دھو کا ہے جو انسان کو ’’ وقت‘‘ TIME ضائع کرنے کی شرم اور افسوس سے بچا تا رہتا ہے۔ کیونکہ اس کا آنے والا’’کل‘‘ یعنی ’’فر دا‘‘ کبھی نہیں آتا ’’وقت‘‘ ایک بار گزر گیا، مر گیا ۔ عقلمندوں کے رجسٹروں میں’’کل‘‘ کا لفظ نہیں ملتا ۔ یہ تو محض بچوں کا بہلا وا ہے کہ فلاں کھلو نا تم کو کل دے دیا جا ئے گا۔’’کل‘‘ کالفظ وقت بر باد کرنے والے کاہل لو گوںکے لیے ہے جو صبح سے شام تک خیالی پلائو پکا تے رہتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں وقت کی پا بندی کا حکم دیاہے نماز ،روزہ، ہم کو پا بندی کا در س( سبق) دیتے ہیں۔

اگر وقت میں ذرا سی غفلت بر تی جائے تو دولت کیا زندگی بھی ہم سے کو سوں دور نکل جا تی ہے اگر وقت کی قدر ’’وقت‘‘ پر نہ کی جائے تو پھر دوبا رہ اس کا مو قع نہیںآتا۔اگر آپ ایک منٹ کو ضائع نہ کریں تو گھنٹہ اپنے آپ ضائع ہو نے سے بچ جا ئے گا کیو نکہ منٹ منٹ ہی ملنے سے گھنٹہ بنتا ہے۔ وقت کا ایک لمحہ بھی ضا ئع نہ کریں،لمحوں کواستعمال کر کے آپ مہینوں اور سالوں کے مالک بن سکتے ہیں۔ اگر آپ روز انہ اپنے ایک گھنٹہ کا صرف پانچ منٹ کھو دیتے ہیں تو رات دن ملا کر آپ نے روزانہ دو گھنٹہ کھو دیا مہینہ میں ساٹھ گھنٹے اورسال میں۷۲۰ گھنٹے آپ کے ضائع ہوگئے۔ اس طرح اللہ کی طرف سے ملا ہوا قیمتی ’’وقت‘‘ بیکار ضائع کر دیا تمام لو گوں خصو صاً نو جوا نوں کو وقت کی قدر زیا دہ کر نا چا ہیے کیو نکہ ان کو اپنے مستقبل کی تعمیر کر نا ہے۔افسوس آج کا نوجوان روزانہ سو شل میڈ یا پر اپنے قیمتی وقت کے کئی کئی گھنٹے ضا ئع کر دیتا ہے یہ قیمتی وقت وہ کہاں سے نکا لتا ہے؟ اپنی تعلیم اور اپنے ضرو ری کام کے اوقا ت سے۔ وہ وقت جو اسے اپنے اہلِ خانہ کو دینا چا ہیئے ، شا دی شدہ ہے تو اپنی بیوی بچوں اور گھر والوں اور خاص کر اپنے والدین کریمین کو لیکن دن بھر گھر سے باہر رہنے کے بعد واپس آ کر بھی وہ اپنا ’’وقت‘‘ مو بائل، کمپیو ٹر، اور ا نٹر نیٹ کو دیتا ہے اس سے بہت سے سما جی مسائل بھی پیدا ہو رہے ہیں،ہم سب کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔

بزر گانِ دین نے اپنے ’’وقت‘‘ کو کیسے کام پر لگایا۔چند نصیحت آموز واقعات ملاحظہ فر مائیں 1۔ امام فخر ا لد ین رازی رحمۃاللہ علیہ کی چھوٹی بڑی کتا بوں کی تعداد ایک ہزار سے زیادہ ہے، وہ اپنی عمر کا ایک لمحہ بھی ضا ئع نہیں فر ماتے صرف تفسیر کبیر تیس (۳۰ )جلدوں میںہے۔آپ فر مایا کرتے تھے کہ کھانے پینے میں جو وقت ضائع ہو تا ہے میں ہمیشہ اس پر افسوس کر تا ہوں۔2۔اسمٰعیل بن اسحاق القا ضی کے گھر جب کوئی جا تا تو انھیں پڑھنے لکھنے میں مصروف پا تا۔3 ۔حضرت فتح بن خا قان خلیفہ المتو کل کے وزیر تھے۔وہ اپنی آ ستین میں کو ئی نہ کوئی کتاب رکھتے تھے اور جب انہیں سر کاری کا موں سے فر صت ملتی تو آستین سے کتاب نکال کر پڑھنے میں لگ جاتے۔4 ۔عا مر بن قیس ایک متقی زاہد تابعی تھے ایک شخص نے ان سے کہا’’ آئو بیٹھ کر با تیں کریں‘‘ آپ نے جواب دیا کہ پھر سورج کو بھی ٹھہرالو۔5۔ تاریخ بغداد کے مصنف خطیب بغدادی لکھتے ہیں کہ حا فظ کتاب فرو شوں کی دکا نیں کرایہ پر لے کر ساری رات کتا بیں پڑھتے رہتے تھے۔6 ۔ حضرت ابن رشد اپنی شعو ری زندگی میں صرف دو راتوں کو مطالعہ نہیں کر سکے جس پر ہمیشہ افسوس کرتے آج ہم سیکڑوں دن رات بر باد کر تے ہیںکچھ احساس نہیں کرتے یہ بے حسی توجہ کی طالب ہے۔

7۔ حضرت امام ابن جر یرطبری ہر روز چودہ ورق لکھا کر تے تھے۔ انھوں نے اپنی عمر عز یز کا ایک لمحہ بھی فائدے اور استفا دے کے بغیر نہیں گزارا۔8 ۔البیرو نی کے شوق علم کا یہ عالم تھا کہ حا لت مرض میں مر نے سے چند منٹ پہلے وہ ایک فقیہ جوان کی مزاج پر سی کے لیے آیا تھا ، علم ا لفرا ئض کا ایک مسئلہ پوچھ رہے تھے۔9۔اما م ا لحر مین ابو ا لمعا لی عبد ا لملک جو تصوف کے مشہور متکلم امام غزالی رحمۃاللہ علیہ کے استاد تھے، فر ما یا کرتے تھے کہ میں سونے اور کھانے کاعادی نہیں۔ مجھے دن رات میں جب نیند آ تی سو جاتا ہوں اور جب بھوک لگتی ہے کھا لیتا ہوں۔ ان کا اوڑھنا بچھو نا، پڑ ھنا اور پڑھانا تھا۔ علامہ ابن جو زی رحمۃاللہ علیہ کی چھو ٹی بڑی کتا بوں کی تعداد ایک ہزار سے زیادہ ہے، وہ اپنی عمر کا ایک لمحہ بھی ضا ئع نہیں کر تے وہ اپنی قلم کے تراشے سنبھال کر رکھ دیتے تھے چنا نچہ ان کی وفات کے بعد ان ترا شوں سے گرم کر دہ پانی سے انھیں غسل دیا گیا وہ اپنے روز نامچے (ڈائری) DIARY’’ا لخا طر)) میں ان لو گوں پر کف ِافسوس ملتے نظرآتے ہیں جو کھیل کود ۔تماشے میں لگے رہتے ہیں، ادھر ادھر بلا مقصد گھو متے رہتے ہیں اور قیمتوں کے اتارچڑ ھا ئوپر رائے زنی کر تے رہتے ہیں۔ علامہ شہا ب الدین محمود آلو سی بغدادی رحمۃاللہ علیہ مشہور مفسر قر آن( تفسیر رو ح ا لمعا نی) نے اپنی رات کے اوقات TIME کو تین حصوں میں تقسیم کر رکھا تھا۔ پہلے حصہ میں آرام و استراحت کرتے، دوسرے میں اللہ کی عبادت کر تے اور تیسرے حصہ میں لکھنے پڑھنے کا کام کر تے تھے۔

ماضی قریب کے علما ئے کرام میں حضرت مو لا نا احمدرضا خاں علیہ ا لر حمہ کی ذات گرامی نے اسلام کی اشاعت میں اپنی پوری زندگی صرف کر دی آپ نے تصا نیف کے ذ ریعہ اصلاح عقیدہ، اصلاح اعمال، معاشرے میں پھیلی غیر شر عی رسم ورواج مٹا نے کی زبردست جدو جہد فر مائی ، مصلح قوم و مجد د دین و ملت کی حیثیت سے تقر یری و تحریری طور پر بدعات ومنکرات کی تر دید فر مائی آپ کی تصنیف کر دہ کتا بو ں کی تعدادد ایک ہزار سے زیا دہ ہیں ،آج کے حا لات کے اعتبا ر سے لوگوں کو آپ کی تصا نیف کو پڑ ھنے کی ضرو رت ہے۔آج ہم اور ہما را نو جوان مست ہے اور اپنا قیمتی وقت بر باد کر رہا ہے ایک ایک منٹ بلکہ ایک ایک سکنڈ قیمتی ہے۔

وقت آپ کا سب سے بڑا سر مایہ ہے، وقت کو ضا ئع ہو نے سے بچائیں ، اپنے وقت کے ہر ہر لمحہ کی قدر کریں اور ان لمحات کو یاد گار بنائیں،وقت کسی کا انتظار کیے بغیر ماضی کے روپ میں تبدیل ہو تا جا رہا ہے۔ اورا سی طرح جو ’’وقت‘‘ آگے آئے گا وہ ایک معمہ ہو گا ۔۔۔۔۔صرف ا ور صرف آج اور ابھی ہی آپ کے پاس قدرت کا ایک عظیم انمول تحفہ ’’وقت ‘‘ہے اس تحفے کا شکر ادا کریں کیو نکہ آ نے والے وقت کی خبر کسی کو نہیں کہ کیا ہو نے والا ہے۔؟ اپنے حال میں زندگی کو زندہ رہ کر گزاریں کیو نکہ زندگی کا مزہ اسی میں ہے۔ شداد بن اوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسو ل اللہ ﷺ نے فر مایا:’’عقل مند وہ آدمی ہے جو اپنے نفس کو اپنے تا بع رکھے اور موت کے بعدکام آنے والے عمل کرے، اور عاجز وہ ہے جو اپنے نفس کی خوا ہشات کے پیچھے لگ جائے اور اللہ سے بھلائی کی امید رکھے‘‘۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فر مایا: ’’ قیامت کا حساب ہو نے سے پہلے اپنے نفس کا محا سبہ کرو اور اعمال کا وزن ہو نے سے پہلے ان کو تولو اور بڑی پیشی کے لیے تیار ی کرو۔ سورہ حاقہ میں ہے: اس دن تم پیش کئے جائو گے تم سے کوئی چیز مخفی نہ رہے گی۔ اپنی ذات کا جائزہ لیجئے اور وقت کے پابند ی سے زندگی کو کامیاب بنایئے ۔
 

Dr. Shakira Nandini
About the Author: Dr. Shakira Nandini Read More Articles by Dr. Shakira Nandini: 203 Articles with 212081 views I am settled in Portugal. My father was belong to Lahore, He was Migrated Muslim, formerly from Bangalore, India and my beloved (late) mother was con.. View More