14اگست یوم آزادی مملکت خدادا پاکستان

یوم آزادی پاکستان یا یوم استقلال ہر سال 14 اگست کو پاکستان میں آزادی کے دن کی نسبت سے منایا جاتا ہے ۔ یہ وہ دن ہے جب پاکستان 1947ء میں انگلستان سے آزاد ہو کر معرض وجود میں آیا۔ 14 اگست کا دن پاکستان میں سرکاری سطح پر قومی تہوار کے طور پر بڑے دھوم دھام سے منایا جاتا ہے پاکستانی عوام اس روز اپنا قومی پرچم فضا میں بلند کرتے ہوئے اپنے قومی محسنوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ ملک بھر کی اہم سرکاری عمارات پر چراغاں کیا جاتا ہے ۔اسلام آباد جو پاکستان کا دارالحکومت ہے ، اس کو خاص طور پر سجایا جاتا ہے ، اس کے مناظر کسی جشن کا سماں پیدا کر رہے ہوتے ہیں۔ اور یہیں ایک قومی حیثیت کی حامل تقریب میں صدر پاکستان اور وزیرآعظم قومی پرچم بلند کرتے ہوئے اس بات کا عہد کرتے ہیں کہ ہم اس پرچم کی طرح اس وطن عزیز کو بھی عروج و ترقی کی بلندیوں تک پہنچائیں گے ۔ ان تقاریب کے علاوہ نہ صرف صدارتی اور پارلیمانی عمارات پر قومی پرچم لہرایا جاتا ہے بلکہ پورے ملک میں سرکاری اور نیم سرکاری عمارات پر بھی سبز ہلالی پرچم پوری آب و تا ب سے بلندی کا نظارہ پیش کر رہا ہوتا ہے ۔ یوم اسقلال کے روز ریڈیو، ٹیلی ویژن اور انٹرنیٹ پہ براہ راست صدر اور وزیراعظم پاکستان کی تقاریر کو نشر کیا جاتا ہے اور اس عہد کی تجدید کی جاتی ہے کہ ہم سب نے مل کراس وطن عزیز کو ترقی، خوشحالی اور کامیابیوں کی بلند سطح پہ لیجانا ہے ۔

سرکاری طور پر یوم آزادی انتہائی شاندار طریقے سے مناتے ہوئے اعلیٰ عہدہ دار اپنی حکومت کی کامیابیوں اور بہترین حکمت عملیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے اپنے عوام سے یہ عہد کرتے ہیں کہ ہم اپنے تن من دھن کی بازی لگا کر بھی اس وطن عزیز کو ترقی کی راہ پر گامزن رکھیں گے اور ہمیشہ اپنے رہنما قائد اعظم محمد علی جناح کے قول ’’ایمان، اتحاد اور تنظیم‘‘کی پاسداری کریں گے ۔

14 اگست، آزادی، اور جشنِ آزادی کا مفہوم کیا ہے ، عام لوگ اور بالخصوص نئی نسل کی اکثریت اس سے بالکل بے بہرہ ہے ۔ ان پڑھ تو چلو پروپیگینڈے کا شکار ہیں، لیکن پڑھے لکھے بھی غیر تاریخ کے طوطے بنے ہوئے ہیں۔ آزادی کا تصور ان سب کے لیے ایک مجرد اور رومانوی تصور کی حیثیت رکھتا ہے ۔ وہ بس یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے 14 اگست کو آزادی حاصل کی۔ کس سے حاصل کی، کیوں حاصل کی، اور کیسے حاصل کی؛ ان بنیادی سوالات سے انھیں کوئی سروکار نہیں۔ اس روز ایسے بینر بھی آویزاں کیے جاتے ہیں، جن پر آزادی کے شہیدوں کو سلام پیش کیا جاتا ہے ۔ اس بے خبری کا نتیجہ یہ برآمد ہو رہا ہے کہ 14 اگست اور آزادی کا تصور محض ایک خالی خولی نعرے میں تبدیل ہو گیا ہے اور ظاہری ٹیپ ٹاپ، دکھاوا، ہلڑ بازی اور لاقانونیت اس دن کی پہچان بنتی جا رہی ہے ۔

ہم لوگ سارا سال پاکستان کی کمزوریوں پر مباحث میں اُلجھے رہتے ہیں جو خصوصاً اگست کے مہینے میں مزید دھواں دھار صورت اختیار کر لیتی ہیں۔ لیکن اگر سال میں ایک دن یہ بھی سوچ لیا جائے کہ گزشتہ ایک سال میں ہم نے ایک پاکستانی ہونے کی حیثیت سے کیا کیا؟ ہمارا کون سا عمل صرف اور صرف پاکستان کے مفاد کے لئے تھا؟ تو شاید بہت سی بے مقصد باتوں پر بحث میں وقت ضائع نہ ہو۔

14 اگست کا دن پاکستان میں قومی تہوار کے طور پر بڑے دھوم دھام سے منایا جاتا ہے اس کے علاوہ پاکستانی جو بیرونِ ملکوں میں مقیم ہیں وہ بھی بہت جوش خروش سے اس دن کی تقریبات کا اہتمام کرتے ہیں ۔۔ بلخوص پچھلے سال مجھے دبی میں 14 اگست منانے کا موقع ملا ۔یہ دن وہاں موجود پاکستانیوں کے لیے باعث فخر اور پرمصرت ہوتا ہے ۔۔ اس دن نہ صرف پاکستان بلکہ بیرون ملک میں بھی لوگ پاکستان جھنڈوں سے گھروں کمروں ، اپنی رہائش گاہوں کو سجاتے ہیں ۔ دنیا کو دکھاتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ پاکستان اس دن آزاد ہوا تھا اور دو قومی نظریہ کی اہمیت اجاگر کرتے ہیں کہ پاکستان کیوں بنا ۔

پاکستان بنانے کے لیے بزرگوں ، نوجوانوں ، بچوں ، یعنی مسلمانوں نے بہت قربانیاں دی ہیں ۔14 اگست 1947ء کا سورج برصغیر کے مسلمانوں کے لیے آزادی کا پیامبر بن کر طلوع ہوا تھا۔ مسلمانوں کو نہ صرف یہ کہ انگریزوں بلکہ ہندؤوں کی متوقع غلامی سے بھی ہمیشہ کے لیے نجات ملی تھی۔ آزادی کا یہ حصول کوئی آسان کام نہیں تھا جیسا کہ شاید آ ج سمجھا جانے لگا ہے ۔ نواب سراج الدولہ سے لے کر سلطان ٹیپو شہید اور آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر تک کی داستاں ہماری تاریخ حریت و آزادی کی لازوال داستان ہے ۔ 1857ء کی جنگ آزادی کے المناک واقعات بھی اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ سات سمندر پار سے تجارت کی غرض سے آنے والی انگریز قوم کی مسلسل سازشوں، ریشہ دوانیوں اور مقامی لوگوں کی غداریوں کے نتیجے میں برصغیر میں مسلمانوں کی حکومتیں یکے بعد دیگرے ختم ہوتی چلی گئیں۔ اگرچہ مسلمان حکمرانوں اور مختلف قبائل کے سرداروں نے سر دھڑ کی بازی لگا کر اور جان و مال کی عظیم قربانیاں دے کر انگریزوں کو یہاں تسلط جمانے سے روکنے کے لیے ہر ممکن کوششیں کیں تھیں۔

قائد اعظم محمد علی جناح نے کیا خوبصورت بات کی تھی۔: پاکستان اسی دن یہاں قائم ہو گیا تھا، جس دن برصغیر میں پہلا شخص مسلمان ہوا تھا:۔ حقیقت یہ ہے کہ برصغیر کے مسلمانوں نے کبھی بھی انگریز کی حکمرانی کو دل سے تسلیم نہیں کیا تھا۔ انگریزوں اور ان کے نظام سے نفرت اور بغاوت کے واقعات وقفے وقفے کے ساتھ بار بار سامنے آتے رہے تھے ۔ برطانوی اقتدار کے خاتمے کے لیے برصغیر کے مسلمانوں نے جو عظیم قربانیاں دی ہیں اور جو بے مثال جدوجہد کی ہے ۔ یہ ان کے اسلام اور دو قومی نظریے پر غیر متزلزل ایمان و یقین کا واضح ثبوت ہے ۔ انہی قربانیوں اور مسلسل جدوجہد کے نتیجے میں بالآخر پاکستان کا قیام عمل میں آیا تھا۔

جب ہم تحریک پاکستان کی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو اس تاریخی جدوجہد میں یہ بات سب سے زیادہ نمایاں طور پر ہمیں نظر آتی ہے کہ مسلمان اپنے جداگانہ اسلامی تشخص پر مصر تھے ۔ یہی نظریہ پاکستان اور علیحدہ وطن کے قیام کی دلیل تھی۔ ہر قسم کے جابرانہ و غلامانہ نظام سے بغاوت کرکے خالص اسلامی خطوط پر مبنی نظام حیات کی تشکیل ان کا مدعا اور مقصود تھا۔ جس کا اظہار و اعلان قائد اعظم محمد علی جناح نے بار بار اپنی تقاریر اور خطابات میں کیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ تحریک پاکستان کے دوران برصغیر کے کونے کونے میں: لے کے رہیں گے پاکستان، بن کے رہے گا پاکستان۔ مسلم ہے تو مسلم لیگ میں آ ؛ اور پاکستان کا مطلب کیا؟، لا الہ الا اﷲ یہ نعرے برصغیر کے مسلمانوں کے دلی جذبات کے حقیقی ترجمان تھے ۔

عرصہ دراز سے غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے مسلمانوں کو آزادی ملنے کی امید پیدا ہو چلی تھی۔ وہ اس بات کو اچھی طرح سمجھتے تھے کہ اگر یہ موقع ہاتھ سے نکل گیا تو پھر انگریزوں کے چلے جانے کے بعد وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہندو بنیا کی غلامی میں چلے جائیں گئے ۔ وہ ہر طرح کے سامراج سے چھٹکارا چاہتے تھے ۔ اس مقصد کے حصول کیلئے بڑی سے بڑی قربانی دی جاسکتی تھی، مگر اس مقصد سے پیچھے ہٹنا انہیں گوارا نہ تھا۔

پاکستان کا قیام شب قدر، جمعۃ الوداع ماہ رمضان المبارک 1368ھ بمطابق 14 اگست 1947ء عمل میں آیا۔ ظہور پاکستان کا یہ عظیم دن جمعۃ الوداع ماہ رمضان المبارک اور شب قدر جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے ، محض اتفاق نہیں ہے بلکہ خالق و مالک کائنات کی اس عظیم حکمت عملی کا حصہ ہے ۔13 اپریل 1948 ء کو اسلامیہ کالج پشاور میں تقریر کرتے ہوئے بانی پاکستان نے فرمایا:’’ ہم نے پاکستان کا مطالبہ زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیں کیا بلکہ ہم ایسی جائے پناہ چاہتے تھے جہاں ہم اسلامی اصولوں کے مطابق زندگی بسر کر سکیں‘‘

پاکستان کرہ اراض کا واحد ایسا ملک ہے جس کی بنیاد ایک نظریہ پر رکھی گئی اور وقت کی سفاک طاقتوں سے اس نظریہ کو منوانے کیلئے اسلامیان ہند نے جو انگنت قربانیاں دیں اقوام عالم کی تاریخ میں ان کی مثال نہیں ملتی۔ برسہا برس کی جدوجہد کے بعد ایک خدا، ایک رسولؐ اور ایک قرآن پر ایمان رکھنے والوں نے ایک قائد کی قیادت میں پاکستان اس نظریہ کی بنیاد پر حاصل کیا کہ مسلمان ایک علیحدہ قوم ہیں جس کا طرز زندگی، ثقافت اور دین سب سے الگ ہے ۔ اس قوم کا کسی بھی دوسری قوم میں یا قومیت میں ضم ہونا قطعی طور پر ناممکن ہے ۔

14 اگست کو پاکستان میں سرکاری طور پر تعطیل ہوتی ہے ، جبکہ سرکاری ونیم سرکاری عمارات میں چراغاں ہوتا ہے اور سبز ہلالی پرچم لہرایاجاتا ہے ۔ اسی طرح تمام صوبوں میں مرکزی مقامات پر تقاریب کا انعقاد کیا جاتا ہے او ر ساتھ ساتھ ثقافتی پروگرام کا بھی اہتمام ہوتا ہے ۔ پاکستان کی تمام شہروں میں ناظم قومی پرچم بلند کرتے ہیں جبکہ کثیر تعداد میں نجی اداروں کے سربراہان پرچم کشائی کی تقاریب میں پیش پیش ہوتے ہیں۔ سکولوں اور کالجوں میں بھی پرچم کشائی کی تقاریب کا انعقاد کیا جاتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ رنگارنگ تقاریب، تقاریر اور مذاکروں کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے ۔ گھروں میں بچوں، جوانوں اور بوڑھوں کا جوش و خروش توقابل دید ہوتا ہے جہاں مختلف تقاریب کے علاوہ دوپہر اور رات کے کھانے کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے اور بعد ازاں سیروتفریح سے بھی لطف اندوز ہوا جاتا ہے ۔ رہائشی علاقوں، ثقافتی اداروں اور معاشرتی انجمنوں کے زیر راہتمام تفریحی پروگرام تو انتہائی شاندار طریقے سے منائے جاتے ہیں۔ علاوہ ازیں مقبرہء قائد اعظم پر سرکاری طور پر گارڈ کی تبدیلی کی تقریب کا انعقاد ہوتا ہے ۔ اسی طرح واہگہ باڈر پر بھی ثقافتی تقاریب میں احترامی محافظوں کی تبدیلی کا عمل وقوع پزیر ہوتا ہے جبکہ غلطی سے واہگہ سرحد پار کرنے والے قیدیوں کی دوطرفہ رہائی بھی ہوتی ہے ۔
واقعات:
٭…… 1830ء ممتاز مصلح اور سندھ مدرستہ الاسلام کے بانی حسن علی آفندی کا یوم پیدائش۔
٭……1885ء جاپان میں پہلا برائت جاری کیا گیا۔
٭……1947ء اسلامی جمہوریۂ پاکستان کا قیام۔ پاکستان نے سلطنت برطانیہ سے آزادی حاصل کی اور دولت مشترکہ میں شامل ہو ا۔
٭……1948ء ریڈیو پاکستان کراچی اسٹیشن کا قیام عمل میں آیا ۔
٭……1964ء مصر، عراق، اردن، کویت اور شام نے مشترکہ معاشی منڈی تشکیل دینے کا فیصلہ کیا
٭……1971ء بحرین نے برطانیہ سے آزادی حاصل کی
٭……1973ء پاکستان میں آئین مجریہ 1973ء کا نفاذ عمل میں آیا۔
٭……1973ء ذوالفقار علی بھٹو نے وزیر اعظم نویں وزیر اعظم پاکستان کا عہدہ سنبھالا
٭……1973ء فضل الہی چوہدری نے صدر پاکستان کے عہدے کا حلف اٹھایا۔

 

Rizwan Ullah Peshawari
About the Author: Rizwan Ullah Peshawari Read More Articles by Rizwan Ullah Peshawari: 162 Articles with 212250 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.