عیدالاضحیٰ ،ایثار و قربانی کا عظیم درس

حضرت ابراہیم ؑ کی قربانی میں خلوص نیت تھی۔اپنی عزیز ترین اکلوتی اولاد کو اﷲ کی رضا کے لئے قربان کرنے کا عزم ابراہیمؑ خلیل اﷲ ہی کر سکتے تھے۔ اﷲ تعالیٰ نے ان کی قربانی قبول و منظور فرمائی۔آج عید الاضحیٰ ایک ایسے موقع پر منائی جا رہی ہے جب مسلمان دنیا بھر میں اسلام دشمنوں کے نشانہ پر ہیں۔جیسے کہ ایک بار پھر ہالینڈ میں گستاخانہ خاکوں کی نمائش کی گئی۔ توہین رسالت تعصب اور نفرت کا عنصر ہے۔ یہ دین کی حقانیت سے حسد اور بغض کی مثال ہے۔مغرب کو اسلام فوبیا ہو گیاہے۔جہاں شرک،کفر اور لادینیت فیشن بن چکی ہے۔ کشمیر سے فلسطین، چیچنیا سے اراکان، افغانستان سے عراق، شام و مصر ، غرض مشرق و مغرب میں ہر جگہ مسلمانوں کا لہوبہانا معمول بن رہا ہے۔ مسلمانوں کی نسل کشی ہو رہی ہے۔ غزہ میں معصوم لوگ جارحیت کی زد میں ہیں ۔ غیر مسلم ملت واحد بن چکے ہیں۔ لیکن ہم ملت واحدۃ کا ابھی تک خواب ہی دیکھ رہے ہیں۔غلامی میں زندگی گزرنے والے اپنے بچوں کے لئے کھلونے ، کپڑے، جوتے نہیں خرید سکتے۔کشمیر اور فلسطین میں والدین بچوں کے لئے کفن خرید رہے ہیں۔یہی ان کی عید شاپنگ ہے۔ لا تعداد بچوں کے لئے کفن خریدنے والا بھی کوئی نہیں بچا ہے۔فلسطین میں خاندان کے خاندان اسرائیلی بمباری کے کھنڈرات کے نیچے دب چکے ہیں۔ ہم ساری صورتحال نہیں بلکہ اس کا کچھ حصہ صرف ٹی وی سکرینوں پر ہی دیکھ سکتے ہیں۔ ان حالات میں ہماری عید مثالی نہیں۔جب کہ عید اپنے ساتھ خوشیاں لاتی ہے۔ آج کی عید کے موقع پر خوشی منانے کا کم جواز نظر نہیں آتا۔ہم دنیا میں دہشت گردی کے زد میں ہیں۔یہاں بھی سکولوں میں ، بازاروں میں معصوموں کا خون ناحق بہایا گیا، جواز نہ بھی ہو ، پھر بھی عید کو ہم نے عید کی طرح ہی منانا ہے۔ صرف ہم ایک تہوار کا احترام کر رہے ہیں۔دنیا میں مسلمانوں کی کسمپرسی پر ہمارے دل زخمی ہیں۔ ہم غم زدہ ہیں۔ دکھ میں ہیں۔ ماتم کناں ہیں۔ لیکن ہم عید کے موقع پر ماتم نہیں کر سکتے ۔ اس موقع پرماتم منع ہے۔ سال بھر میں ہماری دو ہی عیدیں ہوتی ہیں۔ جب ہم پر خوشی منانا ضروری بنتا ہے۔ یہقربانی کرنے والوں کے لئے خاص طور پر خوشیوں کا دن ہے۔ اس لئے ہم عید منائیں ، خوشی کا اظہار کریں ۔لیکن سادگی کے ساتھ۔ پٹاخے سر کرنا،ہوائی فائرنگ، ہلہ غلہ کا یہ وقت نہیں۔ ہمارے پڑوس میں لوگ ہیں جن کے گھر ماتم ہوئے ہیں۔ دنیا میں ہمارے بھائی تکلیف میں ہیں۔ ہم لذیز پکوان، برق زرق لباس سے زیادہ محتاجوں، مزدروں،یتیموں، بیواؤں،کفار کے ازیت خانوں میں بند اپنے بھائیوں کو بھی یاد رکھیں۔ راہ حق کے شہداء کا بھی ہم پر حق ہے۔ وہ خون قرض ہے۔ یہ قرض ہم نے ہی چکانا ہے۔ دہشتگردی اور قدرتی آفات کے متاثرین بھی ہماری توجہ اور تعاون چاہتے ہیں۔

آج مسلمانوں کی بے بسی ، یاس بھری نگاہیں اس بات کی عکاسی کرتی ہیں کہ وہ خوش نہیں۔ بازاروں میں وہ رونقیں نہیں۔ وہ چہل پہل بھی نہیں۔اﷲ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہماری خوشیاں لوٹا دے، انہیں دو بالا کردے۔ مسلمانوں کے اتحاد اور اتفاق کے بغیر یہ سب ناممکن نظر آتا ہے۔ مسلمان متحد ہوں گے تو خوشیاں بھی واپس آ سکیں گی۔ عید کے موقع پر ہم نے ایک نئی روایت قائم کر دی ہے۔ عید کے دن ہم ان لوگوں کے گھر تعزیت کو جاتے ہیں جہاں سال میں کوئی فوتگی ہوئی ہو۔ یہ سب عید کے تقدس کے منافی ہے۔ عید کے دن کسی کے گھر اظہار تعزیت کے لئے تشریف لے جانا روایت بن رہی ہے۔ خوشی کے دن ماتم کی کیفیت اور فضا قائم کرنا قرآن اور حدیث سے ثابت نہیں ہے۔ یہ کہا جاتا ہے کہ فلاح گھر میں سال میں فوتگی ہوئی ہے۔ ان کیپہلی عید ہے۔ اس لئے ماتم کرنے چلیں۔عید کے موقع پر ماتمجیسی روایت میں جہالت کی نظر آتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہماری نیت اچھی ہو گی، خلوص بھی ہو گا، ہمدردی کا اظہار کیا جانا مطلوب ہوتا ہے۔ لیکن خوشی کے موقع پر غمی طاری کرنا ایسا ہی ہے کہ کسی کی شادی ہو رہی ہے اور آپ تعزیت کے لئے چلے جائیں۔

عید کے موقع پر ہم عید گاہوں اور کھلے میدانوں میں نماز عید ادا کرتے ہیں۔ یہ اجتماعیت کا تصور ہے۔ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کی راہیں ہموار ہوتی ہیں۔ اجتماعی مسائل مل کر حل کرنے کی تحریک ملتی ہے۔عید گاہوں اور کھلی جگہوں پر نماز عیدکا یہی مقصد ہے۔ جہاں خواتین کے لئے بھی پردے کا انتظام کیا گیا ہوتا ہے۔ ہمیں ہدایت ہے کہ ہم اپنے گھر کی خواتین، بچوں کو بھی عیدگاہوں میں لے کر جائیں اور انہیں بھی مسلمانوں کی اجتماعی دعا میں شریک کریں۔ ہم خواتین کو بازاروں میں شاپنگ کرانے لے جاتے ہیں اور اس پر فخر بھی کرتے ہیں۔ لیکن انہیں اپنے ساتھ مسجد اور عید گاہ میں لے جانا اپنے مردانگی یا شرم و حیا کے منافی کیوں سمجھتے ہیں۔ جو بالکلمناسب نہیں ہے۔ بازاروں میں بھی پردہ، شرم و حیا کا خیالضروری ہے اور جس کی ہمیں ہدایت ہے اس سے پرہیز کرنا ہم اچھا سمجھتے ہیں۔ نماز عید واجب ہے۔ عید کا خطبہ نماز عید کے بعد ہوتا ہے۔ یہ خطبہ سننا سنت ہے۔ نماز عید ادا کر نے کے بعد یہ خطبہ سنا جاتا ہے۔ نماز کے بعد خطبہ میں دعا بھی ہوتی ، اس میں شامل ہونا سنت ہے۔ عید الاضحیٰ کی عید کی ادائیگی میں جلدی ہوتی ہے۔ اس کے اوقات بھی علی الصبح کے ہیں۔ تا کہ اس کے بعد قربانی کی جائے۔ تا کہ مسلمان ایثار و قربانی کا وہی جذبہ پیدا کریں جو حضرت ابراہیم علیہ اسلام اور اب کے فرمانبردار بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام نے پیش کیا۔ اپنی سب سے پیارا او ر اکلوتا بیٹا اﷲ کے حکم سے قربان کرنے کی نیت اور اس پر عمل کا مصمم ارادہ عظیم عمل تھا۔
 

Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 488925 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More