جب لڑکوں بالوں نے انڈے لڑانے کی مشق شروع کردی تو ہم نے
سمجھ لیا کہ میاں جی اب عید آیا ہی چاہتی ہے سو دوبارہ اپنے شہر کراچی کا
قصد کرو اور کوئٹہ کو خدا حافظ کہو -
لیکن سوال یہ ہے کہ ہم کراچی سے کوئٹہ گئے کیوں ؟
قصہ یہ ہے کہ جب کراچی میں سورج آگ برسانے لگا ‘ نسیم بحری اور نسیم بری
جانے کہاں غائب ہوگئیں اور ان کی جگہ باد سموم نے لے لی --- درجہ حرارت
بالا--- مزید بالا ہونے لگا اور ہم گرمی کے ہاتھوں پریشان ہونے لگے ' روزہ
رکھنا بھی دشوار ہوا تو تو یاروں نے صلاح دی کہ ان حالات میں مقام بالا (
یعنی کوئٹہ یا زیارت ) کی جانب کوچ کرو جہاں کا درجہ حرارت زیریں کی جانب
چلا جا رہا ہے اور وہاں لوگ باگ رات کو کمبل اوڑھنے کی سوچ رہے ہیں - ایک
دوسرے صاحب نے تسلی دی کہ تمہارے لئے کیا پریشانی کا بات ہے تمہارا تو بچپن
ہی اسی شہر میں گزرا ہے -
چنانچہ یہ کراچی کی قیامت خیز گرمی تھی جو ہمیں کوئٹہ اور زیارت کھینچ لائی
تھی یہ مئی 2018 کے اواخر کی بات ہے - یہاں کوئٹہ پہنچ کر اندازہ ہوا کہ بے
شک کوئٹہ کراچی کے مقابلے میں ٹھنڈا ہے لیکن روزہ رکھنا یہاں پر بھی کراچی
کی طرح ہی دشوار ہے کہ خشکی اس قدر ہے کہ تھوڑا سا دھوپ میں باہر نکلو تو
حلق خشک ہو جاتا ہے - منہ کھل جاتا ہے - ویسے مجموعی طور پرکوئٹہ کا موسم
کراچی کے مقابلے میں خوشگوار اور راحت افزا ہی تھا - کوئٹہ میں ہماری بہت
سی مصروفیات تھیں -
ہمارے ایک مہربان دوست ہیں جو پاکستان کے تمام سینماؤں کی تفصیلات تیار کر
رہے ہیں - اس کے علاوہ انہوں نے فیس بک پر ایک صفحہ بھی کھول رکھا ہے
“سینماز ان پاکستان “ - ان کے لئے پیراڈائیز سینما اور راحت سینما کی
تصاویر کھینچیں -
پاکستان میں فلمی صنعت کئی مسائل کاشکار ہے - اس کے اثرات سینماؤں پر بھی
پڑے ہیں -
سینماؤں کی یہ حالت ہو گئی ہے کہ ہم پیراڈائیز سینما کوئٹہ کے عین سامنے
کھڑے ہو کر سینما کی تصویر کھینچ رہے تھے - اچھی تصویر کے لئے تھوڑا سا
اندر دکان میں داخل ہونا پڑا تھا - وہاں کام کرنے والے ایک کارکن نے کہا کہ
سینما تو بند ہے - پھر تھوڑے سے تذبذب کے بعد کہا یہ سینما چل رہا ہے -
ہم نے سوچا کہ لوگ سینما دیکھنے آتے ہی نہیں اسی لئے اسے پتہ ہی نہیں کہ
سنما چل رہا ہے یا نہیں -
آج کل پیراڈائیز سینما کے مالک نہ جانے کون ہیں ؟ پہلے یعنی 1960 کے زمانے
کی بات ہے کہ یہ سینما ملکیت کے مسئلے کی بنیاد پر بند ہو گیا تھا اور کافی
عرصہ بند رہا تھا - بعد میں کوئی صدیقی صاحب تھے وہ اس کے مالک بنے -
جب یہ سینما طویل عرصے کی بندش کے بعد عید کے دن کھلا تو ہمیں اتنا شوق تھا
کہ پہلا شو دیکھنے چلے گئے - اس وقت تک کوئی صحیح انتظام نہیں ہوا تھا
چنانچہ دیکھا کہ پنکھے نہیں چل رہے تھے اور دو تین ملازمین ڈنڈے سےانہیں
چلانے کی کوشش کر رہے تھے -
راحت سینما جو ایک زمانے میں شاہ کار فلموں کی نمائش میں اپنا ثانی نہیں
رکھتا تھا اب ایک بھولی ہوئی داستاں بن چکا ہے - اسے نر سری میں تبدیل کر
دیا گیا ہے -ہم اس کے سامنے کھڑے ان فلموں کو یاد کر رہے تھے جو یہاں دیکھی
تھیں - اولاد --سہیلی - قیدی -- عجب خان -- میرا کیا قصور - عادل - ناگن
یادوں کو بند کرتے ہوئے رنجور حالت میں تصویر کھینچی اور آگے نکل گئے -
دوبارہ پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا - دل کی عجب سی حالت تھی- اپنا دوست رزاق
بھی یاد آیا - پشین کے علاقے برشور سے تعلق تھا - نماز کا بہت پابند تھا -
وہ اس سینما میں فلم دیکھنے آتا تو انٹرول کے دوران میں سینما کے لان میں
نماز ادا کر تا تھا -
کوئٹہ جائیں اور زیارت نہ جائیں - زیارت جائیں اور قائد اعظم ریزیڈنسی نہ
جائیں یہ کیسے ایک سیاح کے لئے ممکن ہے سو یہی قصہ یہاں ہوا - قائد اعظم
ریزیڈنسی کی تباہی اور اس کی بحالی کے بعد یہ پہلا وزٹ تھا اس لئے اس مرتبہ
زیارت ریزیڈنسی جانے کی خواہش زیادہ ہی تھی - یہ عمارت انگریزوں نے 1862
میں اپنے استعمال کے لئے بنائی تھی - قیام پاکستان کے بعد قائد اعظم نے
اپنی زندگی کے آخری دو ماہ اور دس دن اس میں بسر کئے تھے اس لئے اسے قومی
یاد گار قرار دیا گیا ہے - لیکن 15 جون 2013 کو کچھ افراد نے اس عمارت پر
راکٹوں سے حملہ کیا اور اس کے فورا" بعد عمارت میں داخل ہو کر تمام اشیا
تباہ کر دیں - فوج کے ایک ترجمان نے بعد میں بتایا تھا کہ اس حملے کے تمام
مجرمان گرفتار کر لئے گئے ہیں -
زیارت میں شام کے وقت غضب کی سردی پڑ رہی تھی - حالانکہ اس دن کراچی کا
درجہ حرارت 44 تھا - رات کو سردی سے بچنے کے لئے تھوڑی دیر کے لئے ہیٹر
جلانے کی ضرورت پیش آئی -
زیارت میں مختلف محکموں نے زمین حاصل کر کے اپنے سینئر افسران کے لئے بنگلے
بنائے ہوئے ہیں اور ان محکموں کے افراد کبھی کبھار آکر یہاں رہتے ہیں ورنہ
یہ بنگلے خالی ہی رہتے ہیں البتہ بنگلوں کی املاک کی حفاظت کے لئے ان
محکموں نے چوکیدار رکھے ہوئے ہیں جو درختوں گھاس وغیرہ کو پانی دیتے رہتے
ہیں - کچھ ایسا ہی مری میں بھی ہے - میں افطار کے بعد ایک چائے خانےمیں
بیٹھا تھا - وہاں کسی بنگلے کے دو چوکیدار بیٹھے ہوئے تھے - - - وہ سردی کی
بابت ہی بات کر رہے تھے کہ اس برس زیارت میں اچانک سردی کی لہر آنے کے سبب
مختلف اقسام کے پھلوں کی پیداوار متاثر ہوئی ہے - اخروٹ کے پتے کالے پڑگئے
ہیں - اور چیری کی پیداوار میں بھی کمی آئی ہے - ایک چوکیدار نے کہا کہ
صاحب نے کوئٹہ سے فون کیا ہے کہ چیری کے دس کریٹ بھجوا دوں جبکہ یہاں چیری
کا حال پتلا ہی ہے -چوکیدار کہہ رہا تھا کہ صاحب کو کیا بتاؤں بس خود ہی
کہیں سے مانگ تانگ کر یا کہیں سے خرید کر انتظام کر دوں گا - نوکری کا
معاملہ ہے -
زیارت میں قومی یکجہتی کے دلفریب نظارے بھی نظر آئے - قائد اعظم ریذیڈنسی
پر حملے کے بعد ملک سے محبت ظاہر کرنے کے لئے بہت سے دکانداروں نے اپنی
دکانوں کے بورڈ پاکستان کے قومی ہلالی پرچم کے رنگ( یعنی سبز اور سفید) کے
بنا لئے ہیں - ان پر پشتو میں اپنی دکانوں کے نام لکھے ہوئے ہیں
گوشت بیچنے والے کی دکان پر "قصاب " لکھا ہوا تھا
جنرل اسٹور کی دکان پر "عمومی یولو رانجی " لکھا ہوا تھا
اسی طرح موٹرمیکانیک کی دکان پر " گاڑی کاریگر " لکھا ہوا تھا
ایسا لگتا تھا کہ پورا زیارت سبز ہلالی پرچموں تلے مسکرا رہا ہے اور کہہ
رہا ہے
"اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں -- ہم ایک ہیں
سانجھی اپنی خوشیاں اور غم ایک ہیں، ہم ایک ہیں"
موسم خوشگوار تھا - نظارےحسین تھے - پھولوں کی مہک تھی -گلابوں کے پھولوں
کے تختے تھے- چیری سے لدے ہوئے درخت دور تک پھیلے ہوئے تھے - غالبا“ ہلکی
سی پھوار بھی پڑ رہی تھی - اور دور کہیں بھونرے کی سریلی آوازیں
سنائی دے رہی تھیں - نور جہاں کا گایا ہوا نغمہ یاد آیا
گن گن کرتا چنچل بھنورا -- مستی میں لہرائے
تتلی ناچے -- بلبل چہکے -- کوئل شور مچائے
لیکن جب یہ بھنورا گاتا ہوا اور لہراتا ہوا کمرے میں داخل ہوا تو سب اس کی
حسین حرکات بھول گئے
ایک شور مچا ---ہٹو ہٹو -- یہ کاٹ لے گا - بڑا خطرناک ہوتا ہے - بھگاؤ
--بھگاؤ اسے -
اور اخبار کو موڑ توڑ کر ہتھیار سا بنالیا اور اس کی جان کے درپے ہوگئے -آج
کل اخبار ایسے ہی کاموں میں استعمال ہوتا ہے -
بھنورے نے اپنا گیت چھوڑا اور ------------ "بھنورے تیرے یہاں دشمن ہزار
--- چھوڑ اپنے قول و قرار " کہتا ہوا فرار ہوا -
تھوڑی دیر بعد باہر جاکر دیکھا تو دیوار پر اداس بیٹھا ہوا نظر آیا - زیارت
کا بھنورا بھی موسم کی طرح حسین و خوبصورت و رنگین تھا - اس کی لمبی لمبی
ٹانگیں دیکھ کر ایک لحظہ کے لئے تو ہم بھی ڈر گئے - اتنے میں ہوٹل کے
چوکیدار کا بیٹا آیا اور کہا "ڈرو مت --یہ انسان دوست ہے - یہ نہیں کاٹتا -
اور اسے اپنی اپنی ہتھیلی پر اٹھالیا - بھنورے کو پیار بھرا لمس ملا تو اس
کی جان میں جان آئی اور پھر گنگناتا ہوا اڑ گیا -
ہم نے کالم کے آغاز میں لکھا تھا کہ یہ لڑکے بالے تھے جو انڈے لڑانے کی مشق
کر رہے تھے اور پیغام دے رہے تھے لوگو سنو عید آیا ہی چاہتی ہے - اب یار
لوگ سوال کریں گے کہ یہ انڈے لڑانا کیا ؟ تو صاحبو انڈے لڑانے کا کھیل
بلوچستان کے قدیم کھیلوں میں سے ایک ہے۔ - انڈے لڑانے والے دو افراد میں سے
ایک فرد انڈے کو ہاتھ میں پکڑ کر نیچے رکھتا ہے - دوسرا فرد اوپر سے اپنے
ہاتھ میں پکڑے ہوئے انڈے کی ضرب لگاتا ہے۔
جس کا انڈا ٹوٹ جاتا ہے وہ ہار جاتا ہے
اور وہ ٹوٹا ہوا انڈا جیتنے والے کے حوالے کردیتا ہے۔
انڈوں کو لڑانے سے قبل ان کو ابالا جاتا ہے اور شوقین مزاج افراد مختلف قسم
کے رنگ لگا کرانہیں خوب صورت بنانے کی کوشش کرتے ہیں - زمانہ گزرنے کے ساتھ
ساتھ اب لوگوں کا رجحان اس جانب کم ہو گیا ہے لیکن اب بھی عید کے مواقع پر
لوگ یہ کھیل کھیلتے نظرآتے ہیں - مقابلے سے پہلے اسے اپنے دانتوں سے ٹکرا
تے ہیں اور آواز کی گونج سے اس کی مضبوطی کا اندازہ کرتے ہیں کہ انڈے میں
مقابلہ کرنے کا کتنا دم ہے - اس کھیل میں کئی مرتبہ دھوکہ دہی بھی ہو جاتی
ہے وہ اس طرح کہ بد طینت افراد اصل انڈے کی بجائے ہو بہو اسی شکل و صورت کا
لکڑی کا بنایا ہوا جعلی انڈا استعمال کر تے ہیں -
ہم کراچی واپس آچکے ہیں لیکن اب بھی سارے نظارے انکھوں کے سامنے بار بار
آرہے ہیں - |