کرکٹ کی تاریخ کے عظیم کرکٹر

پہلی ٹرپل سنچری بنانے والے، اینڈریوسینڈہم اوراسپیڈ اسٹارشعیب اختراینڈریو سینڈہم بہترین کرکٹر قرار پائے
سر گیری سوبرز کی کھیل میں خدمات پر ملکہ برطانیہ نے ’’نائٹ بیچلر‘‘کا خطاب جب کہ ڈان بریڈ مین کی یاد میں سکے جاری کیے گئے

کرکٹ کے کھیل کا آغازسولہویں صدی میں جنوب مشرقی لندن سے ہوا اور 1844میںاس کا دائرہ وسیع ہوکر آسٹریلیا تک پھیل گیا اسے بین الاقوامی اہمیت حاصل ہوگئی جس کے بعد 1877ء میں انٹر نیشنل کرکٹ کونسل کا قیام عمل میں آیا۔ 1877ء سےمختلف ممالک کے درمیان بین الاقوامی میچوں کے انعقاد کے بعد بے شمار کرکٹرز نے اس کھیل میں متعدد کارنامے انجام دیئے، جن میں ڈبلیو جی گریس، چارلس بینرمین، ڈان بریڈ مین، برائن لارا، سنتھ جے سوریا، متایا مرلی دھرن، رکی پونٹگ، اے بی ڈی ویلئر، سچن ٹنڈولکر ، حنیف محمد اور ظہیر عباس جیسے عظیم کھلاڑی شامل ہیں ، جنہوں نے اپنی بیٹنگ اور بالنگ کی وجہ سے طویل عرصہ تک عالمی کرکٹ کے افق پر اپنی حکم رانی قائم رکھی۔ جن کا نام ان کے منفرد کارناموں کی وجہ سے کرکٹ کی ریکارڈ بک میں ہمیشہ کے لیے امرہوگیا۔ ان میں سے چند کرکٹرز کا تذکرہ نذو قارئین ہے۔

اینڈریو سینڈہم
ہاتھ سے بیٹنگ کرنےوالے انگلش بلے باز اینڈ ریوسینڈہم کو ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ کی پہلی ’’ٹرپل سنچری‘‘ بنانے کا اعزاز حاصل ہے ۔ ان کا کرکٹ کیریئر 1921سے 1930 تک 9سال کے عرصے پر محیط تھا جس میں انہوں نے 14ٹیسٹ میچز کھیلے۔ 1911میں انہوں نے سرے کائونٹی کے ساتھ کھیلتے ہوئے فرسٹ کلاس میچز کا آغاز کیا۔ 1926تک انہوں نے کائونٹی کرکٹ میں تین منفرد ریکارڈ قائم کیے۔ 1921میں آسٹریلیا کے خلاف ٹیسٹ ڈبیو کیا اور 1923میں ان کا نام وزڈن کرکٹر آف دی ایئر میں سال کے بہترین کھلاڑی کی حیثیت سے شامل کیا گیا۔
1922-23 میں جنوبی افریقہ کے خلاف میچ میں وہ نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ نہ کر سکے۔ 1929-30 میں انگلینڈ کی کرکٹ ٹیم نے ویسٹ انڈیز کا دورہ کیا،اینڈریو بھی انگلش اسکواڈ کا حصہ تھے۔۔ برج ٹائون کےپہلے ٹیسٹ میچ میں انہوں نے پہلی اور دوسری اننگز میں 152اور 51 رنز اسکور کیے۔ جب کہ اگلے دو میچوں میں جو جارج ٹائون اور پورٹ آف اسپین میں کھیلے گئے ان کی بیٹنگ ناکام رہی۔ چوتھا ٹیسٹ میچ جو کنگٹسن میں کھیلا گیا، اس میں انہوں نے بہترین بلے بازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پہلی اننگز میں ٹرپل سنچری اسکو رکر کے نیا عالمی ریکارڈ قائم کیا۔ اس سے قبل ایک اننگز میں سب سے زیادہ 292رنز بنانے کا ریکارڈ بھی انہی کے پاس تھا، جو انہوں نے نارتھنٹس کے خلاف 1924 میں قائم کیا تھا۔ 1930-31 میں ایم سی سی کی ٹیم کے ساتھ انہوں ے جنوبی افریقہ کا دورہ کیا اور دسمبر 1930 میں ڈربن میں ٹریفک حادثے میں ان کے ٹخنے کی ہڈی ٹوٹ گئی جس کا آپریشن کرانا پڑا لیکن اس حادثے کے بعد ان کا ٹیسٹ کیریئر ختم ہو گیا جب کہ وہ بدستور فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلتے رہے۔ 1934 میں آسٹریلین ٹیم برطانیہ کے دورے پر آئی، انہوں نے سرے کائونٹی کی جانب سے کھیلتے ہوئے ڈبل سنچری اسکور کی۔ 1935 میں ’’بینگ اسٹوک‘‘ میں سنچریوں کی سنچری اسکور کی جو کسی کرکٹر کا پہلا عالمی ریکارڈ تھا۔ 1937 میں انہوں نےاپنے کیرئیر کی تیسری ڈبل سنچری اسکور کی اور یہ کارنامہ انہوں نے اپنی 47 ویں سالگرہ سے ایک ماہ قبل انجام دیا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد انہیں سرے کائونٹی کی ٹیم کا کوچ بنا دیا گیا اور 1950 میں انہوں نے اپنی ٹیم کو کائونٹی چیمپئن شپ کے سات ٹائٹل جتوانےمیں کردار ادا کیا۔ 1982 میں جب وہ اپنی زندگی کی سنچری سے ایک سال کے فاصلے پر تھے تو وہ نروس نائنٹیز کا شکار ہو کر 99 برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔

سرڈان بریڈ مین
کرکٹ کی تاریخ کی دوسری ٹرپل سنچری بنانےوالے ڈونلڈ جارج بریڈ مین 1908میں نیو سائوتھ ویلز، آسٹریلیا میں پیدا ہوئے۔ انہیں بچپن سے ہی کرکٹ کھیلنے کا شوق تھا اور اپنے اسکول، بوورال پبلک اسکول کی جانب سے مٹاگانگ ہائی اسکول کے خلاف بیٹنگ کرتے ہوئے صرف 12 سال کی عمر میں اپنی زندگی کی پہلی ناٹ آئوٹ سنچری بنائی۔ 1920 میں انہوں نے بوورال کی مقامی ٹیم کی جانب سے میچ میں حصہ لیا اور دونوں اننگز میں ناٹ آئوٹ رہے۔ اسی سال ان کے والد انہیں ایشز سیریز کا پانچواں ٹیسٹ میچ دکھانےکے لئے سڈنی کرکٹ گرائونڈ لے گئے۔ جہاں انہوں نے اپنے والد سے اس گرائونڈ میں میچ کھیلنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ 1925-26 میں وہ بوورال کی ٹیم کا مستقل حصہ بن گئے۔ اسی سال انہوں نے اپنی ٹیم کی جانب سے بیٹنگ کرتے ہوئے’’ ونگیلو ڈسٹرکٹ ‘‘کے خلاف پہلی ڈبل سنچری بنائی۔ 1926 میں آسٹریلین ٹیم کی انگلینڈ میں کھیلی جانےوالی ایشز سیریز میں شکست کے بعد کئی کھلاڑی ٹیسٹ کرکٹ سے ریٹائر ہوگئے، اس خلاء کو پُرکرنے کے لئے نیو سائوتھ ویلز کرکٹ ایسوسی ایشن نے بہترین صلاحیتوں کے حامل کرکٹرز کی تلاش شروع کی۔ کرکٹ آسٹریلیا کے حکام کی نظروں سے بریڈ مین کے کارنامے بھی گزر چکے تھے اس لئے انہوں نے بریڈ مین کو بھی سڈنی میں پریکٹس سیشن میں شرکت کی دعوت دی۔بریڈ مین نے سینٹ جارج کی جانب سے پریکٹس میچ میں پہلی سنچری اسکور کی۔ 19 سال کی عمر میں انہیں ان فٹ کرکٹر ،آرچی جیکسن کی جگہ نیو سائوتھ ویلز کی ٹیم میں شامل کیا گیا اور انہوں نے ایڈیلیڈ اوول میں اپنے فرسٹ کلاس کیریئر کے آغاز میں ہی سنچری اسکور کردی۔ 1928-29 میں انگلینڈ کی ٹیم آسٹریلیا کے دورے پر آئی جہاں اسے ایشز سیریز میں اپنے اعزاز کا دفاع کرنا تھا۔ بریڈمین کو پہلے میچ میں بارھویں کھلاڑی کے طور پر شامل کیا گیا۔ اس میچ میں انگلینڈ کی ٹیم نے 863 رنز اسکور کیےجب کہ آسٹریلیا کی ٹیم پہلی اننگز میں صرف 66 رنز بنا کر آئوٹ ہو گئی تھی۔ اس میچ میں اسے 675 رنز سے شکست ہوئی۔ بریڈ مین کو ٹیم سے باہر کردیا گیا تھا۔ تیسرے ٹیسٹ میچ میں جو ملبورن کرکٹ گرائونڈ پر کھیلا گیا، انہیں دوبارہ ٹیم میں شامل کیا گیا ۔ اس میچ میں بریڈ مین نے بہترین بلے بازی کا مظاہرہ کیا اور پہلی اننگز میں 79 جب کہ دوسری میں سنچری اسکور کر کے وہ کرکٹ کی تاریخ کے سب سے کم عمر سنچری میکر کھلاڑی بن گئے۔ چوتھے ٹیسٹ میں میچ میں وہ نصف سنچری بنا سکے جب کہ پانچویں ٹیسٹ میچ میں انہوں نے اپنے کیریئر کی دوسری ٹیسٹ سنچری اسکور کی۔ اسی سال بریڈ مین نے شیفلڈ شیلڈ ٹرافی میں وکٹوریہ کے خلاف بیٹنگ کرتے ہوئے پہلی ناٹ آؤٹ ٹرپل سنچری اسکور کی۔ 1929-30 میں انگلینڈ کا دورہ کرنےوالی ٹیم کے لئے ٹرائل میچ میں انہوں نے پہلی اننگز میں سنچری جب کہ دوسری میں ناٹ آئوٹ ڈبل سنچری اسکور کی۔ سائوتھ ویلز کرکٹ گرائونڈ پر کوئنز لینڈ کے خلاف فرسٹ کلاس میچ میں انہوں نے صرف 415 منٹ میں ناٹ آئوٹ 452 رنز اسکور کئے۔ 1930 کی ایشز سیریز میں جو انگلینڈ میں کھیلی گئی، ڈان بریڈ مین نے 11جولائی کو حیران کن کارنامہ انجام دیا۔ تیسرے ٹیسٹ میچ میں لنچ سے قبل انہوں نے سنچری اسکور کی، دوپہر کے وقت لنچ اور چائے کے وقفے کے دوران انہوں نے دوسری جب کہ کھیل کے اختتام سے قبل انہوں نے تیسری سنچری اسکور کر کے ایک ہی روز میں ٹرپل سنچری بنانےکا اعزاز حاصل کیا ۔ اس کے صرف پونے تین سال بعد انہوں نےہیڈنگلے کے گرائونڈ پرانگلش ٹیم کے خلاف ہی دوسری ٹرپل سنچری بنانے کا ریکارڈ قائم کیا۔ بریڈ مین نے 52 ٹیسٹ میچوں میں 6996 جب کہ 234فرسٹ کلاس میچوں میں 28,067 رنزبنائے۔ ان کے کارناموں میں ایک مرتبہ فورتھ ،تین مرتبہ ٹرپل جب کہ12سے زائد ڈبل سنچری شامل ہیں جب کہ 1932 میں وہ جنوبی افریقہ کے خلاف صرف ایک رنز کی کمی سے چوتھی ٹرپل سنچری بنانے سے محروم رہے۔

ان کے منفرد کارناموں کی وجہ سے ان کا نام کرکٹ کی تاریخ میں ہمیشہ کے لئے امر ہو گیا۔انہیںکرکٹ کی تاریخ کا عظیم ترین کھلاڑی مانا جاتا ہے۔وہ 1931ء میں وزڈن کے سال کے 5 بہترین کھلاڑیوں میں سے ایک تھے۔ 1949ء میںآسٹریلوی حکومت کی جانب سے انہیں "سر" کا خطاب دیا گیا اور 1979ء میں آسٹریلیا کے اعلیٰ ترین شہری اعزاز’’ کمپینین آف دی آرڈر آف آسٹریلیا ‘‘سے نوازا گیا۔ 2000ء میں بریڈمین کو ماہرین نے وزڈن کی صدی کے بہترین کھلاڑیوں کی فہرست میں شامل کیا2002ء میں وزڈن نے بریڈمین کو ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ کا عظیم ترین بلے باز قرار دیا۔ اس فہرست میں ٹنڈولکر، گیری سوبرز، ویوین رچرڈز بالترتیب دوسرے، تیسرے اور چوتھے درجے پر تھے۔ انگلستان کے خلاف ملبورن میں کھیلے گئے تیسرے ٹیسٹ مقابلے میں بریڈمین کی 270 رنز کی اننگ کو وزڈن کی جانب سے ٹیسٹ کرکٹ کی عظیم ترین اننگ قرار دیا گیا تھا۔بریڈ مین کی تصاویر ڈاک ٹکٹوں اور سکوں پر چھپیں جب کہ وہ آپ آسٹریلیا کی پہلی شخصیت تھے جن کی زندگی ہی میں ان سے موسوم ایک عجائب گھر قائم کیا گیا۔ڈان بریڈمین 2001ء میں 92 برس کی عمر میں ایڈیلیڈ میں چل بسے۔ آپ کے انتقال کے بعد آسٹریلیا کی حکومت نے 20 سینٹ کے یادگاری سکے جاری کیے۔

برائن لارا
سابق کیربین بلے باز برائن لارا کو آل ٹائم کا عظیم کرکٹر ہونے کا اعزاز حاصل ہے،وہ کئی مرتبہ بیٹس مینوں کی عالمی درجہ بندی میں پہلے نمبر پر براجمان رہ چکے ہیں جب کہ کرکٹ کے بے شمار ریکارڈ ان کے نام سے منسوب ہیں۔انہوں نے 14 سال کی عمر میں اسکول بوائز لیگ کرکٹ میں 745 رنز اسکور کیے۔15 برس کی عمر میں ویسٹ انڈیز انڈر 19 یوتھ ٹورنامنٹ میں پہلی مرتبہ شرکت کی اور اسی سال انہیں انڈر 19 کرکٹ ٹیم میں شامل کیا گیا۔1987 میں صرف 18 سال کی عمر میں انہوں نے ویسٹ انڈیز یوتھ چیمپئن شپ میں 498 رنز بناکر 1986 میں ہم وطن کرکٹر کارل ہوپر کا 480 رنز کا ریکارڈ توڑا تھا۔1988 میں ٹرینیڈاڈ اور ٹوباگو کی طرف سے’’ لیوارڈ آئی لینڈ‘‘ کی ٹیم کے خلاف ’’ریڈ اسٹرپ کپ‘‘ میں حصہ لے کر فرسٹ کلاس کرکٹ کا آغاز کیا۔1990 میں انہیں پاکستان کا دورہ کرنے والی ٹیم اسکواڈ میں شامل کیا گیا۔1993 میں دورہ آسٹریلیا کے دوران سڈنی ٹیسٹ میں لارا نے پہلی ڈبل سنچری اسکور کی ۔

1994 میں انہوں نے واروکشائر کی جانب سے درہم کائونٹی کے خلاف فرسٹ کلاس میچ میں 501 رنزبنانے کا عالمی ریکارڈ قائم کیا جو آج بھی ناقابل شکست ہے۔انہوں نے ففتھ سنچری بنانے کا کارنامہ 474 منٹ میں 427 گیندوں پر انجام دیا، اس کے ساتھ ہی انہوں نے پاکستانی کرکٹر حنیف محمد کا ریکارڈ بھی توڑ دیا جو انہوں نے 1959 میں قائم کیا تھا۔۔اپنی اس اننگز میں انہوں نے 308 بائونڈریز ماریں جن میں 10 چھکے اور 62 چوکے شامل تھے۔انہوں نے واروکشائر کی جانب سے کھیلتے ہوئے سات میچوں میں لگاتار 6 سنچریاں اسکور کیں۔وہ دنیا کے واحد بلے باز ہیں جنہوں نے ٹیسٹ کرکٹ کے کئی ریکارڈ قائم کئے۔1994 میں انہوں نے ویسٹ انڈیز کا دورہ کرنے والی برطانوی ٹیم کے خلاف پانچویں ٹیسٹ میچ میں 375 رنز اسکورکیے جب کہ اپریل 2004 میں بارہاڈوس ٹیسٹ میں 400 رنز ناٹ آئوٹ کی اننگز کھیلنے کا ریکارڈ قائم کیا جو آج تک ناقابل شکست ہے۔وہ ڈان بریڈمین کے بعد دوسرے بلے باز ہیں جنہوں نے دو مرتبہ ٹرپل سنچری بنانے کا کارنامہ انجام دیا۔ انہیں ایک مرتبہ ’’فورتھ اور ایک مرتبہ ففتھ سنچری‘‘ بنانے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔لارا نے ٹیسٹ کرکٹ میں 9 ڈبل سنچریاں اسکور کیں۔بریڈمین 12 ڈبل سنچریوں کے ساتھ پہلے جب کہ کمارسنگاکارا 11 ڈبل سنچریوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہیں جب کہ لارا تیسرے نمبر پر فائز ہیں۔1995 میں برطانیہ کے خلاف تین میچوں کی ٹیسٹ سیریز میں انہوں نے لگاتار تین سنچریاں اسکور کرکے مین آف دی سیریز کا ایوارڈ حاصل کیا۔انہوں نے ٹیسٹ کیریئر کا آغاز دسمبر 1990 میں پاکستان کے خلاف کھیلتے ہوئے کیا تھا جب کہ اس کا اختتام بھی نومبر 2006 میں پاکستان کے خلاف میچ کھیل کرکیا۔2007 کے ورلڈکپ کے بعد انہوں نے کرکٹ کے تمام فارمیٹ سے ریٹائرمنٹ لے لی۔انہوں نے 63 ٹیسٹ میچز کھیلے۔ ملتان ٹیسٹ میں لارا کی انتہائی جارحانہ انداز میں کھیلی گئی شاندار ڈبل سنچری کو جس نے بھی دیکھا وہ اسے نہیں بھول سکتا۔برائن لارا ٹیسٹ کرکٹ میں سب سے زیادہ 11953 رنز کے ریکارڈ کے مالک ہیں۔37سال کی عمر میںاپنے عروج کے زمانے میں انہوں نے کرکٹ سے کنارہ کشی اختیار کرلی۔

گیری سوبرز
’’سرگیرالڈ آبرن سوبرز ‘‘ویسٹ انڈیز کے عظیم آل رائونڈر تھے۔ انہیں بچپن سے ہی کھیلوں سے دل چسپی تھی اور وہ فٹ بال، باسکٹ بال اور کرکٹ سے گہرا شغف رکھتے تھے۔ 12سال کیر عمر میں انہوں نے محلے کے لڑکوں پر مشتمل کرکٹ ٹیم بنائی اور پرائمری انٹر اسکول کرکٹ چیمپئن شپ کا مقابلہ لگا تار تین مرتبہ جیتنے کا اعزاز حاصل کیا۔ 13سال کی عمر میں وہ بارباڈوس کرکٹ لیگ کی ٹیم ، کینٹ سینٹ فلپ کلب اور بے لینڈ کی ٹیم واڈررز کرکٹ کلب کی جانب سےکھیلنے لگے۔ انہوں نے 1953 میں 16 سال کی عمر میں فرسٹ کلاس کرکٹ کا آغاز کیا اور اسی سال وہ ویسٹ انڈیز کی ٹیسٹ ٹیم کا حصہ بنے۔شروع میں وہ بالر کے طور پر میچ میں حصہ لیتے رہے لیکن بعد میں بیٹس مین کی حیثیت سے معروف ہوئے1954ء میں انگلینڈ کی کرکٹ ٹیم نے ویسٹ انڈیز کا دورہ کیا، کنگسٹن کے پانچویں ٹیسٹ میچ میںکیربین بالر ’’الف ویلنٹائن‘‘ بیمار ہوگئے، گیری سوبرز کو ان کے متبادل بالرکے طور پر ٹیم میں شامل کیا گیا، اس وقت ان کی عمر17سال تھی۔1955ء میں دورہ آسٹریلیا کے دوران انہیں لوئر آرڈر بیٹس مین کی حیثیت سے ٹیم میں شامل کیا گیا۔ 1958 میں انہوں نے ویسٹ انڈیز کا دورہ کرنے والی پاکستانی ٹیم کے خلاف میڈن سنچری بنائی۔اس میچ میں انہوں نے 365 رنز ناٹ آئوٹ بنانے کا کارنامہ انجام دیا۔ان کا یہ ریکارڈ 36 سال تک ناقابل شکست رہا۔1994 میں انہی کے ہم وطن بلے باز برائن لارا نے 375 رنز کی اننگز کھیل کر ان کا ریکارڈتوڑا۔گیری سوبرز نے اسی سیریز میں پاکستان کے خلاف لگاتار تین سنچریاں اسکور کیں۔1968 میں سینٹ ہیلن سوان سی میں ناٹنگھم شائر کی جانب سے گلیمورگن کے خلاف بیٹنگ کرتے ہوئے لگاتار چھ چھکے لگاکر ایک ہی اوور میں 36 رنز بنانے کا کارنامہ انجام دیا۔1975 میں انہیں کرکٹ میں نمایاں خدمات انجام دینے پر ملکہ برطانیہ نے ’’نائٹ بیچلر‘‘ کا ایوارڈ دیا۔1998 میں بارباڈوس کی کیبنٹ نے گیری سوبرز کو ’’قومی ہیرو‘‘ کے رتبے سے نوازا۔2000 میں ان کا نام ’’وزڈن کرکٹر آف سنچری‘‘ کے پانچ کرکٹرز کے ساتھ شامل کیا گیا۔2004 میں انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کی جانب سے ’’سرگارفیلڈ سوبرز ٹرافی‘‘ کا اجراء کیا گیا جس کا انعقاد ہر سال کیا جاتا ہے۔سرگیری سوبرز نے اپنے کرکٹ کیریئر کے دوران 93 ٹیسٹ میچوں میں 8032 رنز اور 235 وکٹ لئے۔383 فرسٹ کلاس میچوں میں انہوں نے 28000 رنز اسکور کیے جب کہ 1000 وکٹیں لینے کا ریکارڈ بھی اپنے نام کیا۔

حنیف محمد
پاکستانی ٹیسٹ کرکٹر حنیف محمد کا شمار بھی دنیا کے ریکارڈ ساز کھلاڑیوں میں ہوتا ہے، جن کے بعضکارنامے آج تک ناقابل تسخیر ہیں۔ وہ پاکستان کرکٹ ٹیم کے ابتدائی دور کےکھلاڑیوں میں سے ایک ہیں۔ انہوں نے صرف13سال کی عمر میں اس کھیل میںپہلا انفرادی ریکارڈ بنایا۔حنیف محمد نےکرکٹ کیرئیر کا آغاز سندھ مدرسۃ الاسلام اسکول کراچی کراچی سے کیااور میٹنگ وکٹوں پر بیٹنگ کرتے ہوئے 305 رنز کی ناقابل شکست اننگزکھیل کر ٹرپل سنچری کا ریکارڈ بنایا۔ ان کی یہ منفرد اننگز ساڑھے سات گھنٹے جاری رہی۔ برطانیہ کی اے ٹیم پاکستان کے دورے پر آئی اور کراچی جیم خانہ کرکٹ گراؤنڈ پرایک میچ منعقدہوا،جس میں انہوں نے بہترین کھیل کا مظاہرہ کیا۔ 1948ء میں پاکستان کرکٹ بورڈ کا قیام عمل میں آیا جس نے ٹیسٹ اسٹیٹس کے حصول کے لیے انٹرنیشنل کرکٹ کونسل میں درخواست دی جو 1952ء میں منظور ہوئی۔951میں پاکستانی ٹیم کے کپتان عبدالحفیظ کاردارنے باصلاحیت کھلاڑیوں کی تلاش کے لیے مختلف شہروں کے دورے کیے اور فرسٹ کلاس میچز میں نوجوان کرکٹرز کی کھلاڑیوں کی کارکردگی کا بہ غور جائزہ لیا۔ کراچی کے چند میچوں میں انہوں نے حنیف محمدکو بھی کھیلتے دیکھا اور انہوں نے اس 17سالہ نوجوان کو قومی ٹیم کے لیے منتخب کرلیا۔1952ء میں پاکستان کرکٹ ٹیم نے پہلا بین الاقوامی دورہ بھارت کا کیا، جس میں حنیف محمد بھی پاکستانی اسکواڈ کا حصہ تھے۔ انہوں نے اپنے کیریئر کی پہلی ٹیسٹسنچری اسی دورے کے دوران اسکور کی۔بھارت کے ساتھ پانچ میچوں کی سیریز کے دوران حنیف نے بہترین بلے بازی کا مظاہرہ کیا۔ کمنٹری باکس میں بیٹھ کر دنیاکے دو مشہور کمنٹیٹرز،مہاراجہ ہزیانگرم اور ڈاکٹر وجے آنند اس کم سن بیٹسمین کی بیٹنگ کے جوہر دیکھ رہے، ساڑھے پانچ فٹ قامت کے حنیف محمد گراؤنڈ میں موجود تمام کھلاڑیوں میں سب سے چھوٹے لگ رہےتھے ۔ اس موقع پر ان د ونوں کمنٹیٹرز نے حنیف محمد کو ’’لٹل ماسٹر‘‘ کا خطاب عطا کیا، جو بعد میں ان کے نام کا ایک جزو بن گیا۔
1958پاکستانی ٹیم نے ویسٹ انڈیز کا دورہ کیا، حنیف نے ویسٹ انڈیز کے خلاف بارباڈوس ٹیسٹ میں دو عالمی ریکارڈ قائم کیے۔ انہوں نے 970منٹ تک بیٹنگ کرتے ہوئے ٹرپل سنچری اسکور کی ، اور وہ یہ ریکارڈ قائم کرنے والے دنیا کے چھٹےاور پاکستان کے پہلے بلے باز بن گئے، یہ قو می کرکٹ کی تاریخ کی پہلی ٹرپل سنچری تھی۔ 970منٹ تک کریز پر ٹھہر کر بیٹنگ کرنے کا ان کاعالمی ریکارڈ آج بھی ناقابل تسخیر ہے۔ 1959میںکراچی کی جانب سے بہاولپور کی ٹیم کے خلاف فرسٹ کلاس میچ میں وہ صرف ایک رن کی کمی سے’’فتھ سنچری ‘‘ کا ریکارڈ قائم کرنے سے محروم رہ گئے ،لیکن انہوں نے اس میچ میں ڈان بریڈ مین کا 458رنزریکارڈ توڑدیا۔1954-55میں میلبورن کرکٹ کلب کی پاکستان کے دورے پر آئی۔اس کا پہلا میچ کراچی میں گورنر جنرل الیون کے خلاف ہوا جس میں پاکستان کو شکست ہوئی۔ دوسرا میچ لاہور میں کھیلا گیا اس میں کاردار نے بیٹسمینوں کو سست رفتاری سے بیٹنگ کرنے کی ہدایت کی۔ اس موقع پر حنیف محمد نے 525منٹ تک بیٹنگ کرتے ہوئے تاریخ کی سست ترین سینچری بنانے کا ریکارڈ قائم کیا۔ان کے اس کارنامے کا تذکرہ گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں موجود ہے، 1955 میں شائع ہونے والے پہلے ایڈیشن میں پاکستانی لیجنڈ کرکٹر کانام، سست ترین سنچری اسکورکرنے والے بلےباز کے طور پر کیا گیا ہے۔ حنیف محمد کو کرکٹ کے نقادوں کی جانب سے اس وقت دنیا کے عظیم بلے باز کا خطاب دیا گیا جب پاکستان کرکٹ ٹیم نے بہ مشکل ایک درجن میچ ہی کھیلے تھے۔ 1968ء میں ان کے اؒنام کا اندراج ’’وزڈن کرکٹ آف دی ایئر‘‘ میں کیا گیا جب کہ 2009ء میں ان کا نام آئی سی سی ہال آف فیم میں آویزاں کیا گیا۔ 1958ء میں انہیں پرائیڈ آف پرفارمنس کے صدارتی ایوارڈ سے نوازا گیا۔

شعیب اختر
شعیب اختر کا شمار کرکٹ کی تاریخ کے تیز ترین بالر کی حیثیت سے ہوتا ہے جنہوں نے ایک میچ میں 161.3کلومیٹر کی رفتار سے بالنگ کرائی تھی، جو ایک منفرد عالمی ریکارڈ ہے۔ انہوں نے ابتدا ہی سے خود کو ایک جارح مزاج فاسٹ بالر کی حیثیت سے منوایا۔ شعیب اختر نے فرسٹ کلاس کرکٹ کی ابتدا 1994 کے سیزن میںایک نجی بنک کی جانب سے ڈومیسٹک کرکٹ سے کی جب کہ انٹرنیشنل کیریئر کا آغاز1997میںویسٹ انڈیزکے خلاف ہم سیریز میں کھیل کر کیا اور پہلے ہی میچ میں اپنی برق رفتارگیندوں سےشعیب نے کرکٹ کے عالمی حلقوں کوحیرت میں مبتلا کردیا۔فاسٹ بالر کے طور پرشعیب کی مقبولیت کا آغاز 1999میں شارجہ میں پری ورلڈ کپ سیریز میں بھارت کے خلاف شاندار کارکردگی سے ہوا۔ اسی سال انہوں نے کلکتہ میں کھیلی جانے والی ایشین ٹیسٹ چیمپئن شپ کے میچ کی ایک اننگ میں آٹھ بھارتی بیٹسمینوں کو آؤٹ کیا۔ اس میچ میں صرف دو گیندوں پر راہول ڈریوڈ اور سچن ٹنڈولکرجیسے معروف بلے بازوں کی وکٹیں لے کرمنفرد کارنامہ انجام دیا۔2003کے عالمی کپ کے دوران انہوں نے کرکٹ کی تاریخ کی تیزرفتار بالنگ کا مظاہرہ کیا اوربرطانیہ کے خلاف میچ میں بالنگ کراتے ہوئے انہوں نے ایک گیند 100.2 میل فی گھنٹہ (161.4 کلومیٹر فی گھنٹہ) کی رفتار سے کرائی جو آج تک کرائی جانے والی کرکٹ کی تاریخ کی سب سے تیز رفتار گیند ہے۔اس کے علاوہ بھی ان کی تیز رفتار بالنگ کے متعدد ریکارڈ ، آئی سی سی کی ریکارڈ بک میں محفوظ ہیں، جن میں سے 2002میں نیوزی لینڈ کے خلاف سیریز جب کہ اسی سال تین مرتبہ سری لنکا کے خلاف ایک ہی میچ میں قائم کیےیٹر فی گھنٹے کی رفتار سے کرائی، جو کرکٹ کی عالمی تاریخ کے ریکارڈ کا حصہ بن چکی ہے۔

اگرچہ شعیب اخترکرکٹ سے ریٹائر ہوچکے ہیں لیکن ان کی ہیبت آج بھی دنیا کے جارح مزاج بلے بازوں کے دلوں میں بیٹھی ہوئی ہے۔ بیٹسمین جب تک کریز پرہوتے تھے، ان کے خوف ناک باؤنسرز اور تیز رفتار گیندوں سے، خائف رہتے تھے اور ان کی خواہش ہوتی تھی کہ وہ شعیب کی بالنگ کے دوران بیٹنگ اینڈ پر نہ ہوں۔ شعیب اختر فاسٹ بائولنگ کی تاریخ کا ایسا کردار ہیں جنہیں کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتامتعدد میچوں میں کھیلتے ہوئے انہوں نےتیز رفتاربالنگ کرانے کے متعدد ریکارڈ بھی قائم کیے ۔ شعیب نے متعدد میچوں میں سو میل فی گھنٹہ سے زائد کی رفتار سے بالنگ کرانےکا کارنامہ انجام دیا،انہیں کرکٹ کے ناقدین نے ’’فائرنگ بلٹس ‘‘ کا خطاب دیا تھا کیوں کہ ان کی طرف سے پھینکی جانے والی گیند، بندوق کی گولی کی رفتار سے بیٹسمین کی جانب آتی تھی۔انہوں نے 13برس کے بالنگ کیریئر کے دوران دنیا کی نام ور ٹیموں کے 19بلے بازوں کو اپنی مہلک بالنگ سے زخمی کیا، جن میں بھارتی ٹیم کےسابق کپتان سارو گنگولی بھی شامل ہیں۔ 2003میں جنوبی افریقہ کی ٹیم جب پاکستان کے دورے پر آئی تو اس زمانے میں شعیب اختر کے مہلک باؤنسرز کا شہرہ تھا۔ ایک میچ کے دورا ن جب جنوبی افریقن بیٹس مین گیری کرسٹن بیٹنگ کررہے تھے، راولپنڈی ایکسپریس نے تیر رفتار گیند کراتے ہوئے ایک سپر فاسٹ باؤنسر ان کی طرف پھینکاجو ان کے چہرے پر جاکر لگاجس سے کرسٹن زمین پر گر گئے۔ انہیں اسپتال لے جایا گیاجہاں ان کے چہرے پر دس ٹانکےلگے۔ گیند لگنے سے ان کی ناک کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی جب کہ آنکھ کو بھی نقصان پہنچا تھا۔ یہ میچ گیری کرسٹن کے کرکٹ کیرئیر کا آخری میچ ثابت ہوا اور انہوں نے اس کے بعد ہمیشہ کے لیے کھیل سے ریٹائرمنٹ لے لی۔۔2004میں آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی کا دوسرا سیمی فائنل پاکستان اور ویسٹ انڈیز کے درمیان منعقد ہوا۔ ویسٹ انڈیزکے خلاف بالنگ کے دوران ویسٹ انڈیز کے ریکارڈ ساز بلے باز برائن لارا بیٹنگ کررہے تھے۔ شعیب اختر کی بالنگ کی ایک تیز گیند ان کی گردن پر لگی جس سے وہ زمین پر گر گئے،انہیں فوری طور سے اسپتال پہنچایا گیا۔

2005 میں برطانیہ کے دورے کے دوران انہوں نےبیٹنگ وکٹوںپربھی بہترین بالنگ کا مظاہرہ کیا۔ اپنی تیز لیکن نپی تلی بالنگ سے شعیب نے سیریز میں سب سے زیادہ سترہ (17) وکٹیں حاصل کیں۔ گیری کرسٹن جنہوں نےشعیب کے ہاتھوں زخمی ہونے کے بعد کرکٹ کو خیرباد کہہ دیاتھا، ان کی بالنگ پر اپنے تبصرے میںکہتے ہیں کہ ’’ میں شعیب کی فاسٹ بالنگ کو نئی جہت دینے پر انہیں خراج تحسین پیش کرتا ہوں، راولپنڈی ایکسپریس کے نام سے معروف شعیب اختر درحقیقت کرکٹ کے افسانوی بالرہیں‘‘۔

یونس خان
یونس خان کا شمار دنیا کے بہترین بلے بازوں میں ہوتا ہے جو ٹرپل سنچری بنانے والے قومی ٹیم کے تیسرے اور دنیا کے 23ویں بلے باز ہیں۔ وہ 2017میںدس ہزار رنز کا سنگ میل عبور کرنے والے پہلے پاکستانی اور دنیا کے 13ویں بلے باز ہیں۔2014ء میں سری لنکا کے دورے کے موقع پر جب پاکستانی ٹیم کے کھلاڑی پہلے ٹیسٹ کی پہلی اننگز میںانتہائی کم اسکور پر آؤٹ ہوکرایک ایک کرکے پویلین کی طرف لوٹے ، انہوں نے 177رنز بنا کر قومی ٹیم کی پوزیشن مستحکم کردی جس کی وجہ سے انہیں مردبحران کا خطاب دیا گیا ۔سری لنکا کی ٹیم خلاف ٹیسٹ میچ میں دوسری اننگر میں سینچری اسکور کرنے کے بعد وہ ’’دوسری اننگز‘‘ میں سب سے زیادہ پانچ سینچری بنانے والے دنیا کے پہلے بیٹسمین بن گئے، اس سے قبل سنیل گواسکر اور رکی پونٹنگ کے پاس دوسری اننگز میںچار سینچریاں اسکور کرنے کا اعزازتھا۔فرسٹ کلاس کرکٹ میں انہوں نے اپنی پچاسویں سینچری مکمل کی اور وہ 15000رنز بنانے والے فرسٹ کلاس کرکٹر بن گئے۔وہ پاکستان کے واحد کھلاڑی ہیں جنہیں ٹیسٹ میچز میں چھ ڈبل سینچریاں بنانے کا اعزاز حاصل ہے۔جب کہ وہ قومی ٹیم کے پہلے کرکٹر ہیں جنہوں نے ٹیسٹ میچز میں 100کیچز پکڑنے کا اعزازبھی حاصل کیا۔ اپنے کیرئیر کے آخری میچوں کےدوران ویسٹ انڈیز کے خلاف تیسرے ٹیسٹ میچ میں یونس خان ٹیسٹ سیریز میں 10 کیچ لینے والے پہلے پاکستانی کھلاڑی بن گئے۔ انہوں نے بشو کا کیچ لے کر یہ اعزاز اپنے نام کیا۔2017میںل سڈنی ٹیسٹ میں 175رنز ناٹ آؤٹ بنا کر انہوں نے نہ صرف اپنی چونتیسویں سینچری مکمل کی بلکہ وہ گیارہ ممالک میں سینچری بنانے والے دنیا کےواحد بیٹسمین ہیں۔ اُن سے قبل بھارت کے راہول ڈریوڈنے دس ممالک میں سینچری بنانے کا اعزاز حاصل کیاتھا۔ ان گیارہ ملکوں میں دس ٹیسٹ کھیلنے والے ملک اور گیارہواں نیوٹرل وینیو،متحدہ عرب اَمارات ہے۔سڈنی ٹیسٹ میں سینچری بنانے کے بعد وہ ٹیسٹ میچوںمیں سب سےزیادہ سینچریاں اسکور کرنے والے بیٹسمینوں کی فہرست میں چھٹی پوزیشن پرفائز ہیں۔

مئی 2017میں ویسٹ انڈیز کے دورے کے اختتام پرانہوں نے کپتان مصباح الحق کے ساتھ کھیل سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کیا ۔ اس کے چند روز بعد برطانیہ میں لارڈز کرکٹ گرائونڈ میں پاکستان کے سابق لیجنڈ کرکٹر کے اعزاز میں ایک پر وقار تقریب کا اہتمام کیا گیا،جس میں پاکستان کی ایک روزہ کرکٹ ٹیم کے کپتان سرفراز احمد، محمد حفیظ، محمد عامر ، شان مسعود، وہاب ریاض، کوچ مکی آرتھر، فیلڈنگ کوچ، بیٹنگ کوچ گرانٹ فلاور اور اسسٹنٹ کوچ شاہد اسلم نے شرکت کی۔تقریب کے دوران کرکٹ کے سب سے معتبر جریدے وزڈن کے نمائندے نے سابق ٹیسٹ کپتان یونس خان کو وزڈن کی خصوصی کتاب پیش کی جس میں یونس خان اور مصباح الحق کو وزڈن کرکٹر آف دی ایئر میں پانچ دیگر کھلاڑیوں کے ساتھ شامل کیا گیا تھا۔تقریب کےاختتامی سیشن میں یونس خان نے لارڈز میوزیم کےمہتمم کو اپنا کرکٹ بیٹ اوردستانے پیش کیے، جویادگار کے طور پر میوزیم میں رکھے گئے ہیں۔
مینزٹرافی میں وکٹوں کی ’’بیلز‘‘ ،ویمنزٹرافی میںکرکٹ بیٹ کی راکھ محفوظ ہے
انگش اخبارات میں شائع ہونے والی ’’تعزیتی حبریں‘‘ سیریز کے آغاز کا باعث بنیں

 

Rafi Abbasi
About the Author: Rafi Abbasi Read More Articles by Rafi Abbasi: 213 Articles with 223085 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.